پی ایس ایل فور، کوئٹہ فاتح

نیشنل اسٹیڈیم میں پی ایس ایل فائنل کے آغاز پر ناچ، گانے اور آتش بازی کے ذریعے عیسائی دہشت گردوں کے جشنِ طرب میں حصہ لیا گیا؟۔

کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مابین فائنل مقابلے کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ اتوار 17 مارچ کو کھیلے گئے اس میچ میں پشاور زلمی کو آٹھ وکٹ سے شکست دے کر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پہلی بار پی ایس ایل چیمپئنز ٹرافی جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ فاتح ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے جو پاکستان کی قومی ٹیم کی کپتانی سے بھی سرفراز ہوچکے ہیں، ٹاس جیت کر مدمقابل پشاور زلمی کی ٹیم کو پہلے بلے بازی کی دعوت دی، جو مقررہ بیس اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر صرف 138 رنز بنا سکی۔ جواب میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے صرف دو وکٹوں کے نقصان پر اٹھارہویں اوور میں یہ ہدف حاصل کرکے ٹرافی اپنے نام کرلی۔
صحت مند معاشرے کی تشکیل اور تندرست زندگی گزارنے کے لیے کھیلوں کی اہمیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا، اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے رجحان کے باعث خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں جسے طویل عرصے سے عالمی اور علاقائی دشمنوں کی جانب سے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا چلا آرہا ہے، کھیلوں کے اس قسم کے مقابلے اس لیے بھی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں کہ ان کے پُرامن ماحول میں انعقاد سے ملک میں امن و استحکام کا تاثر مستحکم ہوتا ہے اور دشمن کا ایجنڈا ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔ ہمارے ازلی دشمن نے دس برس قبل اپنے مذموم ایجنڈے کے تحت پاکستان کے دورے پر آئی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر قذافی اسٹیڈیم لاہور جاتے ہوئے دہشت گردانہ حملہ کرواکر عالمی سطح پر یہ پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان غیر ملکی کھلاڑیوں اور سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ ملک نہیں، اس لیے انہیں اس جانب کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے ازلی دشمن نے اپنے پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانے کے لیے سب سے پہلے اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا، اور پھر بین الاقوامی سطح پر ایسی خوف و ہراس کی فضا پیدا کی کہ دیگر اہم ممالک برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ نے بھی پاکستان سے پاکستانی سرزمین پر طے شدہ مقابلے منسوخ کرتے ہوئے اپنے کھلاڑیوں کے پاکستان جانے پر پابندیاں عائد کردیں۔ پاکستان کے متعلق عالمی سطح پر اس پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے جہاں ایک طرف مسلح افواج اور امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار دیگر اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف نہایت مؤثر کارروائیاں کرکے ملک میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی، وہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کی سرپرستی میں چار سال قبل پاکستان سپر لیگ کے ایک مرحلہ وار پروگرام کا آغاز کیا گیا، جس کے پہلے سیزن کے تمام مقابلے اگرچہ متحدہ عرب امارات میں کرائے گئے، تاہم دوسرے ہی برس اس کے بعض مقابلے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کرانے کا اہتمام کیا گیا۔ ان کو ناکام بنانے کے لیے دشمن نے سرتوڑ کوششیں کیں اور ایک آدھ تخریبی کارروائی کروانے میں کامیابی بھی حاصل کرلی، تاہم مجموعی طور پر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، چنانچہ تیسرے سیزن میں سیمی فائنل لاہور اور فائنل کراچی میں کرایا گیا جس سے اہلِ وطن اور خاص طور پر غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال کے بارے میں اعتماد حاصل ہوا۔ اس اعتماد کے سہارے پی ایس ایل کے چوتھے سیزن کے ابتدائی مقابلوں کے بعد سیمی فائنل اور فائنل جیسے اہم مقابلے اندرونِ ملک لاہور اور کراچی ہی میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے لیے دونوں شہروں میں انتظامات کو حتمی شکل دی جا چکی تھی اور شائقین ان مقابلوں کے تمام ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ خرید کر ان مقابلوں میں اپنی دلچسپی اور کھیلوں سے اپنی پختہ وابستگی کا اظہار بھی کرچکے تھے کہ دشمن نے اس مرحلے پر ایک اور سازش تیار کی اور مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فوج پر خودکش حملے کو جواز بناکر خطے میں شدید سرحدی کشیدگی پیدا کردی، اس کے جنگی طیاروں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے اس صورتِ حال کو مزید خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاک فضائیہ کے جاں بازوں نے اس کا بروقت دندان شکن جواب دے کر اگرچہ دشمن کو پسپائی اور جارحانہ طرزعمل کے بجائے دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کردیا، تاہم پی ایس ایل کی ٹیموں خصوصاً ان میں شامل غیر ملکی کھلاڑیوں کے جان و مال کے تحفظ کے اہم ترمقصد کے پیش نظر عین آخری مرحلے پر لاہور کے میچ بھی کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس سے زندہ دلانِ لاہور کے جذبوں پر اگرچہ اوس پڑ گئی اور ان میں مایوسی دیکھنے میں آئی، تاہم انہوں نے وسیع ترملکی مفاد میں اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرلیا اور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کو پوری قوم نے فی الحقیقت نیشنل اسٹیڈیم کی حیثیت دے دی، اور یوں کراچی میں پی ایس ایل سیزن فور کے مقابلوں میں زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ فائنل اگرچہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے نام رہا، تاہم پورا اسٹیڈیم ابتدا سے اختتام تک ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونجتا رہا اور میدان میں قومی یک جہتی کا بھرپور مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ فائنل میں مدمقابل دونوں ٹیموں کا تعلق کراچی یا سندھ سے نہیں تھا، مگر شائقین نے انہیں بھرپور داد دے کر یہ ثابت کردیا کہ سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے پوری قوم ایک ہے۔
نیشنل اسٹیڈیم میں چوتھے پی ایس ایل فائنل میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے بیک وقت موجود رہ کر قومی اور بین الاقوامی سطح پر مثبت پیغام دیا جو بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا سبب بھی بنا۔ پی ایس ایل کے فائنل میں صدر مملکت نے بطور مہمانِ خصوصی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، گورنر سندھ عمران اسماعیل، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال، وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار خان آفریدی، ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور، ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید اور دیگر وفاقی اور صوبائی وزراء نے خصوصی شرکت کی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پی ایس ایل کا فائنل اسٹیڈیم میں بیٹھ کر ہی دیکھا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے فائنل کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پرانا کراچی واپس آگیا ہے، اسی طرح پرانا پاکستان بھی واپس آئے گا کہ آج کی جیت کراچی والوں کی جیت ہے اور اگلے سال پورے ملک کے لوگ کراچی کی طرح پی ایس ایل کو کامیاب کرائیں گے۔
وزیراعلیٰ سندھ کے اس پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے آئندہ یعنی پی ایس ایل سیزن 5 کے تمام مقابلے پاکستان میں کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستان آن لائن ویزا سروس کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب میں یہ اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان امن کے نئے راستے پر چل پڑا ہے، ہمارے یہاں امن و امان کے مسائل اب نہیں ہیں تاہم بھارت کے انتخابات کی وجہ سے شاید تھوڑا بہت مسئلہ پیدا ہو، کیونکہ بھارت میں انتخابات نفرتوں کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں۔ وزیراعظم نے ہمسایہ ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے جس خدشے کا اظہار کیا ہے وہ یقیناً اپنی جگہ اہم اور جواز کا حامل ہے، تاہم ان کا آئندہ سپر لیگ ملک کے اندر کرانے کا اعلان خوش آئند اور امن و امان کی صورتِ حال پر ان کے اعتماد کا مظہر ہے۔ ان کا یہ دلیرانہ اعلان اہلِ وطن کو بھی ایک نیا حوصلہ اور اعتماد بخشے گا اور عالمی سطح پر بھی اس کے مثبت، مفید اور حوصلہ افزا نتائج سامنے آئیں گے۔ اس جرأت مندانہ اعلان پر عمل درآمد سے جہاں ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی آمد اور بحالی کا راستہ ہموار ہوگا، وہیں یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی اچھے اثرات مرتب ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پی ایس ایل کے بخیر و خوبی تکمیل پذیر ہونے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مجموعی طور پر ایک فضا کی تشکیل میں مدد ملی ہے، تاہم اس ضمن میں منتظمین کی اس منفی سوچ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کھیل جیسے ایک تعمیری اور مثبت کام کو بھی انہوں نے ملک میں عریانی، فحاشی اور بے حیائی کے فروغ کا ذریعہ بنادیا ہے۔ کیا اس مقصد کے لیے ہمارے ذرائع ابلاغ کچھ کم تھے جو اسی مقصد کی خاطر وقف شدہ تفریحی چینلز کے علاوہ ’’نیوز‘‘ کے لیے مختص چینلوں کو بھی ناچ، گانے، فحاشی اور بے راہ روی کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے… اور ’’خبر‘‘ کے نام پر بھی وہ وہ گل کھلاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
پی ایس ایل کے منتظمین نے ان ذرائع ابلاغ سے بھی دو قدم آگے بڑھاتے ہوئے پہلے متحدہ عرب امارات میں پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب کے نام پر بے غیرتی و بے حیائی کے وہ مظاہر دکھانے کا اہتمام کیا کہ شریف لوگ توبہ توبہ کرتے رہ گئے، اسی طرح کراچی میں اختتامی تقریب کے نام پر بھی ’’ہائو ہو‘‘ کا بھرپور تماشا دکھانے کا اہتمام تھا، مگر نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں ایک عیسائی دہشت گرد کی جانب سے 50 بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کو عین حالتِ نماز میں شہید کیے جانے کے سبب اسے منسوخ کرنا پڑا، مگر اس کے باوجود معلوم نہیں کیوں دہشت گردوں کے جشنِ طرب کا حصہ بنتے ہوئے نیشنل اسٹیڈیم میں فائنل کے آغاز پر نہ صرف زبردست آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا بلکہ ابرارالحق نے ’’نچ پنجابن نچ‘‘ کی دھن پر قومی غیرت کا جنازہ نکالا۔ ساحر علی بگا، آئمہ بیگ، فواد خان اور جنون گروپ کے مجنوئوں نے بھی تیز دھنوں اور کانوں کے پردوں چیرتی ہوئی موسیقی میں ناچ گانے اور اچھل کود کی صورت میں کرائسٹ چرچ کی مساجد میں پاکستانی اور دوسرے مسلمان ممالک کے مسلمانوں کی شہادت کا جشن منایا… جب کہ میچ کے آغاز پر فاتحہ خوانی، قرآن خوانی یا دعائے مغفرت کے بجائے ایک منٹ کی خاموشی اختیارکرکے اسلام میں تعزیت کی ایک نئی رسم کو متعارف کرایا گیا، اور یہ سب اس ملک میں روا رکھا گیا جسے اسلام کی عملی تجربہ گاہ بنانے کے لیے اَن گنت جانوں، عزتوں اور آبروئوں کی قربانی کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ ربِّ قہار کے عذاب کو دعوت دینا اور کسے کہتے ہیں…؟