محدود علامتوں، نشانیوں کے چنگل سے نکال کر حیا کو پوری زندگی بنانے کے لیے آج کے عہد میں جو لوازمات درکار ہیں وہ کون لائے گا؟ کہاں سے لائے گا؟
محمد اسعد الدین
ایک زمانے سے سنتے، پڑھتے، لکھتے آرہے ہیں کہ Inputجیسا ہوگا، ویسا ہی Outputہوگا۔ آسان لفظوں میں اسے قدرت کا قانون ’’جو بوئو گے وہ کاٹو گے‘‘ کہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حیا سے ’’جو بوئو گے، وہ کاٹو گے‘‘ کے قانون کا واسطہ؟ چلتے پھرتے سرسری نظر ڈالنے سے تو واقعی حیا کا اس قانون سے، اصول سے کوئی لینا دینا نظر نہیں آتا… مگر ذرا پوری آنکھیں کھول کر دیکھیں تو نظر بھی آتا ہے اور سمجھ بھی کہ خدا نے انسان کو، انسانی زندگی کو ایک ’’کُل‘‘ کی شکل میں پیدا کیا۔ زندگی کے مسائل، مطالبے، الجھنیں درجنوں صحیح، حقیقت میں مگر وہ سب ایک زندگی سے ’’جڑے‘‘ ہوئے ہیں۔ عیار عقل نے اس صورتِ حال کا شاہ کار حل یہ نکالا کہ ’’ایک‘‘ زندگی کو مفاد اور سوچ کی چھری سے کیک کے ٹکڑوں کی طرح کچھ اس طرح تقسیم کیا کہ ہر ٹکڑا ایک مکمل کیک دکھائی دینے لگا، بس کیک کا سائز ذرا چھوٹا ہوگیا۔ آنکھوں کو مکمل کیک دکھائی دینے کے دل فریب خیال نے توجہ کہیں اور جانے ہی نہ دی۔ اس کے ساتھ ہی اگلے مرحلے میں حیا کا تصور بھی خودبخود اور آہستگی کے ساتھ کاٹ پیٹ کے عمل سے گزرا۔ جب تک زندگی میں دین، دنیا ساتھ ساتھ رہے، قدم بہ قدم، ہم سفرو ہمنوا رہے تو خلقِ خدا بھی حیا کے ایک ہی تصور سے واقف تھی۔ فرد سے لے کر خاندان تک، محلے سے بستی اور معاشرے تک حیا ثابت، سالم رہی۔ لیکن جب دین اور دنیا نے ایک دوسرے سے ہاتھ چھڑا کر الگ الگ راستوں پر سفر کرنا شروع کیا تو حیا کے انداز اور طور طریقے ہی نہیں، تصور کے بھی حصے بخرے ہوگئے۔ اس کے بعد…؟
پھر حیا کے نام پر حیا کے ساتھ بے حجابانہ، بے گانہ کھیل شروع ہوگیا جو حالات، ماحول، صورت حال کے اعتبار سے رنگ اور شکل بدل بدل کر جاری ہے۔ ہم خدا کی زمین پر بنی ہوئی مسجد میں داخل ہوتے ہیں، اپنے مالک کے حضور پیشی کے تصور سے ہمارے خیالات، احساسات، آرزوئیں، جذبات اور نظریں جھکی پڑتی ہیں، مارے خوف کے کبھی کبھار آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں، دل موم ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام ہی حیا کے مختلف انداز ہیں۔ اب مسجد سے باہر آکر خدا ہی کی زمین پر قائم بازار، دفتر، کاروبار کے مقام پر پہنچے، روزی کمانے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہیں تک نہیں، روزمرہ گھریلو زندگی میں، میل جول میں، لوگوں سے چلتے پھرتے معاملات کرتے ہوئے، وعدے اور عہد کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک جھوٹ، دھوکا، حرص، لالچ، بدکلامی، بدنیتی… کون سا ایسا رویہ ہے جو لوگوں کی اکثریت بڑے دھڑلے، بے حیائی لیکن آرام سے نہیں اپنا لیتی! یعنی ہم نے حسبِ صلاحیت، حسبِ توفیق و ضرورت حیا کے ایک مکمل تصور کو کاٹ چھانٹ کر، تراش خراش کر مختلف ماڈل بنالیے۔ جو مختلف مواقعوں پر استعمال کرتے ہیں، دل کی تسلی اور دنیا کو اطمینان دلانے کے لیے حیا کی اصل کیفیت، شکل کو سلیقے اور خاموشی کے ساتھ مسجد، مزار، مدرسے، مذہبی اجتماعات، مخصوص مقامات و نشستوں میں گفتگو کے خاص انداز، مخصوص لباس، حلیے تک محدود، مسدود اور محبوس کردیا۔
کہتے ہیں تاثر حقیقت سے زیادہ خطرناک شے ہے۔ حیا کے معاملے میں اس مثال نے خوب کمال دکھایا۔ آپ کسی کے سامنے کسی شخص کا تعارف کرائیں: ’’فلاں صاحب بڑے مذہبی اور حیا دار ہیں‘‘، سننے والے کے ذہن میں سب سے پہلے جو تصویر بنے گی وہ ایک ’’باکردار‘‘ شخص کی ہوگی۔ آپ کا مخاطب تعارفی الفاظ سن کر دل ہی دل میں اِدھر اُدھر سے سُنی ہوئی تقدس کی باتیں اور خاکے جوڑ کر نیکی اور پاک بازی کا مجسمہ تراشنا شروع کردے گا۔ اُس کے بعد پتا چلتا ہے کہ اُن صاحب کے کردار سے کسی کا کسی ’’معاملے‘‘ کے حوالے سے واسطہ پڑا اور بس… متاثرہ شخص مدتوں اُن کے نام پر فاتحہ پڑھتا ہے۔ یہ ایک عمومی مثال ہے۔ اس مثال کا آئینہ بنائیے۔ گھریلو زندگی میں، باہمی رشتوں میں، لین دین کے معاملات میں، وعدوں میں، دعووں میں اور زندگی کے جتنے رنگ، جتنے رویّے ہوسکتے ہیں، آئینے میں تصویر دیکھتے جائیے، حقیقت آپ سے آپ کھلتی جائے گی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ سماج کی اکثریت نے… اس میں عوام بھی شامل ہیں، خواص بھی، بلکہ معززین کا معاملہ تو دو قدم آگے ہے… پاک بازی، عظمت، کردار کا لوگوں پر رنگ جمانے، رعب گانٹھنے کا ایک ’’عوامی ماڈل‘‘ تیار کررکھا ہے۔ ون ٹو ون ملاقاتوں، ڈیلنگ، باہمی لین دین، وعدوں، قول وقرار نبھانے کے حوالے سے ان کے الگ معیارات ہیں، الگ انداز ہیں۔ بات طویل ہوجائے گی کیوں کہ مثالیں، کردار، واقعات بہت سارے ہیں افراد کے، گروہوں کے بھی، دُنیا داروں کے، دین داروں کے بھی۔ ہوشیاری سے، اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے پوری زندگی پر پھیلے ہوئے حیا کے تصور کو مسجد، مزار، درس، میلاد، لباس اور گفتگو کے چند ظاہری انداز تک محدود کرنے اور باقی تمام معاملات خاص طور پر ذاتی، گھریلو، اور معاشرتی زندگی سے حیا کو غیر اعلانیہ، غیر تحریری اور غیر محسوس انداز سے ’’بے دخل‘‘ کرنے کا کیا نتیجہ نکلا؟ اس پر کسی نے سوچا کہ حیا کا جو مخصوص تصور ہم پروان چڑھا رہے ہیں، جو ناقص بیج بو رہے ہیں اس کی فصل کیسی ہوگی؟ اس جانب کسی کا دھیان گیا کہ پکنے والے اس پھل کو کون گھر لے کر جائے گا؟ ہم سوچتے ہیں، چاہتے ہیں: زندگی میں سب کچھ کے ساتھ حیا ’’بھی‘‘ ہو۔ کتنے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ’’حیا والی زندگی‘‘ ہو؟ صبح و شام تک، تنہائی سے انجمن تک، احباب کی محفل سے گھر والوں سے تعلقات تک، دفتر سے کاروبار تک، مسجد کے اندر بھی، اور باہر بھی ایک ہی اصول، ایک ہی معیار ہو… صرف حیا!! حیا کی اصل اور مکمل تصویر کو کاٹنے، ٹکڑوں میں بانٹنے، من چاہی تشریح، تعبیر اور سلوک کی وجہ سے نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سوسائٹی میں دو رنگی کا رنگ اور گہرا ہوگیا۔ لوگ اِدھر کچھ، اُدھر کچھ۔ ابھی کچھ، تھوڑی دیر بعد کچھ۔ اور گھڑی میں تولہ، گھڑی میں ماشہ۔ دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنے کی خواہش شدید سے شدید تر۔ نوافل میں اضافہ، دھوکے فریب کی کثرت بھی۔ فراوانی صدقہ خیرات کی، اور بدعہدی، بدکلامی کی بھی۔ تیزی راہِ خدا میں لُٹانے کی اور مخلوقِ خدا کو نئے نئے طریقوں سے لوٹنے میں بھی۔ دلچسپی اپنی آخرت بنانے اور اوروں کی زندگی کے معاملات بگاڑنے کی۔ دوسرا نتیجہ اس سے بھی زیادہ مہلک، ’’ظاہر پرستی‘‘ کا مرض عام ہوگیا۔ توجہ، نگاہ، دل، دماغ زورو شور سے متعارف کرائی گئی گنتی کی چند ظاہری علامتوں میں پھنس کر رہ گئے۔ محدود علامتوں، نشانیوں کے چنگل سے نکال کر حیا کو پوری زندگی بنانے کے لیے آج کے عہد میں جو لوازمات درکار ہیں وہ کون لائے گا؟ کہاں سے لائے گا؟