یوں تو برصغیر میں آباد مسلم عوام عرصۂ دراز سے فرقہ پرست تنگ نظر ہندوئوں کے متعصبانہ رویوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے، لیکن انہیں چند اعتدال پسند رہنمائوں نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ انہیں اپنے مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ مستقبل بعید میں ہندوئوں کا رویہ بدل سکتا ہے۔ ان رہنمائوں میں سرسید احمد خان پیش پیش تھے جو ہندو مسلم اتحاد کے قائل تھے اور دونوں گروہوں کو ایک قوم تصور کرتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہندوستان کو ایک خوبصورت دلہن سے تشبیہ دی تھی جس کی ایک آنکھ ہندو اور دوسری آنکھ مسلمان تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایک آنکھ ضائع ہوجائے تو دلہن کا حسن بے کار ہوجاتا ہے۔ وہ اردو کو ہندوئوں اور مسلمانوں کا مشترکہ سرمایہ سمجھتے تھے، لیکن اُن کی خوش فہمی اُس وقت دور ہوگئی جب ہندو احیاء پرست عناصر نے سنسکرت کو ہندی کا نام دے کر ایک طوفانی مہم چلائی، اور یہ کہا کہ اردو ہندوئوں کی پرم پرا نہیں ہے، اور یہ مسلمان حملہ آوروں کی زبان ہے، پھر بھلا ہم کیسے اس کو قبول کرسکتے ہیں!
شروع شروع میں تو سرسید احمد خان اسے شکست خوردہ ہندو ذہنیت کا ہذیان سمجھتے رہے جس کا اُن کے مطابق جلد ازالہ ہوجائے گا، لیکن جب اس تحریک نے زور پکڑا اور ایک سونامی کی شکل اختیار کرلی تو سرسید کی مایوسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں کسی انگریز افسر مسٹر شیکسپیئر (ڈرامے والا نہیں) سے انتہائی دکھ کے عالم میں کہا کہ اب ہندو مسلمان ایک قوم نہیں ہوسکتے کیونکہ ہندو اکثریت اپنے مشترکہ سرمائے اردو کو مسترد کرچکی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ اس کا رویہ انتہائی معاندانہ ہے۔ یہ 1867ء کی بات ہے جو موصوف کے سیاسی نظریات میں ایک موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ببانگِ دہل کہنا شروع کردیاکہ مغربی طرز کی پارلیمانی جمہوریت جو برطانیہ میں کامیاب ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ساری انگریز آبادی نسلاً اور مذہباً ایک ہے، لیکن ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ذات پات پر مبنی معاشرہ ہے، وہاں اکثریت دائمی طور پر غالب رہے گی جبکہ اقلیت (مسلمان) دائمی طور پر محکوم رہیں گے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی علیحدہ تنظیم بنائیں، جسے انہوں نے 1893ء میں Defence Association of India کے نام سے موسوم کیا۔
اس طرح انہیں دو قومی نظریے کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ اس بناء پر انہوں نے مسلمانوں کی علیحدہ نمائندگی کا مطالبہ کیا تھا۔ دراصل سرسید احمد خان کو ہندو فسطائیت کو سمجھنے میں دیر لگی، کیونکہ ایک مخلص محبِ وطن کی طرح وہ دونوں برادریوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے، لیکن انہیں ہندوئوں کی متعصبانہ خصلت کا صحیح ادراک نہیں تھا۔ ان کے انتقال کے چند ہی سال بعد ایک کٹّر ہندو رہنما ساورکر نے ایک مضمون 1924ء میں تحریر کیا جس کی رو سے ہندوستان میں دو قومیں آباد تھیں، ہندو اور مسلمان۔ لہٰذا ان دونوں کو یکجا رکھنے کے بجائے اُس نے ہندوستان کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مشورہ دیا: ایک ہندو ریاست اور دوسری مسلمان۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندو اکثریت کسی صورت پُرامن بقائے باہمی پر مبنی رویّے کے تحت مسلمانوں کو کسی کے ساتھ نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ اس طرح دونوں قوموں کی علیحدگی ناگزیر ہوگئی۔
دریں اثنا مسلمانوں میں یہ احساس جڑ پکڑنے لگا کہ وہ کانگریس میں ضم ہوکر اپنی انفرادیت کھو دیں گے، لہٰذا سرآغا خان کی قیادت میں کچھ مسلمان معززین نے جن میں جسٹس امیر علی (Spirit of Islam کے مصنف)، نواب محسن الملک، نواب وقارالملک اور دیگر شامل ہیں، اُس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ منٹو سے اکتوبر 1905ء میں ملاقات کی اور اُن سے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا، جسے وائسرائے ہند نے تسلیم کرکے 1909ء کے قانون Morley Minto Reforms Act 1909 کا اجراء کیا، لیکن آل انڈیا نیشنل کانگریس اس کی مخالفت کرتی رہی۔ اس سے مسلمانوں کے ان خدشات کو بڑی تقویت ملی کہ ہندو دوسری قوموں کی طرح مسلمانوں کو بھی ہضم کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ انہوں نے بدھ مت اور جین مذاہب کے ساتھ کیا ہے۔ ان کے خدشات کو اس بات سے بھی تقویت ملی کہ جداگانہ انتخاب کے بعد بھی مسلمان اقلیت میں ہوں گے، پھر وہ ہندو اکثریت کے لیے کیسے خطرہ بن سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ 16 اکتوبر 1905ء کو برطانیہ نے بنگال کو مسلم اور ہندو اکثریت کے علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کردیا، لیکن ہندوئوں کا ردعمل اتنا شدید تھا کہ انہوں نے سودیشی تحریک کے تحت انگریزوں اور مسلمانوں کو بم دھماکوں سے مارنا شروع کردیا، اور ان کا یہی مطالبہ تھا کہ اگر اس تقسیم کو فوری طور پر ختم نہ کیا گیا تو حکمرانوں کو اپنی لاشیں اٹھاتے رہنا پڑے گا۔ چنانچہ اس ہندو دہشت گردی سے مجبور ہوکر انگریزوں نے 1911ء میں بنگال کی تقسیم ختم کرکے صوبے کو دوبارہ متحد کردیا۔ اس وقت دہشت گردی دم توڑ چکی تھی کیونکہ دہشت گردوں نے تشدد کے ذریعے حکومتِ برطانیہ کو بظاہر جھکا کر شکست دے دی تھی۔
اس پورے دورانیے میں آل انڈیا نیشنل کانگریس جسے ایک انگریز افسر David Octavian Hume نے 1885ء میں قائم کیا تھا، خاموش تماشائی بنی رہی۔ لیکن اس میں محمد علی جناح بھی شامل تھے، جنہوں نے ہندو مسلم اتحاد کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ ان کی انتھک کوششوں سے آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ جو 30 دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں قائم ہوئی تھی (اس کے بانی نواب سلیم اللہ خان ڈھاکہ کے نواب کے نام سے مشہور تھے) وجود میں آچکی تھی، لیکن اس کا مقصد اُس وقت علیحدگی ہرگز نہیں تھا بلکہ ہندو مسلم خلیج کو پاٹنا تھا جس میں محمد علی جناح بیک وقت دونوں تنظیموں کے رکن تھے، ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح کانگریس کو راضی کرلیا جائے کہ وہ جداگانہ انتخاب کو تسلیم کرلے تاکہ دونوں تنظیمیں مل کر حکومتِ برطانیہ سے مزید مراعات حاصل کریں۔ لہٰذا محمد علی جناح نے لکھنؤ میں دونوں تنظیموں کا فرداً فرداً بیک وقت اجلاس کیا اور کسی طرح سے کانگریس کو جداگانہ انتخاب کے لیے راضی کرلیا، اور 1916ء میں میثاقِ لکھنؤ میں جداگانہ انتخاب پر دونوں تنطیموں نے اپنی قبولیت کی مہر ثبت کردی۔
یہ محمد علی جناح کا فقیدالمثال کارنامہ تھا جس کے باعث انہیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا لقب دیا گیا جو کانگریس کی رہنما سروجنی نائڈو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد برطانوی حکومت کے لیے کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ جداگانہ انتخاب پر مبنی 1919ء کےChelmsford Montague Act کو نافذ کرے۔ لیکن جنگ عظیم اول (1914-1918) کے چھڑ جانے سے برطانیہ نے ہندوستان میں آئینی اصلاحات کو مؤخر کر دیا۔ اس کے باوجود برطانیہ کے خلاف مسلمان آبادی باغی ہوگئی، کیونکہ اس نے خلافتِ عثمانیہ پر حملہ کرکے 1917ء میں فلسطین پر قبضہ کرلیا تھا جہاں فاتح جنرل Allenby نے کامیابی کے نشے میں دھت، گھوڑے پر سوار ہوکر صلاح الدین ایوبی کے مزار مبارک کو روند ڈالا جس سے اس کی صلیبی ذہنیت اور مسلم دشمنی کا مظاہرہ ہوتا تھا۔
اس پر ساری دنیا کے مسلمان مشتعل ہوگئے اور 1918ء میں مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کی قیادت میں خلافت کمیٹی قائم کی گئی جسے مہاتما گاندھی کی مکمل آشیرباد حاصل تھی اور انہوں نے دلی کی جامع مسجد میں منبر پر بیٹھ کر مسلمانوں سے خطاب کیا، جب کہ کلکتہ میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کے جلسہ عام میں انہوں نے ہندوئوں کی شدید مخالفت کے باوجود خلافت کی تحریک کی بھرپور حمایت کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس برطانوی سامراج سے ہندوستان کی جنتا نبرد آزما ہے وہی سامراجی طاقت ترکی کے مسلمانوں کو غلام بنانا چاہ رہی ہے، لہٰذا برطانوی سامراج ہندوستانی آبادی بشمول مسلم اور ہندو اور ترکی مسلمانوں کا مشترکہ دشمن ہے، اگر اس پر ایک ضرب ترکی میں پڑتی ہے اور دوسری ضرب ہندوستان میں پڑتی ہے تو دونوں کو اس سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا۔ اس طرح انہوں نے ہندو اکثریت کو خلافت تحریک کی حمایت کے لیے آمادہ کیا۔
اس کے لیے انہوں نے برطانیہ کو الٹی میٹم دیا کہ جب تک وہ دونوں ملکوں کو اپنی گرفت سے آزاد نہیں کرے گا ہم اُس سے مسلسل عدم تعاون اور ترکِ موالات کرتے رہیں گے۔ اسے Non Cooperation یا Civil Disobedience کا نام دیا جاتا ہے، لیکن برطانوی استعمار کی روباہی دیکھیے کہ اُس نے اِس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے مدراس میں موپلا مسلم برادری کو ہندو جاگیرداروں سے لڑوا دیا اور ہندو مسلم مثالی اتحاد دم توڑ گیا، اور 1921ء میں خلافت تحریک عملاً مفلوج ہوگئی۔
خلافت تحریک میں چند روزہ ہندو مسلم اتحاد کے دم توڑنے پر دونوں قوموں کی متضاد اور معاندانہ نفسیات منظرعام پر آگئی اور ان کا ساتھ دینا کسی دیوانے کا خواب لگنے لگا۔ اس پورے دور میں محمد علی جناح لاتعلق رہے اور انہوں نے ترکِ موالات اور عدم تعاون کی تحریک میں حصہ نہیں لیا، کیونکہ وہ ان منفی اقدامات کو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری ہندوستانی آبادی کے لیے مضر سمجھتے تھے، اور وقت نے بتادیا کہ ان کے خدشات درست تھے۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے برصغیر میں آئینی اصلاحات کا عمل تیز تر کردیا، کیونکہ دورانِ جنگ ہندوستان کی برطانوی فوج جس میں مقامی لوگ شامل تھے، باغی ہوگئی اور اس نے سبھاش چندربوس کی سرکردگی میں آزاد ہند فوج کے نام سے سنگاپور پر قبضہ کرلیا اور جاپان کی حمایت سے ہندوستان کی طرف پیش قدمی کا اعلان کردیا، جسے تاریخ ’’دِلّی چلو‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔
حکومتِ برطانیہ نے یہ محسوس کیا کہ اب وہ ہندوستانی فوج کے ذریعے ہندوستان پر حکومت نہیں کرسکتی، لہٰذا بجائے اس کے کہ وہ بے عزت کرکے نکالی جائے، وہ ہندوستان کو بخشش کے طورپر آزادی دے کر اس مصیبت سے پیچھا چھڑائے۔ اس بات کی تصدیق برطانوی ہند کی فوج کی مشرقی کمان کے سپہ سالار جنرل Robert Tucker کی کتاب While Memory Serves سے ملتی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانوی ہند کی فضائیہ کے ہند نژاد افسران اتنے خلاف تھے کہ کلکتے کی ایک تقریب میں جہاں فضائیہ کے افسران موجود تھے، یکایک بجلی فیل کردی گئی اور سارے ہال میں گھپ اندھیرا ہوگیا تو ہر چہار طرف سے اُن نشستوں پر گولیاں چلائی گئیں، جہاں انگریز افسران تھے۔ یہ واقعہ انگریزوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا، تاہم جنگ کے بعد جاپان کو شکست ہوگئی تو آزاد ہند فوج کے سارے افسران اور سپاہیوں کو برطانیہ نے جنگی قیدی بنادیا اور ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جانے لگا۔ ان میں خاص طور سے میجر موہن سنگھ، کیپٹن شاہنواز، کپیٹن دھلن (جو سکھ تھا)، کیپٹن عبدالرشید اور کیپٹن برہان الدین قابلِ ذکر ہیں۔اس پر برصغیر ہند کی تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص آل انڈیا نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ نے ان کی وکالت شروع کردی اور نوجوان طلبہ نے جن میں مَیں بھی شامل تھا، یہ نعرے لگائے تھے ’’کیپٹن شاہنواز کو چھوڑ دو، کیپٹن موہن سنگھ کو چھوڑ دو، کیپٹن دھلن کو چھوڑ دو‘‘۔
یہاں بھی کانگریس اور مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے جس کا حکومتِ برطانیہ نے کھل کر فائدہ اٹھاکر کیپٹن موہن سنگھ، کیپٹن شاہ نواز اور کیپٹن دھلن… جن کی وکالت ہندوستان کے اُس وقت کے نامور وکیل بھولا بھائی ڈیسائی کررہے تھے… کو تو رہا کردیا، جب کہ کیپٹن عبدالرشید کو جن کی وکالت مسلم لیگ کررہی تھی، سزا سنا دی۔ اس پر قائداعظم نے ہندوستان کی مرکزی مقننہ میں حکومتِ برطانیہ کو سخت الفاظ میں کہا کہ آپ نے انصاف کے بجائے جانب داری کی ہے۔ لیکن برطانیہ نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ تاہم یہ سزا دیرپا نہیں ہوسکی کیونکہ برطانیہ نے آزاد ہند ایکٹ کے تحت ہندوستان اور پاکستان کو دو مملکتوں میں تقسیم کردیا۔ پاکستان بننے کے بعد حکومت نے ان کو باعزت طور پر رہا کردیا۔
جنگ کے دوران کانگریس منقسم ہوگئی تھی۔ ایک دھڑا جو فارورڈ بلاک کہلایا وہ سبھاش چندربوس کی قیادت میں تھا، اور آزادی کی بھیک نہیں مانگنا چاہتا تھا، وہ جاپان اور جرمنی کی مدد سے ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتا تھا۔ جب کہ دوسرا دھڑا گاندھی اور نہرو کی قیادت میں جرمنی اور جاپان سے سخت متنفر تھا اور ان کے بجائے انگریزوں کو ترجیح دیتا تھا، لہٰذا اس پر دبائو ڈالنے کے لیے اگست 1942ء میں حکومتِ برطانیہ کو ہندوستان چھوڑ دو کا الٹی میٹم دیا اور ملک کے طول و عرض میں ہنگامہ آرائی شروع کردی، چنانچہ حکومتِ برطانیہ نے Defence Of India Act کے تحت ان سب افراد کو جیل میں بند کردیا، اس طرح سے کانگریس کا زور وقتی طور پر ٹوٹا جس کا خاطر خواہ فائدہ محمد علی جناح نے اٹھایا۔ جب انگریز نے ہندوستان پر اپنی گرفت کمزور پڑتی دیکھی تو اس نے 30 مارچ 1942ء کو Sir Stafford Cripps کو ایک منصوبے کے تحت ہندوستان بھیجا جس نے آل انڈیا کانگریس، مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے رہنمائوں سے مذاکرات کر کے انہیں تجویز پیش کی کہ جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان کے عوام یا تو مخلوط حکومت بنائیں یا اس کے علاوہ دوسری کوئی حکومت تشکیل دیں۔
یہ اس قدر مبہم تجویز تھی کہ دونوں میں سے کسی جماعت نے کھل کر کسی تجویز کی حمایت نہیں کی، لیکن جیسا کہ کہاوت ہے: شیطان نے حلوائی کی دکان پر دیوار میں کہیں شیرہ لگا دیا تھا، جس پر پہلے مکھی بیٹھی، اس پر چھپکلی جھپٹی، اور اسے پکڑنے کے لیے اس پر بلی ٹوٹ پڑی، جس سے غریب حلوائی کی دکان الٹ پلٹ گئی اور اس کی ساری مٹھائیاں زمین پر منتشر ہوگئیں۔ یہی شوشہ کرپس نے ایک دوسرے سے بدظن بھارت کے حریص رہنمائوں کے سامنے پیش کیا تاکہ وہ خانہ جنگی میں الجھ کر رہ جائیں اور کسی طرح سودے بازی کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔
ادھر گاندھی جی کے ایما پر کانگریس کے رہنما راج گوپال اچاریہ نے 10 جولائی 1943ء کو اس سے ملتا جلتا اپنا فارمولا پیش کیا، جس کی رو سے ہندوستان میں یا تو ایک عبوری حکومت قائم ہو، وگرنہ دو حکومتیں بنیں۔ وہ اس صورت میں کہ پہلے ہندوستان کے مسلم اکثریتی خطوں کی واضح مسلم اکثریت کی بنا پر نشاندہی کے بعد ان کی الگ انتظامیہ بنا دی جائے، جو بعدازاں اوّل الذکر انتظامیہ سے دفاع اور مواصلات پر مبنی معاہدہ کرلے۔ اس پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ گو اس کو گاندھی جی کی آشیر باد حاصل تھی مگر جواہر لال نہرو نے رنگ میں بھنگ ڈال کر اسے متنازع بنادیا، تاہم قائداعظم اس پر بالکل خاموش رہے لیکن 1942ء میں الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسہ عام میں منہ پھٹ قوم پرست مولانا حسرت موہانی نے قائداعظم کی موجودگی میں ان کو مخاطب کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ اگر آپ نے کرپس پلان کو مانا تو آپ کو پاکستان تو کجا، کرپس سول (Crips Sole) بھی نہیں ملے گا۔ اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی ٹانگ اوپر اٹھاکر اپنا کرپس جوتا دکھایا جو وہ ہمیشہ پہنا کرتے تھے۔
ادھر جلسے کے سامعین کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے حسرت موہانی کے اس عمل کو قائداعظم کی شان میں گستاخی سمجھتے ہوئے نعرے لگانے شروع کردیے کہ اس بڈھے کو نکال باہر کرو کہ یہ قائداعظم کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔ لیکن قائداعظم انتہائی خاموشی اور تحمل سے سنتے رہے، بلکہ انہوں نے مجمع کے رویّے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ہتھوڑے کو میز پر پٹخا اورکہا! Order! Order
اس پر مجمع سہم کر خاموش ہوگیا۔ قائداعظم نے مجمع کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کو مولانا کی تقریر سننی چاہیے، کیونکہ اختلافِ رائے ان کا جمہوری حق ہے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ پاکستان میں جمہوریت نہیں چلا سکیں گے۔
اس سے اس اعتراض کی نفی ہوجاتی ہے کہ قائداعظم مزاجاً سخت گیر اور آمرانہ ذہنیت کے حامل تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ مولانا کو خاموش کرا سکتے تھے۔ ادھر مولانا کا یہ عالم تھا کہ وہ شروع سے درویش صفت اور مجاہدانہ کردار کے مالک تھے، اور اردو کے بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی انقلابی فرد تھے۔ یہاں تک کہ جواہر لال نہرو نے اُن کے بارے میں کہا تھا کہ ایک دور تھا جب میں نے مولاناکے قدموں میں بیٹھ کر اشتراکیت کی ابجد ہوّز سیکھی تھی۔ مولانا نے عدم تعاون کی تحریک میں سالہا سال قید کاٹی تھی، جہاں انہیں چکی بھی چلانی پڑتی تھی، لیکن اس سے اُن کی ادبی سرگرمیاں متاثر نہیں ہوئیں، جس پر انہوں نے یہ مشہور زمانہ شعر کہا تھا کہ ؎
ہے مشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ ایک مرتبہ الٰہ آباد میں صوبائی مسلم لیگ کی اعلیٰ ترین قیادت کا وفد آیا، جس میں نواب سر محمد اسماعیل خان، نواب اعزاز رسول، سر محمد یامین خان وغیرہ اپنے ایئرکنڈیشن ڈبوں میں بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے استقبال کے لیے جو ہجوم آیا، وہ ان حضرات کو نظرانداز کرتے ہوئے سیدھا تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سوار مولانا کو تلاش کرتے ہوئے داخل ہوا اور ساتھ ہی ساتھ ’’رئیس الاحرار مولانا حسرت موہانی زندہ باد‘‘کے نعرے لگاتا ہوا اس کھچا کھچ بھرے ہوئے ڈبے میں مولانا کی طرف رجوع ہوا، جہاں وہ اپنا دری کا بستر بان سے باندھے ہوئے ایک ٹین کے لوٹے سمیت تیار تھے۔ ان کو لوگ کاندھوں پر بٹھا کر لائے، جب کہ نوابین اور اشرافیہ کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تک نہیں۔ میں بھی اس ہجوم میں شامل تھا اور میرا بھی نعرے لگاتے لگاتے گلا بیٹھ گیا تھا۔
مولانا حسرت موہانی اعلیٰ ترین معیار کے غزل گو شاعر بھی تھے اور ان کی غزلیں زبان زدِ عام و خاص تھیں، بالخصوص استاد غلام علی کی گائی ہوئی وہ غزل ’’چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘‘ برصغیر کی مقبول ترین غزل تھی۔ ان کی دیگر غزلیں بھی بڑی معیاری تھیں۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے اور حصولِ تعلیم کے بعد ہی برصغیر کی جدوجہدِ آزادی کے ہراول دستے میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کا کانگریس سے اس بات پر اختلاف ہوا کہ وہ اُن کے نزدیک ہندو احیا پرست ذہنیت کی حامل تھی، بالخصوص اس کا رویہ اردو کی جانب مخاصمانہ تھا، لہٰذا وہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔
ایک بار ایک بڑا ہنگامہ خیز جلوس یہ نعرے لگاتا ہوا جارہا تھا: ’’لے کے رہیں گے پاکستان… بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘۔ جب مولانا نے یہ سنا تو مجمع کو حکم دیا کہ آپ یہ نعرہ لگائیں ’’ماریں گے مر جائیں گے… پاکستان بنائیں گے‘‘۔ اُس دن سے یہ نعرہ ہر خاص و عام کی زبان پر تھا۔ مولانا اس قدر بے لوث، مخلص اور دیانت دار تھے کہ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے ہجرت نہیں کی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایسا کرنے سے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ بے وفائی ہوگی۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے اعزہ سے ملنے کے لیے وہ کئی بار پاکستان آئے لیکن ہمیشہ واپس چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ کاش اس کردار کے لوگ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالتے تو آج ملک لٹیرے لوٹوں کے ہاتھوں یرغمال نہ بنتا۔ انہیں نظریۂ پاکستان سے والہانہ عقیدت تھی، جو مرتے دم تک اُن کے ساتھ رہی۔ قائداعظم بڑے مردم شناس تھے اور وہ مولانا سے اتنے متاثر تھے کہ انہوں نے اپنے عملے کو یہ ہدایت دی ہوئی تھی کہ مولانا جس وقت چاہیں مجھ سے مل سکتے ہیں، ان کے لیے قبل از وقت اطلاع کی ضرورت نہیں ہے۔
(جاری ہے)