امریکہ میں مقیم ظفر قریشی معروف صحافی ہیں۔ 1980-81ء میں کراچی پریس کلب کے سیکریٹری رہے۔ روزنامہ مشرق، اخبارِ خواتین اور روزنامہ حریت سے منسلک رہے۔ الطاف گوہر جو صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں سیکریٹری انفارمیشن تھے ’’ڈان‘‘ کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے خصوصی کالم (انگریزی میں) لکھا کرتے تھے۔ ان کالموں کا اردو ترجمہ ظفر قریشی اس خوب صورتی سے کرتے تھے کہ وہ اصل کالم سے زیادہ مقبول ہوتا۔ انہوں نے امریکہ میں کئی انگریزی اور اُردو اخبارات بھی نکالے جو زیادہ عرصہ نہ چل سکے۔ پاکستان میں انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ آزادیِ صحافت کی جو جدوجہد کراچی پریس کلب سے شروع ہوئی تھی، اس میں ظفر قریشی بھی شامل رہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے کوٹ لکھپت سمیت پنجاب کی ساڑھے پانچ جیلیں دیکھی ہیں۔ یہ ایک اچھے آرٹسٹ بھی ہیں۔ ’’عالمی کہانیاں‘‘ پہلے والیم کی تقریبِ اجراء کراچی پریس کلب میں ہوئی۔ والیم 2 اور 3 کی تقریبِ اجراء بزم یاور مہدی کے تعاون سے کراچی آرٹس کونسل میں غازی صلاح الدین کی صدارت میں ہوئی۔ اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ادب کا عالمی ورثہ ترجمے سے ہی منتقل ہوتا ہے، اگر ترجمہ نہ ہو تو عالمی ادب موجود ہی نہیں رہے گا۔ ادب کا ترجمہ دو مختلف زبانوں اور کئی مختلف تہذیبوں سے دانستہ شناسائی کا مطالہ کرتا ہے‘‘۔ ’’عالمی کہانیاں‘‘ ظفر قریشی کے ایک عزم کا اظہار ہے۔ انہیں اچھے اور معیاری ترجمے کی مشق کو جاری رکھنا چاہیے، انہیں عالمی ادب کے اُن افسانوں کو ڈھونڈتے رہنا ہے کہ جو اردو پڑھنے والوں کے لیے ایک حیرت انگیز دریافت بن سکیں، کیونکہ انہیں ایک زبان کی نغمگی یا کاٹ دوسری زبان میں منتقل کرنے کا فن آتا ہے۔ انہوں نے یاور مہدی کو خراجِ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج صدرِ محفل تو میں ہوں، مگر میرِ محفل یاور مہدی ہیں۔
پروفیسر انوار احمد زئی نے کہا کہ ’’انہوں نے جو کہانیاں چُنی ہیں اُن کے قلم کار مستقبل میں بڑے اہلِ قلم کہلائیں گے‘‘۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ ’’انہوں نے بڑے جنوں اور ہمت کا کام کیا ہے، ہمیں اب پاکستانی بیانیے کو بھی آگے بڑھانا چاہیے‘‘۔ اخلاق احمد نے کہا کہ ’’ترجمہ ایک پُل ہوتا ہے جو دو تہذیبوں کو ملاتا ہے۔ ان کی بیشتر کہانیاں تازہ ہیں جو موجودہ عہد کی تصویر ہیں‘‘۔ آغا مسعود حسین نے کہا کہ ’’میں جن پانچ لوگوں کی خدمات کا معترف ہوں ان میں ظفر قریشی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ہمیں دنیا بھر کے تخلیق کاروں کے کام سے آگاہ کیا اور اردو دنیا کے ایک بڑے خطے کو عالمی ادب سے روشناس کرایا جس پر یہ ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ انہوں نے مختلف معاشروں کو یکجا کرنے کی اچھی کوشش کی ہے‘‘۔ ناہید سلطان مرزا نے کہا کہ ’’انہوں نے امریکہ میں بھی صحافت کے چراغ جلائے ہیں، ان کے تراجم کسی تخلیق سے کم نہیں‘‘۔ ناظمِ تقریب ندیم ہاشمی نے کہا کہ ’’یہ فقیر منش آدمی ہیں، خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہتے ہیں، اور یاور مہدی سے آج بھی چالیس سال پہلے کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ یاور مہدی آج بھی ٹیلنٹ کو اُجاگر کررہے ہیں۔ ظفر قریشی کے اعزاز میں دی گئی آج کی تقریب میں شہر کی علمی، ادبی شخصیات بڑی تعداد میں موجود ہیں‘‘۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے بھی یاور مہدی کی خدمات کو سراہا۔
تقریب کی ابتدا سید محمد ابراہیم نے تلاوتِ کلام پاک سے کی۔ شہزاد احمد نے حمدِ باری تعالیٰ پیش کی۔
تقریب کی کامیابی کے بعد بزم یاور مہدی نے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں استقبالیے کا اہتمام کیا جو بزم یاور مہدی کی 147 ویں تقریب تھی۔ تقریب کی صدارت سید فراست رضوی نے کی۔ اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اگر زبانوں میں دوسری زبان کے تراجم نہ ہوتے تو سائنسی ایجادات بھی نہ ہوتیں۔ ترجمہ ایک تہذیب کو منتقل کرنے کا کام ہے۔ حکومتوں کو تراجم کرنے والوں کی سرپرستی کرنی چاہیے اور ہمیں ایک بڑا دارالترجمہ قائم کرنا چاہیے، جہاں ہم دورِ حاضر میں ہونے والی تبدیلیوں سے اپنے معاشرے کو آگاہ کرسکیں اور ترقی کی دوڑ میں دنیا کے ساتھ حصہ لے سکیں‘‘۔ خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ ’’ترجمہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک آدمی تخلیق کار نہ ہو، ظفر قریشی بنیادی طور پر آرٹسٹ ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیت ان کے تراجم سے عیاں ہے‘‘۔ قاسم جلالی نے کہا کہ ’’یاور مہدی بزم نہیں بلکہ انجمن ہیں۔ ظفر قریشی نے ہمیں اپنے تراجم کے ذریعے اَن دیکھی دنیا کو دکھایا ہے، انہوں نے امریکہ میں رہ کر وہاں کے کلچر کو سمجھا اور ہم تک وہاں کی فکری تخلیقات پہنچائیں، یہ امریکہ میں رہ کر بھی اردو کی خدمت کررہے ہیں۔‘‘
ظفر قریشی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ جلد ہی افسانوں کا ایک مجموعہ اور ایک ناول بھی وہ شائع کریں گے اور اپنے تخلیقی آرٹ کے فن پارے بھی پیش کریں گے۔ دورانِ گفتگو راقم عبدالصمد تاجی نے انہیں تجویز دی کہ آئندہ وہ اپنی کتابوں کے سرورق بھی خود بنائیں۔ اس تقریب کی نظامت بھی ندیم ہاشمی نے کی جبکہ محمد اقبال خان نے تلاوتِ کلام پاک اور محترمہ نسیم نازش نے نعتِ رسولؐ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ تقریب میں اہل علم و ادب کے ساتھ صادقہ صلاح الدین، زاہد جعفری، محمد علی سید، ذکیہ جلالی، افشاں سحر، ضغیم زیدی، ڈاکٹر لبنیٰ سلمان، اجمل شوبی، مرزا افتخار بیگ، نوید ہاشمی اور عبدالباسط نے بھی شرکت کی۔ تقریب کے میزبان شیخ راشد عالم نے کہا کہ بزم یاور مہدی کی150 ویں تقریب میں ہم’’یاور مہدی فائونڈیشن‘‘ کے قیام کا اعلان کریں گے، جو دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے، کام کرے گی۔ اس موقع پر ظفر قریشی، غازی صلاح الدین، عقیل عباس جعفری کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیے گئے۔ مہمانوں کے لیے پُرتکلف عشائیے کا بھی اہتمام کیا گیا۔