ہمارا بڑاالمیہ

ہمارا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے نظریۂ زندگی اور زندگی میں مطابقت کا ہر پہلو غیر موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان نظریے یا عقیدے اور زندگی کی پوری عدم مطابقت کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اسے ان دو غیر متعلق امور میں سے ایک لازماً چھوڑنا پڑتا ہے۔ ابھی وہ صورتِ حال تو نہیں آئی کہ ہم ترک و قبول کے عمل میں ایک حتمی مقام پر پہنچ گئے ہوں، تاہم ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا رخ جس طرف ہوچکا ہے اس کے پیش نظر یہ بات بہت بعید از قیاس نہیں ہے کہ ہم محض زندہ رہنے پر قانع ہوجائیں اور زندگی کے بارے میں تصورات کو فراموش کردیں۔ موجودہ حالات میں ایسا ہوجانا تقریباً یقینی دکھائی دیتا ہے، اور تاریخ و انسان کے مطالعے کا کوئی طریقہ ہمارے اس خوف کو زائل نہیں کرتا کہ مستقبل میں ہم دنیا کو اپنا عَلانیہ مقصود بناکر دین کو ایک غیرضروری رکاوٹ قرار دے کر اسے عین اس طرح نظرانداز کربیٹھیں جس طرح جدید مغرب نے عیسائیت کو کر رکھا ہے۔ اس رویّے میں دین کی اتنی بھی وقعت نہیں پائی جاتی کہ اس کا انکار کرنے کا تکلف پالا جائے، بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ اسے فرد کا ذاتی مسئلہ قرار دے کر زندگی کے مرکزی دھارے سے الگ کردیا جائے۔ فی زمانہ جدید مسلم ذہن اسی روش پر چلنے پر راضی نظر آتا ہے کہ دین ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور اسے کاروبارِ زندگی میں مخل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مشکل یہ ہے کہ ہماری مذہبی فکر اس بات کا ایک تحکمانہ قانونی اور سیاسی جواب دے کر مطمئن ہوجاتی ہے اور یہ نہیں دیکھتی کہ جس ذہن میں ایسا خیال آسکتا ہے وہ بھلا فتوے یا خطاب کو قبول کرے گا؟ احیائے امت کی کسی بھی کوشش میں ابتدائی طور پر ہی اس روزافزوں ذہنیت کا مکمل تجزیہ کرکے اسے ایک گمراہی کے بجائے ایک مرض کے طور پر دیکھنا ہوگا، اور اس کے ازالے کا طریق کار بھی مناظرے کی جگہ معالجے پر مبنی رکھنا ہوگا۔ یہاں معالجے کا مطلب وعظ و نصیحت نہیں ہے بلکہ کسی خرابی کے بنیادی اسباب کی تشخیص کے بعد ان اسباب کا ایسا ازالہ کرنا ہے کہ ان کی دوبارہ پیدائش کا احتمال نہ رہے اور ان کی کشش انسانوں کے اندر سے ختم ہوجائے۔ انسان کا خاصہ ہے کہ اس کی عمومی زندگی کے تقریباً تمام اہداف حق و باطل اور صحیح و غلط کے معیارات پر اتنے استوار نہیں ہوتے جتنے کہ پسند وناپسند پر ہوتے ہیں۔ زندگی انسان کی جس استعداد یا سطح سے فوری اور فطری مناسبت رکھتی ہے وہ ذہن نہیں ہے بلکہ طبیعت ہے۔ یہ قانون مسلمانوں کے لیے بدل نہیں جاتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مسلمات کی قبیل میں رکھ کر اس کی اپنے نظریات کے مطابق تراش خراش کی جائے، یعنی مسلم نشاۃ الثانیہ اگر ایک سلسلہ عمل ہے تو اس سلسلے کی ابتدائی کڑیوں میں سے ایک کڑی یہ ہے کہ زندگی اور طبیعت کا جبری تلازم پورے انسان اور پوری زندگی پر حاوی نہ آجائے، یعنی مسلمان اپنے منہاجِ حیات میں طبیعت تک محدود ہوکر نہ رہ جائے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ طبیعت کو نظرانداز کرکے آدمی کے اندر ذہنی یا اخلاقی مقاصد سے مستقلاً وابستہ رہنے کی قوت باقی نہیں رہتی، چونکہ منہا ہوجائے تو بڑی سے بڑی چیز بھی اپنی کشش کھو بیٹھتی ہے اور محض اس کی بڑائی کا ادراک انسان کو اس کے ساتھ جوڑے نہیں رکھ سکتا۔ ہماری اولین ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنے عقیدے کے عملی اور اطلاقی مظاہر کو انسانی نفس اور طبیعت کے لیے ہی قابلِ قبول بنادیں تاکہ حق کے ساتھ ہماری وابستگی کی قوت میں ضعف نہ پیدا ہوجائے۔
اس انتہائی بنیادی ضرورت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل امورکو خوب غوروفکر کے ساتھ پیش نظر رکھا جائے:
٭ دین کی دنیاوی افادیت بھی ثابت کی جائے، علمی سطح پر بھی اور عملی سطح پر بھی۔
٭ قرآن و سنت سے بلاتاویل مستنبط ہونے والے تصورِ انسان کو انسان فہمی کے مروجہ معیارات پر حقیقی بناکر دکھایا جائے اور انسانیت کے اس ٹائپ کو معاشرے میں مدارِ فضیلت بنایا جائے۔
٭وہ علوم جو کائنات اور انسان کی حقیقت سے بحث کرتے ہیں، انہیں دین کی ثابت شدہ غایات اور مقاصد کے اس طرح تابع رکھا جائے کہ ان علوم کے اپنے اپنے معیارات پر کوئی ضرب نہ لگے۔ مثال کے طور پر نفسیات وغیرہ میں ان تحقیقات کی کوئی حیثیت نہیں جو اس علم کے مسلّمہ معیار سے کمتر ہیں۔ ہمارے دور میں اسلامائزیشن آف نالج کی کوششیں اسی لیے دین کی سبکی کا سبب بنی ہیں کہ انہوں نے تمام علوم پر اناڑیوں کی طرح دست اندازی کی ہے۔ انسان کی دنیاوی فلاح کے لیے قائم کیا جانے والا ہر نظام واضح طور پر دینی اساس پر مبنی ہونا چاہیے، اور وہ اساس محض قانون کے دائرے تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔
٭مسلم نشاۃ الثانیہ کا تصور جن اغراض سے پھوٹا ہے اُن میں ایک کڑی غرض مسلمانوں کے مفوضہ کائناتی کردار کی باز آفرینی ہے، یعنی ہم ساری دنیا کے لیے داعی الی الحق بنیں۔ اس دعوت کی داخلی بناوٹ علمی سے زیادہ عملی، اور نظریاتی سے زیادہ معاشرتی ہونی چاہیے۔ دین کو معاشرت میں منتقل کیے بغیر نشاۃ الثانیہ کا ہر تصور مہمل ہے۔
(احمد جاوید)

وہی میری کم نصیبی

وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی!
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی!
میں کہاں ہوں تُو کہاں ہے؟ یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟
یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی؟
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی!
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی
نہ زباں کوئی غزل کی، نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دل کشا صدا ہو، عجمی ہو یا کہ تازی!
نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی، وہ نگہ کی تیغ بازی!
کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی!

۔1۔ میں نے شعر گوئی میں جو کمال حاصل کیا ہے وہ میرے کسی کام نہ آیا۔ اس لیے کہ اے محبوبِ حقیقی! میں جیسا پہلے کم نصیب تھا ویسا ہی اب ہوں، اور تیری بے نیازی کی جو شان پہلے تھی وہی اِس وقت ہے۔ 2۔ مجھ پر یہ بھید اب تک نہ کھلا کہ میں کہاں ہوں اور تُو کہاں ہے؟ جس دنیا میں میرا بسیرا ہے اسے مکان سمجھنا چاہیے کہ لامکاں؟ اس دنیا کا وجود میرے حواس کا نتیجہ ہے یا اسے تیری کرشمہ سازی سمجھا جائے؟ 3۔ میری زندگی کی راتیں کشمکش ہی میںگزر گئیں۔ کبھی دل مولانا رومؒ کے سوزوساز کی طرف مائل ہوجاتا تھا اور کبھی امام رازیؒ کی فلسفیانہ موشگافیوں کی طرف۔ 4۔ جو فریب کھایا ہوا شہباز گِدھوں میں پل کر جوان ہوا ہو، وہ شہبازی کے طور طریقوں سے کیا آگاہ ہوسکتا ہے؟ 5۔ مجبوب کی ادائیں بیان کرنے کے لیے زبان کی کوئی قید نہیں، اور میں زبان سے واقف بھی نہیں۔ مجھے تو وہ نغمہ چاہیے جس سے دل کا کنول کھلے، خواہ وہ نغمہ فارسی زبان کا ہو یا عربی زبان کا۔ 6۔ فقیری اور بادشاہی میں کوئی لمبا چوڑا فرق نہیں۔ بادشاہی لشکروں کی تیغ زنی کا نتیجہ ہوتی ہے اور فقیروں کی نظر تلوار چلاتی ہے، یعنی بادشاہ سپاہ کی بدولت لوگوں پر حکمرانی کرتے ہیں، فقیر اور درویش اپنے فیضِ نظر کی برکت سے دل میں حکومت کے تخت بچھاتے ہیں۔ 7۔ مسلمانوں کی حالت کیا ہے؟ کوئی جماعت سے تعلق توڑے بیٹھا ہے، کسی کے دل میں حرم یعنی مرکزِ اسلام سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہے۔ کبھی سوچا کہ اس پریشان حالی کا سبب کیا ہے؟ یہ کہ جس شخص کے ہاتھ میں قوم کی باگ ہے اور جو قافلے کا سالار ہے، اس میں دلوں کو موہ لینے کی خصلت موجود نہیں۔