اہلِ زبان کون ہیں، کہاں ہیں؟

گزشتہ شمارے میں عربی کے ایک لفظ العین کی بات ہوئی تھی کہ اس کے 100 معانی ہیں۔ عربی بلاشبہ ایسی زبان ہے جس میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معانی ہوتے ہیں، تاہم اس میں بھی غیر عربی یا عجمی الفاظ شامل ہیں اور یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ شاید ہی کوئی زبان ایسی ہو جس میں دوسری زبانوں کے الفاظ شامل نہ ہوگئے ہوں۔ جن زبانوں میں انجذاب کی صلاحیت ہوتی ہے وہی زندہ رہتی اور آگے بڑھتی ہیں۔ خود انگریزی زبان میں عربی کے الفاظ شامل ہیں، اور برعظیم پاک و ہند پر تسلط کی وجہ سے مقامی زبانوں کے الفاظ بھی انگریزی کا حصہ بن گئے ہیں، مثلاً بازار، جنگل، لوٹ وغیرہ۔ عربی میں کئی الفاظ فارسی کے بھی شامل ہوگئے ہیں۔ فارسی کا ایک لفظ ’’کشکول‘‘ ہے جس سے لوگ بخوبی واقف ہیں۔ جدید عربی میں یہ لفظ داخل ہوگیا ہے لیکن اس کا مطلب بدل گیا ہے: ایسی ڈائری یا بیاض جس میں مختلف موضوعات کے نکات درج کیے گئے ہوں۔ خاص طور پر طالب علم کا کشکول جس میں اُس نے کہیں سائنس اور کہیں ادب کے نکات درج کیے ہوں۔ فقیر کے کشکول میں بھی تو یہی ہوتا ہے، کسی نے دال ڈال دی تو کسی نے روٹی یا سالن۔
عربی زبان میں غیر عربی الفاظ کا موضوع ایسا ہے جس پر ماہرینِ لسانیات نے بھرپور توجہ دی ہے۔ عربی زبان کے کئی مولفین نے ان الفاظ کو نمایاں طور پر پیش کیا ہے جو درحقیقت بنیادی طور پر غیر عربی ہیں اور عربی زبان میں داخل ہوکر دخیل یا معرب الفاظ کہلاتے ہیں (معرب میں ’را‘ بالکسر ہے، اس پر زبر لگانے سے مطلب بدل جائے گا)۔ ایسے الفاظ قرآن کریم، احادیثِ مبارکہ، دور جاہلیت کی شاعری یا ظہورِ اسلام کے بعد کی ادبی کاوشوں اور تصنیفات میں وارد ہوئے ہیں۔ یہ ایک وسیع موضوع ہے جس کا احاطہ کرنا ہمارے بس کا نہیں۔ تاہم کسی ماہر لسانیات ابومنصور الجوالیقی (اصل نام موہوب بن احمد بن محمد 465 تا 540 ہجری) نے اپنی کتاب ’’المعرب من الکلام الاعجمی علی حروف المعجم‘‘ کے حوالے سے ایسے الفاظ کی بڑی تعداد کو جمع کیا ہے جو عربی زبان میں بولے جاتے ہیں جب کہ ان کی اصل عجمی ہے، یعنی وہ عربی زبان میں داخل کرلیے گئے ہیں۔ انہوں نے کتاب میں ایک خصوصی باب باندھا ہے جس میں لفظ کی شناخت کی گئی ہے کہ آیا وہ اصلاً عربی ہے یا نہیں۔ الجوالیقی نے ایک فہرست دی ہے
نور اور بشر کا تنازع پرانا ہے لیکن ایک قاری نے اسے حل کردیا۔ ان کا نام ’’نورالبشر‘‘ ہے۔ انہوں نے ہاتف جوال (موبائیل فون) کے ذریعے ہماری اصلاح کی ہے کہ ’’قدس سرہٗ‘‘ میں اگر لفظ اللہ نہ ہو تو یہ عربی قاعدے کے لحاظ سے ’’مجہول‘‘ کا صیغہ ہے جس کا تلفظ ’’ق‘‘ کے پیش، دال مشدد کے زیر اور سین مہملہ کے زبر کے ساتھ ہوگا۔ اور اگر ’’قدس اللہ سرہٗ‘‘ کہیں تو وہ تلفظ ہوگا جو آپ نے تحریر کیا ہے، یعنی قاف پر زبر۔ لفظ اللہ کے آخری حرف پر پیش۔ جناب نورالبشر کا شکریہ۔
سعد اللہ جان برق بڑے سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک کالم میں سوال اٹھایا ہے کہ ’’اردو زبان کس کی ہے؟‘‘ اپنے کالم کے آغاز میں وہ لکھتے ہیں ’’آج ہم اپنی تحقیق کا ٹٹو ایک بالکل ہی نئی سمت میں دوڑانا چاہتے ہیں، اور یہ سمت اردو زبان کی ہے، اور وجہ اس بے سمتی کی یہ پیدا ہوئی کہ بعض اوقات ہم اخبارات و رسائل میں کچھ اساتذہ قسم کے حضرات کے ایسے مضامین پڑھ لیتے ہیں جن میں اردو زبان کے بگاڑ اور الفاظ کی تصحیح کا سلسلہ ہوتا ہے، خاص طور پر اردو میں انگریزی یا دوسری زبانوں کی ملاوٹ پر تو بہت واویلہ (واویلا) کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات طے ہونی چاہیے کہ اردو کے اہلِ زبان ہم کن لوگوں کو سمجھیں گے، اور یا یہ کہ ایسا کوئی فرد یا لوگ موجود ہیں جن کو اردو کا اہلِ زبان کہا جاسکتا ہے‘‘۔
محترم سعد اللہ جان نے اردو پر برق گرائی ہے اور ایک دلچسپ بحث کا در وا کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اسے ’’تحقیق کا ٹٹو‘‘ قرار دیا ہے تو اس پر تبصرہ کرنا ٹٹو کو ہانکنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ جہاں تک اردو کے اہلِ زبان کے تعین کا معاملہ ہے تو ہم کئی بار یہ لکھ چکے ہیں کہ جو بھی اردو کو صحیح طرح سے برتے اور درست استعمال کرے وہ ہی اہلِ زبان ہے، خواہ اس کا تعلق چیچہ وطنی یا چیچو کی ملیاں سے ہو۔ لکھنؤ اور دِلّی کی کوئی اجارہ داری نہیں، اور اب تو بالکل بھی نہیں کہ خود اہلِ زبان کہلانے والوں کی زبان بگڑ چلی ہے۔ عبداللہ جان برق لکھتے ہیں کہ عام طور پر تو بھارت سے آنے والوں کو اہلِ زبان کہا جاتا ہے، خاص طور پر جو وسطی بھارت سے آئے ہیں، لیکن اردو کا اہلِ زبان کوئی تھا، نہ ہے۔ اور جو اس کے مدعی ہیں وہ بالکل غلط دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ دعوے کے بغیر قبضے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ ’’زبان ہمیشہ کسی قوم کی ہوتی ہے، اور قوم ہم زبان نسلوں کی بنتی ہے یا ہم نسل لوگوں کی‘‘۔
تحقیق کا ٹٹو سرپٹ دوڑا ہے۔ لیکن اتنا ضرور عرض کردیں کہ زبان کوئی بھی ہو… عربی، انگریزی، فارسی، حتیٰ کہ سندھی اور پشتو بھی… ہر زبان کے اہلِ زبان ہی سند سمجھے جاتے ہیں۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری اردو اور فارسی پر مکمل عبور رکھتے تھے اور جالندھر کا ہونے کے باوجود وہ اہلِ زبان تھے، لیکن ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہے کہ اہلِ زبان، جو وسطی بھارت سے تعلق رکھتے ہوں، ان کی زبان پر کوئی اعتراض نہ کربیٹھیں۔ چنانچہ بہت ٹھوک بجا کر شاعری کرتے تھے، مگر ان کا خوف اس شعر سے ظاہر ہے:

حفیظؔ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

اس پر ان کے رفیق جناب ضمیر جعفری نے کہا تھا ’’استاد آپ نے زور دکھا کر خود کو منوایا ہے یعنی ’’ڈولے‘‘ دکھا کر‘‘۔ ایک شعر اور پڑھ لیجیے:

اہلِ زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہلِ دل
کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے

حفیظ جالندھری کو بھی اہلِ زبان کا اعتراف تھا۔ بات صرف اردو کی نہیں، ہر زبان میں ایسے افراد ہوتے ہیں جو زبان پر سند سمجھے جاتے ہیں۔ کوئنز انگلش کا نام تو سنا ہوگا۔ اس سے مراد وہ انگریزی ہے جو بکنگھم پیلس اور اس کے اطراف میں بولی جاتی ہے اور سند سمجھی جاتی ہے۔ امریکہ میں بولی جانے والی انگریزی مستند نہیں سمجھی جاتی۔ ’عرب نیوز‘ میں ہر جمعرات کو ایک کالم شائع ہوتا تھا، شاید اب بھی ہوتا ہو، جس میں انگریزی کے ایک اہلِ زبان انگریزی کی تصحیح کرتے تھے۔ قارئین ان کو انگریزی کے اخبارات اور کتابوں سے انگریزی کے جملے بھیج کر تصحیح طلب کرتے تھے۔ اور جنابِ برق کہہ رہے ہیں کہ کچھ اساتذہ قسم کے حضرات اردو زبان کے بگاڑ اور الفاظ کی تصحیح کررہے اور واویلا کررہے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ برعظیم میں فارسی کے بڑے بڑے شعراء امیر خسرو، غالب سے لے کر علامہ اقبال تک پیدا ہوئے لیکن فارسی کے اہلِ زبان دو، تین افراد ہی کو فارسی کا ’’اہلِ زبان‘‘ تسلیم کرتے ہیں۔ ایران میں اقبالؒ کے بہت احترام کے باوجود اہلِ فارس انہیں فارسی میں مستند تسلیم نہیں کرتے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پنجاب، صوبہ سرحد اور بلوچستان نے اردو کے بڑے شاعر اور ادیب پیدا کیے ہیں جن کی زبان دانی مسلّم ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ اردو زبان کسی کی میراث یا ملکیت نہیں، اور سعد اللہ جان نے صحیح لکھا ہے کہ یہی اس کی واحد خوبی ہے، اور یہ ہر کسی کی ہے۔ اردو بولنے والوں کو فخر کرنا چاہیے کہ جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے وہ بھی اردو بولتے اور پسند کرتے ہیں۔ مگر یہ کون طے کرے گا کہ اردو کا اہلِ زبان کون ہے یا کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ جناب برق خود طے کرلیں۔