علیحدہ وطن کی قرارداد 1940ء

اللہ بخش یوسفی اور قائداعظم کے درمیان تعلقات قائداعظم کی وفات 11 ستمبر 1948ء تک ہی برقرار نہیں رہے، بلکہ اللہ بخش یوسفی نے ’’وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے‘‘ کی اعلیٰ مثال پیش کرتے ہوئے اپنی آخری سانس تک قائداعظم کو ہی اپنا قائد اور مسلمانانِ برصغیر کا محسن تصور کیا۔ وہ مولانا محمد علی جوہر اور قائداعظم محمد علی جناح کی عظیم شخصیات کے سحر سے کبھی باہر نہیں نکلے۔ ان کی سیاست اور صحافت تمام عمر انہی دو افرادکے متعین کردہ اصولوں کے گرد گھومتی رہی۔
تحریکِ پاکستان کے دوران یعنی مارچ 1940ء میں قراردادِ لاہور کی منظوری کے بعد اگرچہ اللہ بخش یوسفی کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہوگئی تھیں، اور وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور و مؤقف کی تشہیر کے لیے پورے طور پر اپنی توجہ صحافت کی جانب صرف کیے ہوئے تھے، لیکن بعض دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس دوران بھی قائداعظم سے مختلف سیاسی موضوعات پر اُن کی خط کتابت جاری رہی۔
اللہ بخش یوسفی ایک ذہین اور زیرک سیاست دان تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کے بعد مولانا شوکت علی نے بھی اللہ بخش یوسفی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کو روزنامہ ’’خلافت‘‘ بمبئی کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ اس طرح اللہ بخش یوسفی بیک وقت صوبہ سرحد سے روزنامہ ’’سرحد‘‘ اور بمبئی سے روزنامہ ’’خلافت‘‘، اور بمبئی سے ہی ایک انگریزی ہفت روزہ “The Progress” کے ایڈیٹر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہاں ایک اور بات قابلِ توجہ ہے کہ اللہ بخش یوسفی نے جب 1939ء میں بمبئی سے “The Progress”کا اجراء کیا تو اس کے سرنامہ پر ایک عرصے تک لکھا کہ ’’ مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وطن کے قیام کا داعی‘‘۔ 1945-46ء کے انتخابات کے موقع پر قائداعظم کی ہدایت پر اللہ بخش یوسفی نے پشاور سے ایک اخبار ’’ہلالِ پاکستان‘‘ جاری کیا، تاکہ وہ انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں کے لیے اشاعتی خدمات انجام دے سکے۔ یہ اخبار قیام پاکستان تک جاری رہا۔
صوبہ سرحد کی سیاست کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس صوبے میں بھی سیاست جاگیرداروں، نوابوں اور سرمایہ داروں کا مشغلہ تھی۔ وہ اگرچہ اپنی کوششوں میں سچے تھے، لیکن سیاست ان کی ڈیوڑھی سے اتر کر عوام کے جھونپڑوں تک نہیں آئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قیادت و وزارت عوام سے دور رہتی تھی، اور صرف وہی افراد تنظیمی سطح پر نمایاں نظر آتے تھے جن کی مالی حیثیت بہت بہتر ہوتی تھی۔ اللہ بخش یوسفی ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اول تو دولت کی فراوانی ان کے یہاں نہیں تھی، اور اگر تھی تو وہ یا تو گرفتاریوں کی نذر ہوگئی یا صحافت کی۔ ایسی صورتِ حال میں اعلیٰ مناصبِ قیادت تک پہنچنا ان کے بس کی بات نہ تھی، چنانچہ انہوں نے ضلعی و شہری سطح پر تو مسلم لیگ سے اپنا تعلق برقرار رکھا لیکن قومی و صوبائی سطح پر پس منظر میں چلے گئے۔ ویسے بھی ان کے لیے اخبارات کی ادارت اور صحافیانہ مصروفیت کے پیش نظر خود کو صرف قرطاس و قلم کی حد تک محدود کردینا زیادہ ضروری تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح 1936ء کے بعد سے برابر مؤثر مسلم پریس کے قیام کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کانگریسی اخبارات کے پروپیگنڈے کا مؤثر و مثبت جواب اخبارات کے ذریعے ہی دیا جائے۔ اس لیے اللہ بخش یوسفی نے اپنی تمام تر توجہ اسی جانب مبذول کردی۔
صوبہ سرحد کے انتخابات کے نتیجے میں 3 ستمبر 1937ء کو خان عبدالغفار خان کے برادر بزرگ ڈاکٹر خان کی سربراہی میں پہلی کانگریسی حکومت قائم ہوئی، اور اس کے ساتھ ہی صوبہ سرحد کے اعتدال پسند مسلمانوں کے لیے ایک اور انسانیت سوز دور کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر خان کی وزارت 6 نومبر 1939ء کو کانگریس کے فیصلے کے مطابق احتجاجاً مستعفی ہوگئی۔ اس کے بعد ہی گورنر راج نافذ کردیا گیا جو 25 مئی 1943ء کو سردار اورنگ زیب خان کی قیادت میں مسلم وزارت کی تشکیل تک جاری رہا۔ اس دوران برصغیر کے سیاسی حالات نے کئی کروٹیں لیں۔ سرکاری اور سیاسی سطح پر کئی فیصلے کیے گئے، اور ان میں سب سے اہم فیصلہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے علیحدہ وطن کے قیام کی قرارداد کی منظوری تھی۔ مسلم لیگ کے اس فیصلے نے براہِ راست صوبہ سرحد کی سیاسی صورتِ حال میں مؤثر کردار ادا کیا اور یہ بات عام طور پر کہی جانے لگی کہ مسلم لیگ بھی ایک واضح نصب العین رکھتی ہے۔ کانگریس کے پلیٹ فارم سے آزادی کا جو نعرہ لگایا جارہا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ کانگریس ہی انگریزوںکو ہندوستان چھوڑ دینے پر مجبور کررہی ہے، غلط ثابت ہوگیا۔ مسلم لیگ کی علیحدہ وطن کی قرارداد نے یہ بات طے کردی کہ مسلم لیگ نہ صرف آزادی کی خواہاں ہے بلکہ وہ ایک علیحدہ مسلم وطن بھی چاہتی ہے جس کی زمام اقتدار مسلمانوں کے ہی ہاتھ میں ہوگی۔
[بحوالہ: اللہ بخش یوسفی، قائداعظم کی سیاسی فکر کے ترجمان… خواجہ رضی حیدر]

پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ

ڈالی گئی جو فصلِ خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحابِ بہار سے
ہے لازوال عہدِ خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے
ہے تیرے گلستاں میں بھی فصلِ خزاں کا دور
خالی ہے جیب گل زرِ کامل عیار سے
جو نغمہ زن تھے خلوتِ اوراق میں طیور
رخصت ہوئے ترے شجرِ سایہ دار سے
شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تُو
نا آشنا ہے قاعدۂ روزگار سے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ!

زرِ کامل عیار: کسوٹی پر پورا اترنے والا سونا۔ کھرا سونا۔
خزاں کے موسم میں جو شاخ درخت سے ٹوٹ جاتی ہے، وہ بہار کے بادل سے ہری بھری نہیں ہو سکتی۔ اس پر ہمیشہ خزاں چھائی رہتی ہے۔ نہ کبھی اسے پتے لگتے ہیں نہ پھل۔
اے مسلمان! تیرے باغ میں پت جھڑ کے موسم کا دور دورہ ہے اور پھول کی جیب کھرے سونے سے خالی ہے۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کا ایمان کمزور ہوگیا ہے، اس لیے ان پر پستی اور زوال چھا گیا ہے۔
جو پرندے پتوںکی تنہائی میں نغمے گا رہے تھے، وہ تیرے سائے والے درخت سے رخصت ہوگئے۔ یعنی جو شاخ درخت سے کٹ کر الگ ہوچکی ہو، وہ سوکھ جاتی ہے۔ اس پر نہ کوئی پرندہ بیٹھتا ہے اور نہ ان کی نغمہ زنی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
تُو کٹی ہوئی شاخ سے سبق حاصل کر۔ یہ اس لیے کہتا ہوں کہ تُو زمانے کے قاعدے سے ناواقف ہے۔
قوم کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط رکھ۔ تیرے لیے بہار کی امید اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ درخت سے چمٹا رہے۔