بلاشبہ بلوچستان کے اندر قومی وصوبائی حقوق و آزادی کے نام پر مسلح جدوجہد نے اس غریب و درماندہ صوبے کو نئی مشکلات اور نقصانات سے دوچار کیا۔ یہاں ترقی، تعلیم، کاروبار اور تجارت کے تسلل میں ٹھیرائو آیا۔ ایک وسیع علاقے میں تعلیمی ادارے ویران ہوگئے۔ بالخصوص غیر مقامی اساتذہ نکل گئے یا قتل ہوئے۔ مزدور، ہنرمند اور سرکاری و نجی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد چن چن کر قتل ہوئے۔ قومی شاہراہیں ان حالات کی وجہ سے ویران ہوگئیں۔ یقیناً ان حالات کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سماج دشمن عناصر کو کاؤنٹر کرتے ہوئے قانونی تقاضوں کو یکسر نظرانداز کردیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس و لیویز کے بس میں کچھ نہ رہا، اور عدالتیں بھی مختلف وجوہ کی بنا پر ٹارگٹ کلنگ، تخریب کاری اور دہشت گردی کرنے والوں کو سزائیں نہ دے سکی۔ گرفتار لوگ چند ماہ میں چھوٹ جاتے۔ گویا پولیس، لیویز اور عدالتیں اس منظرنامے میں خوف، دباؤ اور لاعلمی کا شکار رہیں۔ چناں چہ عوام اور صوبے کو مسلح گروہوں کے رحم و کرم پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا تھا، یوں ان کے خلاف ماورائے عدالت و قانون کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ اگر ان گروہوں پر ہاتھ نہ ڈالا جاتا تو یقیناً صوبے کے اندر دہشت گردی مزید بھیانک شکل اختیار کرتی۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس طریقہ کار نے بہت سارے مسائل کو بھی جنم دیا۔ صوبے میں حکومت اور سول اداروں سے زیادہ کسی اور کا اثر رسوخ بڑھتا گیا۔ یہاں عوامی نمائندوں کی بھی چشم پوشی، غفلت اور کوتاہیاں رہیں۔ اگر حکومتی و سیاسی مفادات و مقاصد سے ہٹ کر کام کیا جاتا، رائے قائم کی جاتی تو بہت سارے معاملات حل ہوجاتے۔ یقیناً نقص و برائیاں نمایاں ہوتیں، اور سماج دشمن عناصر بھی سیاسی حمایت سے محروم ہوتے۔
بلوچستان کے اندر خصوصاً 2006ء سے اب تک سیکڑوں شہری مارے جاچکے ہیں۔ ہر شعبۂ زندگی کے افراد نشانہ بنے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیکڑوں کی تعداد میں مسلح گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد، طلبہ اور سیاسی کارکن بھی جان سے گئے۔ ہر دو جانب سے وقتاً فوقتاً اس نوعیت کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کسی کی ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے، تو کسی کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوتی ہے۔ ایدھی حکام کے مطابق 131 تشدد زدہ لاشیں کوئٹہ کے قبرستانوں میں دفنائی جاچکی ہیں جو کہ 26 ماہ میں ملی ہیں اور جن کی شناخت نہ ہوسکی۔ صوبے کے مختلف علاقوں جیسے مستونگ، قلات، تربت، آواران، ڈیرہ بگٹی، خضدار، کوہلو، نصیرآباد، جعفرآباد، سبی، نوشکی وغیرہ سے لاشیں ملتی رہی ہیں۔ یہ لاشیں کوئٹہ لائی جاتی رہی ہیں۔ کوئٹہ کے اسپتالوں میں سرد خانے موجود ہیں، باقی صوبے میں یہ سہولیات نہیں ہیں۔ گوادر کے اندر مستقبل قریب میں ایسی سہولیات کی فراہمی کے بعد کوئٹہ کے اسپتالوں پر بوجھ کم ہوجائے گا۔ ان لاشوں کی شناخت ممکن نہیں ہوتی کیونکہ اس حوالے سے کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ اخبارات میں لاش کی تصویر کا اشتہار دے دیا جاتا ہے اوردستیاب شواہد سے ورثاء تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈی این اے کے ذریعے ان کی شناخت کی کوشش کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ڈی این اے کے لیے کوئٹہ میں لیبارٹری موجود نہیں، صوبہ پنجاب کی لیبارٹریوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈی این اے لازم قرار دیا ہے۔
جیسے کہا گیا کہ ہر طرف سے معاملات سلجھانے کے بجائے پیچیدہ بنائے جاتے ہیں۔ لاپتا افراد کے مسئلے میں بھی پیچیدگیاں ہیں۔ لاپتا افراد کی تعداد بلوچ سیاسی جماعتوں کے ہاں ہزاروں میں ہے۔ کوئی کہتا ہے 4 ہزار لاپتا ہیں، کوئی 14 ہزار کی تعداد کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ 24 ہزار گمشدہ افراد کا الزام بھی عائد ہوا۔ بات اگر حکومت کی، کی جائے تو وزارتِ داخلہ کہتی ہے کہ ان کو محض 150 لاپتا افراد کی فہرست تھمائی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی گمشدہ افراد کے حوالے سے کمیٹی یہ تعداد پچاس بتاچکی ہے۔ لہٰذا ایسی صورتِ حال میں معاملہ سلجھنے کے بجائے اٹکا ہی رہے گا۔ ارمان لونی کی ہلاکت کا واقعہ دیکھیے، فارنزک رپورٹ آئی نہیں اور پولیس کو برابر قاتل قرار دیا جارہا ہے۔ ان الزامات کو ایوانوں میں دہرایا جارہا ہے، حالانکہ کوئٹہ کے سول اسپتال میں ہونے والے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بہت پہلے آچکی ہے جس کے مطابق ارمان لونی کے جسم پر تشدد کے نشانات نہیں ہیں، جس کے بعد موت کی وجہ معلوم کرنے کے لیے نمونے لاہور فارنزک لیبارٹری بھیجے گئے۔
بات اگر قومی دھارے میں شامل ہونے والے بلوچ عسکریت پسندوں کی،کی جائے تو پچھلے برسوں سے اب تک ان کی بہبود اور روزگار کی باتیں ہورہی ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ 2200 افراد ہتھیار ڈال کر سرنڈر ہوچکے ہیں۔ قومی دھارے میں شمولیت کا سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ کسی کی فلاح و بہبود اور روزگار کا بندوبست اب تک نہیں ہوسکا ہے۔ ادھر صوبے میں امن، ترقی اور خوشحالی کا تاثر عام کرنے کی پالیسی کے تحت لیپ ٹاپ کی تقسیم، ایکسیلنس ایوارڈز، کھیلوںکے مقابلوں، سیمیناروں، ورکشاپوں اور دوسری تقریبات پر صوبے کا کثیر سرمایہ صرف ہورہا ہے۔ ناچ گانے کی محفلیں سجائی جاتی ہیں جن میں بیرونِ ملک سے گلوکار شریک کرائے جاتے ہیں۔ ان محفلوں میں لائٹس اور دوسرے لوازمات کا بندوبست ملک کے بڑے شہروں سمیت بیرونی ممالک سے بھی کیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کا آڈٹ ہونا چاہیے کہ غریب صوبے کی دولت کس اختیار و طریقہ کار کے مطابق خرچ ہورہی ہے۔ غالباً 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے دور سے سیف سٹی منصوبے کا شور بھی سنا جارہا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ 2013ء کی حکومت اس ضمن میں پھرتی دکھاتی رہی۔ جام کمال وزیراعلیٰ بنے تو بھی سیف سٹی پراجیکٹ کی تکمیل کی باتیں ہی ہورہی ہیں۔ پچھلے دنوں وزیراعلیٰ جام کمال کی صدارت میں صوبائی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کہا گیا کہ کوئٹہ سیف سٹی پراجیکٹ کی پیش رفت اور گوادر سیف سٹی منصوبے کے حوالے سے رکاوٹوں کو فوری طور پر دُور کرکے ان پر عمل درآمد آغاز کیا جائے گا۔ گویا رکاوٹیں ہنوز موجود ہیں اور منصوبہ معلق ہے۔