لیاقت بلوچ
سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان
مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ایک شاندار، بھرپور اور جدوجہد سے معمور زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کی زندگی روشن چراغ کی مانند تھی۔ چراغ کی روشنی بکھیرتے رہے، اور یہ روشنی دین، ایمان، یقین و عمل، اخلاص، خیرخواہی اور قرآن و سنت کی تھی۔
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ایک عہد کا نام ہے۔ ایک ایسا عہد جو فریضۂ اقامتِ دین کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ ان کی ساری زندگی دینِ متین کے لیے مسلسل محنت، تگ و دو، علم کی تڑپ، قرآن و سنت کے ابلاغ کی جستجو اور اس کی گہری بصیرت کے حصول میں بسر ہوئی۔ ڈاکٹر محمداسلم صدیقی ایک عالمِ باعمل تھے، ان کی وفات ایک عالِم کی نہیں، ایک عالَم (World)کی ہے۔ وہ اقبال ؒ و مودودیؒ کے خوشہ چیں، بے مثل خطیب، محدث، مفسرِ قرآن، اُجلے کردار کے باذوق، نفیس، متین، ظریف اور شجاع انسان تھے۔ ہر موضوع پر بہت فکر انگیز، مدلل اور منظم گفتگو کرتے۔ ان کے لہجے میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بانکپن، شورش کاشمیری کا جوبن اور سید مودودیؒ کا استدلال نمایاں ہوتا۔ گفتگو کے لیے نکات ترتیب دیتے تو قرآن و سنت سے لوازمہ فراہم کرتے، اشعار کا انتخاب کرتے۔ وہ اپنی گفتگو سے سامعین پر سحر طاری کردیتے، اور سننے والے اتنے محو ہوجاتے کہ ان کو وقت کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔ یہ سحر اُس وقت ٹوٹتا جب وہ اپنی گفتگو کے اختتام کا مژدہ سناتے۔ خطبۂ جمعہ ہوتا یا درسِ قرآن و حدیث، وہ پوری طرح تیاری کے ساتھ بولتے۔ ان کی گفتگو کی روانی جوئے کہکشاں کی طرح ہوتی، اس دوران ان کا طنطنہ عروج پر ہوتا۔ اپنی گفتگوئوں میں وہ حکمرانوں کی بھی پوری طرح خبر لیتے، انہیں آئینہ دکھاتے، جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے سے نہ گھبراتے۔ جن دنوں وہ جامعہ مسجد پنجاب یونیورسٹی میں خطابت کرتے، ان کی گفتگو معاشرے کے مسائل کا احاطہ کرتی۔ وہ اس ضمن میں کسی مصلحت کے قائل نہ تھے، جو بات کہنی ہوتی وہ برسرِ مجلس کہہ دیتے۔ بات کہنے کا سلیقہ انہیں آتا تھا۔ رمضان المبارک میں قرآن کا خلاصہ بیان کرتے مگر ایسے کہ دریا کو کوزے میں بند کردیتے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ وہ نہایت گہرا اور محبت کا تعلق رکھتے۔ ان کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے، مسائل و معاملات میں ان کو پیار سے رہنمائی دیتے اور سمجھاتے، ان کو تعلیم وتربیت کی طرف متوجہ کرتے۔ دعوت کے کام کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں رہنمائی کرتے۔
جماعت اسلامی اور سید مودودیؒ کے ساتھ وہ بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ جناب میاں طفیل محمد، جناب قاضی حسین احمد، جناب سیدمنورحسن اور جناب سراج الحق کے ساتھ ان کا تعلق احترام، محبت اور اخلاص کا تعلق تھا۔ وہ آخری دم تک اپنی ذمہ داری ادا کرتے اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ ان کی زندگی شاندار تھی، ان شاء اللہ آخرت میں بھی ان کی زندگی شاندار ہوگی۔
ہم سب ان کے پسماندگان میں شامل ہیں، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنیں، ان کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ وہ اپنی گفتگو میں اقبال کا یہ قطعہ اکثر پڑھتے:
وہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
مولانا محمدعلی جوہر ؒ، علامہ اقبال ؒ، ظفر علی خاں ؒ کا کلام ان کو ازبر تھا۔ موقع محل کی مناسبت سے اشعار کا استعمال کرتے اور مجلس کو گرما دیتے۔ اقبال ؒ کے بارے میں کہتے کہ اقبال اُمید کا شاعر ہے جو اپنے پڑھنے والے کو عزم و حوصلہ دیتا ہے اور مایوسی و نااُمیدی سے نکالتا ہے۔
مولانا ڈاکٹر محمداسلم صدیقی بولتے بھی خوب تھے اور لکھنے پہ آئے تو لکھا بھی خوب۔ ان کی تفسیر ’’روح القرآن‘‘ عمدہ اسلوب اور تفسیری نکات پر مبنی تفسیر ہے، جو اپنے پڑھنے والوں کو عصرِ حاضر کے بارے میں مکمل رہنمائی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ اس طرح ان کے خطبات کے کئی مجموعے زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر شائقین سے داد سمیٹ چکے ہیں۔ مولانا محمد اسلم صدیقی صاحب کی تقریر ہو یا تحریر… اُمید، روشنی، جذبے اور عزم کا باعث بنتیں۔