تحریکِ نِسواں، تاریخی پس منظر

مریم جمیلہ کے مضمون کا ترجمہ

مترجم:خا لدامین

اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو جامعہ کراچی

(دوسرااور آخری حصہ)

نسائی تحریک کے علَم برداروں کا کہنا ہے کہ خواتین کبھی مردوں کے لیے فرشتے جیسی جن کی وہ عبادت کرتے ہیں، اور کبھی غلاموں کی طرح ہوتی ہیں، جنھیں کسی بھی لمحے ٹھکرا دیا جاتا ہے اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ عورتوں کو شاذونادر ہی برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔ جنس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں ابتدائی جنسی شعور کی دہائیوں میں مکمل پرہیز سکھایا جاتا ہے (حتیٰ کہ مشت زنی کو ایک ناگزیر برائی کے طور پر دیکھا جاتاہے)، پھر زندگی بھر ایک ساتھی کے ساتھ ازدواجی نباہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔کُل معاشرے کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ جنسی زندگی کے بارے میں لاعلم اور الجھن میں رہیں۔ اس دوران معاشرے کی ممکنہ کوشش اس حوالے سے یہی ہوتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو بے خبر اور الجھائو میں مبتلا رکھے تاکہ وہ یہ نہ جان سکیں کہ ایک بھرپور جنسی زندگی کیا ہوسکتی ہے اور وہ ہمیں کس طرح آسودہ رکھ سکتی ہے، اور آزاد اختلاط کا شجر ممنوع کس طرح ہر اخلاقی پابندی سے آزاد کرسکتا ہے۔ کیا یہ ایک متناقض بالذات کا اختلاف ہے؟ اگر ہم اپنی ہم جنس پرستی کی خواہش کا بغیر کسی رکاوٹ کے سامنا کریں اور اس بارے میں تجسس کریں کہ یہ یا وہ عمل فلاں شخص کے ساتھ کس تلذذ کا حامل ہوسکتا ہے، تو پھر شاید ہم یہ امتیاز کرنے کے قابل ہوسکیں کہ کون سا رویہ غیر اخلاقی ہے اور کون سا عمل ہماری اقدار کے مطابق ہے۔ مرد دقیانوسی تصورات کو اگر مردوں نے رد کردیا اور وحدانی اقدار کو تسلیم کرلیا تو عاجزی، مباحثہ، غور، احترام اور اختلاف اور تنازعے کے ساتھ ساتھ مفاہمت اور تعاون پروان چڑھیں گے۔ پھر تمام رشتوں میں ہمارے جنسی تخیل کی زرخیزی سے انکار ممکن نہیں، نہ کہ قدرتی جنسی عنصر سے۔ یہ اس وقت تک ہوتا ہے جب بات چیت ہو، جسمانی اختلاط ہو، رقص ہو یا پھر محبت کا رشتہ قائم ہو، اور یہ عمل ہمارے احساسِ جرم سے اس طرح خالی ہوگا جس کی بنیاد ہماری ایمان دارانہ ضروریات پر مبنی ہوگی، نہ کہ غیر اخلاقی اور مردوں کے دقیانوسی تصورات پر۔
اپنے رفیقِ حیات سے وفاداری، یا کثرتِ جماع سے بھرپور زندگی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اکثر بالغ افراد ایک بنیادی جسمانی تعلق کی ضرورت محسوس کرتے ہیں جو اہمیت کے لحاظ سے تمام رشتوں پر فوقیت لے جاتا ہے۔ اگر اس کلیدی رشتے میں جو کہ سب سے دقت طلب ہونے کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر نوازنے والا بھی ہے، اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے تو یہ ہمیں بیرونی جذباتی، دھوکہ دہی اور جنسی تعلق سے فرار ہونے میں مدد دیتا ہے۔ یہ عمل اس لیے برا نہیں ہے کہ اس میں جنسی عمل انجام دیے جاتے ہیں، بلکہ یہ اس لیے برا ہے کہ یہ ایک طرح کا فرار ہے۔ اس کے باوجود مسئلہ لاینحل رہتا ہے۔
ہمارے تمام تعلقات فطری طور پر کم آمیز واقع ہوئے ہیں۔ ہمیں اس کم آمیزی سے نکلنے کی ضرورت ہے، اور ہمیں اعلانیہ جسمانی طور پر محبت کا اظہار کرنا آنا چاہیے۔ جیسا کہ میں نے وضاحت کی ہے کہ مردوں اور خواتین کی آزادی نے روایتی امریکی خاندان کو تباہ کردیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس میں بہت سی خامیاںہیں۔ کارکردگی اور معیشت اور مشکلات کا سامنا کرنے پر، اور ان مواقعوں پر جو کسی بڑے گروہ نے موروثی طور پر قبول کیے ہیں، اگر غور کیا جائے تو یہ ایک اچھا خیال اس لیے ہوگا کہ کچھ گروہوں پر تجربات کیے جاسکیں۔
مسلم ممالک میں خوش قسمتی سے نسائی تحریک ابھی تک اتنی شدت پسند نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ ان ممالک میں مغربیت کے نتیجے میں پردہ تیزی سے غائب ہورہا ہے اور عورتیں اپنے روایتی کردار کے خلاف بغاوت کررہی ہیں، اور وہ بھی اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ مغربی طرز پر ڈھال رہی ہیں۔
زیادہ متمول اور فیشن ایبل شہری طبقے خاص طور پر تہران میں عورتیں گھر کے کام کاج میں اپنا وقت کم خرچ کرتی ہیں اور سماجی پیشہ ورانہ، تفریحی اور رفاہی سرگرمیوں میں زیادہ وقت گزارتی ہیں۔ یہ خواتین زیادہ تر لباس والی دکانوں، بال سنوارنے والوں، صبح یا دوپہر میں ہوٹلوں میں اپنا وقت دوستوں کے ساتھ صرف کرتی ہیں۔ اس طبقے کی بڑھتی ہوئی تعداد ریستوران میں کھانا کھانے، چھٹیوں میں کھیلوں سے لطف اندوزہونے میں مشغول ہوتی ہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد ثقافتی اور رفاہی کاموں میں دل چسپی لے رہی ہے۔
لبنان کے شہروں میں خواتین کی بڑی تعداد کو گھر سے باہر دیکھا جاتا ہے۔ اتوار کے دن کئی خواتین اور نوجوان لڑکیاں مردوں کے ساتھ بیروت کے ساحلوں پر تعداد میں مردوں کی طرح ہوتی ہیں۔Beach Behavior بلاشبہ حدود کو ختم کرنے کی علامت ہے۔ لبنان میں مغربی انداز کی قبولیت اعلیٰ طبقے سے ہوتی ہوئی درمیانے طبقے میں ایک خاص حد تک جا پہنچی ہے۔ مغربی لباس کی قبولیت لبنان میں ایک ایسے معیار تک پہنچ گئی ہے جومغرب کے درمیانی اور اعلیٰ طبقوں میں ہوتی ہے۔ ان لڑکیوں پر بھی کچھ قید نہیں جو اپنا لباس آزادانہ انداز میں پہننا چاہتی ہیں۔ تمام سماجی گروہوں کی لڑکیاں کپڑوں کے بارے میں غیر معمولی دل چسپی ظا ہر کرتی ہیں، اور وہ کپڑے عام طور پر سادہ نوعیت کے نہیں ہوتے۔ موسم سرما میں سوٹس پہنے جاتے ہیں، موسم گرما میں یونی ورسٹی کی لڑکیاں چست سلک کے کپڑے، اسکرٹ اور باریک بلائوز پہنتی ہیں۔ اونچی ہیلیں اور نائلون کی مصنوعات پہنی جاتی ہیں اور شوخ میک اپ کیا جاتا ہے۔کچھ مسلمان لڑکیاں (یونی ورسٹی کی طالبات نہیں) مکمل طور پر علامتی پردہ چہرے پر کرتی ہیں۔ کچھ سال قبل لڑکیاں غسل کے لباس میں خاص کر بکنی میں ساحل پر نہاتے ہوئے شرم محسوس کرتی تھیں۔ اب وہ اپنے اسلامی انداز میں اور تھوڑا بہت two piece غسل کا لباس پہن لیتی ہیں۔
تحریک نسواں غیر فطری، مصنوعی، عصری سماجی شکست و ریخت کی خلافِ معمول چیز ہے، جو اخلاقی اور روحانی اقدار کے انکار کا نتیجہ ہے۔ بشریات اور تاریخ کے طالب علم تحریکِ نسواں کی بے اعتدالی کے بارے میں کسی شک وشبہ سے ماورا ہیں۔ کیوں کہ تمام انسانی ثقافتیں جنھیں ہم تاریخ اور قبل از تاریخ کے زمانوں سے جانتے ہیں، ان میں مردوں اور خواتین کے درمیان واضح امتیاز روا رکھا گیا ہے اور ان کے سماجی کردار بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ گھر اور خاندان کی شکست و ریخت، سربراہ کے کردار کا نقصان اور جنس کی مکمل آزادی کسی بھی قوم کی راست تباہی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
اس بات پر بحث ہوسکتی ہے کہ اگر ایسا ہے تو کیوں مغربی تہذیب اتنی غیر معمولی، زوردار اور متحرک ہے جب کہ وہ اقدار سے منحرف اور اخلاقی تنزل کے باوجود اتنی ترقی کررہی ہے، اور کیوں اب تک عالمی تسلط کو قائم کیے ہوئے ہے۔
جب اخلا قی زوال، خودپرستی کی عبادت کرنے کا عمل اور جنسی آزادی انتہا تک پہنچ جائے، جب مرد اور عورت، نوجوان اور بوڑھے جنسی لذت میں کھو جائیں تو لوگ جنسی لذت کا بھی غلط استعمال شروع کردیتے ہیں۔ اس کا فطری نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ ایک قوم مکمل طور پر تباہ ہوجاتی ہے۔ لوگ اس طرح زوال پذیر قوموں کی ترقی اور خوشحالی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ یقینا آگ کی اتھاہ گہرائی کے ایک بہت بڑے دہانے پر کھڑے ہیں، اور یہ تباہی تیز تر ہورہی ہے، نہ کہ رک رہی ہے۔ جب کہ ان کا خیال ہے کہ ایک قوم اسی وقت خوش حالی پر ہوگی جب اس کے عوام انتہائی خودپرست ہوں گے۔ لیکن یہ دکھ بھرا نتیجہ ہے۔ جب تعمیری اور تخریبی قوتیں ایک ساتھ کام کررہی ہوں اور مجموعی طور پر تعمیری قوت، تخریبی قوت پر برتری رکھتی ہو، تو تخریب کو تعمیری عوامل میں شمار کرنا درست نہیں۔
مثال کے طور پر ایک کامیاب مرچنٹ جس نے اپنی ذہانت اور تجربے کے سہارے اعلیٰ منافع حاصل کیا ہو، لیکن ایک ہی وقت میں اگر وہ شراب پیے، جوا کھیلے اور اپنی زندگی کے معاملات سے لاپروا ہوجائے تو یہ اس کی فلاح و بہبود اور خوش حالی کے لیے اپنی زندگی کی جانب سے گمراہ کن ہوگا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی خصوصیات کا پہلا حصہ جس سے اسے مدد مل رہی ہے، اس کی زندگی کا دوسرا پہلو اسے تیزی سے نیچے کی طرف لا رہا ہے۔ مثبت خصوصیات کی وجہ سے وہ اگر پھل پھول رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ منفی قوتیں اس پر اثرانداز نہیں ہورہی ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ جوئے کی شیطانی لت ایک لمحے کے لیے اس کی زندگی میں خوش قسمتی لے آئے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شراب پینے کی شیطانی عادت رینڈرنگ(Rendering)کی ایک مہلک غلطی کا ارتکاب اسے مکمل دیوالیہ کردے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنسی بے اعتدالی اسے قتل، خودکشی یا کسی اور مصیبت میں گرفتار کردے۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کس طرح کامیاب خوش حال لوگ ان برائیوں کا شکار ہوئے ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ ایک قوم کے ساتھ بھی ہے۔ ابتدا میں ایک قوم تعمیری قوتوں کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ لیکن اس کے بعد مناسب رہنمائی کی کمی، اس کے چاروں جانب اس کی اپنی تباہی کے اسباب جمع کرنا شروع کردیتی ہے۔ کچھ لمحوں کے لیے تعمیری قوتیں پہلے ہی سے حاصل شدہ قوتوں کے ساتھ جِلا پاتی ہیں، چوں کہ تخریبی قوتیں بھی اس کے ساتھ کام کررہی ہوتی ہیں اس لیے وہ اسے اتنا کمزور کردیتی ہیں کہ ایک معمولی سا جھٹکا اسے وسیع و عریض گرداب میں دھکیل دیتا ہے۔
انسانیت کے لیے نجات کس طور ممکن ہے؟
سماجی ڈھانچے کے نقطہ نظر سے شریعت کی تعلیمات معاشرے کی اکائی اور خاندان کے کردار پر زور دیتی ہیں۔ خاندان بھی وہ جسے وسیع تناظر میں دیکھا جائے، نہ کہ جدید خاندانی تصور کے تحت۔ مدینہ میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے عظیم سماجی کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے موجود قبائلی نظام کی حد بندیوں کو توڑا اور ایک ایسا متبادل مذہبی نظام تشکیل دیا جو ایک جانب مسلم امہ سے منسلک تھا تو دوسری جانب خاندان سے۔ ایک مسلمان خاندان پورے مسلم معاشرے کی جھلک ہے جس میں اس کی مضبوطی کا پتا چلتا ہے۔ اس میں باپ ایک رہنما یا امام کے طور پر اسلام کی فطرت کے مطابق اپنے کام انجام دیتا ہے، اس کے کاندھے پر اس کی مذہبی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔
خاندان میں باپ کی حیثیت ایمانی اصولوں کی پاس داری کرانے والے، اور اس کی سربراہی کی حیثیت خدا جیسی اتھارٹی کی علامت کے طور پر ہے۔ ایک مرد خاندان میں اس لیے قابلِ عزت ہے کہ وہ خاندان کے افراد کی جائز خواہشات کی تکمیل کرتا ہے۔ کچھ اسلامی معاشروں میں بعض حلقوں کی طرف سے مسلمان خواتین کی بغاوت اُس وقت سامنے آئی ہے جب مردوں نے ان عورتوں کی مذہبی ضروریات کو پورا کرنا بند کردیا اور خاندان کی سربراہی کے کردار کو فراموش کردیا۔ مردوں کے غیر متاثر کن رویّے کی وجہ سے خواتین میں بغاوت کا عنصر وقوع پذیر ہوا جس کے بعد انھوں نے خود کو کسی بھی مذہبی اتھارٹی سے آزاد کرلیا۔
ایک روایتی خاندان معاشرے کے استحکام کی اکائی ہے۔ ایک مسلمان چار شادیاں کرسکتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح کعبے کے چار حصے ہیں۔ یہ استحکام کی علامت ہے۔ بہت سارے لوگ اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ اسلام میں کثرتِ ازدواج کی اجازت کیوں ہے، اور کیوں ایسے میں خاندان کا نظام جائز ہے۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ غیر اخلاقی ہے۔ کچھ لوگ اس اختلاط کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ یہ ایک ایسا سماجی رویہ ہے جو تمام برے تعلقات کو ممکنہ حد تک کم کردیتا ہے۔ مغربی افراد کے رویّے کا بنیادی مسئلہ مسلمانوں کے اس جدیدیت پسند معاشرے سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں جو خود تو شریعت کی تعلیمات کو سمجھ نہیں سکتے کیوں کہ وہ ان تصورات کو استعمال کرتے ہیں جو جدید مغرب سے مستعار لیے گئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے مسلم معاشرے میں ایک چھوٹے سے لیکن اہم طبقے میں، خواتین کی جانب سے روایتی اسلامی معاشرے کے خلاف بغاوت سامنے آئی ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر تہذیب میں ایک ردعمل ہمیشہ سے موجودہ قوت کے خلاف آتا ہے۔ اسلام میں بہت زیادہ تذکیری نوعیت کی روایت موجود ہے۔ اس کی وجہ سے عورتوں میں ہونے والی بغاوت زیادہ پُرتشدد اور جارحانہ جدیدیت پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندومت میں ماں کے رشتے سے منسلک تمام تعلقات مضبوط رہے ہیں۔ اسی لیے بہت سی مسلم خواتین خاندانی نظام کے مربوط سلسلے کو ڈھانے کی کوشش کررہی ہیں، حتیٰ کہ یہ چودہ صدیوں کے خلاف بغاوت ہے۔ ان میں بیشتر کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ اسلام کی اندرونی قوتوں نے اس نظام کو کیسے چلایا ہے۔ اسلام کی مردانہ فطرت کے خلاف آج کل چند جدیدیت پسند مسلمان خواتین نے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ اگرچہ تعداد میں محدود ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان مرد مغرب کی تمام چیزوں کے زیادہ پیاسے ہیں۔ وہ اپنے لباس اور عادات میں تیزی کے ساتھ جدید بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ عمل اُس وقت سامنے آتا ہے جب انسان گہرے نفسیاتی عوامل کو سمجھنے سے قاصر ہوجائے۔
اسلامی نقطہ نظر سے مردوں اور عورتوں کی برابری کا سوال بے معنی ہے۔ یہ گلاب اور چنبیلی کی برابری پر بحث کی طرح ہے۔ ہر ایک کی اپنی صورت اور خوب صورتی ہے۔ مرد اور عورت ایک جیسے نہیں ہیں، ہر ایک کی اپنی خصوصیات ہیں۔ خواتین مردوں کے برا بر نہیں ہیں، نہ ہی عورتوں کے برابر مرد ہیں۔ اسلام میں مسابقانہ کردار نہیں پایا جاتا، بلکہ اعزازی اختیار دیا گیا ہے۔ ہر ایک کو اس کی فطرت کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے ہیں۔
مرد کے پاس بعض مراعات جیسے سماجی حاکمیت، اور نقل و حرکت کی آزادی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انھیں کئی بھاری ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ وہ تمام معاشی ضروریات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاندان کی کفالت کرے خواہ اس کی بیوی مال دار ہی کیوں نا ہو، تب بھی اس کی ذمہ داری پوری کرنا اس کا کام ہے۔ ایک روایتی اسلامی معاشرے میں عورت کو فکرِ معاش کے بارے میں فکرمند ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی لڑکی کی شادی نہ ہوئی ہو تو اسے بڑے خاندان میں رہتے ہوئے پناہ حاصل ہوتی ہے، وہ سماجی اور معاشی دبائو سے عہدہ برآ ہوتی ہے۔ وسیع خاندانی نظام میں ایک مرد اکثر اپنی بیوی، بچوں، بلکہ ان کی ماں، بہن،چاچیوں، سسرالیوں اور دور کے رشتہ داروں کی بھی معاونت کرتا ہے۔ شہری زندگی میں ایک فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر قیمت پر وہ صاحبِ روزگار ہو تاکہ اقتصادی ضروریات درست طریقے سے پوری ہوں اور اس کا بار عورتوں کے کندھے پر نہ پڑے۔ دیہی علاقوں میں ایک خاندان بذاتِ خود معاشی اکائی ہے۔ ان جگہوں پر ایک چھوٹا خاندان کسی بڑے خاندان یا قبائل کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔
دوم، ایک عورت کو شریکِ حیات تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے اس بات کی چنداں فکر نہیں ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے ساتھی کو چننے کے لیے ہزار ہا منصوبے بنائے یا اپنے آپ کو قابل توجہ بنانے کی کوشش کرے۔ چوں کہ اس کی فطرت سچی ہے، اس لیے وہ اپنے والدین یا سرپرست پر بھروسا رکھتی ہے کہ وہ اس کے لیے ایک مناسب رشتے کا انتخاب کریں گے۔ یہ عام طور پر ایک مذہبی فرض کی ادائی اور مضبوط خاندانوں کی سماجی حدود کے احساس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان میں طلاق شاذو نادر ہی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ رشتے جو جذبات پر مبنی ہوتے ہیں، زیادہ دیرپا نہیں ہوتے۔
سوم یہ کہ مسلمان عورتیں براہِ راست فوجی اور سیاسی ذمہ داریوں سے مبرا ہیں، شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے جب انھیں ایسی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑے۔ یہ نکتہ کچھ لوگوں کے لیے ایک محرومی تو ہوسکتا ہے لیکن نسوانی فطرت کی حقیقی ضروریات کی روشنی میں یہ خواتین کے لیے بہتر ہے کہ وہ ان بھاری ذمہ داریوں سے مبرا رہیں۔ حتیٰ کہ جدید معاشروں میں جہاں برابری کے عمل کے ذریعے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں تھا، جہاں کام کے اعتبار سے عورت اور مرد کو مساوی درجہ دیا گیا ہے وہاں خواتین عام طور پر انتہائی حالات میں سوائے فوجی خدمات کے کسی اور کام سے بچ نہیں پاتیں۔
ان مراعات کے بدلے جو مسلمان عورت کو حاصل ہیں، اس پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ خاندان کو ایک گھر فراہم کرے اور بچوںکی مناسب طریقے سے پرورش کرے۔ گھر میں عورت ملکہ کے طور پر حکمرانی کرتی ہے جب کہ ایک مسلمان مرد ایک طرح سے گھر میں اپنی بیوی کا مہمان ہے۔گھر اور بڑا خاندانی نظام دراصل مسلمان عورت کی دنیا ہے۔ اس کا ان تمام چیزوں سے الگ ہوجانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے دنیا سے الگ ہوجانا، یا مرجانا۔ ایک عورت وسیع خاندانی نظام میں اپنے وجود کے معنی تلاش کرلیتی ہے اور اسے اپنی بنیادی ضرورت کا احساس اور خود کو زیادہ سے زیادہ تعمیری کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔
شریعت انھیں یہ اعزاز بخشتی ہے کہ عورت اور مرد اپنی فطرت کے مطابق کام کریں۔ یہ کسی مرد کے سیاسی و سماجی اختیارات کو اس لیے استحقاق دیتا ہے کہ وہ بڑی ذمہ داریاں ادا کرے، اپنے خاندان کی حفاظت کرے اور ان کی معاشی ضروریات اور دیگر عوامل کی کفالت کرے۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر اس دنیا میں خاندان کے سربراہان گھر میں اپنی بیوی کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس دائرے میں اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے خدا نے ان کی ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر رکھ دی ہیں۔ ایک مسلمان مرد اور عورت اپنی شخصیت کی تکمیل کے لیے خاندان تشکیل دیتے ہیں جو مسلم معاشرے کی بنیادی ساخت ہے۔
ثقافتی، اخلاقی اور روحانی اقدار کو زبردست طریقے سے رد کرنے اور خاندان کے ادارے کی مخالفت کرنے والی خواتین کی آزادی کی تحریک کی حمایت کرنے والوں نے اپنی پوری تہذیب یعنی عیسائی تہذیب کے ورثے کی مخالفت کی ہے۔ اس جاگیردارانہ معاشرے کی برائیوں اور پادریوں کی حاکمیت کے غلط استعمال کے باوجود قرونِ وسطیٰ کے یورپ نے ایک سماجی انضمام، استحکام، امن اور ہم آہنگی کا لطف اٹھایا ہے جو جدید یورپ کے لیے نامعلوم ہے۔ مشہور جرمن آرٹسٹ Albert Durer (۱۵۲۸ء۔ ۱۴۷۱ء) نے جو خود ایک کٹر عیسائی تھا، اپنی اور ایک عیسائی خاندان کی اقدار کی چلتی پھرتی اور واضح تصویر پیش کی ہے جو اسلامی نظریات کے بے حد قریب ہے۔
نسوانیت پرست ہونے کے لیے حقوق ِ نسواں کے علَم برداروں نے یک جنسی معاشرے کی تجویز دی۔ وہ معاشرہ جو جنسوں کے مابین ثقافتی اور سماجی امتیاز نہ رکھتا ہو… ایسا معاشرہ جو شادی کے بغیر ہو… گھر، خاندان، حیا، عفت اور مامتا جہاں دھتکارے جاتے ہوں… ایسا معاشرہ پیش رفت (Progress) اور آزادی(Liberation)کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اصل میں یہی تنزلی کی بدترین مثال ہے۔ اس کا نتیجہ صاف و خالص یہ ہے کہ وہ معاشرہ انتشار، افراتفری اور الجھن کا شکار ہوتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو تحریکِ نسواں اتنی مقبول کیوں ہے؟
سماجی صف بندی جس کی بنیاد مادہ پرستی نے رکھی ہے، وہ قدیم ترین اور مقبول ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی سماجی نظام تسلی بخش نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس میں آسانی سے ایسا ارتقا وقوع پذیر ہوتا ہے جو فوری طور پر اکثریت کے لیے تمام حالات اور تمام زمانوں میں قابلِ قبول ہوجائے۔ موجودہ سماجی نظام کی کشش عوام میں ہے، اس لیے اس کی جڑیں اتنی گہری نہیں۔ نہ یہ انسانی ذہانت کی سطح بڑھانے میں معاون ہے، نہ کسی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے، نہ اس میں انسان دوستی ہے، اور نہ یہ پائیدار ہے۔ تاریخ اس حقیقت پر گواہی دیتی ہے کہ کوئی بھی سماجی نظام تسلسل کے ساتھ انسانیت پر اثر رکھنے کے لیے نہیں آیا ہے، مگر اس نظام کے اثرات انسانی دنیا پر گہر ے ہیں۔
اس نظام کے اثر سے کبھی اخلاقی بدحالی اور سماجی تنزل انسانوں پر عالمی سطح پر نہیں آیا، جیسا کہ اس وقت یہ مسئلہ درپیش ہے۔ حقوقِ نسواں کے آدرشوں کو اپنانے کے بعد انسان جانوروں سے بھی نچلے درجے پر آگیا ہے۔ جانور بھی اپنی جبلت کے تحت زندہ رہتے ہیںاور وہ اپنی فطرت کے خلاف نہیں جاتے۔ جانوروں کے مابین ہم جنس پرستی نامعلوم ہے۔ ہر نسل کا جانور اپنے صنفِ مخالف کی جانب کشش رکھتا ہے۔ نر جانور کبھی بھی شہوت کی غرض سے نر کی جانب نہیں بڑھتا، اور اسی طرح نہ کوئی مادہ جانور کسی مادہ کی طرف۔ جانوروں میں مادری تعلق اُس وقت تک پروان نہیں چڑھتا جب تک جانور اپنی حفاظت خود نہ کرسکے۔ اکثر جانوروں میں نر اپنے بچوں میں دل چسپی نہیں لیتا۔ حیوانوں میں یہ تعلق حیا، عفت، شادی اور آبائی جیسا نہیں ہے۔ یہ رویّے صرف انسانوں کے لیے خاص ہیں۔ انسان ہر ثقافت، ہر تہذیب اور تا ریخ میں ان رویوں کے گرویدہ رہے ہیں۔ نسائیت پرست ان خواص کو ختم کردینا چاہتے ہیں، جو تمام رشتوں اور سماجی بندھنوں کی بنیاد ختم کردینے جیسا ہے۔ اس کا نتیجہ خودکشی ہوگا، بلکہ ایک ایسی تنہا قوم جس کا وجود نہ تو تاریخ، نہ انسانی نسل میں پیش کیا جا سکتا ہے۔