پاک بھارت تعلقات۔۔۔۔ ایک تزویراتی جائزہ

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، کہ بھارت کی انتہا پسند، فرقہ پرست حکومت اپنی سکھ برادری کے دبائو پر کرتارپور راہ داری کے مسئلے پر بادلِ نخواستہ پاکستان سے جزوی اور مختصر ترین بات پر راضی ہوگئی۔ کیونکہ اسے اپنے سکھ فوجیوں کی وفاداری پر ہمیشہ سے شکوک و شبہات رہے ہیں، کیونکہ سابق کانگریس حکومت کی سربراہ اندراگاندھی نے امرتسر میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹمپل ((Golden Temple پر چڑھائی کرکے نہ صرف اس مقدس عبادت گاہ کی بے حرمتی کی، بلکہ وہاں پناہ گزین اور عبادت میں مصروف سکھ یاتریوں کو بھی نہ بخشا۔ یہ حرکت نریندر مودی کی نہیں بلکہ ایک سیکولر اور ناستک (atheist) حکمران شریمتی اندرا گاندھی نے کی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس نے ایک سکھ آئی جی گِل کو سکھوں کے قتل عام پر مامور کردیا، جس نے چن چن کر اور تاک تاک کر سکھوں کو ہلاک کرنا شروع کردیا۔ اس سانحے کا اثر یہ ہوا کہ خود اندرا گاندھی کے ذاتی سکھ محافظ نے اس کو سرِعام گولی سے اڑا دیا۔ باَلفاظِ دیگر ہندوستان میں صرف مہاسبھا راشٹریہ سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل ہی جنونی نہیں ہیں، بلکہ خود نام نہاد سیکولر کانگریس کے نیتا اور وزراء بھی اسی خمیر سے بنے ہوئے ہیں۔ اُن دنوں اندرا گاندھی کے میڈیا میں ایجنٹوں نے یہ افواہ اڑا دی تھی کہ دراصل جنرل ضیاء الحق نے سکھ عسکریت پسندوں کے رہنما جرنیل سنت سنگھ بھنڈرانوالہ اور اس کے حواریوں کو اسلحہ فراہم کرکے بغاوت کی آگ بھڑکائی تھی تاکہ بھارت کی توجہ کشمیر سے ہٹاکر پاکستان کی فوجی جنتا مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہدِ آزادی میں سرگرم مجاہدین کی کھل کر مدد کرسکے۔ اس مذموم بھارتی پروپیگنڈے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرکے فوجی جنتا اور پیپلزپارٹی کو لڑا کر عدم استحکام پیدا کیا جائے۔ لیکن اس سازش کا مخدوش ترین پہلو یہ تھا کہ یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ بے نظیر حکومت نے اس کے توڑ کے لیے مبینہ طور پر بھارتی پنجاب کے عسکریت پسندوں کے کوائف اور ٹھکانوں کی نشاندہی کردی تاکہ بھارت کے ہاتھوں ان کی تطہیر کی جائے۔ یہ بھارت کا انتہائی مذموم اور خطرناک نفسیاتی حربہ تھا جس سے اس کا مقصد پاکستان کی فوج اور جمہوریت پسند عناصر کو باہم متصادم کرکے خانہ جنگی کا تماشہ دیکھنا تھا۔
اس پورے سازشی ناٹک کے نتیجے میں پاکستان کے کچھ عناصر بے نظیر حکومت سے بدظن ہوگئے اور ان کی اقتدار سے برطرفی پر خوشی کے شادیانے بجائے، جس سے پیپلزپارٹی کا عوام کے ایک طبقے میں منفی تاثر گہرا ہوگیا۔
اس تناظر میں اگر نریندر مودی کرتارپور کے مسئلے پر کچھ بدگمانیوں کا شکار دکھائی دیتا ہے تو اس کی ذمہ دار نہ صرف بھارت کی انتہا پسند مسلم دشمن قوتیں ہیں بلکہ یہ ایک نہایت ثقہ اور مستند سیکولر عناصر کی کارستانی ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ کرتار پور کے بارے میں جو جزوی مفاہمت واقع ہوئی ہے اس میں نریندر مودی نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ پاکستان کرتارپور میں سکھ یاتریوں کی آمد کی آڑ میں سکھ علیحدگی پسندوں کی ہمت افزائی کرے گا۔ میرے خیال میں یہ اندیشہ انتہائی لغو، بے معنی، مہمل اور منفی ہے جسے عملی جامہ پہنانا ناممکن ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ بھارت ان یاتریوں کی چھان بین کرکے ان کی شکل میں اپنے تخریبی ایجنٹ بھیجے گا اور ان کی طرف سے پاکستان سے مطالبہ کیا جائے گا کہ کرتار پور کیونکہ سکھوں کا مقدس مقام ہے لہٰذا اسے سکھوں کو واپس کردیا جائے۔ یہ بہت خطرناک منصوبہ ہے، کیونکہ اس کے مضمرات پاکستان کی تحلیل پر منتج ہوسکتے ہیں، کیونکہ حسن ابدال اور ننکانہ صاحب بھی تو سکھ زائرین کی زیارت کے مراکز ہیں، جنہیں بھارت مستقبل بعید میں پاکستان توڑنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بھارت کی مشرقی پاکستان پر جارحیت کا تسلسل ہے جس کے بعد اندراگاندھی نے اپنی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ مغربی پاکستان پر حملہ کرکے اسے سبق سکھائے، لیکن اُس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اس منصوبے کو ناکام بنادیا جس کے لیے انہوں نے روس کے صدر برژنیف سے رابطہ کرکے انتباہ کیا کہ وہ اندراگاندھی کو مغربی پاکستان پر حملہ کرنے سے باز رکھے، بصورتِ دیگر امریکہ پاکستان کی حفاظت کے لیے مداخلت کرے گا۔ اس پر مذکورہ امریکی صدر نے برژنیف کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اندرا گاندھی کو اس کے توسیع پسندانہ عزائم سے باز رکھا۔ (صدر نکسن کا امریکی سینیٹ میں فروری 1972ء میں خطاب)
اس سانحے (سقوطِ مشرقی پاکستان) کو اندراگاندھی نے بطور نظیر استعمال کیا جیسے امریکی استعمار نے کیوبا اور جنوبی امریکہ کی ریاستوں پر تسلط قائم کرنے کے لیے مونرو ڈاکٹرین (Monroe Doctrine) کا اعلان کیا تھا۔ گو یہ استعماری منصوبہ ہے لیکن بدقسمتی سے اسے کچھ ماہرینِ بین الاقوامی قانون مثلاً Narin Dixon نے روایتی بین الاقوامی قانون کی حیثیت سے جائز تسلیم کیا ہے اور اس کی بنا پر وہ پاکستان کے قبائلی علاقے میں تواتر اور تسلسل کے ساتھ اپنے ڈرون طیاروں کے ذریعے قبائلی بستیوں، مساجد، مدارس، خانقاہوں، کاریزوں، کھیتوں اور کھلیانوں پر جراثیمی بم برساتا رہا ہے۔ یہ اس نام نہاد انسدادِ دہشت گردی کی مہم تھی جو پاکستان کے منافق حکمرانوں کی معاونت سے جاری رہی جس کے نتیجے میں امریکہ نے لگ بھگ تین سو بم گرائے۔ اس میں بہ مشکل بیس فیصد عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہوں گے، جب کہ اسّی فیصد متوفین بے گناہ تھے۔ یہ انکشاف امریکی جامعات نیویارک اور اسٹین فورڈ کی کلیاتِ قانون کی ایک مطالعاتی تفتیشی ٹیم نے کیا۔ جب کہ اسلامی طبی معائنہ کاروں نے علاقے میں جاکر بم زدہ کھنڈرات اور متاثرہ آبادی سے چھان بین کرنے پر انکشاف کیا کہ وہاں ایسے کیمیاوی بم پھینکے گئے جو تنفس، کینسر اور جلدی امراض کا باعث بنے۔
لیکن ستم ظریفی یہ کہ جب امریکہ نے 2011ء میں سلالہ چوکی پر حملہ کرکے 24 پاکستانی فوجیوں کو (جن میں ایک میجر اور ایک کپتان شامل تھے) شہید کردیا تو بالآخر مسلح افواج کی غیرت جاگ اٹھی اور انہوں نے امریکہ سے عارضی طور پر تعاون روک دیا۔ یعنی امریکہ کے لیے پاکستان کی سرزمین سے قطار اندر قطار بے شمار کنٹینروں میں سازوسامان، خورونوش، شراب کباب، انڈے مرغی کا گوشت اور اسلحہ کی ترسیل روک دی۔ اس وقت امریکہ بلبلا اٹھا اور رسد کے اجرا کے لیے گڑگڑایا تو پاکستان کی فوج نے یہ شرط لگائی کہ جب تک امریکہ معافی نہیں مانگے گا اُس وقت تک پاکستان اپنی راہداری اس کے لیے بند رکھے گا۔ لیکن ہلیری کلنٹن نے پاکستان سے معافی مانگنے سے انکار کردیا اور محض سوری کہنے پر اکتفا کیا، جسے چاروناچار پاکستانی قیادت کو قبول کرنا پڑا۔ لیکن اِس وقت عمران خان کھڑا ہوگیا اور امریکیوں کو چیلنج کیا کہ اگر انہوںنے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ریاستی دہشت گردی جاری رکھی تو وہ امریکی قابض فوج کو فراہم کی جانے والی رسد منقطع کردے گا، اور اس نے ایسا کرکے دکھایا، جس پر مقامی امریکی ایجنٹوں بالخصوص آصف زرداری اور بلاول زرداری نے اس کو ’’طالبان خان‘‘ کا خطاب دیا، اس کے باوجود وہ امریکہ کو خوش نہ کرسکے اور امریکہ کسی طوطے کی طرح DO More! Do More! کی رٹ لگاتا رہا۔ اس پورے واقعہ کا شرمناک ترین پہلو یہ ہے کہ جب ڈرون حملوں کو بند کرنے کا عوامی مطالبہ زور پکڑنے لگا اور پاک فضائیہ کے سربراہ کو بلا سبب ہدفِ تنقید بنایا جانے لگا تو انہوں نے اپنے دفاع میں کہاکہ اگر حکومت اس کے ردِعمل سے نپٹ لے تو ان حملوں کو روکنا میرے لیے قطعاً مشکل کام نہیں۔ اُس وقت پیپلزپارٹی کا احمد مختار وزیردفاع تھا، اس نے فوراً واضح کردیا کہ بھلا ہم ایک سپرپاور کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں!
اب یہی ٹولہ اپنی مبینہ طور پر مجرمانہ حرکتوں پر پردہ ڈالنے اور اپنی بدعنوانیوں کو چھپانے کے لیے کبھی اٹھارہویں ترمیم کی آڑ لیتا ہے، تو کبھی جمہوریت کو معرضِِ خطر میں ڈال دیتا ہے۔ آج یہ ٹولہ نوازشریف جیسے تاحیات نااہل رہنما اور اس کے کنبے کے افراد سے عید بلکہ بقرعید مل رہا ہے تو ہمیں پاکستان کی سیاست پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ خاص طور سے جب آصف زرداری کہتے ہیںکہ وہ فوج کے ساتھ کھڑے ہیں تو ہمیں ان کی وہ تقریر یاد آتی ہے جس میں انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا اعلان کیا تھا اور بنا نام لیے نامعلوم افرادکو للکارا تھا کہ آپ تو تین سال کے لیے اقتدار میں آتے ہیں جب کہ ہم اسی ملک کے باشندے ہیں۔ جہاں تک نواز قبیلے کا تعلق ہے تو اس کنبے کے سربراہ میاں محمد نوازشریف نے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو شہید کہہ کر ان کے مشن کو مکمل کرنے کا عہد کیا تھا، جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کو وطن توڑنے پر غدار اور مجرم گردان کر ان کی سزائے موت کو جائز قرار دیا تھا۔ آج وہ بلاول زرداری سے ملتے وقت بھٹو کی تعریف کرتے تھکتے نہیں۔ اب یہ لوگ عمران خان کے خلاف جیل بھرو تحریک چلانا چاہتے ہیں جس پر فواد چودھری نے کہا ہے کہ کل کے بجائے آج ہی سے حکومت کے خلاف مہم شروع کردیجیے جو بہت جلد اختتام پذیر ہوگی کیونکہ سارے ملزمان جرم ثابت ہونے پہ ایک ہی بیرک میں مقید ہوجائیں گے۔
جیسا کہ میں نے اپنے ماضی کے کالموں میں لکھا ہے کہ تحریک انصاف ایک بھان متی کا کنبہ ہے جس میں بھانت بھانت کے مرغانِ بادنما پناہ گزین ہوگئے ہیں جن پر عمران خان کا سایۂ عاطفت ہے۔ یہاں بھی ہمیں ایسے لوگ بہت کم نظر آتے ہیں جو کسی اصول یا نظریے کے تحت تحریک انصاف کے پرچم تلے جمع ہوئے ہوں، کیونکہ ان کی گفتار اور کردار سے منافقت اور موقع پرستی کی بو آتی ہے، جبھی تو پنجاب کی متنازع صوبائی اسمبلی کے ارکان جو اختلافِ رائے کو قبائلی دشمنی کی طرح سینے سے لگا کر رکھتے اور بات بات پر گالی گلوچ کرتے ہیں اور ہاتھا پائی پر بھی اتر آتے ہیں، لیکن جب کوئی ہڈی دیکھتے ہیں تو اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اورکتوں کی طرح لڑنے کے بجائے بڑی انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی منصفانہ تقسیم کرکے ہضم کر جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ پنجاب کے گم سم نظر آنے والے عثمان بزدار نے (جو عمران خان کے منظورِ نظر ہونے سے قبل غیرمعروف تھے اور مخالفین ان پر قتل کا الزام لگاتے تھے کہ دیت کے ذریعے ریمنڈ ڈیوس کی طرح بحال ہوئے) عمران خان سے ملاقات کے دوران اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کے بارے میں ہوا تک نہ لگنے دی اور تین لاکھ سے زائد ماہانہ تنخواہ ہڑپ کرتے رہے، جب کہ وزیراعظم عمران خان کی کُل تنخواہ ایک لاکھ پچانوے ہزار (1,95000) ہے۔ یہ تو کہیے کہ وزیراعظم کو یہ ’’لوٹ کھسوٹ‘‘ اچھی نہ لگی اور اس نے ان کو مالِِ مفت ہضم کرنے سے روک دیا اور صوبے کے گورنر غلام سرور کو احکامات جاری کردیے کہ خبردار وہ حریص اور لالچی ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری نہ دے۔ اس کے باوجود چند کم ظرف اراکین اسمبلی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ رقم اکیلے تھوڑا ہی اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں، بلکہ ہمارے ساتھ ملازمین، مصاحبین اور حوارین کا ایک ٹولہ ہوتا ہے جن کی خوراک اور ضروریات ہمیں پوری کرنی پڑتی ہیں۔ اگر ایسے عناصر زیادہ دیر اقتدار میں رہے تو ٹڈی دل کی طرح پوری فصل چاٹ جائیں گے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسد عمر ولد جنرل عمر کیا شے ہے کہ لوگوں کو ڈراتا ہے کہ مہنگائی اتنی بڑھے گی کہ لوگوں کی چیخیں نکل پڑیں گے۔ (اسلام 14 مارچ 2019ء) جبکہ اسد عمر انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ (پی ٹی وی۔ جی این این 16 مارچ 2019ء)
اصل میں عوام مہنگائی کے بوجھ تلے اتنے دب گئے ہیں کہ ان کی کمر قریب قریب ٹوٹ چکی ہے، اور اب وہ ایک تنکہ زائد کا بوجھ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ایسے میں وزیراعظم کا غریب طبقے کے لیے خیراتی مہمان خانے کھولنے کا عمل ہمیں ریاست مدینہ کی یاد دلاتا ہے، لیکن اس سے ملک کی غربت کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔
یوں تو بیشتر افراد نیم فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن سندھ میں وڈیرہ شاہی (PPP کی حکومت) نے مبینہ طور پر ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ کر تھر کی آبادی کو قحط میں مبتلا کردیا ہے۔ اعدادوشمار مظہر ہیں کہ پچھلے تین چار برسوں میں 1300 سے زائد بچوں کی اموات واقع ہوئیں، جب کہ آصف زرداری اور بلاول زرداری اجرک اور ٹوپی کا دن منارہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رقصِ ابلیس جاری ہے اور انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ ایسے میں عمران خان کا چھاچھرو میں ایک جم غفیر سے خطاب کم از کم قحط زدہ آبادی کے لیے باعثِ تقویت ہوا، کیونکہ عمران خان نے ایک لاکھ بارہ گھرانوں کو صحت کارڈ کے اجرا کا حکم دیا ہے ( پی ٹی وی 8مارچ بروز جمعہ)۔ لیکن یہ بات زرداری ٹولے کو زہر لگی کیونکہ یہ اٹھارہویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے۔
اس پر ستم بالائے ستم کہ بلاول میاں اور خورشید شاہ نواز شریف کو علاج کے لیے سندھ کے اسپتالوں کی خدمات پیش کرتے ہیں، جس پر کسی مسخرے نے کہا ہے کہ سندھ کے اسپتالوں کی جو حالت ہے اس سے بہتر تو یہ ہے کہ نوازشریف علاج ہی نہ کرائیں۔ میں کہوں گا کہ پیپلزپارٹی کے جناب اعتزاز احسن ایک بااصول، جرأت مند اور دیانت دار فرد ہیں جنہوں نے کہاکہ نوازشریف کو بلاول نے علاج کی پیشکش کی مگر انہوں نے انکار کردیا تو اس کے معنی یہ کہ انہیں علاج کی ضرورت ہی نہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ نوازشریف جب کمزور ہوتے ہیں تو پائوں پکڑ لیتے ہیں، لیکن بعدازاں گردن دبوچ لیتے ہیں (اسلام، جمعرات 14 مارچ 2019ء)۔ مشیت ایزدی کی بھی مصلحتیں ایسی ہیں کہ جھوٹے کو بہت جلد گھر پہنچا دیتی ہیں، مثال کے طور پر جب خورشید شاہ پنوعاقل تعلقہ کے اسپتال کے اچانک معائنے پر گئے تو وہاں صرف ایک ڈاکٹر ڈیوٹی پر موجود تھا جبکہ 23 غائب تھے، اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بھی 9 بجے کے بعد پہنچا۔ ادھر اسپتال کے ایمرجنسی، جنرل وارڈ اور او پی ڈی سمیت مریضوں کے پلنگ پر یا تو چادریں غائب تھیں، اور جو تھیں وہ خون سے داغدار تھیں۔ اس پر وزیر موصوف برہم ہوئے اور جب مریضوں نے ان کو بتایا کہ ڈاکٹر انہیں نسخہ لکھ کر دے دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اسے دوائوں کی دکان سے خرید لیں، تو وزیر موصوف نے مریضوں سے کہاکہ آپ ایسا کہنے والے ڈاکٹروں کی پرچی ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں انسداد بدعنوانی کے قانون کے تخت سزا دلوائیں۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ پہلے تو اس اسپتال میں بھیسنیں بندھی ہوئی تھیں لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے، اس کے باوجود یہ حال ہے (اسلام، جمعرات 14 مارچ 2019ء)۔ اگر خدانخواستہ نوازشریف جو انتہائی نازو نعم میں پلے ہیں یہاں آجاتے تو شاید اس ماحول میں ان کی طبیعت اور بگڑ جاتی، اور سندھ کے قوم پرستوں کو پنجاب کے خلاف مزید شکایت کا موقع مل جاتا۔
ہمیں نوازشریف کی روزافزوں بگڑتی صحت پر بڑا صدمہ ہے، کیونکہ اس بیماری سے ان کے خاندان میں ایک کہرام مچا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کی والدہ بیگم شمیم اختر کو ان کے لیے دل سے گڑگڑا کر دعا دینی پڑی اور انہوں نے کہا: بیٹا خدا تمہیں برے وقت سے بچائے۔ جبکہ شہبازشریف بولے ’’بھائی جان! آپ بہت کمزور ہوئے جارہے ہیں، علاج کرائیں‘‘، جبکہ مریم نواز بری طرح گھبرا گئیں، لیکن ان کے والد نے مشفقانہ انداز میں کہا: بیٹا مضبوط بنو، میں نے خود کو اللہ کے سپرد کردیا ہے۔ (جی این این۔ 13 مارچ 2019ء)
یہ المیہ نہ صرف سابق حکمرانوں کے کنبے کا ہے بلکہ دوسرے حکمرانوں کے لیے عبرتناک ہے جو سیاست کو ذاتی اقتدار اور مالی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ نیز عمران خان کے ٹولے کے لیے بھی عبرتناک اور چشم کشا ہے کیونکہ ان کی حکومت تو متضاد اور ایک دوسرے کے دشمن سیاسی رہنمائوں پر مبنی ہے جن میں سے بیشتر کسی نہ کسی حکمران ٹولے سے ماضی میں وابستہ رہے ہیں، لیکن ان کے اقتدار سے بے دخل ہوتے ہی ان سے کنارہ کش ہوگئے۔ ایسے عناصر پر مبنی اتحاد ہرگز دیرپا نہیں ہوتا، کیونکہ مخلوط حکومت کا ہر طبقہ یا گروہ ہمیشہ سودے بازی کے موڈ میں رہتا ہے اور اصل حکمراں کو بلیک میل کرتا رہتا ہے، اور اندرونی بغاوت سے نبٹنے کے لیے اصل بااقتدار طبقہ مجبوراً بلیک میل ہوتا رہتا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کی مخلوط حکومت بھی مبرا نہیں ہے۔ صرف صوبہ پنجاب کے اراکین کی حالیہ تنخواہ کے معاملے میں خفیف الحرکاتی اس کی بیّن مثال ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ عمران خان کا تبدیلی کا ایجنڈا تو انتہائی انقلابی نوعیت کا ہے چنانچہ وہ اس پر عمل کیسے کرسکتے ہیں! مثال کے طور پر وہ غریب طبقے کو جس کی ہمہ گیر اکثریت ہے، کیسے خطِ غربت سے اوپر لاسکتے ہیں! کیونکہ اس کے لیے انہیں دولت کی منصفانہ تقسیم کرنی ناگزیر ہوجائے گی۔ بھان متی کے اس کنبے کے ساتھ وہ ہرگز صاحبِ ثروت طبقے سے اس کی دولت نہیں سلب کرسکیں گے، کیونکہ مروجہ قانون اور عدالتیں اس نظام کو تحفظ اور تقویت بہم پہنچاتی ہیں۔ ایسے میں پنجاب اسمبلی کے اراکین جیسی ذہنیت اور کردار کے لوگوں سے توقع عبث ہے۔ نوبیل انعام یافتہ فلسفی برٹرنڈرسل اپنی کتاب Political Ideals میں یوں رقم طراز ہے: جہاں تک پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے سیاسی آزادی کے حصول کا تعلق ہے تو وہ شاید ممکن ہے، لیکن بڑی بڑی اقتصادی اجارہ داریوں کو توڑنا اس نظام کے ذریعے ممکن نہیں، کیونکہ استحصالی طبقہ اپنی دولت، ثروت و حیثیت سے رضاکارانہ طور پر دست بردار ہونے کے لیے ہرگز تیار نہ ہوگا، لہٰذا اس کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہے۔ یوں تو یہ بات کارل مارکس کے فلسفہ طبقاتی جنگ (Class Warfare) سے منسوب کی جاتی ہے، لیکن ہمیں خلافتِ راشدہ میں حضرت ابوذر غفاریؓ کے افکار اور کردار میں بڑی واضح نظرآتی ہے، کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں راتوں رات مالا مال ہوتے ہوئے نودوتیوں کو گریبان پکڑ کر ان سے یہ سوال کرتے ہوئے سنے گئے کہ تم نے اپنے ذرائع آمدنی سے جس میں زکوٰۃ بھی واجب تھی، کتنا پس انداز کیا کہ جو اتنی بڑی حیثیت کے مالک بن گئے؟ باَلفاظِ دیگر انہوں نے تن تنہا فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کا کردار ادا کیا۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عمران خان اپنے موجودہ ساتھیوں سے کس طرح اجارہ داریوں کو توڑ سکیں گے جبکہ وہ سرمایہ کاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ کٹھن مرحلہ ان کے لیے بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو اندرون ملک سرکاری خزانے کے لیے لانا ہوگا۔ اس پارلیمانی نظام میں لولی لنگڑی حکومت (یعنی مخلوط حکومت) کس طرح وڈیروں اور سرمایہ داروں سے ان کی ناجائز دولت سلب کرسکے گی؟ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اقتصادی منشور کے نفاذ کے لیے پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام حکومت لائیں جس میں صدر مملکت کو ایک متعین مدت تک کے لیے وافر اختیارات حاصل ہوں، جیسے امریکی وفاقی جمہوریت میں صدر کو حاصل ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وفاقی اکائیوں کو اندرونی خودمختاری حاصل نہ ہو، بلکہ وفاقی مقننہ کو قانون سازی کرنے کا کلی اختیار ہو جیسے امریکی دستور میں کانگریس کو ہے۔ تاہم صدر مملکت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ مقننہ کی مرضی کے بغیر بھی وسیع تر ملکی مفاد کے لیے داخلی اور خارجہ امور میں عبوری اور عارضی طور پر دوسرے ملکوں سے معاہدے کرسکتا ہے جسے امریکہ نے پاکستان کے ساتھ 1954ء اور 1955ء میں انسداد کمیونسٹ جارحیت کے لیے دفاعی معاہدے (Executive Agreement) کیے تھے جنہیں سینیٹ منسوخ نہیں کرسکتا تھا۔ ادھر امریکی ایوان نمائندگان کو بین الصوبائی تجارت کے فروغ کے لیے قانون سازی کا اختیار حاصل ہے جس کے ذریعے سے اس نے فلاحی مقاصد کے لیے قانون سازی کی، جس کا احترام وفاقی اکائیوں (صوبوں) پر لازم ہے۔
مندرجہ بالا اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو پارلیمانی کے بجائے امریکہ کی طرز پر صدارتی جمہوریت نافذ کرنی چاہیے جس میں انفرادی آزادی، انسانی حقوق اور فلاحی نظام کی ضمانت ہوگی، جس کا نفاذ عدالت عظمیٰ کرے گی۔ ایسا نظام ہمیں قائداعظم کے دور حکومت میں دیکھنے میں آتا ہے جب انہوں نے سابق شمال مغربی سرحدی صوبے میں اس کے پاکستان سے الحاق کے فیصلے کے بعد وہاں کانگریس کی وزارت کو 1935ء کے آئین کے دفعہ 92A کے تحت برطرف کردیا تھا کیونکہ رائے شماری میں کانگریس نے صوبے کے پاکستان سے الحاق کی مخالفت کی تھی۔ مزیدبرآں جب انہوں نے کراچی کو صوبہ سندھ سے علیحدہ کرکے ایک چیف کمشنری کی شکل دے دی تھی تو اُس وقت سندھ کے وزیراعلیٰ مرد آہن، مسلم لیگ کے دیرینہ کارکن خان بہادر محمد ایوب کھوڑو کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا، کیونکہ انہوں نے قائداعظم کے کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔