سنیٹر سراج الحق دوسری مدت کے لیے امیر جماعت منتخب کر لیے گئے
پارلیمنٹ یا ملک میں مختلف سطحوں پر حقِ حکمرانی کے حامل منتخب اداروں میں نمائندگی کے پہلو سے صرفِ نظر کرلیا جائے تو جماعت اسلامی یقیناً اس ملک کی ایک منفرد اور مثالی جماعت قرار پائے گی۔ جس قدر مؤثر تنظیم یہاں موجود ہے، کہیں اور اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی قیادت، ارکان و کارکنان کی محنت، امانت، دیانت، شرافت اور سادگی کا اپنے ہی نہیں پرائے بھی برملا اعتراف کرتے ہیں، جس کی ایک معمولی سی مثال اُس وقت دیکھنے میں آئی جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ارکانِ پارلیمنٹ کے اخلاق و کردار سے متعلق بحث جاری تھی تو عدالتِ عظمیٰ کے فاضل جج بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر اس ضمن میں آئین کی متعلقہ دفعات 62 اور 63 کا صحیح طریقے سے نفاذ کیا جائے تو صرف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہی ان پر پورے اتریں گے۔ کسی سیاسی جماعت کی قیادت کو اس سے بہتر خراجِ تحسین شاید ہی پیش کیا جا سکے۔
غریب عوام کو دکھوں اور مسائل سے نجات دلانے کا مروڑ ہر جماعت کی قیادت کے پیٹ میں لازماً اٹھتا ہے جس کا اظہار ان کی تقریروں اور انتخابی منشور میں تو زور شور سے کیا جاتا ہے مگر عمل کے میدان میں یہی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ برسراقتدار رہنے والے خاندانوں کے اثاثوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، عوام کے مسائل اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بڑھتے چلے جاتے ہیں، اور کیفیت ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ سے آگے نہیں بڑھتی۔ یہاں بھی حقائق اور اعداد و شمار اس بات کی تصدیق اور تائید کریں گے کہ جماعت اسلامی عوام کی خدمت کے محض دعوے نہیں کرتی بلکہ ملک بھر میں پھیلا ہوا اسپتالوں، شفاخانوں، اسکولوں، مدارس، یتیم خانوں اور خدمتِ خلق کے دیگر منصوبوں کا جال، اس کی کارکردگی کا عملی ثبوت بھی پیش کرتا ہے۔ زمینی و آسمانی آفات کے مواقع پر بھی جس طرح جماعت اسلامی کے کارکنان سب سے پہلے مصیبت زدگان کی مدد کو پہنچتے ہیں، اس کی مثال کوئی دوسری سیاسی و مذہبی جماعت پیش نہیں کرسکتی۔
عورتوں کے حقوق کا نعرہ کون سی سیاسی جماعت نہیں لگاتی، مگر عمل کے میدان میں یہاں بھی سب کوری اور تہی دامن ہی نظر آتی ہیں۔ جماعت اسلامی میں نہ صرف خواتین کا جداگانہ نظم اور باقاعدہ تشخص موجود ہے جس کی قیادت خود خواتین ہی منتخب کرتی ہیں، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک قدم جماعت اسلامی نے ایسا اٹھایا ہے جس کی مثال پاکستان تو کجا ترقی یافتہ ممالک کی سیاسی جماعتیں بھی شاید ہی پیش کرسکیں کہ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ میں خواتین کو ایک بڑے تناسب سے نمائندگی دی گئی ہے۔ ان خواتین ارکانِ شوریٰ کو مرد ارکان یا امیرِ جماعت نامزد یا منتخب نہیں کرتے، بلکہ ان کا انتخاب صرف خواتین ارکان کا استحقاق ہے، اور یہ منتخب خواتین ارکان مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں نہ صرف شریک ہوتی ہیں بلکہ اسلامی شرعی احکام اور شعائر کی پابندی کرتے ہوئے اپنا مؤثر کردار بھی ادا کرتی ہیں۔
جماعت اسلامی کا ایک طرۂ امتیاز یہ بھی ہے کہ ہر شعبۂ زندگی میں اس نے اپنے چاہنے والوں کو منظم کرنے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اساتذہ ، طلبہ، علما، تاجر، کسان، محنت کش، اطبا، وکلا اور انجینئرز۔۔۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں جماعت اسلامی کے وابستگان تنظیم کی لڑی میں پروئے نہ گئے ہوں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جماعت اسلامی اسلام کے جس مبارک نظام کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کوشاں ہے اس کے عملی تقاضوں سے اپنے کارکنوں کو ہم آہنگ کرنے، قرآن و سنت کی روشنی میں فکرِ آخرت کی سوچ پروان چڑھانے، احیائے تہذیبِ اسلامی کی تڑپ پیدا کرنے، فریضۂ اقامتِ دین کی ادائیگی کے لیے دلوں میں آمادگی پیدا کرنے، رفتارِ کار کو بڑھانے، اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور ان کے تقاضوں سے آگاہ و باخبر رکھنے کے لیے ہر سطح پر نظریاتی و عملی تربیت کا اہتمام جس منظم اور مربوط انداز میں کیا جاتا ہے اس کا عشرِ عشیر بھی کسی دوسری سیاسی و مذہبی جماعت میں تلاشِِ بسیار کے باوجود نہیں ملتا۔ چنانچہ جب بھی کبھی جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ لاہور میں آپ کا جانا ہو، کسی نہ کسی نوعیت کی کوئی نہ کوئی تربیت گاہ وہاں جاری ہوگی،جس میں شریک ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کے باہم شیر و شکر کارکنان سے نماز کے اوقات میں مسجد میں آپ کی ملاقات ہوجائے گی۔
جمہوریت کا علَم تو تمام سیاسی جماعتیں بلند کیے ہوئے ہیں، مگر الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ سیکڑوں جماعتوں کی تاریخ کھنگال لیجیے، مجال ہے کوئی ایک بھی جمہوریت کو اپنے اندرونی نظام سے پنپنے کا موقع دینے پر کبھی آمادہ ہوئی ہو۔ چھوٹی بڑی خالص سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی سیاسی جماعتیں۔۔۔ سب ہی جگہ خاندانی قیادت مسلط دکھائی دے گی۔ الیکشن کمیشن کی ضروریات اور آئینی و قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جماعتوں کے اندر انتخابات کا جو ڈھونگ رچایا جاتا ہے اُس میں بھی اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ خاندان سے باہر کا کوئی فرد کسی بھی طرح پارٹی قیادت کی جانب قدم بڑھا نہ پائے۔ یہاں بھی صرف جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نچلی سے اعلیٰ ترین سطح تک سو فیصد آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور شفاف انتخابات کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے، اور یہ صاف ستھرے انتخابی عمل ہی کا ثمر ہے کہ جماعت میں کبھی قیادت پر جھگڑا سامنے نہیں آیا، اور دیگر تمام دینی و سیاسی جماعتوں کے برعکس لوگ منصب سے چمٹے رہنے کے بجائے معذرت کرکے دوسرے لوگوں کو آگے آنے اور قیادت سنبھالنے کا موقع دیتے ہیں۔ جماعت کے انتخابی نظام کی ایک اور خوبی یا برکت یہ بھی ہے کہ کسی بھی سطح پر قیادت کو وراثت میں منتقل کرنے کی کوئی سوچ یا تصور تک موجود نہیں۔
یہ صورتِ حال صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں، بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں صورتِ حال کم و بیش یکساں ہے۔ بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، سری لنکا، حتیٰ کہ جمہوریت کے عالمی چیمپئن بھارت، بلکہ اس سے آگے مقبوضہ اور آزاد کشمیر کی اکثر و بیشتر سیاسی جماعتیں کسی ایک شخصیت یا زیادہ سے زیادہ ایک خاندان کی اسیر دکھائی دیتی ہیں، صرف جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے، جو اتفاق سے جنوبی ایشیا کے کم و بیش سبھی ممالک میں اپنا وجود رکھتی ہے اور سبھی جگہ اس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نہ تو یہ کسی فرد یا شخصیت کی اسیر ہے، نہ ہی کسی خاندان کی جاگیر۔۔۔ ہر جگہ جماعت اسلامی میں باقاعدگی سے انتخابات کا سلسلہ جاری ہے اور قیادت کا انتخاب نہایت صاف ستھرے اور شفاف انداز میں اس کے ارکان کرتے ہیں۔ شاید یہ اسی نظامِ انتخاب، اس کی باقاعدگی اور ارکان و کارکنان کے اخلاص کی برکت ہے کہ آج تک کبھی کہیں قیادت کے انتخاب پر تنازع پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کبھی کسی نے خود قیادت کا طلب گار ہونے یا کسی سازش، دھونس، دھاندلی وغیرہ کے ذریعے قیادت سے محروم کیے جانے کا گلہ کیا ہے۔
دستورِ جماعت اسلامی کے تحت ہر پانچ سال بعد امیر جماعت کے باقاعدہ انتخاب ہوتے ہیں۔ آج تک ان میں کبھی کوئی تعطل نہیں آیا۔ محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، جماعت کے بانی اور پہلے منتخب امیر تھے جو1941ء تا 1972ء انتخاب کے ذریعے جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوتے رہے۔ ان کے بعد میاں طفیل محمد ؒ 1972ء تا 1987ء، قاضی حسین احمد ؒ 1987ء تا 2009ء، اور سید منورحسن صاحب 2009ء سے 2014ء تک باقاعدہ انتخاب کے ذریعے امیر جماعت بنے تھے۔ 2014ء میں انتخاب کے ذریعے پانچ سالہ دورانیہ کے لیے محترم سراج الحق صاحب امیر جماعت منتخب ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کے دستور کی دفعہ 37 (الف) کے تحت ’’انتخابی کمیشن‘‘ ایک دستوری ادارہ موجود ہے جس کے صدر اور چار ارکان کو مرکزی مجلسِ شوریٰ تین سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔ انتخابی کمیشن کا یہ دستوری ادارہ امیر جماعت، مرکزی مجلسِِ شوریٰ اور مرکزی مجلسِِ عاملہ کے انتخابات کے انعقاد کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کے موجودہ منتخب صدر اسداللہ بھٹو اور اس کے منتخب چار ارکان میں جناب بلال قدرت بٹ، ڈاکٹر سید وسیم اختر، محمد حسین محنتی اور مولانا عبدالحق ہاشمی شامل ہیں۔ مرکزی شعبہ انتخابات، انتخابی کمیشن کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ قواعد انتخاب امیر جماعت اسلامی پاکستان ، دستور کی شق نمبر6 کے تحت، مرکزی مجلسِ شوریٰ خفیہ رائے دہی کے ذریعے، ارکانِِ جماعت کی راہنمائی کے لیے تین نام تجویز کرتی ہے جو حروفِ تہجی کی ترتیب سے بیلٹ پیپرز پر درج کیے جاتے ہیں۔ تاہم ارکانِِ جماعت ان تین ناموں کے علاوہ بھی کسی اور رکنِِ جماعت کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کرنے میں آزاد ہوتے ہیں۔ اِس دفعہ مرکزی شوریٰ نے جو تین نام تجویز کیے اُن میں سراج الحق، لیاقت بلوچ اور (پروفیسر) محمد ابراہیم کے نام شامل تھے۔ واضح رہے کہ دستورِ جماعت کی روشنی میں جماعت اسلامی کے تمام انتخابات میں نہ کوئی امیدوار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی انتخابی مہم ہوتی ہے۔ دستورِِ جماعت کے مطابق ان کی اجازت نہیں ہے۔ نیز ہر رکن اپنے علاوہ کسی بھی رکنِ جماعت کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرسکتا ہے۔
موجودہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا پانچ سالہ دورانیہ 8 اپریل 2019ء کو مکمل ہورہا ہے۔ دستورِ جماعت کے تحت نئے انتخاب کا، اس تاریخ سے کم از کم 90 روز قبل آغاز کرنا ہوتا ہے تاکہ تمام مراحل بروقت مکمل کیے جا سکیں۔ چیف الیکشن کمشنر اسد اللہ بھٹو کی سربراہی میں امیر جماعت کے نئے انتخاب کا آغاز دسمبر 2018ء میں کردیا گیا تھا۔ پہلے انتخابی شیڈول جاری کیا گیا، صوبوں میں علاقائی ناظمین و معاونینِ انتخاب اور اضلاع میں نائب ناظمین و معاونینِ انتخاب کا تقررنامہ جاری کیا گیا اور ارکان کی حتمی تعداد کا تعین کیا گیا، جس کے مطابق انتخابی میٹریل تیار کرکے چھپوا کر صوبوں اور اضلاع کے ذریعے ارکانِ جماعت تک پہنچایا گیا۔ شیڈول کے مطابق یہ مرحلہ 12 فروری تک مکمل ہوا۔ ووٹ ڈالنے کی آخری تاریخ 5 مارچ طے تھی، جس کے بعد 15 مارچ تک بیلٹ پیپرز کے بند لفافے مرکز منصورہ پہنچ گئے تھے۔ انتخابی شیڈول کے مطابق گنتی کا آخری مرحلہ 16 سے 20 مارچ تک مکمل کرلیا گیا۔
21 مارچ کو انتخابی کمیشن کے سربراہ جناب اسد اللہ بھٹو نے منصورہ کے دارالضیافہ میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں انتخابی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ 2019ء تا 2024ء کی پانچ سالہ مدت کے لیے ارکان کی اکثریت نے جناب سراج الحق کو دوبارہ امیر جماعت اسلامی منتخب کرلیا ہے۔۔۔ اور سیاست کی عمومی روش میں یہ بات بھی بہت عجیب بلکہ ناقابلِ یقین حقیقت کی حیثیت رکھتی تھی کہ اس موقع پر نہ تو سینیٹر سراج الحق کے حامیوں کی طرف سے مبارک سلامت کا شور سنائی دیا، نہ کسی کو ہاروں سے لاد کر کندھوں پر اٹھا کر نعرہ بازی کا منظر دیکھنے میں آیا، بلکہ مجلس میں موجود تمام ارکان و کارکنان اور قائدین اپنے نئے امیر کے لیے دعا کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کی توفیق اور استقامت دے۔
غریب عوام کو دکھوں اور مسائل سے نجات دلانے کا مروڑ ہر جماعت کی قیادت کے پیٹ میں لازماً اٹھتا ہے جس کا اظہار ان کی تقریروں اور انتخابی منشور میں تو زور شور سے کیا جاتا ہے مگر عمل کے میدان میں یہی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ برسراقتدار رہنے والے خاندانوں کے اثاثوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، عوام کے مسائل اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بڑھتے چلے جاتے ہیں، اور کیفیت ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ سے آگے نہیں بڑھتی۔ یہاں بھی حقائق اور اعداد و شمار اس بات کی تصدیق اور تائید کریں گے کہ جماعت اسلامی عوام کی خدمت کے محض دعوے نہیں کرتی بلکہ ملک بھر میں پھیلا ہوا اسپتالوں، شفاخانوں، اسکولوں، مدارس، یتیم خانوں اور خدمتِ خلق کے دیگر منصوبوں کا جال، اس کی کارکردگی کا عملی ثبوت بھی پیش کرتا ہے۔ زمینی و آسمانی آفات کے مواقع پر بھی جس طرح جماعت اسلامی کے کارکنان سب سے پہلے مصیبت زدگان کی مدد کو پہنچتے ہیں، اس کی مثال کوئی دوسری سیاسی و مذہبی جماعت پیش نہیں کرسکتی۔
عورتوں کے حقوق کا نعرہ کون سی سیاسی جماعت نہیں لگاتی، مگر عمل کے میدان میں یہاں بھی سب کوری اور تہی دامن ہی نظر آتی ہیں۔ جماعت اسلامی میں نہ صرف خواتین کا جداگانہ نظم اور باقاعدہ تشخص موجود ہے جس کی قیادت خود خواتین ہی منتخب کرتی ہیں، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک قدم جماعت اسلامی نے ایسا اٹھایا ہے جس کی مثال پاکستان تو کجا ترقی یافتہ ممالک کی سیاسی جماعتیں بھی شاید ہی پیش کرسکیں کہ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ میں خواتین کو ایک بڑے تناسب سے نمائندگی دی گئی ہے۔ ان خواتین ارکانِ شوریٰ کو مرد ارکان یا امیرِ جماعت نامزد یا منتخب نہیں کرتے، بلکہ ان کا انتخاب صرف خواتین ارکان کا استحقاق ہے، اور یہ منتخب خواتین ارکان مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں نہ صرف شریک ہوتی ہیں بلکہ اسلامی شرعی احکام اور شعائر کی پابندی کرتے ہوئے اپنا مؤثر کردار بھی ادا کرتی ہیں۔
جماعت اسلامی کا ایک طرۂ امتیاز یہ بھی ہے کہ ہر شعبۂ زندگی میں اس نے اپنے چاہنے والوں کو منظم کرنے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اساتذہ ، طلبہ، علما، تاجر، کسان، محنت کش، اطبا، وکلا اور انجینئرز۔۔۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں جماعت اسلامی کے وابستگان تنظیم کی لڑی میں پروئے نہ گئے ہوں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جماعت اسلامی اسلام کے جس مبارک نظام کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کوشاں ہے اس کے عملی تقاضوں سے اپنے کارکنوں کو ہم آہنگ کرنے، قرآن و سنت کی روشنی میں فکرِ آخرت کی سوچ پروان چڑھانے، احیائے تہذیبِ اسلامی کی تڑپ پیدا کرنے، فریضۂ اقامتِ دین کی ادائیگی کے لیے دلوں میں آمادگی پیدا کرنے، رفتارِ کار کو بڑھانے، اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور ان کے تقاضوں سے آگاہ و باخبر رکھنے کے لیے ہر سطح پر نظریاتی و عملی تربیت کا اہتمام جس منظم اور مربوط انداز میں کیا جاتا ہے اس کا عشرِ عشیر بھی کسی دوسری سیاسی و مذہبی جماعت میں تلاشِِ بسیار کے باوجود نہیں ملتا۔ چنانچہ جب بھی کبھی جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ لاہور میں آپ کا جانا ہو، کسی نہ کسی نوعیت کی کوئی نہ کوئی تربیت گاہ وہاں جاری ہوگی،جس میں شریک ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کے باہم شیر و شکر کارکنان سے نماز کے اوقات میں مسجد میں آپ کی ملاقات ہوجائے گی۔
جمہوریت کا علَم تو تمام سیاسی جماعتیں بلند کیے ہوئے ہیں، مگر الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ سیکڑوں جماعتوں کی تاریخ کھنگال لیجیے، مجال ہے کوئی ایک بھی جمہوریت کو اپنے اندرونی نظام سے پنپنے کا موقع دینے پر کبھی آمادہ ہوئی ہو۔ چھوٹی بڑی خالص سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی سیاسی جماعتیں۔۔۔ سب ہی جگہ خاندانی قیادت مسلط دکھائی دے گی۔ الیکشن کمیشن کی ضروریات اور آئینی و قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جماعتوں کے اندر انتخابات کا جو ڈھونگ رچایا جاتا ہے اُس میں بھی اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ خاندان سے باہر کا کوئی فرد کسی بھی طرح پارٹی قیادت کی جانب قدم بڑھا نہ پائے۔ یہاں بھی صرف جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نچلی سے اعلیٰ ترین سطح تک سو فیصد آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور شفاف انتخابات کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے، اور یہ صاف ستھرے انتخابی عمل ہی کا ثمر ہے کہ جماعت میں کبھی قیادت پر جھگڑا سامنے نہیں آیا، اور دیگر تمام دینی و سیاسی جماعتوں کے برعکس لوگ منصب سے چمٹے رہنے کے بجائے معذرت کرکے دوسرے لوگوں کو آگے آنے اور قیادت سنبھالنے کا موقع دیتے ہیں۔ جماعت کے انتخابی نظام کی ایک اور خوبی یا برکت یہ بھی ہے کہ کسی بھی سطح پر قیادت کو وراثت میں منتقل کرنے کی کوئی سوچ یا تصور تک موجود نہیں۔
یہ صورتِ حال صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں، بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں صورتِ حال کم و بیش یکساں ہے۔ بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، سری لنکا، حتیٰ کہ جمہوریت کے عالمی چیمپئن بھارت، بلکہ اس سے آگے مقبوضہ اور آزاد کشمیر کی اکثر و بیشتر سیاسی جماعتیں کسی ایک شخصیت یا زیادہ سے زیادہ ایک خاندان کی اسیر دکھائی دیتی ہیں، صرف جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے، جو اتفاق سے جنوبی ایشیا کے کم و بیش سبھی ممالک میں اپنا وجود رکھتی ہے اور سبھی جگہ اس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نہ تو یہ کسی فرد یا شخصیت کی اسیر ہے، نہ ہی کسی خاندان کی جاگیر۔۔۔ ہر جگہ جماعت اسلامی میں باقاعدگی سے انتخابات کا سلسلہ جاری ہے اور قیادت کا انتخاب نہایت صاف ستھرے اور شفاف انداز میں اس کے ارکان کرتے ہیں۔ شاید یہ اسی نظامِ انتخاب، اس کی باقاعدگی اور ارکان و کارکنان کے اخلاص کی برکت ہے کہ آج تک کبھی کہیں قیادت کے انتخاب پر تنازع پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کبھی کسی نے خود قیادت کا طلب گار ہونے یا کسی سازش، دھونس، دھاندلی وغیرہ کے ذریعے قیادت سے محروم کیے جانے کا گلہ کیا ہے۔
دستورِ جماعت اسلامی کے تحت ہر پانچ سال بعد امیر جماعت کے باقاعدہ انتخاب ہوتے ہیں۔ آج تک ان میں کبھی کوئی تعطل نہیں آیا۔ محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، جماعت کے بانی اور پہلے منتخب امیر تھے جو1941ء تا 1972ء انتخاب کے ذریعے جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوتے رہے۔ ان کے بعد میاں طفیل محمد ؒ 1972ء تا 1987ء، قاضی حسین احمد ؒ 1987ء تا 2009ء، اور سید منورحسن صاحب 2009ء سے 2014ء تک باقاعدہ انتخاب کے ذریعے امیر جماعت بنے تھے۔ 2014ء میں انتخاب کے ذریعے پانچ سالہ دورانیہ کے لیے محترم سراج الحق صاحب امیر جماعت منتخب ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کے دستور کی دفعہ 37 (الف) کے تحت ’’انتخابی کمیشن‘‘ ایک دستوری ادارہ موجود ہے جس کے صدر اور چار ارکان کو مرکزی مجلسِ شوریٰ تین سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔ انتخابی کمیشن کا یہ دستوری ادارہ امیر جماعت، مرکزی مجلسِِ شوریٰ اور مرکزی مجلسِِ عاملہ کے انتخابات کے انعقاد کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کے موجودہ منتخب صدر اسداللہ بھٹو اور اس کے منتخب چار ارکان میں جناب بلال قدرت بٹ، ڈاکٹر سید وسیم اختر، محمد حسین محنتی اور مولانا عبدالحق ہاشمی شامل ہیں۔ مرکزی شعبہ انتخابات، انتخابی کمیشن کے سیکریٹریٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ قواعد انتخاب امیر جماعت اسلامی پاکستان ، دستور کی شق نمبر6 کے تحت، مرکزی مجلسِ شوریٰ خفیہ رائے دہی کے ذریعے، ارکانِِ جماعت کی راہنمائی کے لیے تین نام تجویز کرتی ہے جو حروفِ تہجی کی ترتیب سے بیلٹ پیپرز پر درج کیے جاتے ہیں۔ تاہم ارکانِِ جماعت ان تین ناموں کے علاوہ بھی کسی اور رکنِِ جماعت کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کرنے میں آزاد ہوتے ہیں۔ اِس دفعہ مرکزی شوریٰ نے جو تین نام تجویز کیے اُن میں سراج الحق، لیاقت بلوچ اور (پروفیسر) محمد ابراہیم کے نام شامل تھے۔ واضح رہے کہ دستورِ جماعت کی روشنی میں جماعت اسلامی کے تمام انتخابات میں نہ کوئی امیدوار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی انتخابی مہم ہوتی ہے۔ دستورِِ جماعت کے مطابق ان کی اجازت نہیں ہے۔ نیز ہر رکن اپنے علاوہ کسی بھی رکنِ جماعت کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرسکتا ہے۔
موجودہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا پانچ سالہ دورانیہ 8 اپریل 2019ء کو مکمل ہورہا ہے۔ دستورِ جماعت کے تحت نئے انتخاب کا، اس تاریخ سے کم از کم 90 روز قبل آغاز کرنا ہوتا ہے تاکہ تمام مراحل بروقت مکمل کیے جا سکیں۔ چیف الیکشن کمشنر اسد اللہ بھٹو کی سربراہی میں امیر جماعت کے نئے انتخاب کا آغاز دسمبر 2018ء میں کردیا گیا تھا۔ پہلے انتخابی شیڈول جاری کیا گیا، صوبوں میں علاقائی ناظمین و معاونینِ انتخاب اور اضلاع میں نائب ناظمین و معاونینِ انتخاب کا تقررنامہ جاری کیا گیا اور ارکان کی حتمی تعداد کا تعین کیا گیا، جس کے مطابق انتخابی میٹریل تیار کرکے چھپوا کر صوبوں اور اضلاع کے ذریعے ارکانِ جماعت تک پہنچایا گیا۔ شیڈول کے مطابق یہ مرحلہ 12 فروری تک مکمل ہوا۔ ووٹ ڈالنے کی آخری تاریخ 5 مارچ طے تھی، جس کے بعد 15 مارچ تک بیلٹ پیپرز کے بند لفافے مرکز منصورہ پہنچ گئے تھے۔ انتخابی شیڈول کے مطابق گنتی کا آخری مرحلہ 16 سے 20 مارچ تک مکمل کرلیا گیا۔
21 مارچ کو انتخابی کمیشن کے سربراہ جناب اسد اللہ بھٹو نے منصورہ کے دارالضیافہ میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس میں انتخابی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ 2019ء تا 2024ء کی پانچ سالہ مدت کے لیے ارکان کی اکثریت نے جناب سراج الحق کو دوبارہ امیر جماعت اسلامی منتخب کرلیا ہے۔۔۔ اور سیاست کی عمومی روش میں یہ بات بھی بہت عجیب بلکہ ناقابلِ یقین حقیقت کی حیثیت رکھتی تھی کہ اس موقع پر نہ تو سینیٹر سراج الحق کے حامیوں کی طرف سے مبارک سلامت کا شور سنائی دیا، نہ کسی کو ہاروں سے لاد کر کندھوں پر اٹھا کر نعرہ بازی کا منظر دیکھنے میں آیا، بلکہ مجلس میں موجود تمام ارکان و کارکنان اور قائدین اپنے نئے امیر کے لیے دعا کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کی توفیق اور استقامت دے۔