۔’’رقیق حملے‘‘۔

ہم اپنی ’’مشیخت‘‘ کے زعم میں غلطی کربیٹھتے ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ گرفت کرنے اور فوراً تصحیح کرنے والے میسر ہیں جو اوقات یاد دلانے میں تکلف نہیں کرتے۔ گزشتہ شمارے میں ہم نے لکھا تھا کہ معرّب اور معّرِب میں معانوی فرق ہے۔ کبھی کسی لغت میں پڑھا تھا کہ معّرِب (رابالکسر) کا مطلب ہے: عربی بنایا گیا، یا جس لفظ کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ عربی بنالیا ہو۔ اور معرَّب (را پر زبر) کا مطلب ہے: عرب سے تعلق رکھنے والا۔ اب یاد نہیں کہ یہ کس لغت میں دیکھا تھا۔ تاہم عربی کے بڑے فاضل جناب نورالبشر نے فوری گرفت کرتے ہوئے نہ صرف ٹیلی فون پر اصلاح کی بلکہ ’’اردو لغت تاریخی اصول پر‘‘ سے معّرب کے مطالب کا عکس بھی بھیج دیا ہے۔ اس کے مطابق ’’مُعرَّب‘‘ (معر۔ رب، را بالفتح) کا مطلب ہے: عربی بنایا گیا، عربی کیا ہوا، نیز عربی زبان کا۔ وہ لفظ جو کسی اور زبان کا ہو اور اس کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ عربی بنالیا ہو جیسے پیل (فارسی) سے فیل۔ جناب نورالبشر کی توجہ کا شکریہ۔ تاہم ایک لفظ مُعْرب (مُع۔ رَب) ہے۔ اس میں تشدید نہیں ہے اور مطلب ہے: اعراب لگایا گیا، جس لفظ کا آخر بدلتا رہے۔ خیال رہے کہ ہمارا مبلغ علم لغت ہے، خود ہم جناب مفتی منیب الرحمن یا نورالبشر کی طرح عربی کے عالم نہیں ہیں۔
یاد آیا کہ ایک لفظ ’میل‘ ہے اور اسی املا کے ساتھ ایک اور ’میل‘ ہے۔ دونوں کے تلفظ میں فرق ہے۔ وہ میل جو دلوں میں آجاتا ہے یا ہاتھ کا میل ہو، اس کا تلفظ بیل کے وزن پر ہے۔ اور یہ بیل گائے کا مذکر ہے۔ اردو میں عام طور پر میل کچیل استعمال ہوتا ہے۔ یہ میل مذکر ہے۔ جیسا کہ ’’پیسہ ہاتھ کا میل ہے‘‘ سے ظاہر ہے۔ایک میل عربی کا ہے اور مذکر ہے یعنی جھکائو، خمیدگی، رغبت، رجحان، میلان، توجہ، رجوع، خواہش، رعایت، پاسداری وغیرہ۔ میلِ خاطر یعنی دل کی رغبت، التفات۔ میل سے میلا ہے جیسا کہ انشا کا شعر ہے:

نزاکت اس گلِ رعنا کی دیکھو انشا
نسیمِ صبح جو چھو جائے رنگ ہو میلا

۔17 مارچ کے ایک بڑے اخبار میں ایک بڑے کالم نگار، تجزیہ نگار وغیرہ کا مضمون بعنوان ’’انگیخت‘‘ دیکھا۔ یہ ان کے کالم کا مستقل عنوان ہے۔ اس کا پہلا جملہ ہی شاندار ہے۔ لکھتے ہیں ’’عورتوں کے مارچ پر جاری رقیق حملے‘‘۔ عالم میں امتیاز ان صحافی کو اب تک رقیق اور رکیک کا فرق معلوم ہوجانا چاہیے تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ کمپوزنگ کی غلطی نہیں ہے۔ رقیق تو بہت پتلا ہوتا ہے۔ اگر حملہ ہو تو بھی زیادہ سے زیادہ رقت ہی طاری کرسکتا ہے۔ رقیق عربی کا لفظ اور صفت ہے۔ اس کا مطلب لطیف، نرم، ملائم بھی ہے۔ اب اگر مصنف کی پسندیدہ خواتین پر نرم، ملائم اور لطیف حملے ہوئے بھی تو کیا بگڑا ہوگا۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ خواتین کے نعروں میں سب سے ہلکاہے، لیکن اس کی بھی حمایت کرنے والے کیا اپنی بیٹیوں سے بھی اس پر اصرار کی توقع رکھتے ہیں۔
ہمارا گمان ہے کہ فاضل کالم نگار اور بہت منجھے ہوئے تجزیہ کار رقیق کے بجائے رکیک کہنا چاہتے ہوں گے۔ رکیک بھی عربی کا لفظ ہے۔ دبلا پتلا، نازک، سست، ناچیز، ادنیٰ وغیرہ۔ اب اگر رکیک حملے کیے جائیں تو یہ بھی دبلے، پتلے، نازک اور سست ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ لفظ عموماً ادنیٰ اور گھٹیا کے معنوں میں آتا ہے۔ لفظ ’’ق‘‘ بڑا مظلوم ہے۔ جن لوگوں سے اس کا تلفظ ادا نہیں ہوتا وہ یا تو چھوٹا کاف اور بڑا کاف کہتے ہیں، یا مزید وضاحت کے لیے ’’کینچی والا کاف‘‘۔ یعنی قینچی والا۔ کتنے ہی اہلِ پنجاب ہیں جو ’ق‘ کا صحیح تلفظ ادا کرتے ہیں اور یہ کوئی مشکل بھی نہیں۔ لیکن یہ ’ق‘ دکن میں جاکر ’خ‘ ہوجاتا ہے جیسے خاضی جی (قاضی جی)۔ بعض لوگ کاف کی جگہ احتیاطاً ’ق‘ لکھ دیتے ہیں، اور یہی غلطی عالم میں امتیاز کالم نگار سے ہوئی ہے۔ دکن سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر نے بھی احتیاطاً خال، خال کو قال، قال لکھ دیا تھا۔ اہلِ عرب نے اپنی آسانی کے لیے ’ث‘ کو ’ت‘ کرلیا ہے اور عالم عرب ’کثیر‘ کو ’’کتیر‘‘ کہنے لگا ہے۔ حیرت ہے کہ ایسے لوگ قرآن کریم پڑھتے ہوئے کیا کرتے ہوں گے! مولانا ماہرالقادری نے لکھا ہے کہ ’ق‘ کا تلفظ عرب کے بعض قبائل میں بھی مختلف تھا۔ مصریوں نے تو ’ج‘ کو ’گ‘ سے بدل دیا اور جمال عبدالناصر ’’گمال‘‘ ہوگیا۔ مصریوں کا اثر سعودی عرب کی زبان پر بھی پڑا ہے اور سعودیوں نے بھی ’ج‘ کو ’’گ‘‘ کہنا شروع کردیا ہے۔ یہ افسوسناک ہے۔ اردو کا حرف ’پ‘ آج تک اُن کی زبان پر نہیں چڑھا اور پاکستان ’’باکستان‘‘ ہی ہے۔ ایک سعودی صحافی نے بتایا کہ انہوں نے امریکہ میں اپنی گاڑی پارک کرنے کے لیے ٹریفک کے اہلکار سے پوچھا: کہاں بارک کروں؟ (Where to Park?) اس نے جواب دیا: تم کہیں بھی بھونک سکتے ہو۔ BARKکا مطلب بھونکنا ہے۔
اب کچھ کالم نگار سعد اللہ جان برق کے مضمون کا حوالہ۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ
’’اردو تو کم و بیش چار سو سال کی زبان ہوگی جو پہلے ریختہ تھی، پھر اردو ہوگئی۔ اس کے بولنے اور لکھنے والے اس عرصے میں پیدا ہوگئے۔ وہ اردو کی طرح اچانک چار سو سال پہلے پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ زمانوں سے موجود دوسری اقوام اور زبانوں کے ہوا کرتے تھے۔ یعنی جدی پشتی زبان ان کی کچھ اور ہوا کرتی تھی۔ مثال کے طور پر غالبؔ اپنے آپ کو ایرانی افراسیابی کہا کرتے تھے، جوشؔ ملیح آبادی جو اردو کی ڈکشنری کہلاتے تھے آفریدی پشتون تھے، میرؔ ایرانی النسل تھے، امیر خسروؔ بھی فارسی ترک تھے۔ اس طرح ہر بڑے ادیب و شاعر کو ٹٹولیے تو کسی اور زبان سے ’’نقلِ لسانی‘‘ کرکے آئے ہوئے ثابت ہوں گے۔ ہمارے علامہ اقبالؔ، احسان دانشؔ، فیضؔ، منیرؔ نیازی، حفیظؔ جالندھری پنجابی سے ادھر آئے تھے۔
مطلب یہ کہ اردو زبان کے بارے میں اگر صحیح صحیح کہا جائے تو وہ یہ کہ یہ زبان سب کی ہے، اور جب سب کی ہے تو سب ہی اہلِ زبان ٹھیرے۔ اس کی صفت ہمہ گیری ہے، محدودیت نہیں۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس میں ایک بلکہ آدھا لفظ بھی ایسا نہیں جسے اردو زبان کا اپنا لفظ قرار دیا جاسکے۔ اور جب کوئی لفظ ہی نہیں تو زبان کیسی اور اہلِ زبان کیسے؟
ٹھیک ہے جو لوگ کئی نسلوں سے اسے بطور زبان اختیارکیے ہوئے ہیں وہ سینئر ہونے کی وجہ سے محترم ہیں، اساتذہ بھی ان کو کہا جا سکتا ہے، لیکن ساری اردو زبان کی میراث یا ملکیت ان کی نہیں۔ اور یہی تو اس کی واحد خوبی ہے کہ کسی کی نہیں ہے، اس لیے ہر کسی کی ہے۔
اب ذرا اس کی پیدائش اور نام کا سلسلہ بھی زیربحث لایا جائے تو معاملہ اور صاف ہوجائے۔ لفظ’’اردو‘‘ کو ترکی زبان کا مشہور کردیا گیا ہے لیکن یہ غلط ہے۔ یہ لفظ اپنی بنیاد میں سومیری، بابلی بلکہ زیادہ صحیح اشوری زبان کا لفظ ہے۔
اشوری دور میں بڑے بڑے اشوری بادشاہ ہوئے ہیں جن میں وہ حمورابی بھی شامل ہے جسے بابائے قانون یا پہلا مقنن بادشاہ کہا جاتا ہے، لیکن ہماری بحث سے تعلق رکھنے والا مشہور بادشاہ ’’اشوربنی پال‘‘ ہے جس کی لائبریری آثار میں اہم ترین چیز ہے۔ مٹی کی پختہ اور کچی تختیوں پر مشتمل اس لائبریری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی بیس ہزار تختیاں تو صرف برٹش میوزیم میں موجود ہیں، اور چونکہ اسی لائبریری میں اس زبان کی ’’کلید‘‘ بھی ملی ہے اس لیے ساری تختیاں آسانی سے پڑھی گئیں۔