ابتدائی معاشرہ اور انسانی تصوّرِ علم

تجربی ومشاہداتی حقیقت یہی ہے کہ معاشرے توحید پر استوار ہوئے اور شرک پر بگڑے

’’معلوم تہذیبوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن معلوم اور قدیم معاشروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ 1915ء میں یورپ کے تین ماہرِین بشریات نے قدیم معاشروں کا تقابلی مطالعہ شروع کیا تھا، اور اپنے دائرۂ تحقیق کو صرف اُن معاشروں تک محدود رکھا تھا جن کے متعلق کافی معلومات میسر آسکتی تھیں۔ انہوں نے 650 معاشروں کی فہرست تیار کی جن میں سے اکثر آج موجود ہیں۔ اُن قدیم معاشروں کی تعداد کا تصور ممکن نہیں جو اُس وقت سے معرضِ وجود میں آئے اور محو ہوگئے جب آدمی نے غالباً تین لاکھ سال پیشتر جامۂ انسانیت پہنا تھا۔‘‘ (تاریخِ عالم کا مطالعہ، باب3، آرنلڈٹائن بی، مترجم مولانا غلام رسول مہر)
’’ابلاغ اور گفتگو کی صلاحیت نے ابتدائی انسانوں کو مل کر کام کرنے اور مسائل حل کرنے کا اہل بنایا۔ یہ بتدریج اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرنے لگے۔ ثقافت نے خاندانوں اور برادریوں کو متحد کیا۔ شکاری کسان بن گئے، غاروں میں رہنے والے دیہات میں آبسے۔ یوں ابتدائی معاشرے تشکیل پائے… افریقا انسانیت کا گہوارہ ہے۔ کھدائی میں ملنے والے ڈھانچوں سے واضح ہوتا ہے کہ ابتدائی انسان نما نوع کی نشوونما یہیں ہوئی۔ آثار بتاتے ہیں کہ یہ ساٹھ لاکھ سال قدیم زمانہ ہے۔ تقریباً تیئس لاکھ سال پرانے پتھروں کے اوزاروں اور ہتھیاروں کے آثار ملتے ہیں۔ یہ اٹھارہ لاکھ سال قبل افریقا سے نقل مکانی کرنے لگے تھے۔ یہ انسان نما نوع بعد میں انسانوں کی موجودہ صورت اختیار کرگئی۔ تین سے دس ہزار قبلِ مسیح کے دوران کسی وقت انسانوں نے کاشت کاری شروع کی۔ ترکش اناطولیہ اور فلسطین میں انسانی آبادیوں نے مویشی پالنے کا آغاز کیا۔ نقش و نگار والے مٹی کے برتنوں اور زیورات سے ابتدائی ثقافتوں کا اظہار ہوا۔ فنا کے خوف نے ان ابتدائی انسانوں میں کسی بالاتر قوت کا تصور پیدا کیا۔ کئی نمونوں سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ یہ لوگ بعد از مرگ زندگی (آخرت) پر یقین رکھتے تھے۔ آدھے انسان، آدھے جانور نما دیوتاؤں کی پوجا پاٹ اور مذہبی رسومات کے آثار ملتے ہیں۔‘‘
(National Geographic Essential Visual History, Prehistory)
’’تقریباً پچیس لاکھ سال تک انسان جنگلی پودوں سے بھوک مٹاتے رہے، جانوروں کا شکار کرتے رہے۔ ہومو اریکٹس، ہومو ارگیسٹراور نئینڈتھل مشرقی افریقا سے مشرق وسطیٰ تک پھیلے۔ یورپ اور پھر ایشیا پہنچے۔ آخرمیں آسٹریلیا اور امریکہ تک گئے۔ مگرطرزِ زندگی یہی رہا۔ سبزیوں اور شکار پرگزربسر ہورہی تھی۔ یہ سب تقریباً دس ہزار سال پہلے بدل گیا جب انسانوں نے سارا وقت اور محنت مویشیوں اور کھیتی باڑی میں لگادی تھی۔ یہ سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک کاشت کاری میں لگے رہتے تھے۔ چراگاہوں میں گلہ بانی کرتے پھرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے سوچا کہ زیادہ پھل، اناج اورگوشت حاصل کرسکیں گے۔ یہ تھا زرعی انقلاب… سب سے نامبارک دور، جب انسان نے غیر فطری طور پرمعاشرے تشکیل دیے‘‘۔
(Sapiens, History Biggest Fraud, by Yuval Noah Harari)
یہ ہے ابتدائی معاشروں کے بارے میں جدید انسانی تصورِ علم۔ جس تاریخ کی ابتدا کے بارے میں یہ تصور قائم کیا گیا ہو، اُس تاریخ کی تشکیل وتکمیل کیا ہوگی؟ یہ تصور کرنا کچھ مشکل نہیں۔ یوں سمجھیے کہ انسان بندر، بھیڑیے اور دیگر جانوروں کی طرح ہی ہے۔ اسے کوئی ادراکی و اخلاقی اختصاص حاصل نہیں ہے۔ عملاً یہی وہ نظریہ اور نفسیات ہے جو مغرب کے تصورِ انسان اور تصورِ معاشرہ کی عکاسی کررہے ہیں، بلکہ بات اس سے بھی بہت آگے جاچکی ہے۔ بوڑھے اولڈ ہاؤس میں آخری دن گنتے ہیں، اور جوان گھروں میں کتوں کی آؤ بھگت کرتے ہیں۔ انسان بطور انسان مغرب میں بالکل بھی محترم ومقدس نہیں۔ یہ صرف ایک ایسا جاندار ہے، جس کی قدر و قیمت جسمانی و مالی افادیت تک ہے۔ جوں ہی یہ دونوں حوالوں سے کمزور پڑتا ہے، فاضل مادہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کے بغیر معاشرہ سازی نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشرہ اور مغرب زدہ معاشرے محض مشینی بن کر رہ گئے ہیں۔
مذکورہ تصورِ انسان اور معاشرہ بندی کیا ہے؟ مغربی یا انسانی علوم کے ذرائع ابتدائی معاشروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ پہلا انسان اور پہلا خاندان، اور پہلا نظریۂ حیات اور پہلا طرزِ زندگی انسانی علوم کی نظروں سے یکسر اوجھل ہیں۔ یہ اُن کی صلاحیتوں سے ماوراء بھی ہے۔ برطانوی مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ ابتدائی معاشروں کی کیا صورت رہی ہوگی، ہم نہیں جانتے۔ رہ گئے مٹی کے برتنوں پر بچے کھچے ثقافتی آثار، اُن پر قیاس آرائیوں کی من مانی تصاویر بنائی گئی ہیں۔ نظریۂ ارتقاء پر انسانی معاشروں کی ابتدا کی گئی ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت حال میں انسان ایک ایسا جنگلی جانور ہے، جو حالات و حوادث کی سختیوں اور مہربانیوں سے معاشرہ سازی پر مجبور ہوا۔ انسان کوئی مختلف یا اعلیٰ تر مخلوق نہیں بلکہ ایک کامیاب جانور ہے، جو اتفاق سے سوچنے سمجھنے کے قابل ہوگیا، اور پھر اتفاق سے ہی خوف و محبت کا شکار بھی ہوگیا، اور پھر اتفاق سے ہی موت کی حقیقت سے واقف بھی ہوگیا۔ افریقا کے چمپینزیوں کو مشرق وسطیٰ کے انسانی معاشروں میں ضم کردیا گیا ہے۔ طوفانِ نوح کے بعد کی ایک مختلف ارتقائی کہانی گھڑ لی گئی ہے۔ سب الل ٹپ اور حوادث کا نتیجہ ہیں، سوائے اُن عقل مند ماہرین کے، جو زندہ تعلیمات اور تہذیبی وراثت کو پسِ پشت ڈال کر بوسیدہ ہڈیوں اور ڈی این اے کے ادھ مٹے نقشوں سے من مانی تاریخِ نو لکھنا چاہتے ہیں (تکمیلِ تاریخ کے اس سلسلۂ مضامین میں اسرائیلی پروفیسر یوول نوح ہراری کی تواریخ Sapiens اور Homo Deus کے حوالے بار بار سامنے آئیں گے۔ اس کی چند استثنائی وجوہات ہیں۔ مسٹر ہراری مغربی تصورات کا عمومی باطن کھل کر سامنے لاتے ہیں۔ یہ بہت سے نظریاتی واخلاقیاتی نقاب الٹ دیتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرے کا وجود ہی غیر فطری قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر ہراری مغربی علوم کی عملی سفاکیت کو فخریہ پیش کرتے ہیں۔ یہ مغربی فکرکا جدید ترین ورژن بھی ہے)۔ انسانی علوم میں ابتدائی انسانوں کو بالکل احمق سمجھا گیا ہے، اور مذہب جیسے مرکزی اور عمومی محرک کو یکسر خیالی اور تصوراتی قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ آج کے بت پرست معاشرے بھی من وعن اُن ہی دیومالائی خیال آرائیوں میں مگن ہیں، جنہیں ابتدائی معاشروں سے مخصوص کیا جاتا ہے۔ آج کے بت پرستوں میں جدید سائنس دان اور ماہرینِ فلکیات بھی شامل ہیں (بت پرستی پوری تاریخ میں کبھی بھی معطل نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ خدا پرستی سے خودپرستی کی جانب منتقل ہونے والی وہ نفسیات ہے جوCatharsisکاکام دیتی رہی ہے، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ارتقاء کی منزلیں ابتدا کی خیالی جہالتوں کا خاتمہ کردیتیں۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، یہ ایک الگ تفصیلی موضوع ہے)۔ دوسری جانب اسلام جیسا توحید پرست اور معقول ترین دینِ کامل بھی موجود ہے۔ کیا ابتدائی معاشروں میں اس متوازی (توحید وشرک کی) صورتِ حال کا ہونا زیادہ قرین قیاس نہیں ہے؟ خیر یہ تو قیاس آراؤں کے لیے ہے۔ تجربی ومشاہداتی حقیقت یہی ہے کہ معاشرے توحید پر استوار ہوئے اور شرک پر بگڑے۔ جو باتیں مذکورہ اقتباسات میں یقینی اور متفقہ ہیں وہ ابتدائی معاشروں میں مذہبی عقائد و رسوم، زراعت اور گلہ بانی وغیرہ ہیں۔ کتابِ حق قرآن حکیم اس حوالے سے بالکل واضح ہے:
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو، اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔‘‘ (نساء، آیت 1)
’’اے آدم کی اولاد تمہیں شیطان نہ بہکائے جیسا کہ اُس نے تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکال دیا۔‘‘(اعراف، آیت 26)
’’پھر شیطان نے ان کو وہاں سے ڈگمگایا، پھر انہیں اس عزت و راحت سے نکالا کہ جس میں تھے، اور ہم نے کہا تم سب اترو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے، اور سامان ایک وقتِ معین تک۔‘‘(بقرہ، آیت 36)
’’اے آدم کی اولاد ہم نے تم پر پوشاک اتاری جو تمہاری شرم گاہیں ڈھانکتی ہے، اور آرائش کے کپڑے بھی دیے، اور پرہیزگاری کا لباس جو سب سے بہتر ہے، یہ اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ اور (نیز) تمہارے پیدا کرنے میں اور جانوروں کے پھیلانے میں یقین والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘(جاثیہ، آیت4)’
’اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنادو، جب ان دونوں نے قربانی کی، ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی، اس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا، اس نے جواب دیا اللہ پرہیزگاروں ہی سے قبول کرتا ہے۔ اگر تُو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تُو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن جائے، اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔ پھر اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے خون پر راضی کرلیا، پھر اسے مار ڈالا، پس وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا۔ پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدتا تھا تاکہ اسے دکھلائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح چھپانا ہے، اس نے کہا افسوس مجھ پر اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر کرتا۔ پھر پچھتانے لگا۔‘‘ (مائدہ، 27تا31)
’’بے شک اللہ نے آدم کو اور نوح کو اور ابراہیم کی اولاد کو اور عمران کی اولاد کو سارے جہان سے پسند کیا ہے۔ جو ایک دوسرے کی اولاد تھے، اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔‘‘(آل عمران، 33۔34)
’’یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا پیغمبروں میں اور آدم کی اولاد میں سے، اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد میں سے، اور ان میں سے جنہیں ہم نے ہدایت کی اور پسند کیا، جب ان پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو روتے ہوئے سجدے میں گرتے ہیں۔‘‘ (مریم، 58)
’’اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا، اور ہم نے انہیں ستھری چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی۔‘‘(بنی اسرائیل، 70)
’’اور نوح نے کہا اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کوئی زندہ نہ چھوڑ۔ اگر تُو نے ان کو چھوڑ دیا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور نسل بھی جو ہوگی تو فاجر اور کافر ہی ہوگی۔ اے میرے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو بخش دے۔‘‘(نوح، 26۔28)
حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک ابتدائی معاشروں کی بابت علوم عمرانیات کے بانی اور رئیس المؤرخین عبدالرحمان ابن خلدون لکھتے ہیں:
’’یہ بات بالاتفاق علماء نسب ثابت ہوچکی ہے کہ ابوالبشر (آدمیوں کے باپ) آدم علیہ السلام ہیں اور ان کی اولاد کی نسل سے نوح علیہ السلام تک تعمیر عالم اور زمین آباد ہوتی رہی اور ضرورت اور تقاضائے وقت کے لحاظ سے انبیاء مثلاً شیث علیہ السلام، ادریس علیہ السلام اور ملوک ہوتے رہے۔ جب ان لوگوں میں بت پرستی، شرک،کفر اور الحاد حد سے بڑھ گیا تو نوح علیہ السلام نے دعا کی ’اے پروردگار!زمین پر کسی کافر کے گھر کو نہ چھوڑ(سورۃ نوح،26)‘ عالم گیر طوفان آیا اور سوائے کشتی والوں کے کوئی متنفس اس جانکاہ عذاب سے جانبر نہ ہوا۔ چونکہ کشتی والوں نے نہ تو اپنے پیچھے کوئی اولاد چھوڑی اور نہ ان کے توالد تناسل کا کوئی سلسلہ چلا۔ نتیجتاً تمام اہلِ عالم نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور جناب موصوف تمام عالم کے ابوالبشر ثانی ہیں۔ ان کا نسب توریت کی اور ماہرین انساب کے اتفاق سے نوح ابن لامک ابن متوشلخ ابن خنوخ ابن یرو ابن مہلائل ابن قائن ابن انوش ابن شیث ابن آدم علیہ السلام ہے… نوح علیہ السلام کے صرف تین لڑکوں سام، حام، یافث سے دنیا کی تمام قومیں پیدا ہوئیں۔ یافث بڑے، حام چھوٹے، اور سام منجھلے بیٹے تھے۔ طبری نے باب احادیث مرفوعہ میں نقل کیا ہے کہ سام ابوالعرب، یافث ابوالروم، اورحام ابوالحبش وزنگ تھے۔ ان سلسلوں میں تھوڑے بہت اختلاف پائے جاتے ہیں۔ تاہم جس شے پر تمام علماء تاریخ نے اتفاق کیا ہے وہ یہ ہے کہ سلسلہ توالد وتناسل ان ہی تین لڑکوں سے چلا ہے۔‘‘ (تاریخ ابن خلدون، جلد اول، تاریخ ما قبل اسلام، باب اول)
’’انسان دیگر حیوانات سے اپنے چند خواص کی وجہ سے ممتاز ہے، جن میں علوم و صنائع بھی ہیں جو انسانی افکار کے نتائج و ثمرات ہیں، اور فکر ہی انسان کا ایک ایسا خاصہ ہے جس کی وجہ سے وہ حیوانات سے ممتاز ہے اور تمام مخلوقات سے افضل ہے… ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ انسان روزی کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرتا ہے۔ حق تعالیٰ نے اسے رزق کی طلب و تلاش کی راہیں ودیعت فرمادی ہیں اور کسبِ روزگار کے ذرائع سکھا دیے ہیں۔ حق تعالیٰ نے ہر شے کو اس کی پیدائش عطا فرمائی اور پھر اسے راہ بتادی، اور اس کا ایک خاصہ انسیت اور ضرورتوں کے تقاضوں کی وجہ سے مل جل کر رہنا بھی ہے، جسے ہم آبادی یا معاشرہ کہتے ہیں… انسانی اجتماع ایک ضروری چیز ہے، حکماء اس ضرورت کی تعبیر اس جملے سے کیا کرتے ہیں کہ انسان میں طبعی طور پر مدنیت پائی جاتی ہے۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون، صفحہ 151۔153)
ابتدائی معاشروں کی ضروری معلومات علمِ وحی کے ذریعے واضح طور پر سامنے آگئیں۔ یہاں انسانی معاشرہ بندی کی ابتدائی صورت بھرپور معنویت کے ساتھ ابھرتی ہے۔ واضح رہے کہ تاریخ کی تکمیل تفصیل میں نہیں بلکہ تقاضائے تفہیم پوری کرنے میں ہے۔ قرآن کریم ماضی سے سبق دیتا ہے، حال کی حکمت سمجھاتا ہے، اورمستقبل کی راہِ عمل بتاتا ہے۔ یہی علم وحی کا اعجازِ الٰہی ہے۔
ابتدائی معاشروں کی بنا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کی نسل سے پڑی۔ انسان مکمل ہدایت اور شعور حیات کے ساتھ معرضِ وجود میں آیا۔ ہابیل اور قابیل کے واقعہ میں حق و باطل کی بنیادی تعلیم دی گئی۔ پہلے انسان کی تدفین کس طرح ہوئی، سمجھادیا۔ پھرتعلیم توحید اور شر ک کے بگاڑ کا سلسلہ نبوت وہدایت کے ساتھ آگے بڑھا، یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نوسو سالہ دعوتِ توحید پر لبیک کہنے والے کشتی بھر لوگ ہی بچے۔ نوح کی بددعا سے وہ طوفان آیا کہ سوائے نسلِ نوح کے کوئی نوع روئے زمین پر باقی نہ بچی۔ اسی نسل سے معاشرے، قومیں، اور پھر تہذیبیں وجود میں آئیں، جن کی تفصیل انسانی ذریعہ علم کے دائرے میں آئی مگر تکمیل سے محروم رہی۔
غرض ابتدائی انسانی معاشرے ہرگز کسی جنگلی جانور کی خودکار آگہی کا نتیجہ نہیں تھے، بلکہ مکمل خلقی اور شعوری حالات میں آگے بڑھے تھے۔بعدازاں انبیاء اور رسولوں نے عظیم تہذیبوں کی بنیادیں رکھیں، جو بتدریج تشکیل وانحطاط اور زوال کی جانب گئیں۔ یہی ہے تاریخِ انسانی کا وہ سلسلہ جو ہم تک پہنچا ہے۔