بلوچستان میں سرمایہ کاری کے مواقع

ریکوڈک کے بارے میں مقدمہ بلوچستان کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے

بلوچستان کی قسمت بدلنے کے لیے ابھی وقت درکار ہے۔ صوبے کے نمائندے اور سرکاری مشنری دیانت کا مظاہرہ کریں تو قلیل وقت میں صوبے کا مقدر تابناک ہوسکتا ہے۔ صوبے کے وسائل اور یہاں کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے بجائے چشم پوشی کا برتاؤ ہورہا ہے۔ دراصل یہی رویّے مرکز گریز رجحانات کی وجہ بن رہے ہیں۔ بلوچستان سونا، چاندی، تانبا، تیل، گیس، کوئلہ، کرومائٹ سمیت بیش بہا قیمتی پتھروں اور معدنیات کا عظیم خزانہ اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان وسائل سے بلوچستان کو کماحقہٗ فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔ گویا وفاق خزانے کے ناگ کی طرح اس پر بیٹھا ہوا ہے اور وفاق کی ترجیحات کے تحت ان وسائل کا استعمال اور تقسیم ہورہی ہے۔ ریکوڈک کے منصوبے پر ٹھیتیان کمپنی سے معاہدہ ختم کیا گیا۔ اس وقت نواب اسلم رئیسانی کی حکومت تھی۔ فیصلہ یقیناً صوبے کے مفاد میں تھا، حکمت عملی البتہ صائب نہ تھی۔ یوں مسئلہ عالمی عدالت میں چلا گیا، اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ ریکوڈک کے بارے میں مقدمہ بلوچستان کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں چین کے ساتھ سیندک کے کاپر اور سونے کے ذخائر بروئے کار لانے کا معاہدہ کیا گیا۔ اس منصوبے پر کام شروع ہوا، لیکن اتنے سال بیت جانے کے باوجود صوبے کے حصے سمیت اس کے معاشی و دوسرے اثرات کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار ہورہا ہے۔ اس کے مالی ثمرات صوبے کو نہ ملنے کے مترادف ہیں۔ 1950ء کی دہائی میں دریافت ہونے والی سوئی گیس سے صوبے کا غالب حصہ آج بھی محروم ہے اور صوبے کو نفع بھی چشم کشا ہے۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں تیل و گیس کی دریافت ہورہی ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ تیل و گیس کی تلاش کے منصوبوں میں بلوچستان کی حکومت کی اجازت و مرضی کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اس تناظر میں پی پی ایل اور چینی کمپنیوں کے لیے حکومت اور بیوروکریسی کی اہمیت چنداں نہیں رہی ہے۔ اب کی صورتِ حال واضح کرنا جام کمال کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ آیا صوبائی حکومت کی رضامندی کو کس درجے کی فوقیت و اہمیت حاصل ہے۔ بہرکیف موجودہ حکومت خوش کن اعلانات کررہی ہے اور پیش رفت کی دعویدار بھی ہے۔ جام کمال فرما چکے ہیں کہ بلوچستان کے محاصل میں اضافے کے لیے سخت ہاتھ پاؤں مارنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر صوبے کی آمدنی میں اضافہ نہ کیا گیا تو اس سے ترقی کا عمل ممکن نہ ہوگا۔ مذکورہ تمہید کی حقانیت جام کمال کی اس تشویش سے ثابت ہوتی ہے کہ بے پناہ قیمتی معدنی وسائل کا مالک ہونے کے باوجود بلوچستان کی سالانہ آمدنی صرف پندرہ ارب روپے ہے۔ وزیر اعلیٰ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ بلوچستان ریکوڈک، سیندک، سی پیک، ساحل اور قیمتی معدنی ذخائر کا فائدہ نہیں اٹھا سکا ہے۔ بقول وزیراعلیٰ 2002ء سے اب تک منرل رولز میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی، اور ستم یہ کہ 2002ء کے منرل رولز میں صوبے کے مفادات کے بجائے انفرادی مفادات کو تحفظ دیا گیا ہے، جس کے سبب اس شعبے میں صوبے کو سالانہ صرف دو سے ڈھائی ارب روپے کے محاصل ملتے ہیں۔ صوبے کے وسائل اور ذخائر کو صوبے کے مفاد اور خوشحالی کے لیے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام تنہا جام کمال کا نہیں ہے، نہ ہی ان کے بس میں ہے۔ اس کے لیے بحیثیتِ مجموعی صوبے کو ہم قدم ہونا پڑے گا۔ متعلقہ محکمے اور اس کے ذمہ داران کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنی تمام صلاحیتیں کام میں آئیں۔ بیوروکریسی بہرحال قدرت رکھتی ہے کہ وہ وفاق سمیت کسی کو صوبے کا استحصال نہ کرنے دے۔ صوبے کے محاصل میں اضافے کو بھی فوقیت دینی چاہیے۔ یہاں سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے کہ حکومت اور بیوروکریسی کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔ صوبے کے اندر بین الاقوامی سرمایہ کاروںکی آمد قلیل مدت میں یقینی بنانے کی مساعی ہونی چاہیے۔ حکومت بروقت اور تیز رفتار پالیسیاں وضع کرے، گورننس بہتر کرے تاکہ بیرونی سرمایہ کار بلا خوف و تردد صوبے کا رخ کریں۔ بلوچستان کے اندر اب بھی کئی معدنی ذخائر دریافت نہیں ہوسکے ہیں۔ یقیناً صوبے کو اس ذیل میں بنیادی ڈھانچے کی عدم دستیابی اور انسانی وسائل جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ سردست اس سیکٹر کی ترقی کے لوازمات پر توجہ دی جائے۔ ترجیحی بنیادوں پر اس راہ میں حائل مشکلات پر قابو پانے کی تدبیر و حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ بلوچستان کے اندر محکمہ معدنیات کا اسٹرکچر بہتر بنانے اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، نیز محکمے کے افسران اور دوسرے عملے کی جدید تقاضوں کے مطابق تربیت ہونی چاہیے۔ 18 مارچ کو اس تناظر میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایک روزہ سیمینار کا انعقاد ہوا جہاں پی پی ایل، بی ایم ایس، آئی ایل او، ایم سی سی اور معدنی شعبے کی مختلف کمپنیوں کے نمائندوں، اور سرمایہ کاروں نے شرکت کی۔ یاد رہے کہ 15 فروری 2019ء کو وزیراعلیٰ جام کمال محکمہ معدنیات کے جیو ڈیٹا سینٹر کا افتتاح کرچکے ہیں۔ اس سینٹر کا مقصد صوبے کے معدنی شعبے میں سرمایہ کاری اور یہاں کے بیش بہا معدنی ذخائر کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانا ہے۔ چناں چہ اس کے ذریعے معلومات حاصل ہوں گی، جو صوبے کی معدنیات میں دلچسپی لینے کا باعث بنیں گی۔ سینٹر مائننگ کے شعبے میں سرمایہ کاری کے امکانات، کان کنی کے مقامات کی الاٹمنٹ اور دیگر امور سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس سینٹر کا قیام نیشنل منرل پالیسی کا حصہ ہے۔ یہاں بلوچستان کے اندر موجود معدنی وسائل کی معلومات کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا رہے گا۔ حکومت کہتی ہے کہ تمام معلومات سینٹر کی ویب سائٹ www.gdc.gob.pk پر دستیاب ہیں۔ تاہم تلاش کرنے پر معلوم ہوا کہ اب تک یہ ویب سائٹ مُردہ حالت میں ہے۔ اللہ کرے کہ یہ سینٹر پوری طرح اور ہمہ وقت فعال ہو۔ یقیناً بلوچستان میں سرمایہ کاری کے بہت سارے مواقع موجود ہیں۔ مقامی معیشت کو استحکام کس طرح دینا ہے اس پر جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ مربوط پالیسیوں اور وژن کے ساتھ صوبے کے وسائل و معدنیات صوبے کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔