نظام تعلیم

گزشتہ دنوں وزیر تعلیم سندھ سردار علی شاہ نے کراچی میں منعقدہ تقریب میں انکشاف کیا کہ صوبے میں ایک لاکھ 35 ہزار اسکول اساتذہ کو ریاضی اور سائنس کے مضامین پڑھانے نہیں آتے۔ یہ افسوس ناک صورتِ حال ہے۔ پورے ملک کا نظام تعلیم ایسا ہے جو ہماری قومی ضرورتوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اپوزیشن اور عوام کے مختلف طبقات کی جانب سے بارہا یہ مطالبہ سننے میں آتا ہے کہ نظامِ تعلیم میں تبدیلی لائی جائے اور اسے قومی تقاضوں کے مطابق کیا جائے۔ وہ کون سے اقدامات ہیں جن سے تعلیمی نظام میں بہتری لائی جاسکتی ہے؟ یہ سوال دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کے ذہن میں کلبلاتا رہتا ہے۔ اگرچہ ہر دورِ حکومت میں تعلیم کی بہتری کے لیے متعدد اقدامات کیے جاتے رہے ہیں، مگر ان کی حیثیت لفظوں پر زیر، زبر اور پیش کی سی ہے، جس سے بنیادی مثبت تبدیلی سامنے نہیں آتی، اور اُس وقت تک نہیں آسکتی جب تک بنیادی تبدیلی نہیں کی جاتی۔ اس کام کے لیے ماہرین پر مشتمل قومی تعلیمی کمیشن تشکیل دیا جائے جو تمام حلقوں کی تجاویز اور قومی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سفارشات حکومت کو پیش کرے، اور وفاقی وصوبائی دونوں حکومتیں ان سفارشات کو مکمل طور پر نافذ کریں، اور ان سفارشات کا مستقبل بھی ماضی کے تعلیمی کمیشن کی سفارشات کی طرح نہ ہو۔ ماضی کے تعلیمی کمیشن کی بیشتر سفارشات اپنی اہمیت و افادیت کے لحاظ سے آج بھی قابلِ عمل ہوسکتی ہیں۔ چند تجاویز یہ ہیں:
٭ تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کا کم ازکم پانچ فی صد مختص ہو، اور اسے بتدریج بڑھایا جائے۔
٭محکمۂ تعلیم میں سیکریٹری کی سطح تک تمام تقرریوں اور ترقی کے لیے صرف اساتذہ ہی میں سے میرٹ پر انتخاب ہو۔ میل اور فی میل کوٹے کے سوا کوئی کوٹہ نہ ہو۔
٭تمام بھرتیاں حتیٰ کہ نان ٹیچنگ اسٹاف تک کے لیے زیادہ تعلیم یافتہ شخص کو ترجیح دی جائے اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے تقرری عمل میں لائی جائے۔ اگلے گریڈ میں ترقی کے لیے سینیارٹی کے بجائے کمیشن کا امتحان لازمی ہو۔ البتہ سینیارٹی کی بنیاد پر مراعات دی جانی چاہئیں۔
٭نئے اور پرانے اساتذہ دونوں کے لیے ٹریننگ کورس لازمی ہوں۔
٭ہر استاد کو اس کے گھرکے قریب پوسٹنگ دی جائے۔ یہ صرف پوسٹ کی دستیابی کی صورت میں ہونا چاہیے، ورنہ اسکولوں میں ضرورت سے زائد اور بعض میں ضرورت سے کم اساتذہ ہوتے ہیں، یہ صورتِ حال اپنے اضلاع اور شہر میں پوسٹنگ کے لیے رشوت دینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
٭پرائمری سے جامعات تک سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں ذریعۂ تعلیم صرف اردو زبان ہونی چاہیے تاکہ تمام مضامین کی تدریس اردو میں ہوسکے۔ اردو کی بہترین تدریس کے لیے عربی اور فارسی اختیاری مضمون ہونے چاہئیں۔ انگریزی، چینی، فرانسیسی، جرمن اور دیگر زبانوں کا ایک اختیاری مضمون جامعات میں ہونا چاہیے۔
٭حکمران طبقہ، اہلِ سیاست، جج، بیوروکریسی، عسکری اور سرکاری ملازمین ریاست کی پالیسی سازی میں حصے دار ہیں، یہ اپنے بچوں کو سرکاری درس گاہوں میں بھیجنے کے پابند ہونے چاہئیں تاکہ نظام تعلیم کی کوئی خامی یا کمی ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہو۔
٭ٹیوشن اورکوچنگ سینٹروں پر مکمل پابندی ہو۔ یہ ٹیوشن اور کوچنگ سینٹر تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر بری طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کو وزارتِ عظمیٰ سے محض اس لیے استعفیٰ دینا پڑا کہ انھوں نے اپنے بچوں کے لیے کوچنگ کا بندوبست کیا تھا، گویا وزیراعظم نے اپنے ہی ملک کے نظام تعلیم پر اعتراض کیا۔
٭تمام تعلیمی اداروں کو آن لائن کرکے ان کی جملہ تفصیلات مشتہر کی جائیں۔
٭شرح خواندگی بہتر بنانے کے لیے تعلیمی اداروں کے کتب خانوں کی دسترس عام ہونی چاہیے۔ آج کل لائبریریوں سے طلبہ کو کتب کا اجرا ہی نہیں ہوتا۔ لائبریریوں میں بندکتابیں طالب علموں کی متلاشی رہتی ہیں۔ اسکولوں اورکالجوں کی لائبریریاں طلبہ کی چھٹی کے ساتھ ہی بند ہوجاتی ہیں۔ بنا کسی اضافی وسائل کے لائبریریوں کوکم ازکم آٹھ گھنٹے تک کھلا رکھا جاسکتا ہے۔ مزید دلچسپی سے شفٹوں میں لائبریریوں سے طلبہ اور عام شہریوں کو استفادے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔ محکمہ ٔ تعلیم اپنے وسائل سے دنیا بھر میں اشاعت پذیر ہونے والی شاہکارکتابوں کو اردو میں منتقل کرانے کی پالیسی بنائے۔
٭ اخبارات اور رسائل فروغِ علم کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔ مسلسل خریداری سے ان کی اعانت کی جائے۔
٭تعلیمی عمل میں معاونت کے لیے فلمیں، دستاویزی فلمیں، ڈرامے، وڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے کام کیا جائے۔
حسن راشد
لیکچرر گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی حیدرآباد

کلکی اوتار

مکرمی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تازہ فرائیڈے اسپیشل (۲۲؍ مارچ۲۰۱۸ء) میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کالم بہ عنوان ’’بھارت میں شائع ہونے والی کتاب کالکی اوتار“ نقل کیا گیا ہے۔ کتاب کے حوالے سے دیے گئے کالم کے مندرجات اپنی جگہ بالکل درست ہیں، البتہ کالم کے آغاز میں کتاب کو حال میں شائع ہونے والی قرار دیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔
کتاب کے مصنف پنڈت وید پرکاش اپادھیائے کی کتاب ’کلکی (نہ کہ کالکی) اوتار اور محمد صاحب‘ کا پہلا ایڈیشن ۱۹۶۹ء کے اواخر میں ہندی زبان میں شائع ہوا تھا۔ اس پر ایک مخصوص حلقے نے مصنف کو بہت ہی برا بھلا کہا تھا، تاہم وہ مصنف کی کسی بات کو دلائل سے غلط ثابت نہ کرسکے۔ کتاب کا اردو ترجمہ ۱۹۷۰ء کے اوائل میں پہلے ماہ نامہ زندگی، رامپور میں شائع ہوا، پھر جلد ہی وہ کتابی شکل میں آگئی اور تب سے مستقل شائع ہوتی چلی آرہی ہے۔ لہٰذا اسے حال کی تصنیف قرار دینا درست نہیں۔
مجلے کے ۸؍ مارچ کے شمارے میں تبلیغی جماعت پر کتاب پر تبصرے کے ضمن میں تبصرہ نگار نے ملک نصر اللہ خاں عزیز کا مشہور شعر

مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

کو علامہ اقبال سے منسوب کردیا ہے۔ نیز ’مری‘ اور ’ترے‘ کو ’میری‘ اور ’تیرے‘ لکھ کر مصرع کو وزن سے ساقط کردیا گیا ہے۔
والسلام
رضوان احمد فلاحی، لندن