تعلیم نسواں کی اہمیت

دنیا میں زر، زمین اور زن کو وجہ فساد قرار دیا گیا ہے، لیکن یہ مرد کی ہوسِ زر، زمینوں کے جھگڑے اور عورتوں کی تعلیم و تربیت سے بے توجہی کا نتیجہ ہے کہ معاشرے میں فساد پھیلتا ہے، مرد ہی دنیا کا اصل حاکم ہے اور اس کی مرضی کے مطابق دنیا چل رہی ہے۔ اس لیے جو شر و فساد دنیا میں ہے اس کا ذمہ دار مرد ہے، عورت نہیں۔ عورت تو گھر بناتی ہے۔ اپنا گھر بگاڑنے والی عورتیں کم ہی ہیں۔ عورت کا بنایا ہوا گھر معاشرتی اقدار کے لحاظ سے ہمارا مضبوط قلعہ ہے، اور یہ گھروں کی تہذیب ہی ہے جس کی وجہ سے اچھی اقدار ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہتی ہیں، اور عورت جو قلعہ بناتی ہے اس کے مقابلے کے لیے اس میں سخت جانی بھی ہوتی ہے اور گھر سے باہر کی دنیا کے برے اثرات گھروں میں آسانی سے راہ نہیں پاتے۔ لیکن زمانۂ جدید نے ’’میڈیا‘‘ کا نیا سرطان پیدا کیا ہے جو ہر گھر میں موجود ہے اور اخبارات، رسائل، ٹی وی گھروں کا حصہ بن کر گھرانوں کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہے ہیں اور ہماری اقدار کا ستیاناس ہورہا ہے۔ یہ صورتِ حال ایک بڑا چیلنج ہے اور ہمارے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویزمشرف تو پرائیویٹ ٹی وی کی اجازت دینے پر بھی غور کررہے ہیں جبکہ سرکاری ٹی وی پہلے ہی اخلاقیات پر حملہ آور ہے، پرائیویٹ ٹی وی تو اس سے کہیں آگے جائیں گے۔ اور پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی نہ ہوں تب بھی بیرونی ٹی وی ہمارے گھروں میں رسائی پا چکے ہیں اور عورتوں، لڑکیوں، بچے، بچیوں کے ذہنوں میں زہر گھول رہے ہیں۔ اس نئی مصیبت کے مقابلے کے لیے تنہا مرد کچھ نہیں کرسکتے۔ اگر آپ اپنے گھر میں ٹی وی نہ رکھیں تو گھر کی عورتیں اور بچے پاس پڑوس کے گھروں میں جاکر ٹی وی کے حیا سوز پروگرام دیکھا کریں گے۔ اخبارات میں عورتوں کی رنگین تصویریں تو ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ ان تصویروں کے رنگ اور ان کے ڈھنگ بھی خیالات و جذبات میں ہلچل پیدا کرتے ہیں، خاص طور پر کم عمر لڑکیوں پر ان کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہم نے تعلیمِ نسواں کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ مرد حضرات مرد کی حکمرانی پر تو زور دیتے رہے اور حقِ حکمرانی کو جائز ناجائز طریقے سے استعمال کیا، لیکن یہ بہت کم سوچا گیا کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بھی مرد کی کچھ ذمہ داری ہے۔ اگر مغرب نے عورت کو بازار کی جنس بنادیا تو ہم اہلِ مشرق نے عورت کو گھر کی لونڈی سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اب زمانہ ترقی کرگیا ہے تو نئی نسل کے نوجوان پہلے کی طرح گھروں میں درشت مزاج آقا نہیں رہے لیکن وہ زن مرید بن کر رہ گئے ہیں۔ جہاں تک عورتوں کی تعلیم کا تعلق ہے ماضی میں اس کو غیر ضروری سمجھا جاتا تھا، حتیٰ کہ سرسید بھی عورتوں کی تعلیم کے مخالف تھے۔ انہوں نے ایک مضمون میں لکھا کہ لڑکیوں کا اسکول جانا مناسب نہیں ہے، وہاں وہ طرح طرح کی لڑکیوں سے جن میں غیر مذاہب کی لڑکیاں بھی شامل ہیں، میل جول رکھیں گی، اس طرح ان پر گھر کے باہر کی بری دنیا کا اثر ہوگا۔ خدا بھلا کرے راشد الخیری اور ڈپٹی نذیر احمد کا کہ وہ بہت قدامت پسند تھے، لیکن انہوں نے تعلیم نسواں کے لیے زبردست تحریک چلائی اور عورتوں کے پڑھنے لکھنے کے لیے بڑا لٹریچر بھی تیار کیا، ان میں ’’عصمت‘‘ رسالے کا نام آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔
یہ زمانہ گزر گیا، اب تعلیم نسواں کے لیے کسی تحریک کی ضرورت نہیں ہے، لڑکیوں میں بھی پڑھنے کا شوق ہے اور ماں باپ بھی چاہتے ہیں کہ کچھ نہیں تو بچی میٹرک، ایف اے ضرور ہو۔ اور یونیورسٹیوں میں اب لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں نظر آرہی ہیں۔ امتحانات کے نتائج بتاتے ہیں کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں اچھے نمبروں سے کامیاب ہوتی ہیں۔ مگر اس تعلیم سے معاشرے کا اصل مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی اُلجھ گیا ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت، جس نے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا ہے، بنائو سنگھار اور آرائش و زیبائش ہی کے چکر میں نہ رہے۔ معاشرتی اصلاح کی تحریک اگر تنہا مرد چلائیں گے تو وہ کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اس تحریک میں عورتوں کا بھی آگے آنا ضروری ہے، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم عورتوں کو حقیر مخلوق خیال نہ کریں، انہیں عزت دیں، ان کو اپنے برابر کا سمجھ کر ان سے حالاتِ حاضرہ اور مسائلِ جدیدہ پر گفتگو کریں، ان کی بھی سنیں، اپنی بھی سنائیں۔ اگر عورتوں کی ذہنی سطح بلند نہیں ہوگی اور وہ صرف باورچی خانے کی ضرورت کی چیز سمجھی جائیں گی، یا انہیں صرف بچے پیدا کرنے اور نہ پیدا کرنے کے لیے برتھ کنٹرول کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے گا تو معاشرہ ترقی نہیں کرسکے گا۔ اس ترقی اور اصلاح کے لیے عورتوں کو گھر کی محدود دنیا سے باہر قدم رکھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور یہ سب کچھ حجاب کی پابندی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، پردہ اس میں کہیں بھی رکاوٹ نہیں، اور اسلامی پردہ وہ ہے بھی نہیں جو رائج ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے کہ ’’کیا میں تمہیں ایسے خزانے سے مطلع نہ کروں جو سب سے اچھا ہے، سن لو کہ وہ نیک عورت ہے‘‘۔ ایک اور حدیث ہے کہ ’’دنیا سامانِ زینت ہے اور اس کی بہترین متاع صالح عورت ہے‘‘۔ عورت کی اس نیکی کے لیے زمانے میں زیادہ خطرات نہیں تھے، جب وہ گھر کی چار دیواری میں بند تھی اور باہر کی دنیا اس کے گھر میں بہت کم داخل ہوسکتی تھی۔ اب یہ پرانا طرز چل نہیں سکتا۔ عورتیں بازار بھی جائیں گی، محفلوں میں بھی ان کا مردوں سے آمنا سامنا ہوگا اور کہیں ملازمت بھی ان کی ضرورت ہوگی، اور کچھ نہ ہو تو ذرائع ابلاغ عورتوں پر اپنا اثر ڈالیں گے۔ اس لیے آج پہلے کے مقابلے میں عورتوں کے حوالے سے کہیں زیادہ بڑی تحریک کی ضرورت ہے، اور عورتوں کو ہم اپنی اصلاحی تحریکوں سے الگ رکھیں گے تو یہ بڑی غلطی ہوگی، کیونکہ گھر مرد نہیں، عورتیں بناتی ہیں اور گھر صحیح بنتے ہیں تو معاشرہ بھی صحیح ہوتا ہے۔ اس لیے عورتوں کی ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کسی زمانے میں اس ذہنیت کا اظہار اس حدیثِ نبویؐ میں کیا گیا تھا کہ عورتوں کو سونے کی سرخی اور زعفران کی زردی نے ہلاک کررکھا ہے۔ لیکن آج نسوانیت کی ہلاکت کے اور بھی بہت سے سامان ہوگئے ہیں اور اب عورت معاشرے میں غیر فعال، غیر مؤثر عنصر کے طور پر نہیں رہ سکتی۔ وہ یا تو برائی کے راستے پر جائے گی یا بھلائی کی راہ اپنائے گی۔ اور برائی کے راستے پر جانے کے لیے کسی شعور اور ارادے کی ضرورت نہیں ہے۔ معاشرے کا چلن خودبخود اس راہ میں اسے دھکے دے کر آگے بڑھاتا رہے گا، لیکن نیکی کے راستے کو اپنانے کے لیے پختہ شعور اور عزم کی ضرورت ہوگی۔ یہ شعور اور عزم خواتین بھی اپنے میں پیدا کریں اور مرد حضرات بھی اس کی ضرورت محسوس کریں۔
(شائع شدہ 19نومبر1999ء)