بریگیڈیر (ر) اسد منیر کی “پراسرار” خودکشی

سوالات کے جواب کسی کے پاس نہیں

بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) اسد منیر ایک غیر معمولی آفیسر تھے، ایک ایسے افسر جن کے پاس ریٹائرمنٹ کے بعد ذاتی گھر تھا اور نہ کاروبار۔ 15مارچ 2019ء کو انہوں نے نیب کے ایک کیس کا حوالہ دے کر چیف جسٹس کو خط لکھا اور خودکشی کرلی۔ انہوں نے ایک خودکار نوٹ چھوڑا جس میں انہوں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ہاتھوں پر ہراساں کیے جانے کا ذکر کیا بریگیڈیئر (ر) اسد منیر کے خلاف نیب میں انکوائری چل رہی تھی،انہوں نے خودکشی سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط تحریرکیا تھا جس میں نیب انکوائریوں پر توجہ کی درخواست کی گئی تھی 15 مارچ کو بریگیڈیئر (ر) اسد منیر ڈپلومیٹک انکلیو میں اپنے فلیٹ میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے اسلام آباد سیکریٹریٹ تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) اسجد نے بتایا تھا کہ ’یہ خودکشی کا کیس ہے، کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 174 (جس میں خودکشی کے کیسز بیان ہیں) کے تحت ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس واقعہ پر از خود نوٹس لے لیا ہے جبکہ نیب کے چیئرمین نے اس کیس کی انکوائری اپنے ہاتھ میں لے لی ہے پولیس نے مقدمہ تو درج کرلیا ہے تاہم پمز ہسپتال میں ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوسکا لیکن لاش پر ابھرنے والے نشانات خودکشی ظاہر کرتے ہیںپولیس کامؤقف ہے متوفی اسد منیر کے گھر والوں کی درخواست پر لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا تھاڈاکٹر کا کہنا تھا کہ لاش پر کسی قسم کی مزاحمت کے نشانات عیاں نہیں تھے اور انہیں قتل نہیں کیا گیا بریگیڈیئر (ر) اسد منیر اسلام آباد کے ڈپلومیٹک ایونیو میں ایک اپارٹمنٹ میں قیام پذیر تھے۔ان کا قومی خفیہ اداروں سے بھی تعلق رہا ہے جبکہ انہیں خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں کام کرنے کا تجربہ حاصل تھا پیپلز پارٹی نے اسد منیر کی موت پر تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام اور تحقیقات مکمل ہونے تک نیب چیئرمین کو معطل کرنے کامطالبہ کیا ہے اسد منیر نے پاکستان فوجی اکیڈمی کے خصوصی خصوصی کورس (ایس ایس سی) میں شمولیت اختیار کی اور 1972 میں بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا جہاں جنرل پرویز مشرف ان کے ڈویژن کمانڈر تھے. یہ محض اتفاق ہے یا کہ جنرل مشرف کے ساتھ کام کرنے والے یہ تیسرے آفیسر ہیں جو غیر طبعی موت کا شکار ہوئے 2012 میں لیفٹیننٹ جنرل امتیاز حسین (سندھ رجمنٹ) کے سینئر ریٹائرڈ آفیسر؛ سابق کور کمانڈر اور ایڈجوئنٹ جنرل نے خود کو سر میں گولی مار دی جب اس کا نام ضائع ہوگیا تھا.یارہ سال قبل جنرل مشرف کے دوست میجر جنرل(ر) امیر فیصل علوی نومبر 2008 قتل کردیے گئے تھے ان کے قتل کا الزام ایک خاص گروہ پر لگایا گیا تھا، اسد منیر نے خیبر پختونخواہ میں فوجی انٹیلی جنس (ایم آئی) کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دی تھیں اور وہ آپریشن راہ راست کے بھی انچارج رہے اسد منیر جنرل احسان الحق کے بھی بہت قریب رہے جب جنر ل احسان الحق آئی ایس آئی کے سربراہ مقرر ہوئے تو اسد منیر کو ایک خاص ٹاسک کے ساتھ کے پی کے میں لایا گیا تھا یہ وہ وقت تھا جب ملک میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے حوالے سے ایک غیر معمولی دبائو کا سامنا تھا یہاں ڈیوٹی انجام دینے کے بعد وہ اسلام آباد ترقیاتی ادارے سی ڈی اے میں آئے اور نائب ڈائریکٹر نیشنل احتساب بیورو (نیب) کے رکن کے طور پر کام کیا. اسد منیرکے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہی وہ نرم خو آفیسر تھے سخت تنقید بھی برداشت کرتے تھے۔ وہ 32 سال کی سروس کے باوجود فوجی مزاج کے حامل نہیں تھے بریگیڈئر اسد منیر ریٹائرمنٹ کے بعد سوشل ہوئے، ٹویئٹر بھی استعمال کرتے رہے جس میں وہ تحریک انصاف کے گالم گلوچ کلچر اور کے پی کے میں ناقص کاکردگی پر بہت تنقید کرتے رہے ہیںاسد منیر خیبر پختونخواہ کے نوشہرہ ضلع میں زیارت کاکا صاحب کے سپن کنری گاؤں سے تعلق رکھتے تھے وہ ادبی لگائو رکھنے والے آدمی تھے سعادت حسن منٹو کرشن چندر، قراۃ العین حیدر اور ہاجرہ مستور( معروف وکیل حبیب وہاب الخیری کی خواہر نسبتی تھیں) ان کے پسندیدہ لکھاری تھے وہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بھی پرستار رہے، انہیں پشتو ادب اور پشتو موسیقی سے بھی بہت لگائو تھا ۔ اسد منیر کا کیس محض ایک پلاٹ کی الاٹ منٹ کا تھا، اس کی پہلی شکایت خورشید شاہ کے زمانے میں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں آئی تھی، اس کمیٹی نے انکوائری کے لیے نیب کو ہدایت کی تھی لیکن 2016 اور اب2019 تک اس کیس میں کچھ نہیں نکلا، تین سال تک اسد منیر پیشیاں بھگتتے رہے، تین سال کے بعد نیب نے اس کیس میں ریفرنس تیار کرلیا تھا اور گرفتاری کے خوف نے اسد منیر کی جان لے لی، کے پی کے میں سخت ترین حالات میں کام کرنے والے فوجی افسر کی اس طرح جان چلی جائے اور معاملہ بھی سامنے نہ آسکے ناقابل فہم ہے اس کا جواب بھی انھی کے پاس ہے جہاں اسد منیر نے اپنی زندگی کے نرم گرم دن گزارے ہیں سپریم کورٹ نے اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے امید ہے کہ عدالت اپنے فیصلے کے ذریعے کسی حتمی نتیجہ تک ضرور پہنچے گی سپریم کورٹ میں نیب کو متعدد بار تنبیہ کی جاچکی ہے کہ وہ میڈیا ٹرائل نہ کرے، پگڑیاں نہ اچھالے، دو بار تو نیب کے چیئرمین کو عدالت میں طلب کیا گیا لیکن سبکدوش چیف جسٹس نے انہیں اپنے چیمبر میں طلب کرکے معاملہ نمٹانے کی کوشش کی اور نیب کی کسی متعصابہ کارروائی کبھی کھلی عدالت میں سماعت نہیں ہوئی، نیب قانون چئرمین نیب کو نہایت غیر معمولی اختیارات دیتا ہے، مقدمہ بنانا اور ختم کرنا ان کی صوابدید ہے، مقدمہ کہاں چلانا ہے یہ بھی نیب کو قانونی تحفظ حاصل ہے، نیب قانون کے مطابق کسی بھی ملزم کی نوے روز تک ضمانت نہیں ہوسکتی، فواد حسن فواد اور ا حد چیمہ کی گرفتاری کو تقریبا ایک سال مکمل ہونے والا ہے معاملہ ابھی تک جوں کا توں ہے، پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہتھ کڑیوں میں عدالت میں پیش ہوچکے ہیں، پروفیسر جاوید کی حراست میں موت ہوچکی ہے، بیوروکریٹس اسی وجہ سے اپنا کام نہیں کر رہے وزیراعظم عمران خان نے بھی مدیروں کے ساتھ نشست میں اعتراف کیا ہے کہ حکومت اس لیے نہیں چل رہی کہ بیوروکریٹس کام نہیں کر رہے ہیں، ان کا موقف ہے کہ ہم کام بھی کریں اور بعد میں عدالتوں میں پیشیاں بھی بھگتیں۔ یہی صورت حال اسد منیر کو یہاں تک لے گئی کہ وہ خود کشی پر مجبور ہوگئے نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے چند ماہ پہلے وفاقی سیکرٹریز کے ایک اجلاس سے خطاب کیا تھا کہ آئندہ نیب کسی افسر کو براہ راست نوٹس نہیں بھیجے گا لیکن اس یقین دہانی پختگی کی دہلیز پر آج تکعمل نہیں ہو سکا۔ نیب میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، سیکرٹری اسٹبلشمنٹ اعجاز منیر متعدد بار پیشی بھگت چکے ہیں ایف بی آر کے چیئرمین جہاں زیب خان اور متعدد دیگر کی نیب میں پیشیاں ہونے والی ہیں وفاقی سیکرٹریز کی ہر ماہ ایک ورکنگ نشست ہوتی ہے جس میں آئندہ ماہ کیے جانے والے فیصلوں پر بحث ہوتی ہے اور کابینہ میں یہی فیصلے حتمی منظوری کے لیے بھجوائے جاتے ہیں اور یہ ورکنگ نشست ایک معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہے اس طرح کی متعدد نشستوں میں بیوروکریٹس نیب سے متعلق مسلسل اپنے تحفطات ظاہر کرتے چلے آرہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے ہونے والی غیر معمولی نشست میں اسد منیر کیس اور ان کی خود کشی پر بحث ہوئی جس نے بیوروکریسی کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے اسد منیر کے بھائی خالد منیر بھی کہتے ہیں کہ ان کے بھائی نے تو جان دے دی لیکن مسئلہ کا حل نکلنا چاہیے نیب جس کی چاہتا ہے پگڑی اچھال رہا ہے اور وزیر اعظم بھی، ملک کے اندر اور بیرون ملک دوروں میں مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ملک میں بہت کرپشن ہے یہ صورت حال بیوروکریسی کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے یہ صورت حال آج پیدا نہیں ہوئی، دورانِ حراست ان کی زبانی کہانیاں سنیں تو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی مملکت خداداد ہے جس کا نظام اسلامی ہے، آئین بنیادی حقوق کی پاسداری کا یقین دلاتا ہے، حالت یہ ہے کہ لاشوں کو ہتھکڑیاں لگا کر ہسپتالوں میں بھیجا جاتا ہے اور محض الزام کی بنیاد پر عزتوں کا جنازہ نکالا جاتا ہے مجاہد کامران صاحب بتاتے ہیں کہ سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب سے 25 سال کا افسر مخاطب تھا اور کہہ رہا تھا ’میں تمہارا مار مار کر بھرکس نکال دوں گا۔،جواب میں پروفیسر صاحب صرف اتنا ہی کہ سکے ’آپ کا انداز گفتگو مناسب نہیں ہے مجاہد کامران بتاتے ہیں کہ نیب کی حراست میں نندی پور میں محض ایک ماہ کام کرنے والا ڈرائیور بھی تھا جس نے اپنے موبائل سے آئل کی چوری کی ویڈیو بنائی اور الٹا اس معاملے میں اسے ہی اندر کرا دیا گیا مجاہد کامران کہتے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم کہ انصاف ملے گا یا نہیں۔ نون لیگ کے رہنما راجہ قمر الاسلام پر صاف پانی منصوبے میں مقدمہ کیا گیا اور عین انتخابات سے 30 دن قبل نیب نے انھیں گرفتار کر لیاراجہ قمر الاسلام کا عام انتخابات میں اپنے وقت کے طاقتور ترین رہنما چودھری نثار سے مقابلہ تھا۔ ان کی ضمانت آٹھ ماہ بعد عمل میں آئی۔عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ راجہ قمرالاسلام کے یا ان کے کسی رشتے دار کے اکاؤنٹ میں کوئی رقم منتقل ہوئی ہو متعلقہ ٹھیکہ بھی بورڈ آف گورنرز کی رضامندی سے عطا کیا گیارہائی کے بعد راجہ قمر لاسلام یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ گذشتہ آٹھ ماہ کی قید اور اُن کی عزت اور ساکھ کا حساب کون دے گا؟بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر دو سال سے نیب کی انکوائری بھگت رہے تھے۔ ان کے خاندان کے بقول جمعرات کی شب ٹی وی پر چلنے والے ٹکرز سے انھیں پتہ چلا کہ ان کے خلاف نیب کا ریفرنس دائر کیا جا رہا ہے۔بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کا نام گذشتہ دو سال سے محض الزام کی بنیاد پر ای سی ایل پر ڈالا گیا تو اس بات کا تذکرہ بھی انھوں نے سوائے اپنی اہلیہ اور بیٹی کے کسی سے نہیں کیا۔خاندان کے مطابق دو واقعات نے اسد منیر کو بے حد بے چین کر دیا تھاایک انکوائری کے دوران سابق چیئرمین سی ڈی اے سے بدتمیزی اور دوسرا ممبر فنانس سی ڈی اے کے ساتھ نیب اہلکاروں کا رویہ، دوران تحقیق نیب کی ایک خاتون افسر جو سلجھی ہوئی تھیں اور گفتگو کے دوران نرم لہجہ اختیار کرتی تھیں، بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نے ان سے پانی مانگاجواب میں نیب کا ایک نوجوان افسر جس طرح اُن سے پیش آیا، وہ اُس رات سو نہیں سکے۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگیں، ان سے بہت جونیئر ان سے بدتمیزی کریں، یا انھیں اور ان کے خاندان کو بقیہ ساری زندگی اپنی بے گناہی کی قسمیں کھانی پڑیں۔انھیں انصاف کی توقع نہیں تھی اسی لیے موت کو گلے لگالیا۔ بریگیڈیر اسد منیر کی ’’پراسرار خودکشی کے حوالے سے سوال بہت سے ہیں… مگر جواب شاید کسی کے پاس نہیں…! چونکہ معاملہ اب عدالت میں ہے لہٰذا اس کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تاہم ایک بات کا ذکر ضروری ہے وہ تحریک انصاف کی حکومت کے ہامی نہیں تھے بلکہ اس کے ناقد تھے ان کے ٹویئٹ گواہ ہیں کہ وہ کیا تھے اور کیا چاہتے تھے وہ سوچنے سمجھنے اور رائے رکھنے والے افسر تھے وہ حساس فیصلوں کے گواہ بھی …!!!

عدلیہ کی تاریخ کا ایک اور منفرد فیصلہ نوازشریف کی درخواستِ ضمانت منظور

سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی سزا معطل کرتے ہوئے ان کی چھ ہفتے کی ضمانت منظور کر لی ہے البتہ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا ہے کہ سابق وزیر اعظم ملک سے باہر نہیں جا سکیں گے اور اس کے علاوہ 50، 50 لاکھ کے دو ضمانتی مچلکے بھی جمع کرانے ہوں گے۔عدالت کی جانب سے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا کہ ضمانت کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد مجرم کو خود کو قانون کے سامنے پیش کرنا ہوگا اور اس کے بعد ضمانت کے لیے نئے سرے سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنی پڑے گی۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نواز شریفکے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ ان کی جانب سے لکھے گئے خط کی کیا قانونی حیثیت ہے؟ یہ خط عدنان نامی شخص کے نام لکھا گیا ہے، ڈاکٹر لارنس کا یہ خط عدالت کے نام نہیں لکھا گیا، یہ خط شواہد کے طور پر کیسے پیش ہوسکتا ہے؟ڈاکٹر لارنس کے خط کے علاوہ ہمارے سامنے کچھ نہیں، کیا ہم ایک خط پر انحصار کرلیں؟خواجہ حارث نے کہا کہ میں اس خط پر انحصار نہیں کر رہا، نوازشریف کی صحت خراب ہونے پر ڈاکٹرز نے معائنہ کیا،یہ ڈاکٹر نوازشریف کا علاج کرتا رہا ہے،یہ اس کا مصدقہ خط ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے میرٹ کی بنیاد پر دائر پٹیشن واپس لے لی تھی۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کیونکہ نوازشریف کی صحت کا معاملہ بعد میں سامنے آیا، ان کی صحت کا جائزہ لینے کیلئے 5 میڈیکل بورڈ بنے، پانچوں میڈیکل بورڈز نے نوازشریف کو اسپتال داخل کرانے کی سفارش کی۔انہوں نے مزید کہا کہ میڈیکل بورڈز نے سفارش کی کہ نوازشریف کو علاج کی ضرورت ہے، 30 جنوری کو پی آ?ئی سی بورڈ نے بڑے میڈیکل بورڈ بنانے کی تجویز دی، میڈیکل بورڈ نے ایک سے زائد بیماریوں کیعلاج کی سہولت والے اسپتال میں داخلے کا کہا ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ پروفیسر زبیر نے نوازشریف کی انجیوگرافی کو ماہرامراض گردہ کی کلیئرنس سے مشروط کیا ہے، ان کی ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن کی مانیٹرنگ کی بھی ضرورت ہے، نوازشریف کی نئی رپورٹ کے مطابق بھی ان کے گردوں کا مسئلہ بڑھ گیا ہے۔خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پانچوں میڈیکل بورڈز نے نوازشریف کو اسپتال داخل کرانے کی سفارش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے گردوں کی بیماری تیسرے مرحلے میں ہے، اگلے مرحلے پر ڈائیلائسز اور اس سے اگلے مرحلے پر گردے فیل ہو سکتے ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ثبوت ہے کہ نواز شریف کی بیماری تیسرے مرحلے میں ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ڈاکٹر لارنس کے خط کے ذریعے آپ طبی بنیادوں پر کیس بنا رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی طبیعت خراب ہو گئی ہے، ان کی بیماری کے ثبوت میں ایک خط پیش کیا جا رہا ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ مریض 15 سال سے بیمار ہے، آپ کی بنیاد ہے کہ نوازشریف کی صحت اب خراب ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے بیماری کے دوران بہت مصروف زندگی گزاری، 24 دسمبر 2018ء کو نوازشریف کی گرفتاری ہوئی، ا?پ کا سارا زور ڈاکٹر لارنس کے خط پر ہے، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کوئی ڈاکٹر لارنس ہے بھی یا نہیں؟ کرمنل کیس میں خط پر اس قدر انحصار کیوں؟چیف جسٹس نے کہا کہ نوازشریف کی سابقہ اور موجود میڈیکل ہسٹری بتائیں، رپورٹس بتاتی ہیں کہ نوازشریف کو دل کا عارضہ ہے، جاننا چاہتے ہیں کہ کیا نوازشریف کی جان کو خطرہ ہے؟ بتائیں نوازشریف کی میڈیکل ہسٹری سے صورتحال کیسے مختلف ہے، صحت کیسے بگڑ رہی ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کو 7 میڈیکل اسٹنٹس ڈالے جا چکے ہیں، انجائنا سے دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تمام بورڈ ز نے کہا ہے کہ نوازشریف کی انجیو گرافی کی ضرورت ہے۔ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کی 24 گھنٹے مانیٹرنگ کی جا رہی ہے، ان کو کوئی جان لیوا بیماری لاحق نہیں ہے، ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیںہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر جان کو خطرہ نہیں تو میڈیکل بورڈ انجیوگرافی کا کیوں کہہ رہے ہیں۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نواز شریف کو ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال منتقل کرتے رہے، کسی رپورٹ میں نہیں کہا گیا کہ انہوں نے علاج کرانے سے انکار کیا۔چیف جسٹس پاکستان ا?صف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب کے سارے ملزم بیمار کیوں ہوجاتے ہیں؟ نیب کے ہرکیس میں ملزم کی بیماری کا معاملہ سامنے ا?جاتا ہے، نیب اتنے ارب روپے ریکور کرتا ہے، ایک اچھا اسپتال ہی بنالے۔انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ نیب ملزمان کو ذہنی دباو زیادہ دیتا ہے، نیب کے رویے کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے لگ گئے ہیں، ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔