کلکتہ میں اردو کے نادر ذخائر

کتاب : کلکتہ میں اردو کے نادر ذخائر، ایشیاٹک سوسائٹی اورنیشنل لائبریری کے اردو مخطوطات
تحقیق : ڈاکٹر معین الدین عقیل
صفحات : 170، قیمت 200 روپے
ناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلسِ ترقیِ ادب
2 کلب روڈ، لاہور
فون : 042-99200856-99200857
ای میل : majlista2014@gmail.com
ڈاکٹر معین الدین عقیل حفظہ اللہ کا مزاج تحقیقی ہے، وہ تحقیق اور متعلقاتِ تحقیق کے لیے نوادر پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس مرتبہ انہوں نے کلکتہ میں اردو کے نادر ذخائر کی طرف عنانِ تحقیق موڑی ہے۔ تحریر فرماتے ہیں:
’’عہدِ جدید کے نوآبادیاتی جنوبی ایشیا میں، مغرب سے قریبی روابط کے اثرات نے جن شہروں کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کو سب سے زیادہ متاثر کیا، بلکہ فی الحقیقت ان شہروں میں جس ایک نئے شہر اور اس میں ایک نئی تہذیبی زندگی کی صورت گری کی، وہ کلکتہ تھا۔ 1757ء میں بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ کی انگریزوں سے شکست کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ کو اپنا صدر مقام بنالیا جس کے زیرِ اقتدار و زیرِانتظام اس شہر کی تہذیبی و معاشرتی دنیا ہی بدل گئی۔ چند ہی دہائیوں میں اس خطے کا کوئی شہر اس کی ہمسری کے قابل نہ رہا۔ انگلستان کی طرز پر کمپنی کے دفاتر و عمارات اور سڑکوں و شاہراہوں اور رہائشی مکانات کی تعمیرات نے ظاہری شکل و صورت میں اسے یکسر ایک نئے اور جدید تر شہر کی صورت دے دی کہ ان تعمیرات کے سبب یہ ’’شہرِ محلات‘‘ کہا جانے لگا۔ پھر علمی و تعلیمی اداروں، بمثل مدرسۂ عالیہ، مشنری اداروں، ایشیاٹک سوسائٹی اور مطابع کے قیام اور ان کی سرگرمیوں نے اسے تہذیبی اعتبار سے بھی اس ممتاز و مختلف حیثیت سے نوازا کہ اگلی پوری ایک صدی بھی اس کا کوئی ہمسر پیدا نہ کرسکی، تاآں کہ خود انگریزوں نے دیگر پرانے شہروں کو نئی شکل دینا شروع کردی۔ جدید علمی و تعلیمی اداروں کے قیام اور مطابع کے آغاز اور طباعتی سرگرمیوں کے سبب یہ شہر اس پورے خطے کے لیے علم و فن کے احیا و فروغ کے لیے بھی ایک محرک و مرکز بن گیا۔ مطابع کے قیام اور ان کی اشاعتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایشیاٹک سوسائٹی کا قیام اور اس کے اغراض و مقاصد اور ان کے فروغ نے سارے ہندوستان میں مطالعہ و تحقیق اور خاص طور پر تاریخ نویسی کی، اور پھر فورٹ ولیم کالج کے قیام اور اس کی تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں نے مقامی ہندوستانی زبانوں میں ترقی و فروغ کی جو فضا پیدا کردی، اس نے ایک علمی و تہذیبی انقلاب کی سی صورتِ حال پیدا کردی، اور ان تہذیبی سرگرمیوں کے باعث ہندوستان اپنے عہدِ قدیم سے عہدِ جدید میں قدم رکھنے کے لائق ہوگیا۔
1910ء میں دہلی کے دارالحکومت بنائے جانے تک، کہ جب تک یہ شہر برطانوی نوآبادیاتی اقتدار کا مرکز رہا، اس عرصے کی اس کی تہذیبی و معاشرتی زندگی متعدد عمدہ مطالعات اور تجزیوں کا موضوع بنی رہی، اور انتہائی معلوماتی اور پُرمغز کتابیں اور مقالات اس ضمن میں سامنے آتے رہے ہیں۔ انتہائی جامعیت سے، ایک عرصے قبل تک، جو مطالعے سامنے آئے ہیں، ان میں سے منتخب مطبوعات کا ایک اندازہ راقم کے اس مقالے کے مآخذ اور فہرستِ محولہ سے کیا جاسکتا ہے جو اگلے صفحات میں شامل ہے، لیکن اس کے بعد اب تک کئی عمدہ اور جامع مطالعات منظرعام پر آئے ہیں اور ایشیاٹک سوسائٹی کے قیام کے پس منظر اور اس کی سرگرمیوں اور کلکتہ کی اُس وقت کی تہذیبی زندگی کے تعلق سے متعدد تازہ مطالعے سامنے آئے ہیں، جیسے :Sir William jones, A Reader ، مرتبہ ستیا اے پاچوری، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1998ء، The British، Bengal 1740-1828، Bridgehead: Eastern India، از پی۔ جے۔ مارشل، کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1987ء، یہ ان پر مستزاد ہیں جو قبل ازیں خصوصاً British Orientalism and the، Bengal Renaissance:The Dynamics of indian Modernization 1773-1835، از ڈیوڈ کوف، پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1969ء، یا Intellectual and Cultural Charateristics of Indian in a Changing Era. 1740-1800 ، از جورج ڈی بییرس، مشمولہ: Journal of Asian Studies، جلد 25، شمارہ1،ص 17-3، The Asiatic Society of Bengal and the Discovery of India’s Past، از اوپی کجریوال، دہلی 1988ء کی صورت میں سامنے آئے تھے۔ ایسے مطالعات کا ایک اندازہ ان سے لگایا جاسکتا ہے۔
ان حالات کے تناظر میں ایشیاٹک سوسائٹی نے مطالعات کی اپنی قائم کردہ روایات کے باعث ہندوستان میں جو علمی انقلاب برپا کیا اس میں اُس کی مطالعاتی و تحقیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اُس کا قائم کردہ کتب خانہ بھی اس روایت کے فروغ کا مصدر و سبب بنا ہے۔ علوم شرقیہ اور مسلمانوں کی تاریخ نویسی نے اس سوسائٹی اور اس کے کتب خانے اور اس کے شعبہ مطبوعات سے جو فیض پایا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ اس کے کتب خانے میں محفوظ عربی، ترکی، فارسی اور اردو زبانوں کے قیمتی و نادر مخطوطات ان مطالعات اور مطبوعات کے لیے اہم مآخذ بنے ہیں۔ اس میں موجود ذخائر میں محفوظ عربی و فارسی مخطوطات اور مطبوعات کی فہرستیں سوسائٹی کے اہتمام سے مختلف وقتوں میں مرتب اور شائع ہوتی رہی ہیں، یہاں تک کہ سوسائٹی کے کتب خانے میں موجود اردو مطبوعات کی فہرستیں بھی کئی جلدوں میں شائع کردی گئی ہیں، لیکن اردو مخطوطات کی کوئی مکمل اور جامع فہرست اب تک مرتب و شائع نہ ہوسکی۔ زیرنظر کتاب اس ضمن میں ایک پیش رفت کہی جاسکتی ہے کہ جو سوسائٹی کی جانب سے کسی مکمل اور جامع فہرست کی عدم موجودگی میں انفرادی و بیرونی کوششوں کے سبب موجودہ صورت میں مرتب و شائع ہورہی ہے۔ جو فہرستیں انفرادی کوششوں کے باعث منظر عام پر آئی ہیں ان کا پس منظر اور ان میں شامل مندرجات کی نوعیت آگے ’’تمہید‘‘ میں، اور مذکورہ فہرستیں اگلے صفحات اور ضمیموں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
کلکتہ میں ایشیاٹک سوسائٹی کے کتب خانے کے علاوہ امپیریل لائبریری بھی اہم اور وقیع ذخائر پر مشتمل ہے، جسے نیشنل لائبریری میں ضم کردیا گیا ہے۔ ان کتب خانوں میں بھی اردو مخطوطات موجود ہیں جن کی فہرستیں شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے مختلف وقتوں میں مرتب کرکے مقالات کی صورت میں شائع کی تھیں۔ یہاں انہیں بھی بطور ضمیمہ شامل کردیا گیا ہے تاکہ کلکتہ کے اہم کتب خانوں میں موجود سارے ہی اردو مخطوطات کے بارے میں معلومات یکجا اور عام ہوجائیں۔ ان فہرستوں کی ترتیب و اشاعت کا پس منظر، جو راقم کی دسترس میں رہی ہیں، متعلقہ صفحات میں بیان کیا گیا ہے، لیکن شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی مرتبہ فہرستیں: ’’کلکتہ اور اطرافِ کلکتہ کے کتب خانوں میں محفوظ اردو مخطوطات‘‘، مشمولہ: ’’اردو مخطوطات کی فہرستیں (رسائل میں)‘‘، مرتبہ: ڈاکٹر رفاقت علی شاہد، لاہور اردو اکیڈمی پاکستان۔ اشاعت ِاول: مئی 2000ء، ص 121 تا 142 (حواشی:ص 309 تا314) سے ماخوذ ہے۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی فہرستوں پر حواشی عزیزی ڈاکٹر رفاقت علی شاہد نے تحریر کیے ہیں، جو متعلقہ معلومات و مآخذ کے لیے اہم ہیں، اور جن کی وجہ سے شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی فہرستیں مزید وقیع بن گئی ہیں۔ اسی طرح جمیل نقوی صاحب کی فہرست کے مندرجات پر بھی حواشی لکھنے کی ایک ضرورت موجود تھی جو میری عدیم الفرصتی کے باعث ممکن نہ ہوئی۔
ایشیاٹک سوسائٹی اور نیشنل لائبریری (بشمول امپیریل لائبریری) کے علاوہ فورٹ ولیم کالج کے کتب خانے میں بھی اردو مخطوطات موجود رہے ہیں جو بعد میں ’’نیشنل آرکائیوز‘‘، نئی دہلی میں منتقل کردیئے گئے ہیں۔ ’’نیشنل آرکائیوز‘‘ کی جانب سے فورٹ ولیم کالج کے ان مخطوطات کی فہرست:Catalogue of Manuscripts of the Fort William College Collection in the National Archives of India Library ، مرتبہ: ڈاکٹر آر۔ کے۔ پیرتی، 1989ء (اور مطبوعات کی فہرست: Catalogue of Books of the Fort Willaim College Collection in the National Archives of India Library، مرتبہ: آر۔ کے۔پیرتی، 1984ء مرتب و شائع ہوچکی ہے، اس لیے زیر نظر فہرستوں کے ساتھ کلکتہ کے اردو ذخائر میں اب ان کا شمار اور انہیں شامل کرنا ضروری نہیں تھا۔ اس سے قطع نظر، ایشیاٹک سوسائٹی اور نیشنل لائبریری میں موجود منتخب اردو مخطوطات کی حد تک یہاں شامل یہ فہرستیں، امید ہے کہ اس سوسائٹی کی ایک مکمل اور جامع فہرستِ اردو مخطوطات و نوادرات کی عدم موجودگی میں، اس کی کمی کو پورا کرسکیں گی جو محققین اور ضرورت مندوں کی ایک دیرینہ ضرورت رہی ہیں۔
یہ کتاب ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کی توجہ اور علم و تحقیق سے ان کی نسبتِ خاص کے سبب اور ان کی سرپرستی میں مجلس ترقی ادب سے شائع ہورہی ہے جس پر میں ڈاکٹر تحسین فراقی اور مجلس کا ممنون ہوں‘‘۔
کتاب کے محتویات درج ذیل ہیں:
٭ ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ: مقاصد، قیام اور سرگرمیاں، ہندیات کے مطالعے کا پس منظر، ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کا قیام، ولیم جونز کا کام ہندیات پر، جونز سے قبل ہندیات کے مطالعے کی روایت، جونز کے معاصر مستشرقین، ایشیاٹک سوسائٹی کے اثرات۔
٭ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ کے اردو مخطوطات:
فہرست: سید جمیل نقوی
٭ضمیمے:
ضمیمۂ اول: ایشیاٹک سوسائٹی، کلکتہ کے منتخب اردو مخطوطات۔ ضمیمۂ دوم: ایشیاٹک سوسائٹی اور نیشنل لائبریری کے اردو مخطوطات کی اولین فہرست۔ ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ کے اردو مخطوطات، نیشنل لائبریری کے اردو مخطوطات، بوہارکلیکشن کے اردو مخطوطات، زکریا کلیکشن کے مخطوطات، امپیریل لائبریری کلیکشن، نیشنل لائبریری کلیکشن۔
٭حواشی ڈاکٹر رفاقت علی شاہد
یہ علمی کتابیں بڑی محنت سے تیار کی جاتی ہیں جو علم و تحقیق کے کام کو آسان بنادیتی ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔