پاکستان پر عالمی دبائو اور سیاسی قیادت کا امتحان

پاکستان پر عالمی دبائو بڑھتاروزبروزجارہا ہے ،ان حالات میںحکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو… چار وفاقی وزارتوں یعنی خارجہ، داخلہ، خزانہ، اطلاعات کی کارکردگی انتہائی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں۔ یہی چار وزارتیں ہیں جن کی ذمے داری ہے کہ وہ اس خطے اور اقوام عالم میں ایک مستحکم پاکستان کی حقیقی تصویر پیش کریں۔ ان چار محاذوں میں ہم آہنگی نہ ہو تو پھر ہمارے لیے مسائل ہی مسائل ہیں۔ سیاسی قیادت کتنی ہی قابل کیوں ناں ہو، ان چاروں وزارتوں میں ہم آہنگی اور قابلیت کے بغیرکوئی بھی حکومت اپنا فریضہ ادا نہیں کرسکتی۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف حالیہ دنوں میں جو کشیدگی پیدا کی گئی، دفاعی میدان میں اس کا تجزیہ فوجی نقصان کے پیمانے پر کیا جائے گا، لیکن سیاسی اور سفارتی محاذ پر تجزیے کے لیے وسیع البنیاد سوچ اور فکر چاہیے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت نے پاکستان کو آج تک دل سے قبول نہیں کیا، وہ پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ ان سازشوں کا توڑ ہی اصل میں حکومت کا امتحان ہوتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی جنگ ہو، کوئی فوج قوم کی حمایت کے بغیر جنگ نہیں جیت سکتی، لہٰذا عسکری کامیابی کے لیے قوم کا متحد ہونا لازمی ہے۔ بھارت ہر فورم پر پاکستان کو تنہا کرنے کے منصوبے بناتا رہتا ہے، حال ہی میں فضائی خلاف ورزی، لائن آف کنٹرول پر جارحیت سمیت بیک وقت پانچ محاذوں پر ہمارا دشمن حملہ آور ہوا، پی آئی اے کے نظام کو جام کرنے کے لیے سائبر حملہ بھی کیا گیا، تاہم اُسے بری طرح پسپائی ہوئی، لیکن پاکستان بھارت کشیدگی کے نازک مرحلے پر اسلامی کانفرنس تنظیم میں پاکستان کو اہمیت نہیں ملی۔ چین اور اب ایران بھی سوالات اٹھا رہے ہیں، لہٰذا ابھی امتحان ختم نہیں ہوا بلکہ خطرات بڑھ رہے ہیں۔ بھارت کی طرح افغانستان بھی دنیا کے ہر فورم پر اپنی ساری مشکلات کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے، ایران نے جنداللہ اور چین نے ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ایرانی قیادت سے حالیہ رابطوں کا بنیادی موضوع بھی یہی مسئلہ تھا۔ پاکستان کو اس صورتِ حال سے کیسے باہر نکلنا ہے؟ یہی آج کا سب سے اہم سوال ہے جسے منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔ لیکن لگتا ہے ان مسائل کے باعث اس وقت وزارتِ خارجہ شدید دبائو میں ہے، بھارت نے او آئی سی کے بعد سارک کو بھی یرغمال بنالیا ہے، ہدف یہی ہے کہ پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کردیا جائے۔ امریکہ بھی اس کھیل میں برابر کا شریک ہے۔ افغانستان میں وہ 17سال سے جاری جنگ میں ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے لیکن اس جنگ کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔ اس جنگ کے باعث پاکستان مشرقی سرحد کے بعد مغربی سرحد پر بھی مشکلات کا شکار ہوچکا ہے۔ نائن الیون کے بعد تو ہماری سرحدوں پر ہر جانب عقاب آکر بیٹھ گئے اور ملک کے اندر بھی نئے خطرات اور چیلنجز نے ہمیں آن گھیرا۔ ان خطرات کے مقابلے کے لیے جس طرح کی ہم آہنگی درکار تھی، ہماری پارلیمنٹ اور حکومتیں اُسے پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں، اور آج بھی ملک میں یہی صورتِ حال ہے۔ ہماری سیکورٹی فورسز جن کی بنیادی ذمہ داری سرحدوں کی حفاظت ہے، انہیں ملک کے اندر بھی امن قائم کرنے کے لیے فرنٹ فٹ پر آنا پڑا۔ پارلیمنٹ اور حکومتیں اپنا کام ان پر چھوڑ کر خاموش بیٹھی ہوئی ہیں، جب کہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں۔ لیکن پارلیمنٹ تو ہر فیصلے پر مہر ثبت کرتی رہی، جس سے خطرات کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ اور نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پارلیمنٹ کے 342 کے ایوان میں بیس ارکان کے بھی علم میں نہیں ہوں گے۔ پارلیمنٹ نے آج تک یہ سوال نہیں اٹھایا کہ چار اہم وفاقی وزارتیں کیوں ملک کے اندر اور بیرونِ ملک پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں؟ نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کے لیے وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، وزارتِ خزانہ اور وزارتِ اطلاعات کو ایک دوسرے کا مددگار بن کر اپنے اپنے محاذ پر کام کرنا تھا، مگریہ نہیں ہوسکا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے اندر بھی یک جہتی پیدا نہیںہوسکی اور بیرونِ ملک بھی ہم اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ہمیں خرابی دور کرنے کے لیے جہاں ایک ٹانکہ لگانے کی ضرورت تھی اب وہاں نو ٹانکے لگانے پڑرہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ان چاروں وزارتوں کو یکجا کرکے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن آٹھ ماہ ہوچکے ہیں حکومت اپوزیشن جماعتوں کو طعنے دینے کے سوا کوئی کام نہیں کرسکی، اور ہمارا دشمن اپنی تیاری میں لگاہوا اور وہ بیک وقت کئی محازوں پر پے در پے حملے کررہا ہے۔ اور ہم انتشا ر کا بھی شکار ہیں اور سفارتی محاذ پر کچھ کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم نظر آتے یا کچھ جان بوجھ کر کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔اس انتشار کا نتیجہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی تکون کو ایک سازگار ماحول میسر رہا اور دشمن نے اپنی منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان کو ایک بار پھر دبائو میں لانے کی کوشش کی ہے۔وہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا چکا ہے۔لیکن لگتا ہے کہ عمران خان سمیت ریاست اور اس کے ادارے ، پارلیمنٹ اس بات کی سمجھ نہیں رکھتے کہ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کا اصل ہدف کیا ہے، بھارت اگلے مرحلے میں حریت کانفرنس پر پابندی لگانا چاہتا ہے، اور پھر اسے ملنے والے فنڈز کی تحقیقات کی جائے گی، ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے ایک نیا شوشا چھوڑا جائے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور ایشیا پیسفک گروپ میں بھارت کو امریکہ کی سرپرستی میں اہمیت دینے کا بڑا ہدف یہی ہے کہ پاکستان کے لیے مشکلات بڑھائی جائیں۔ لیکن ان خطرات سے نکلنے کے لیے وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ میں اپنی حکمران جماعت تحریک انصاف کو کوئی رہنمائی دے رہے ہیں اور نہ اپوزیشن کو ساتھ ملا کر بیرونی خطرات کے مقابلے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔اس صورتحال سے نکلنے کے لیے سنجیدہ لیڈر شپ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اور اگر اب بھی اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں کا درست سمت میں سفر نہیں شروع ہوا تو، آئیندہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو نئے خطرات کے ساتھ نئے مطالبات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا جس کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح پوری قوم کو بھگتنا ہوگا۔