احتساب سے بچنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کی کمزور حکمت عملی
بلاول بھٹو کی سیاست ابتدا ہی سے تضادات میں گھری ہوئی ہے۔ وہ اگرچہ ایک آزاد شناخت کے ساتھ سیاست کرنے کی امنگ رکھتے ہیں، لیکن لگتا یہ ہے کہ ان کی سیاست کسی اور کی گرفت میں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں اس سے وہ خود بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ لیکن سیاست کے گورکھ دھندے نے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اور وہ بچنے کی کوشش کررہے ہیں مگر بچ نہیں پارہے۔ حالانکہ بلاول بھٹو کی سیاست کے تناظر میں پیپلز پارٹی کے نظریاتی ساتھیوں کا نکتہ نظر یہ تھا کہ وہ اپنے والد آصف علی زرداری سے مختلف طرز کی سیاست کرکے پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کریں گے۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کو بھی یہی توقع تھی کہ وہ روایتی طرز کی سیاست کے بجائے ایک ایسی سیاست کو ترجیح دیں گے جو اُن کو بھی مقبول لیڈر کے طور پر پیش کرے گی اور ملکی سطح کی سیاست میں وہ ایک نئی امید بھی پیدا کرسکیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کو اپنی سیاسی بحالی کے لیے ایک نیا چہرہ درکار تھا جو بلاول بھٹو کی صورت میں سامنے آیا تھا۔
بلاول بھٹو کے سامنے 6 بڑے چیلنج تھے یا ہیں:
(1) پیپلز پارٹی کے مُردہ جسم میں نئی روح پھونکنا اور جماعت کے حقیقی سیاسی کارکنوں میں موجود مایوسی اور لاتعلقی کو ختم کرکے اُن کو فعال بنانا، اور خود کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کرنا۔
(2) پیپلز پارٹی میں مفاد پرستوں اور بری شہرت کے حامل لوگوں کے مقابلے میں نظریاتی ساتھیوں کو سیاسی ذمہ داریاں دے کر پارٹی کے سیاسی تشخص اور سیاسی ساکھ کو بحال کرنا۔
(3) پارٹی کی داخلی سطح پر ایسے افراد جو بدعنوان ہیں یا ان پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں، کا دفاع کرنے کے بجائے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرنا۔
(4) اپنے والد کی سیاسی سرپرستی میں رہتے ہوئے پارٹی معاملات کو خود کنٹرول کرنے کی کوشش کرنا۔
(5) پارٹی کو دوبارہ وفاقی جماعت بناکر سیاسی جدوجہد کو تیز کرنا، اور اس تاثر کو ختم کرنا کہ اب پارٹی کا کردار محض سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
(6) یہ تاثر موجود ہے کہ آصف زرداری ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے سیاست کرنے کے حامی ہیں، بلاول اس سوچ سے باہر نکلیں گے کہ پارٹی کے مفادات کو محض اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں۔
لیکن لگتا یہ ہے کہ بلاو ل بھٹو بھی روایتی سیاست کا شکار ہوگئے ہیں، یا اُنہیں اُن کے والد کی سیاسی حکمت عملیوں نے پابندِ سلاسل کرکے رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ ایک عمومی تاثر یہی ہے کہ اب بھی پارٹی میں فیصلہ سازی کی اصل طاقت یا سیاست کا ریموٹ کنٹرول آصف زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ بلاول بھٹو کا کردار محدود ہے اور اُن کو فی الحال اپنے والد کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ہی سیاست کرنی ہے۔ آصف زرداری کی اسٹیبلشمنٹ سے پینگیں اور مفاہمت کے کھیل بشمول بلوچستان حکومت کے خاتمہ اور سینیٹ انتخابات میں بھی بلاول بھٹو اپنے والد کی سیاست کے پیچھے کھڑے نظر آئے، اورکئی سیاسی پنڈتوں کے بقول پیپلز پارٹی کا یہ عمل جمہوریت کو عملاً کمزور کرنے کا سبب بنا۔ یہ وہ وقت تھا جب بلاول اپنی مزاحمت کرسکتے تھے۔ اسی طرح جب اُن کے والد زرداری نے پنجاب کی سیاست میں نوازشریف کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اختیار کیے رکھا اُس وقت بھی پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ناراضی کے باوجود بلاول نے اپنے والد کی سیاست ہی کی حمایت کی۔
اس وقت بلاول بھٹو خاصے جارحانہ انداز میں سامنے آئے ہیں۔ وہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرکے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ایک بڑی سیاسی جنگ لڑنے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت اُن کے سامنے پارٹی کا بڑا بحران احتساب کا عمل ہے۔ آصف علی زرداری اور فریال تالپور سمیت کئی اہم راہنما نیب کے شکنجے میں ہیں، اور بلاول بھٹو احتساب کے اس عمل کو سیاسی انتقام کے بیانیہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اُن کے بقول اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور حکومت کا باہمی گٹھ جوڑ ان کی پارٹی، خاندان، جمہوریت اور سیاسی نظام کے خلاف ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو نوازشریف بھی پیش کرتے رہے ہیں، اور اب دونوں بڑے سیاسی فریق باہمی بیانیہ پر متفق نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بلاول بھٹو کو نوازشریف مظلوم نظر آتے ہیں، مگر پاناما کے فیصلے پر خود بلاول سمیت اُن کی پارٹی نوازشریف کے خلاف عدالتی فیصلے کو درست اور اپنی سیاسی فتح کے طور پر پیش کرتی تھی۔ اور چند ماہ قبل زرداری اور بلاول بھٹو نوازشریف پر تنقید کرتے تھے اورکہتے تھے کہ وہ اپنی سیاسی بداعمالیوں کی وجہ سے اس انجام سے دوچار ہوئے ہیں، مگر اب وہ نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنے پرانے گناہوں کو دھونے کی کوشش کررہے ہیں۔
پیپلزپارٹی پنجاب کے لوگ کہتے تھے کہ ان کی پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان بالخصوص پنجاب میں نوازشریف کے ساتھ مفاہمتی عمل نے پہنچایا۔ وہ کھل کر آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی پر تنقید کرتے تھے اور بلاول بھٹو سے توقع رکھتے تھے کہ وہ اس سیاسی حکمت عملی سے کنارہ کشی اختیار کریں گے۔ اس وقت نوازشریف کی مظلومیت کا رونا رونے میں ان کی پارٹی سے زیادہ پیپلز پارٹی پیش پیش ہے۔ یہی وہ پالیسی ہے جو آصف زرداری کی تھی اور اب بلاول بھٹو بھی اسی پالیسی کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کی اس سیاسی حکمت عملی کا براہِ راست فائدہ تحریک انصاف کو ہورہا ہے کہ دونوں جماعتیں اس کے خلاف ایک بار پھر یکجا ہوگئی ہیں۔ کیونکہ جب بھی دونوں جماعتیں کسی بحران کا شکار ہوتی ہیں تو انہیں جمہوریت کی یاد بہت ستاتی ہے، اور دونوں ہی جمہوریت کی مخالفین کے خلاف یکجا ہوجاتی ہیں، لیکن جیسے ہی ان جماعتوں پر بحران کی کیفیت ختم ہوتی ہے تو ان پر دوبارہ ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا بخار چڑھ جاتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حالیہ دنوں میں بلاول نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو نیا محاذ کھولا ہے اُس کی بڑی وجہ اُن کے خاندان پر مقدمات ہیں، اور وہ دبائو پیدا کرکے کوئی سیاسی ریلیف چاہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھانے کے لیے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے معاملے میں پاکستان کی ریاست جھوٹ بول رہی ہے اور وہ دہشت گردوں کی محافظ ہے۔ یہی وہ بیانیہ ہے جو بھارت کا ہے، اور بھارت اسے ہمارے خلاف استعمال کررہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات کے لیے ریاستی اور ملکی مفادات کو بھی دائو پر لگا کر سیاست کرنے کو اپنی حکمت عملی سے جوڑتے ہیں، جو بظاہر ملک کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔
بلاول بھٹو کی روایتی سیاست کا ایک عملی مظاہرہ یہ ہے کہ وہ یہ قبول کرنے کے لیے ہی تیار نہیں کہ ان کی پارٹی میں کوئی کرپٹ اور بدعنوان بھی ہے۔ ایسے میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ شفافیت پر مبنی نظام قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں، خود بڑا مذاق ہے۔ یہ مسئلہ بلاول بھٹو تک محدود نہیں بلکہ زیادہ تر سیاسی قیادتیں جمہوریت، کرپشن اور بدعنوانی کے درمیان فرق کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں، یا ان کا مفاد اس میں رکاوٹ ہے۔ یہ نیب پر تو بہت تنقید کرتی ہیں اور اسے جمہوریت مخالف قوت کے طور پر پیش کرتی ہیں، مگر ان جمہوری قوتوں کے پاس بھی ایسی مثالیں موجود نہیں جو یہ ثابت کرسکیں کہ یہ لوگ واقعی احتساب اور شفافیت کے نظام پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ادارے ان کے حق میں استعمال ہوں، یا اسٹیبلشمنٹ کسی کی مخالفت میں ان کی حمایت کرے تو سب ٹھیک ہے، وگرنہ پھر اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا جائے۔
پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ان کی جماعت کیوں سیاسی طور پر سکڑی ہے، اور کیوں ان کا شہری علاقوں میں ووٹ بینک ختم ہوگیا ہے۔ محض سارا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر کوئی بھی جماعت اپنی داخلی کمزوریاں اور ناکامیاں نہیں چھپا سکتی۔ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ بلاول نوجوان ہوتے ہوئے بھی نئی نسل میں اپنی مقبولیت پیدا نہیں کرسکے۔ شہری سیاست کے جو حالات بدلے ہیں اس کا بھی تجزیہ اوّل تو موجود نہیں، اور نہ ہی ایسی کسی حکمت عملی پر وہ کام کررہے ہیں جو شہروں میں پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ یا سندھ کی حکمرانی کی شفافیت کو بحال کرسکے۔18ویں ترمیم کے معاملے پر وہ اسٹیبلشمنٹ پر خوب برستے ہیں لیکن سندھ میں مقامی حکومتوں کو خودمختاری دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ جو سندھ کارڈ کا کھیل ہے اس نے بھی پیپلز پارٹی کو ایک قومی جماعت سے علاقائی جماعت میں تبدیل کردیا ہے۔ لیکن وہ اپنی داخلی سیاست سے سندھ کے عوام کا جو استحصال کررہے ہیں اس کا بھی ماتم ہونا چاہیے۔
ایک بیانیہ بلاول پیش کررہے ہیں، جبکہ دوسرا بیانیہ اُن کی پارٹی کے پرانے نظریاتی سیاسی کارکنوں کا ہے جو سمجھتے ہیں کہ پارٹی اپنی اصل سیاست سے دور چلی گئی ہے اور اس کی بحالی کے بغیر بڑی تبدیلی ممکن نہیں۔ بلاول کے لیے بڑا چیلنج موجودہ پالیسی یا سیاست سمیت اُن افراد سے جان چھڑانا ہے جو پارٹی پر بوجھ بن چکے ہیں، مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں۔ بلاول کی ناکامی ایک بڑی سیاسی ناکامی ہوگی، اور اس کی وجہ فرسودہ و روایتی سیاست اور خود آصف علی زرداری ہوں گے، جو پارٹی پر غالب ہیں۔ اور اس ناکامی کا نتیجہ پیپلزپارٹی کے مستقبل کے حوالے سے بھی اچھا نہیں ہوگا جو پہلے ہی داخلی بحران سے گزر رہی ہے۔