قبائلی علاقوں کے لیے ترقیاتی پیکج کا اعلان
حکومت نے قبائلی اضلاع کے لیے ایک ہزار ارب روپے سے زائد کی لاگت کے دس سالہ منصوبے پر عوام کی تجاویز لینے کے لیے قبائلی اضلاع میں مشاورت کا آغاز کردیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ قبائلی اضلاع کی ترقی کے لیے سالانہ 100 ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ ہے، اور دس سال تک سالانہ 100 ارب روپے قبائلی اضلاع پر خرچ کیے جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ قبائلی اضلاع کی ترقی کے لیے مشاورتی عمل باجوڑ سے شروع ہوگا اور ترقیاتی پروگرام کے لیے مشاورتی عمل 3 ہفتوں تک جاری رہے گا۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قبائلی عوام علاقے میں بے مثال ترقی دیکھیں گے۔
وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان کی ہدایت پر قبائلی اضلاع کی ترقی کے لیے تشکیل کردہ خصوصی کمیٹی نے مرحلہ وار تمام قبائلی اضلاع کے دوروں کو حتمی شکل دے دی ہے۔ دس سالہ منصوبے کے تحت شاہراہوں کی تعمیر و بحالی، توانائی، آبی وسائل کی ترقی، بلدیاتی خدمات اور شہری علاقوں کی ترقی پر 433 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ انسانی ترقی کے لیے 409 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے، جن میں تعلیم اور صحت کو ترجیح دی جائے گی۔ 251 ارب روپے قبائلی اضلاع میں معاشی ترقی کے مواقع بڑھانے پر استعمال کیے جائیں گے۔ ان میں زراعت، آب پاشی، جنگلات، صنعت و حرفت اور کان کنی کے شعبے شامل ہیں۔134 ارب روپے کی رقم ان علاقوں میں خصوصی شعبہ جات میں بہتری پر خرچ کی جائے گی۔ منصوبے کے اس حصے میں اداروں کی تنظیمِ نو اور بہتری، وسائل کی فراہمی اور صلاحیتِ کار میں بہتری شامل ہیں۔ صوبائی حکومت نے دس سالہ منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی منصوبوں میں عوام کی رائے اور مشاورت کو لازمی قرار دیا ہے اور قبائلی عوام سے مشاورت کے بعد ان کی ضروریات کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ خصوصی کمیٹی متعلقہ قبائلی اضلاع کی انتظامیہ کے تعاون سے مرحلہ وار ہر ضلع میں مشاورتی اجلاسوں کا اہتمام کرے گی جس کی ابتدا گزشتہ روز باجوڑ سے کردی گئی ہے، جس کو رواں مالی سال کے دوران مکمل کیا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان قبائلی اضلاع کے اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں جب گزشتہ جمعہ کو ضلع مہمند کے ہیڈ کوارٹر غلنئی پہنچے تو وہاں گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان، وزیراعلیٰ محمود خان اور کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر سمیت اعلیٰ حکام نے ان کا استقبال کیا۔ وفاقی وزراء نورالحق قادری، مراد سعید، علی امین گنڈا پور، شہریار خان آفریدی، مقامی ایم این اے ساجد مہمند، ارکان پارلیمنٹ اور سابق سینیٹر حاجی عبدالرحمان فقیر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ چیف سیکریٹری خیبر پختون خوا نے ضم شدہ قبائلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں اور نئے اضلاع کے حوالے سے مستقبل کی منصوبہ بندی سے متعلق بریفنگ دی۔ بریفنگ کے بعد وزیراعظم عمران خان نے قبائلی عمائدین سے مختصر خطاب کیا۔ بعدازاں وہ باجوڑ پہنچے جہاں ضلعی ہیڈکوارٹر خار میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں باجوڑ کے نوجوانوں اور بزرگوں کا شکرگزار ہوں جو اتنی بڑی تعداد میں جلسہ گاہ آئے، 27 سال قبل میں باجوڑ آیا تھا، آج باجوڑ کے لوگوں کا جذبہ و جنون دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ قبائلی علاقے کے لوگ مشکل سے نکل چکے ہیں، آسانی کا وقت شروع ہوگیا ہے۔ وزیراعظم نے اس موقع پرآزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ میں آزادی کے لیے ڈٹ جانے والے کشمیریوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جلسے کے موقع پر وزیراعظم نے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ باجوڑ میں انٹرنیٹ کی بحالی کا اعلان کرتا ہوں۔ لیویز اور خاصہ داروںکو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ان کو کسی صورت بے روزگار نہیں کریں گے، پولیس میں ضم کریں گے۔ باجوڑ کی تمام مسجدوں کو سولرائز کریں گے۔ قبائلی اضلاع میں 8 ہزار نئی نوکریاں دیں گے، باجوڑ اور مہمند میں فاٹا یونیورسٹی کے کیمپس بنائیں گے۔ باجوڑ کو سوات ایکسپریس وے سے منسلک کریں گے۔ چھوٹی انڈسٹری کے لیے انڈسٹریل زون بنائیں گے۔ ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کے لیے اقدامات کریں گے اورلوگوں کو ٹریننگ دے کر روزگار کے مواقع فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ باجوڑ کے عوام کے لیے 2 ارب روپے کے میگا پراجیکٹ کا اعلان کرتے ہیں۔ پورے باجوڑ کے لیے صحت کارڈ جاری کیے جائیں گے۔ ہر گھر میں ایک صحت کارڈ ہوگا جس سے سات لاکھ روپے تک کا مفت علاج کرایا جاسکے گا۔ غاخی پاس بارڈر کھولا جائے گا اور برنگ روڈ کو سوات ایکسپریس وے سے منسلک کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ صوبے این ایف سی ایوارڈ میں قبائلی علاقوں کے لیے تین فیصد حصہ دیں۔ سندھ اور بلوچستان سے کہتا ہوں کہ قبائل نے پورے پاکستان کے لیے قربانیاں دیں، ہم نے اگر قبائلی علاقوں کی مدد نہیں کی اور یہاں پیسہ خرچ نہ کیا تو ہمارے دشمن، قبائلی علاقوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
اسی دوران میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختون خوا حکومت نے نئے مالی سال2019-20ء کے دوران صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع پر 332 ارب روپے خرچ کرنے کی سفارشات تیار کرلی ہیں، جن کو حتمی منظوری کے بعد بجٹ کی شکل دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت نے محکمہ خزانہ خیبر پختون خوا کو صوبے کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع کے لیے بھی نئے مالی سال کا بجٹ تیار کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔ اس سلسلے میں فنانس ڈپارٹمنٹ خیبر پختون خوا نے سفارشات تیار کرلی ہیں جس کے مطابق نئے مالی سال2019-20ء کے دوران ضم شدہ قبائلی اضلاع پر 332 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے، مذکورہ رقم جاری اور ترقیاتی اخراجات پر خرچ کی جائے گی۔ ان میں 70ارب روپے موجودہ سروسز پر، جب کہ 15ارب روپے نئی اسامیاں پیدا کرنے پر خرچ ہوگی۔ ذرائع کے مطابق بجٹ سفارشات میں نئے مالی سال کے دوران 45 ارب روپے آئی ڈی پیز کے لیے رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جبکہ چھے ارب روپے اضافی تنخواہوں کے لیے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق فنانس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے تیار کردہ سفارشات حتمی منظوری کے بعد بجٹ کی صورت میں اسمبلی سے منظور کروائی جائیں گی۔
اسی اثناء یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ خیبر پختون خوا حکومت نے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں خدمات پر سیلزٹیکس کو پانچ سال تک معاف کردیا ہے، تاہم ٹیلی کام سیکٹرز سے سیلزٹیکس وصول کیا جائے گا۔
حکومتی ذرائع کے بقول خیبر پختون خوا حکومت نے قبائلی علاقوں میں بلدیاتی نمائندوں کو 300 ارب روپے ترقیاتی فنڈز دینے کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔ قبائلی اضلاع میں بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز وفاق کی جانب سے ملنے کے بعد جاری کیے جائیں گے۔ محکمہ بلدیات خیبر پختون خوا کے ذرائع کے مطابق قبائلی اضلاع میں 19تحصیل کونسلیں قائم کی جائیں گی، جبکہ 6 سب ڈویژنز کی بھی علیحدہ تحصیل کونسل ہوگی۔ خیبر پختون خوا کے بندوبستی اضلاع میں بلدیاتی نمائندوں کو صوبائی حکومت کی جانب سے، جبکہ قبائلی اضلاع اور سب ڈویژنز کی 25 تحصیل کونسلوں کو وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری کیے جائیں گے۔ محکمہ بلدیات کے ذرائع کے مطابق قبائلی علاقوں کے بلدیاتی نمائندوں کو آئندہ دس برسوں کے دوران 300 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، مذکورہ فنڈز میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہونے کی امید بھی ہے۔ واضح رہے کہ خیبر پختون خوا حکومت کے مذکورہ 25 تحصیلوں میں ٹی ایم ایز کے قیام کے لیے ایک ارب 19کروڑ روپے خرچ کرنے کا منصوبہ بھی تیار کیا گیا ہے، اور رواں برس جون سے قبل ان تمام ٹی ایم ایز کو فعال کرنے کے لیے اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں۔
دوسری جانب یہ بات خوش آئند بھی ہے اور حیران کن بھی کہ خیبر پختون خوا حکومت نے وفاقی حکومت سے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں بحالی کے کاموں کے لیے 13ارب روپے کا فنڈ جاری کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ صوبائی سیکریٹری ریلیف عابد مجید نے ایک مراسلہ وفاقی سیکریٹری وزارتِ سیفران کو ارسال کیاہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریلیف ڈپارٹمنٹ نے قبائلی اضلاع میں تباہ شدہ مکانات کے معاوضوں کی ادائیگی کے لیے تین کروڑ چالیس لاکھ روپے جاری کردیئے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے چار ہزار متاثرہ مکانات کے مالکان میں معاوضوں کی تقسیم کا عمل جاری ہے جب کہ حالیہ جاری کردہ فنڈز جنوبی وزیرستان، اورکزئی اورکرم کے اضلاع کے متاثرین میں تقسیم کیے جائیں گے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ریلیف ڈپارٹمنٹ کے زیرانتظام قبائلی اضلاع میں بحالی و تعمیرنوکے لیے چھے ارب روپے مالیت کے منصوبوں کی منظوری جون تک متوقع ہے، جب کہ بحالی پروگرام میں اسکولوں کی تعمیر، صاف پانی اور صحت کے 765 منصوبے شامل ہیں۔
قبائلی علاقوں کے مستقبل کے حوالے سے اگر ایک طرف وزیراعظم عمران خان کے خوشنما وعدوں اور نعروں کو دیکھا جائے اور دوسری جانب قبائل کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور انضمام کے ادھورے عمل پر نظر ڈالی جائے تو اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ موجودہ حکومت جس کا کوئی سر پیرمعلوم نہیں ہے، اور جس سے ملک کے دیگر معاملات نہیں سنبھالے جارہے ہیں وہ قبائلی اضلاع کی ستّر سالہ محرومیوں کو دور کیسے کرپائے گی، اور انضمام کے پیچیدہ عمل کو عملی جامہ نہ جانے کیوں کر اورکیسے پہنا پائے گی۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب فی الوقت کسی کے پا س بھی نہیں ہے۔