کیا مستقبل میں “پی ٹی ایم” اس اتحاد کا حصہ بن سکتی ہے؟
پچھلے دنوں خیبر پختون خوا کی پانچ ترقی پسند پختون قوم پرست جماعتوں نے ’’پختون خوا جمہوری اتحاد‘‘ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ مشترکہ طور پر پختونوں کو درپیش مسائل کے حل اور حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کریں گی۔ اس سلسلے میں وطن کور پشاور میں ایک پریس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں قومی وطن پارٹی کے سکندر حیات خان شیرپائو، مزدور کسان پارٹی کے افضل خاموش، نیشنل پارٹی کے مختیار باچہ، پختون خوا اولسی تحریک کے اجمل آفریدی اور عوامی ورکرز پارٹی کے صاحبزادہ حیدر زمان نے شرکت کی۔ پریس کانفرنس کے دوران پانچوں جماعتوں نے مشترکہ طور پر اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ قوم پرست جماعتوں کے اتحاد میں مزید وسعت کے لیے دیگر قوم پرست جماعتوں کے ساتھ بھی رابطے کیے جائیں گے۔
پختون خوا جمہوری اتحاد کا جو 9 نکاتی ایجنڈا سامنے آیا ہے اُس میں کہا گیا ہے کہ قوم پرست جماعتوں پر مشتمل یہ نیا اتحاد تاریخی، سماجی، ثقافتی اور لسانی بنیادوں پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرے گا۔ اتحاد کے باقاعدہ اعلان کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ اس نئے اتحاد کے چھے ماہ کے لیے قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر سکندر حیات شیرپائو بطور کنوینر خدمات انجام دیں گے، جب کہ اس موقع پر ایک اسٹیرنگ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جو اتحاد میں شامل جماعتوں کے سربراہان پر مشتمل ہوگی۔ عبوری عرصے کے دوران دیگر قوم پرست جماعتوں کے ساتھ رابطے اور انہیں بھی ایک وسیع البنیاد پختون جمہوری اتحاد کا حصہ بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ پختون خوا جمہوری اتحاد نے اپنے ابتدائی نو نکاتی منشور میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جامع اور شفاف اقدامات، قوموں، قبیلوں اور افراد کے جانی و مالی نقصانات کے ازالے اور ان کی بحالی کے لیے شفاف طریقہ کار پر زور دیا۔ ان نونکات میں قبائلی اضلاع کے انضمام کے عمل کو آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ پختون خوا جمہوری اتحاد نے اپنے منشور میں واضح کیا ہے کہ یہ اتحاد افغانستان میں قیام امن کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کی حمایت کے ساتھ ساتھ افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے فروغ کے لیے ایک مثبت اور واضح پالیسی کے حق میں ہے۔ پختون خوا کے لیے ایک مکمل معاشی پیکیج کا مطالبہ کرتے ہوئے پختون خوا جمہوری اتحاد کی قیادت نے کہا ہے کہ اس پیکیج سے صوبے کے ساتھ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ اور پختونوں کا احساسِ محرومی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اتحاد کے پلیٹ فارم سے مزدوروں، کسانوں، خواتین، طلبہ کے حقوق اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہدکے عزم کے اعادے کے علاوہ پختون خوا کی تمام ثقافتوں اور زبانوں کی ترویج و ترقی کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کا یقین بھی دلایا گیا ہے۔
پاکستان کی مروجہ سیاست میں سیاسی اتحادوں کا بننا اور ٹوٹنا ایک عام روایت رہی ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی بنیادوں پر بھی مذہبی جماعتوں کے چھوٹے بڑے اتحاد بنتے رہے ہیں۔ اسی طرح قوم پرست جماعتیں بھی ماضی میں متعدد مرتبہ اتحاد بناتی رہی ہیں۔ ان اتحادوں کے ساتھ ساتھ مختلف جماعتوں کا باہمی انضمام بھی ہماری سیاست کا حصہ رہا ہے، لیکن ان اتحادوں پر بات کرتے ہوئے ہم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ یہ اتحاد ہمیشہ عارضی بنیادوں پر، بالعموم انتخابات کی گہما گہمی کے عرصے میں بنتے رہے ہیں، لہٰذا انتخابات کے بعد یہ اتحاد نہ تو پائیدار ثابت ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ زیادہ عرصے تک اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہ سکے ہیں۔ پاکستان کی سطح پر پی ڈی ایف، پی این اے، پی ڈی اے، آئی جے آئی، ایم آر ڈی، اے آر ڈی، ایم ایم اے، جی ڈی اے، ایم ڈی ایم اور اے پی ڈی ایم جیسے اتحاد ہر کسی کے حافظے میں محفوظ ہوں گے، لیکن قوم پرست اور بالخصوص پختون قوم پرست جماعتوں کی اتحادی سیاست پر نظر رکھنے والوں کو ماضی میں این ڈی پی، پی کیو پی، پی آئی پی، بی این اے اور پونم کے اتحاد یقیناً نہ صرف یاد ہوں گے بلکہ وہ ان اتحادوں کی کارکردگی اور ان کے بننے اور بن کر بکھرنے کی تاریخ سے بھی بخوبی واقف ہوں گے۔
ماضی میں قوم پرست جماعتوں کی سیاست اور ان کی فعالیت کا زیادہ تر زور بلوچستان اور کسی حد تک سندھ اور خیبر پختون خوا میں رہا ہے۔ بلوچستان میں آج بھی بی این ایم، بی این پی، بی اے پی، این پی، اور پی کے ایم اے پی نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ ان جماعتوں کو بلوچستان اسمبلی میں کچھ نہ کچھ نمائندگی بھی حاصل ہے۔ بلوچستان میں پختون خوا ملّی عوامی پارٹی اور محدود حد تک عوامی نیشنل پارٹی کو چھوڑ کر باقی تمام متذکرہ جماعتیں بلوچ قوم پرست جماعتیں ہیں جن کی سیاست کا محور بلوچ مسائل ہیں۔ اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو ان تمام موجودہ بلوچ قوم پرست جماعتوں کا کھرا ماضی کی ہارڈکور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوویت نواز بلوچ قیادت اور قوم پرست جماعتوں نیپ اور بی این پی سے ملتا ہے، جن کی قیادت میر بزن بزنجو، سردارعطاء اللہ مینگل، میرخیر بخش مری، محمد اکبر بگٹی اور عبد الصمد خان اچکزئی کے ہاتھوں میں تھی، بعد میں یہ قائدین مرکزی قوم پرست تحریک سے علیحدہ ہوکر اپنی الگ الگ سیاسی جماعتیں بناتے رہے جو زیادہ تر انھی شخصیات کے زیراثر رہ کر محدود پیمانے پر کام کرتی رہیں۔ دراصل ستّر اور اسّی کی دہائیوں میں چونکہ ان جماعتوں کے درمیان سوویت یونین کا نظریاتی اور کسی حد تک سیاسی اثر قدرِ مشترک کے طور پر موجود تھا اس لیے جب تک ان جماعتوں اور ان کے قائدین کو یہ اثر اور ماسکو وکابل کی سرپرستی حاصل رہی تب تک تو یہ جماعتیں اور ان کے قائدین ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہے، لیکن نوّے کی دہائی کے اوائل میں جب پہلے افغانستان میں کمیونسٹ حکمرانوں کا دھڑن تختہ ہوا اور بعد ازاں سوویت یونین بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا تو اس کا براہِ راست اثر ہمارے ہاں قوم پرست جماعتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ان کے انتشار کی شکل میں برآمد ہوا۔ وہ دن ہے اورآج کا دن، ہمارے ہاں قوم پرست جماعتوں کو پھر ایک پلیٹ فارم اور ایک قیادت دیکھنی نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ ملک کی مجموعی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں پختون قوم پرست جماعتوں کا بھی ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ انہوں نے پختون کاز کے لیے مشترکہ جدوجہد کے بجائے ہمیشہ اپنی گروہی اور ذاتی سیاست کو ترجیح دی ہے۔
ہمارے ہاں ماضیِ قریب میں پختون قوم پرستی کی بنیاد پر زیادہ تر دو جماعتیں عوامی نیشنل پارٹی اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی سرگرم عمل رہی ہیں۔ اتفاق سے ان دونوں جماعتوں کا دائرۂ عمل چونکہ دو الگ الگ پختون خطے ہیں جن میں اول الذکر خیبر پختون خوا، اور ثانی الذکر بلوچستان کی پختون بیلٹ میں سرگرم عمل ہے، اس لیے ان دونوں جماعتوں میں بظاہر کسی بھی سطح پر کوئی براہِ راست سیاسی ٹکرائو نظر نہیں آتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو کبھی ایک دوسرے سے تو کوئی خاص خطرہ محسوس نہیں ہوتا، البتہ یہ دونوں جماعتیں اکثر وبیشتر خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے پختون علاقوں میں گہرا اثر رسوخ رکھنے والی مذہبی جماعتوں سے ہمیشہ خطرہ محسوس کرتی رہی ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ جب ساڑھے چھے سال قبل اکتوبر 2012ء میں پاکستان پیپلز پارٹی شیرپائو گروپ کو قومی وطن پارٹی کے الگ نام اور جھنڈے کے ساتھ ایک نئی پختون قوم پرست جماعت کے طور پر لانچ کیا گیا تو عام تاثر یہ تھا کہ اس جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے جہاں اے این پی کا مقابلہ کرنے اور اسے اپنے سائز میں رکھنے کے لیے وجود بخشا گیا ہے، وہیں قبائلی علاقوں میں مستقبل کی صورت گری اور خاص کر خیبر پختون خوا کی سیاست میں افغان فیکٹر کو کائونٹر کرنے کی اپروچ کو بھی اس کے قیام کے جواز کے طور پر دیکھا گیا۔ اس تاثرکو زیادہ تقویت اُس وقت ملی جب 2013ء کے عام انتخابات میں اے این پی کو تو زبردست انتخابی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا لیکن کیو ڈبلیو پی خیبر پختون خوا اسمبلی میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت(ف) کے بعد چوتھی بڑی پارٹی کے طور پر ابھری۔
واضح رہے کہ ان انتخابات میں پیپلزپارٹی، اے این پی اور جماعت اسلامی جیسی بڑی جماعتیں بھی عددی اکثریت کے لحاظ سے قومی وطن پارٹی سے پیچھے تھیں۔ قومی وطن پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ ہونے کا تاثر اُس وقت مزید گہرا ہوا جب اسے اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ سمجھی جانے والی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت میں مناسب حصہ دیا گیا۔ البتہ اس نقطہ نظر کو اُس وقت دھچکا لگا جب پہلے اسے دو دفعہ انتہائی غیر مناسب بلکہ ہتک آمیز انداز میں کرپشن کے خودساختہ الزامات کے تحت پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت سے نکالا گیا اور بعد میں2018ء کے عام انتخابات میں اسے عبرتناک شکست سے دوچار کیا گیا۔ لہٰذا اب قومی وطن پارٹی کی کوششوں سے اُس کی قیادت میں پانچ قوم پرست جماعتوں کا جو اتحاد وجود میں آیا ہے اکثر سیاسی حلقے اسے قومی وطن پارٹی کی نئی سیاسی حکمت عملی جو بظاہر اینٹی اسٹیبلشمنٹ لائنز پر نظر آتی ہے، کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ اس اتحاد میں بظاہر کوئی قابلِ ذکر مثلاً اے این پی یا پختونخوا ملّی عوامی پارٹی جیسی بڑی سیاسی قوم پرست جماعت تو شامل نہیں ہے، البتہ جن جماعتوں یا قائدین کو اس اتحاد میں شامل کیا گیا ہے اُن کا شمار بلاشبہ ماضی کی سخت گیر نظریاتی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعتوں اور قائدین میں ہوتا رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ یہ جماعتیں اور ان کے قائدین عوامی حمایت سے ہمیشہ محروم رہے ہیں۔ یہاں یہ دُور کی کوڑی بھی لائی جا سکتی ہے کہ اگر آگے جاکر پی ٹی ایم بھی اس اتحاد میں شامل ہوجاتی ہے جس کی طرف اس اتحاد کے کوآرڈی نیٹر سکندر حیات شیرپائو نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اشارہ بھی کیا ہے، تو پھر اس اتحاد کو مقبولیت ملنے، نیز مستقبل کی سیاست پر اثرانداز ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت حال میں یہ اتحاد نہ صرف ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ پختون قوم پرست پلیٹ فارم کے طور پر ابھرکر سامنے آ سکتا ہے بلکہ یہ اتحاد جہاں خیبر پختون خوا کی حد تک اے این پی کے لیے خطرے کی گھنٹی بن سکتا ہے، وہیں بلوچستان کی حد تک پختون خوا ملّی عوامی پارٹی جیسی ہارڈکور اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی بھی اس اتحاد کا ممکنہ حصہ بن کر پختون سیاست میں ایک بڑی ہلچل کا باعث بن سکتی ہے۔