تقریب ِرونمائی راہِ وفا کے مسافر

خدیجہ گیلانی
ادیب تو بہت سے ہوتے ہیں لیکن ادب کو مقصدیت کے تابع رکھنے والے آٹے میںنمک کے برابر۔ انہی میں سے ایک ڈاکٹر میمونہ حمزہ ہیں۔ ان کی نگارشات وقتاً فوقتاً منظرعام پر آتی رہتی ہیں جن میں افسانے، بلاگ اور بچوںکی کہانیاں شامل ہیں۔ لیکن اُن کا سب سے اہم کام عربی ادب کی شاہکار کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ ہے۔ ایسی ہی ایک کتاب ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ کی تقریبِ رونمائی گزشتہ دنوں راولپنڈی میں منعقد ہوئی۔
خواتین قلم کاروں کی معروف تنظیم حریم ِادب پاکستان نے اس تقریب کا انعقاد کیا۔ یہ تنظیم ایک طرف معاشرے میں صحت مند مقصدی ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور دوسری جانب لوگوں کو مطالعے کی جانب راغب کرنا بھی اس کے پیش نظر ہے۔ یہ تقریب بھی اسی مقصد کا تسلسل تھی۔ اس تقریب کی مہمانِِ خصوصی معروف ادیبہ اور مترجم ڈاکٹر میمونہ حمزہ تھیں، جب کہ تقریب کی صدارت حریم ادب پاکستان کی نائب صدر ذروہ احسن نے کی۔ تلاوتِ قرآن پاک، حمدِ باری تعالیٰ اور نعت کے بعد صدرِ مجلس ذروہ احسن نے خطاب کیا۔ انہوں نے ’’حریم ادب… ایک کوشش، ایک کاوش‘‘ کے عنوان کے تحت حریم ادب کا مختصر اور جامع تعارف پیش کیا اور تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس کو ادب کا چسکا لگ جائے وہ پھر کسی کام کا نہیں رہتا۔ زندگی کی تلخیوں میں ادب ایک پناہ گاہ ہے۔ ڈاکٹر میمونہ حمزہ کے کام پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ فنِ ترجمہ نگاری سے خوب آشنا ہیں۔ ان کی اس سے پہلے بھی ترجمہ شدہ تخلیقات سامنے آچکی ہیں، اور کہیں بھی ان کا قلم کمزور نہیں پڑتا۔ عربی زبان سے ترجمہ کرنے کے باوجود ناول میں ہمارے ماحول سے مطابقت محسوس ہوتی ہے اور کہیں بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ اور ڈاکٹر صاحبہ کی اس کتاب کا پیغام بھی یہی ہے کہ اگر زندگی میں مشکلات ہیں تو پھر امید بھی ہے۔
حریم ادب پاکستان کی مرکزی نگران عالیہ شمیم نے صوتی پیغام کے ذریعے ڈاکٹر میمونہ حمزہ اور حاضرینِ محفل تک اپنی نیک خواہشات پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے جذبوں اور احساسات کے ساتھ آپ کی اس محفل میں شریک ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ادب یا فن عطیۂ خداوندی ہے، ادب یا فن اکتسابی چیز ہے، اس صلاحیت کو مؤثر طور پر برتنا اور درجۂ کمال تک پہنچانا انسان کی محنت کا ثمر ہے۔ انہوں نے مطالعے کی اہمیت پر بہت زور دیا اور کہا کہ زندگی سیکھنے کا نام ہے۔ سیکھنے کا عمل رک جائے تو زندگی رک جاتی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی ریسرچ ایسوسی ایٹ منزہ صدیقی نے ’’فنِ ترجمہ نگاری‘‘ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ تہذیبوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ترجمے کا سب سے بنیادی کردار ہے۔ فنِ ترجمہ نگاری کو سائنس قرار دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مترجم کا اصل کام صرف الفاظ کا ترجمہ کرنا نہیں بلکہ متن کے ساتھ ساتھ دونوں زبانوں پر مکمل عبور، تہذیب و ثقافت سے آشنائی اور سیاق و سباق سے آگہی ضروری ہے۔ الفاظ و تراکیب اور محاوروں کا بہترین متبادل استعمال ترجمے کے فن کو کمال پر پہنچاتا ہے۔
محمد صغیر قمر نے اپنے پیغام میں کہا کہ ڈاکٹرمیمونہ حمزہ کی نئی کتاب ’’راہِ حق کے مسافر‘‘ کی اشاعت پر میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میں نے ان کی کتب اور نگارشات کا مسلسل مطالعہ کیا ہے۔ اللہ نے انہیں شاندار خیالات کے ساتھ لکھنے کا خوب صورت سلیقہ عطا کیا ہے۔ میں نے جب بھی ان کی تحریر پڑھی، ایک نئے جذبے اور گداز سے آشنا ہوا ہوں۔
روزنامہ جسارت کے بلاگ ایڈیٹر نذیرالحسن کا پیغام بھی واٹس ایپ کے ذریعے آیا، انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ من جملہ اُن قلم کاروں میں شامل ہیں جو اپنے سماجی شعور کو قلم کی نوک سے برتنے کا فن خوب جانتے ہیں۔
ماہنامہ ’’جہادِ کشمیر‘‘ کے ایڈیٹر عبدالہادی کا تحریری پیغام اُن کی صاحبزادی عمیرہ بنتِ عبدالہادی نے پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر میمونہ حمزہ کی شخصیت میں کئی ہستیاں جمع ہیں، وہ ایک جانب ایک منفرد اسکالر، منتخب روزگار ادیبہ اور قلم کار کے طور پر اپنی صلاحیتیں تسلیم کرا چکی ہیں، تو دوسری طرف علومِ دینی سے آگاہ ایک متحرک اور کلمۂ حق کہنے والی بہترین معلمہ، داعیہ، مبلغہ اور اسلامی تحریک کی خاتون رہنما کے طور پر بھی معروف ہوچکی ہیں۔
حریمِ ادب راولپنڈی/ اسلام آباد کی نگران فرحت نعیمہ نے بھی اپنے تحریری پیغام میں کہا کہ عربی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تو بہت سوں نے لی ہوگی، لیکن ہماری میمونہ حمزہ نے اپنی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بہترین مترجم ہونے کی سند حاصل کرکے ادب کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میمونہ حمزہ نے سونے کا آدمی، نور اللہ، پانچ منٹ، ناآشنائے شکست اور راہِ وفا کے مسافر تک عربی ادب کو یوں اردو کے قالب میں ڈھالا کہ کہیں سے ترجمے کا گمان تک نہیں ہوتا۔
تقریب کی مہمانِ خصوصی ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہانیاں ہر زبان میں ایک جیسی ہوتی ہیں، کیونکہ دنیا کا ہر انسان خوشی میں مسکراتا اور غم میں اداس ہوتا ہے۔ لکھاری کا کمال ہے کہ وہ اپنی بات کے تاثر کو قاری کے دل تک پہنچائے۔ انہوں نے نئے لکھنے والوں کو نصیحت کی کہ تحریر کو پُرپیچ نہ بنائیں، مرقع و مسجع زبان استعمال نہ کریں بلکہ تحریر سادہ زبان میں ہو اور قاری کے دل پر دستک دے۔ ان کا کہنا تھا کہ قلم ایک مقدس امانت ہے اور ادیب کا کام قاری کو مایوسی کے غار میں دھکیلنا نہیں بلکہ ایک دروازہ یا کھڑکی اور روشن دان کھولنا ہے، ورنہ قاری تو ہوسکتا ہے بہت بن جائیں لیکن معاشرے کے اندر اصلاح کا کام نہیں ہوسکے گا۔
اس علمی وادبی تقریب میں جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کی نائب ناظمہ کوثر پروین صاحبہ، مختلف کالجوں کے اساتذہ کرام، سوشل بلاگر اور ادب سے شناسائی رکھنے والی خواتین نے شرکت کی۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض معروف افسانہ نگار محترمہ راحت نسیم روحیؔ نے انجام دیے۔