معاشی طوفان کی آمد

ایف اے ٹی ایف مذاکرت کے سائے میں بجٹ کی تیاری

آئندہ ہفتے پوری قوم 79 واں یوم پاکستان منائے گی۔ یہ آٹھ عشروں پر محیط سیاسی تاریخ کا جائزہ لینے اور احتساب کا دن بھی ہے، لیکن جس طرح ماضی میں یومِ پاکستان گزرے، اسی طرح اِس بار بھی یہ دن گزر جائے گا۔ عددی اعتبار سے تحریک انصاف کی حکومت ملک میں گیارہویں جمہوری حکومت ہے۔ تحریک انصاف کو انتخابات میں عوام نے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیے لیکن تبدیلی نہیں آئی۔آئین میں درج ہے کہ اسلام ملک کا سرکاری مذہب ہوگا، خارجہ پالیسی آزاد اور برابری کی بنیاد پر ہوگی، مسلم دنیا پہلی ترجیح ہوگی، ہر شہری کو سیاسی، سماجی اور معاشی انصاف مہیا ہوگا۔ لیکن حقیقی معنوں میں ان میں سے کوئی ایک بھی میسر نہیں۔ معیشت کا حال یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ملک پر اٹھائیس ہزار ملین ڈالر کے غیر ملکی قرض کا بوجھ لادا جا چکا ہے۔ اس تحریک انصاف کے تین ہزار ملین ڈالر کا قرض بھی اس میں شامل ہو چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اِس وقت روزانہ 127 کروڑ روپے کا قرض قوم پر لادا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ اور ملک کی ہائی کورٹس سمیت ماتحت عدالتوں میں لاکھوں زیر التوا مقدمات انصاف کی عدم فراہمی پر مہر ثبت کررہے ہیں، خارجہ پالیسی کا عالم یہ ہے کہ پاکستان او آئی سی کا بانی رکن ہے مگر بھارت کو اس فورم پر پاکستان کے تحفظات کے باوجود مدعو کیا گیا۔ ہماری صنعتیں اور زراعت بے تحاشہ پیداواری لاگت کے باعث بحران کا شکار ہیں۔ ان سب مسائل کے حل کے لیے پاکستان کو پائیدار اور باضابطہ سماجی واقتصادی ترقی کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے عدل و انصاف پر مبنی متوازن اور ترقی یافتہ معاشرے کی طرز کا لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔ ہمیں دو راستوں کو اپنانا ہوگا، پہلا راستہ زراعت کی بحالی کا ہے جس سے دیہی علاقوں میں غربت ختم کرنے اور آمدنی میں اضافے میں مدد ملے گی۔ دوسرا راستہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات سازی ہے۔ ہماری حکومت اور پالیسی ساز سی پیک کو گیم چینجر قرار دے رہے ہیں، لیکن اس بات کو سمجھنے کے لیے کوئی تیار نہیں کہ چین نے ترقی کیسے کی؟ چین نے تیس سال قبل ایک منظم لائحہ عمل بنایا اور پھر اس پر کسی رکاوٹ کے بغیر عمل بھی کیا۔ آج چین کی ترقی دنیا کے سامنے ہے۔ اس نے اِس لائحہ عمل کے مطابق اپنے منتخب دس لاکھ سے زائد نوجوان طلبہ و طالبات کو تحقیق اور تربیت کے لیے یورپ، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں بھیجا اور ملک میں تحقیقی ادارے بنائے۔ آج چین غریب ملک نہیں بلکہ ایک اقتصادی طاقت بن چکا ہے اور امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
دو ماہ کے بعد حکومت اپنا پہلا باضابطہ بجٹ دینے والی ہے، وزارتِ خزانہ میں بجٹ کی تیاری کا کام جاری ہے، بجٹ سفارشات کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ یہ بجٹ ہمارے پاس موجود زرمبادلہ کی قوت کی بنیاد پر ہی بنے گا جس میں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کم و بیش سات ارب ڈالر ادھار کے طور پر رکھوائے ہوئے ہیں جنہیں ہم استعمال نہیں کرسکتے، تاہم اس رقم پر ہم سود ادا کرنے کے پابند ہیں۔ یو اے ای کو تین ارب ڈالر فراہم کرنے تھے لیکن اُس نے ایک ارب ڈالر دیے ہیں، اور مزید کی ادائیگی کے لیے اس نے پاک سعودی عرب معاہدے کی تفصیلات مانگی ہیں، یہ تفصیلات فراہم نہ کرنے پر اس نے معذرت کرلی۔ اب حکومت نے چین سے رجوع کیا ہے جو دو ارب ڈالر چھے فی صد شرح سود پر دینے پر آمادہ ہوا ہے۔ یہ رقم مل گئی تو ہمارے لیے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی آسان ہوجائے گی، ورنہ ڈالر کا ریٹ طلب میں اضافے کے باعث بڑھ سکتا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے حال ہی میں ملک میں مہنگائی بڑھ جانے کی جو نشاندہی کی، یہی اصل معاملہ ہے۔
ایک مشکل محاذ ہمارے سامنے پاکستان اور ایف اے ٹی ایف ایشیا پیسفک گروپ کے درمیان مذاکرات سے متعلق ہے۔ یہ مذاکرات 26 سے 28 مارچ کو اسلام آباد میں ہورہے ہیں۔ گروپ کو مطمئن کرنے کی صورت میں پاکستان کو ایک نئے ایکشن پلان سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان اور ایشیا پیسفک گروپ کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والے تین روزہ مذاکرات کے ایجنڈے کے مطابق اجلاس میں دوسری میوچل ایوالیوشن رپورٹ کے مسودے، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اب تک کے انتظامی اور قانونی اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ایشیا پیسفک گروپ کے 9 رکنی وفد کی سربراہی ایگزیکٹو سیکریٹری گارڈن ہک کریں گے، جبکہ وفد میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کے این کولنز، امریکی محکمہ خزانہ کے جیمز پروسنگ، مالدیپ کے فنانشل انٹیلی جنس یونٹ کے اشرف عبداللہ، انڈونیشیا کی وزارتِ خزانہ کے بوبی وہایو، پیپلز بینک چین کے گانگ یانگ، ترکی کی وزارت انصاف کے مصطفی نیکما دین، ڈپٹی ڈائریکٹر محمد الراشدان اور ڈپٹی ڈائریکٹر شینان ردر فورڈ شامل ہوں گے۔ ایشیا پیسفک گروپ کا وفد وزارتِ خزانہ، اسٹیٹ بینک، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، ایس ای سی پی، ایف بی آر، ایف آئی اے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت دیگر متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کرے گا۔
اس پس منظر میں حکومت بجٹ تیار کرنے جارہی ہے۔ اگر حکومت ادھار کے ان سات ارب ڈالرز کو ذہن میں رکھ کر بجٹ تیار کرے گی تو بہت بڑا بحران اور معاشی طوفان ہمیں آن گھیرے گا، اور اگر اس رقم کے بغیر بجٹ تیار ہوا تو قوم نئے ٹیکسوں اور محصولات کے لیے تیار رہے۔ معیشت میں زبوں حالی کی کیفیت خواہ سابق حکمرانوں کی ناقص کارکردگی کا نتیجہ ہو یا اِس کی وجوہ کچھ اور ہوں، پچھلے سات ماہ سے معیشت کی حالت بہتر بنانا موجودہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ ان تین ممالک سے ملنے والی رقوم وقتی ریلیف دینے اور معیشت کو دیوالیہ پن سے بچانے کا ذریعہ تو ہیں مگر طویل ضرب تقسیم کے عمل کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پاس جانے کی ضرورت کئی چیلنجوں کی سنگین تر صورت حال کی نشاندہی کرتی محسوس ہورہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اب نیا ایف بی آر بنانے کا انتباہ دے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں ایف بی آر نے ایک لاکھ 52 ہزار بیرون ملک پاکستانیوں کے اکائونٹس کی تفصیلات حاصل ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ نیا ایف بی آر بنانے کی بات بھی اس انکشاف کے بعد کی گئی ہے۔ ایف بی آر سے متعلق پالیسی اور ایڈمنسٹریشن کے انتہائی ضروری گرائونڈ ورک میں پہلے سے ہوچکی 6 ماہ کی تاخیر میں مزید توسیع مشکلات پیدا کرے گی۔
موجودہ حکومت جب سے قائم ہوئی ہے، آئین کی اٹھارہویں ترمیم پر تحفظات ظاہر کررہی ہے کہ اس کے سبب زیادہ تر وسائل صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں، وفاق کی آمدنی کم اور اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ لہٰذا حکومت چاہتی ہے کہ یہ ترمیم واپس ہونی چاہیے، لیکن صوبائی خودمختاری کا حامی سیاسی طبقہ اس راستے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ یہ کشمکش ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا نہیں ہونے دے رہی۔ اس کشمکش میں ایک تیسری سوچ ابھر رہی ہے کہ ملک میں تکنیکی ماہرین پر مشتمل حکومت قائم ہونی چاہیے۔ تجویز دی جارہی ہے کہ ہر شعبے کے لیے ملک کے اعلیٰ ترین ماہرین کو وفاقی و صوبائی سیکریٹری کے طور پر مقرر کیا جائے اور ہر وزارت کی اپنی ٹاسک فورس بنائی جائے، نجی شعبے سے 15 سے 20 بہترین ماہرین شامل کیے جائیں۔ یہ ایسی تجویز ہے جس میں حکومت سازی کا اختیار جمہوریت اور رائے عامہ کے بجائے بیوروکریسی کو دیا جارہا ہے۔ اس تجویز کے سامنے ملک کی سیاسی جماعتیں بند باندھنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہیں یا نہیں یہ ایک سوال ہے۔ تاہم اگر ملک میں معاشی، سماجی انصاف اور عدل قائم نہ ہوا تو یہی تجویز جمہور کا مطالبہ بھی بن سکتی ہے۔ ایک تجویز یہ بھی دی جارہی ہے کہ تعلیم کے لیے مختص جی ڈی پی کو ایک فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھایا جائے اورجی ڈی پی کے چھے فی صد تک لے جایا جائے۔ لیکن یہ کام بجٹ میں کٹوتی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ کام رات کے اندھیرے میں شب خون مار کر آنے والے نہیں، بلکہ آئینی اختیار کے ساتھ اقتدار میں آنے والے ہی کرسکتے ہیں۔ تحریک انصاف سے امید کی جاسکتی ہے کہ اسے وقت ملے تو تبدیلی لاسکتی ہے، لیکن نوازشریف سے بلاول بھٹو کی ملاقات کو جب وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چودھری ’بھٹو کے نواسے اور ضیاء الحق کے بیٹے کی ملاقات‘ کا عنوان دیں تو اسے سیاست میں خونیں لکیر کو مستقل قائم رکھنے کی کوشش کے سوا اور کیا نام دیا جائے گا! اسد عمر نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول پر جس انداز سے تنقید کی، بلاشبہ وہ بھدا اور بدصورت مکالمہ تھا۔ بلاول نے جواب میںکہا ’’پہلے انسان بنو پھر سیاستدان۔ بلاول کا یہ جواب تحریک انصاف کی قیادت کو اچھی طرح سمجھ میں آجانا چاہیے۔
اور آخر میں ایک اہم بات کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک کروڑ ملازمتوں اور50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا بھی وعدہ کر رکھا ہے۔ ’’نیا پاکستان پروگرام‘‘ پر عمل درآمد کے لیے اسٹیٹ بینک کے گورنر نے ایک تقریب میں کمرشل بینکوں کے لیے فنانس پالیسی کے چیدہ چیدہ نکات کی وضاحت کی ہے۔ وزیراعظم بھی تقریب میں موجود تھے۔ انہوں نے مکانات کی تعمیر حکومت کا ’’فلیگ شپ‘‘ منصوبہ قرار دیا کہ بڑھتی آبادی کے پیش نظرکثیرالمنزلہ عمارات تعمیر کی جائیں گی اور کچی آبادیوں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دیے جائیں گے، ان زمینوں پر فلیٹس تعمیر کیے جائیں گے۔ گھر کی تعمیر کے لیے بینک سے قرضے کی حد 27 لاکھ روپے تک ہوگی۔ بیوائوں، یتیموں، شہدا کے بچوں اور خصوصی افراد کے لیے خصوصی فنانسنگ کی جائے گی۔ کم آمدنی والے طبقات کے لیے مکان بنانے کے بارے میں سوچنا بھی سوہان روح ہے، اس لحاظ سے حکومت کا نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام بہت اچھا منصوبہ ہے، لیکن اسے تعمیرات کے شعبے میں کام کرنے والے ایک خاص مافیا کے حوالے کیوں کیا جارہا ہے؟

اسٹابلشمنٹ اور آصف زرداری پیغام رسانی؟

ایک اطلاع کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے آصف علی زرداری کو پیغام بھیجا ہے کہ احتساب کے پیچھے کوئی اور نہیں وزیراعظم عمران خان خود ہیں، آصف علی زرداری نے بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد اور بعد میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ دے کر ڈیل کی تھی، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لیکن اب آصف علی زرداری پریشان ہیں کہ ان کا بھی احتساب کیا جارہا ہے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام بھی بھیجا اور سوال کیا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ جس پر انہیں بتایا گیا ہے کہ احتساب میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ہے، بلکہ سب کچھ عمران خان کروا رہے ہیں۔ ایک دوسری اطلاع یہ ہے کہ شہبازشریف کی ضمانت پر بھی وزیراعظم برہم ہوئے تھے، ان کا خیال تھا کہ شہبازشریف کو رہائی دے کر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کی گئی ہیں جس پر وزیراعظم نے عہدہ چھوڑ دینے کی دھمکی دی۔ اگر وہ عہدہ چھوڑ دیں تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پرانی سیاسی قیادت واپس آجائے گی، جو کسی کو بھی منظور نہیں۔ کیا یہ محض اطلاع ہی ہے؟ فیصلہ قاری پر چھوڑ رہے ہیں۔