اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی تجویز کو ’’ٹیکنیکل ہولڈ‘‘ کا حق استعمال کرتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین نے چوتھی بار ویٹو کردیا۔ یہ تجویز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1267سینکشنز کمیٹی کے تحت دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کی تعداد 15 ہے، جن میں 5 ارکان امریکہ، روس، فرانس، چین اور برطانیہ ویٹو پاور رکھنے والے، جبکہ 10 غیر مستقل ارکان ہیں۔ پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں یہ بات واضح تھی کہ چین امریکہ اور دوسرے ممالک کا دبائو برداشت نہیں کرسکے گا، اور نتیجے کے طور پر مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دیا جائے، اس کے بعد پاکستان پر بھی دہشت گردی کی معاونت کرنے والی ریاست کا ٹھپہ لگ جائے گا۔ بھارت اپنا پورا زور اسی مقصد کے لیے صرف کیے ہوئے تھا، اور اس کام میں اُسے امریکہ کی پوری شہ حاصل تھی۔ اس محاذ پر فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد بھارت ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کے لیے زورآزمائی کرتا، اور اس فیصلے سے پاکستان کی معیشت کو نقصان اُٹھانا پڑسکتا تھا۔ بھارت نے پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے جو تصوراتی اور تخیلاتی تانا بانا بُن رکھا تھا یہ اسی کی مرحلہ وار کڑیاں تھیں۔ چینی قیادت نے ایک عالمی مدبر کا کردار ادا کرتے ہوئے چوتھی بار اس تجویز کو ویٹو کردیا اور کہا کہ اس کا مزید جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ چین کے اس فیصلے نے بھارت میں صف ِماتم بچھا دی ہے۔
چین نے پاکستان اور بھارت کی حالیہ کشیدگی میں بہت ٹھنڈے قسم کا رویہ اپنایا تھا جسے بہت سے لوگ چینی رویّے میں مستقل سردمہری قرار دے رہے تھے۔ چین کے رویّے کو سمجھنے کے لیے اس کی پالیسی کا تجزیہ کرنا لازمی ہے۔ ایسا نہیں کہ چین مولانا مسعود اظہر کو ’’مجاہدِ اعظم‘‘ اور ’’ہیرو‘‘ سمجھ کر ان کا دفاع کررہا ہو۔ چین عسکریت اور اس کے تمام کرداروں کو ایک مسئلہ ہی سمجھ رہا ہے، مگر چین کے پاس اس مسئلے کا ایک الگ اور پائیدار حل ہے۔ چینی بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایک ایسے تنازعے میں جس کی جڑیں تاریخ میں بہت دور تک پھیلی ہوں، کسی فرد کو دہشت گرد قرار دینے اور اس طرح کے دیگر اقدامات مسئلے کی قبیح صورتی کے لیے میک اپ کا کام دے سکتے ہیں مگر اس طرح مسئلے کے اصل حل تک پہنچنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی۔ ماضی میں شاید وقت گزاری کی یہ حکمت عملی گوارا تھی کہ چین ایک الگ تھلگ علاقائی طاقت تھا اور اُس پر بین الاقوامی امن کے حوالے سے زیادہ ذمہ داری بھی نہیں تھی، مگر اب یہ سارا منظر تبدیل ہوگیا۔ چین اب تنہائی پسندی کے دور سے آگے نکل کر ایک عالمی طاقت بن چکا ہے اور اقتصادی ضروریات کے تحت پوری دنیا سے منسلک ہونا چاہتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے جھگڑے اسے گھر کی دہلیز پر روکے ہوئے ہیں۔ اس کا پہلا منصوبہ چین پاک اقتصادی راہداری اسی جھگڑے کی زد میں ہے۔ اسی لیے کچھ دن پہلے چینی وزیر خارجہ نے بہت معنی خیز بات کی تھی کہ مسعود اظہر کے مسئلے کا ’’ذمہ دارانہ‘‘ حل نکالنا چاہیے۔ چین خطے کی اُبھرتی ہوئی وہ طاقت ہے جس کی نظریں آنے والے زمانوں پر ہیں۔ اس نے اپنے مقاصد اور اہداف سالہا سال آگے کے لیے طے کررکھے ہیں۔ سی پیک سمیت اس کے تمام ترقیاتی منصوبوں کے پیچھے بھی یہ حکمت اور فلسفہ کارفرما ہے۔ چین علاقے کا ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے جھگڑوں کو زیادہ بہتر انداز میں جانتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو 1965ء میں چین کے سربراہ چو این لائی نے شکوے کے انداز میںکشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کو الجزائر میں ہونے والی ایک ملاقات میں بتائی تھی، اور جس کا احوال شیخ عبداللہ نے اپنی خودنوشت ’’آتشِ چنار‘‘ میں یوں لکھا ہے:
’’چو این لائی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کبھی چین آئے ہیں؟ تو میرے نفی میں جواب دینے پر انہوں نے کہا: چین آپ کا اس قدر قریبی ہمسایہ ہے کہ آپ اپنے گھر کی چھت سے اس کے پہاڑوں کی چوٹیاں گن سکتے ہیں، جبکہ چین اور کشمیر کے درمیان دیرینہ روابط بھی ہیں‘‘۔
تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو گزشتہ 71 سال میںکشمیر، پاکستان اور بھارت کے علاوہ اگر براہِ راست کسی فریق کا سراغ ملتا ہے تو وہ چین ہے۔ پاکستان اور بھارت کے ہر تصادم اور کشمیر میں اُبھرنے والے کسی بھی انقلاب میں چین کا ظاہری یا مخفی ایک کردار رہا ہے۔1951ء میں جب ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ زوروں پر تھا، بھارت کے دورے پر جانے والے چینی ثقافتی طائفے نے اپنا دورۂ سری نگر کوئی وجہ بتائے بغیر منسوخ کردیا تھا۔ بھارت نے محض چینی رویّے کو جانچنے کے لیے وفد کے پروگرام میں کشمیر کو بھی شامل کیا تھا، مگر ہندی چینی بھائی بھائی کے نعروں میں یہ لٹمس ٹیسٹ ناکام ہوگیا، اور چینی ثقافتی طائفے نے دورۂ بھارت کے حصے کے طور پر کشمیر جانے سے گریز کرکے آنے والے ماہ وسال میں چینی پالیسی کا اشارہ دے دیا۔1955ء میں چین نے کشمیر پر سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے پر سوویت یونین سے آن دی ریکارڈ ناراضی کا اظہار کیا۔ ستمبر1956ء میں پاکستان کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مسٹر چو این لائی نے کہا کہ چین کشمیر کو ایک متنازع علاقہ سمجھتا ہے اور غیر جانب داری کی پالیسی پر گامزن ہے۔ 1959ء میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے اجلاسوں میں طویل مباحثے کے بعد چین نے کشمیر پر بیانات سے تھوڑا آگے نکل کر ایک نئی پوزیشن اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں بھارت کو سبق سکھانے کو مرکزیت حاصل ہو۔ اس کے بعد چین کے مسئلہ کشمیر میں دخیل ہونے کی پوری داستان موجود ہے۔ جب کشمیر پر نئی پوزیشن اپنانے کا فیصلہ ہوا تو یہ ہندی چینی رومانس کے انجام پذیر ہونے کے ابتدائی دن تھے۔ یوں چین اور کشمیر کا معاملہ مسعود اظہر کے گرد گھومتا ہے، نہ یہ دوچار برس کی بات ہے۔
چین مسعود اظہر، حافظ سعید اور سید صلاح الدین سمیت تمام معاملات کو افراد کی حیثیت میں دیکھنے سے زیادہ وسیع تر تناظر میں دیکھتا ہے۔ مسعوداظہر اگر عالمی دہشت گرد قرار دئیے جاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ پھر حافظ سعید کی باری آئے گی، اس کے بعد کسی کشمیری کا نمبر آئے گا، اور یوں باری باری سب دہشت گرد قرار پائیں گے۔ مگر کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟
اگر دنیا کے سارے نقش امریکہ، بھارت اور یورپ کو تراشنے ہوتے تو آج امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات نہ کررہا ہوتا۔ سترہ برس کی ماردھاڑ میں اقوام متحدہ امریکہ کے ہاتھ کی چھڑی اور یورپ کے مادی اور فوجی وسائل جیب کی گھڑی تھے۔ اقوام متحدہ کا فورم، اس کی منظور کردہ قراردادیں اور اس سے کشید کیا ہوا مینڈیٹ انہیں حاصل تھے، مگر مسئلہ اب میز پر ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے ہی حل ہونے کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔
بھارت کی خودفریبی کا تو کوئی علاج ہی نہیں، وہ 71 برس سے خودفریبی کا شکار ہے، مگر چین کے پاس ضائع کرنے کو وقت نہیں۔ وہ پاکستان اور بھارت کے عارضے کا حل اب اینٹی بایوٹک کے بجائے عملِ جراحی کے ذریعے چاہتا ہے تاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے حقیقی اسباب کا خاتمہ ہوجائے۔ یہ تکلیف دہ، مشکل اور کسی حد تک ناپسندیدہ عمل تو ہے، مگر خطے کو آگے بڑھنا ہے تو پھر اسی راستے کے انتخاب کا کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ چین مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا خواہش مند ہے اور پاکستان اس کردار کو تسلیم کرچکا ہے۔ امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے مسائل کو لیپا پوتی اور مصنوعی طریقوں سے حل کرنے کی کوششیں کیں، مگر یہ کوششیں ایک مقام پر آکر دم توڑتی رہیں۔ اب بھی اگر پاک بھارت تنازعے کے حل کا مصنوعی انتظام کیا جاتا ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل ایک معمولی سا واقعہ ساری پیش رفت کو واپس زیرو پر نہیں پہنچا دے گا؟ امریکہ تو میلوں دور ایک تماشائی کی حیثیت رکھتا ہے، مگر کنٹرول لائن پر گولی چلتی ہے تو اس کے بارود کی بُو چین میں سونگھی جا سکتی ہے۔ توپوں کی گرج کاشغر میں سنائی دیتی ہے۔ اس لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کے حل کے لیے چین کی ضرورت اور سنجیدگی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ کشمیر میں اس وقت بھارت کی وہی اپروچ ہے جو سترہ برس تک افغانستان میں امریکہ نے اختیار کیے رکھی، یعنی سب کچھ پاکستان کا کیا دھرا ہے اور سب کچھ دہشت گردی ہے۔ مزاحمت کی مقامی جہتوں اور اسباب وعوامل کو نہ سمجھنے کی امریکی روش نے اُسے ایک قابلِ عمل حل سے کوسوں دور رکھا۔ حقیقت کا ادراک ہوا بھی، تو سترہ برس اور بیش بہا وسائل گنوائے جا چکے تھے۔ چین اس تجربے کی بنا پر چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیر پر ایک پیکیج ڈیل کے تحت اپنے خفیہ پروجیکٹس بند کرکے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور توانائی کے ذخائر سے استفادے کی مشرکہ ڈور میں بندھ جائیں۔ کسی کلبھوشن کو مبارک پٹیل بن کر پاکستان آنے کی ضرورت نہ ہو، مسعود اظہر اور حافظ سعیدکے پاس بھارت کو للکارنے کا جواز باقی نہ رہے۔جبکہ اس کے برعکس امریکہ چاہتا ہے کہ حافظ سعید اور مسعود اظہر باقی نہ رہیں۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟بھارت کو للکارنے والے کردار نہ سہی مگر جواز تو باقی رہے گا، اور یہ جواز 71 برس سے قائم اور موجودہے۔