۔”ارتقائی ڈرامے” کا انقلابی موڑ

انسان کی تخلیق اور صورت گری، اُس کی تکمیل اور ہدایت کی ضروری تفصیل صرف علم وحی سے ممکن ہے

’’انسانی دانش کیا ہے…؟ ارتقائی ڈرامے کا عظیم انقلابی موڑ ہے۔ یہ معجزہ کب پیش آیا؟ شاید اُس وقت جب زمین کو ایک سرے سے اٹھتے برف کے طوفانوں نے آلیا، جب سرد ہواؤں نے ہر جانب سبزہ برباد کیا، جب بے شمار جانداروں کی انواع بے بسی میں فنا کے گھاٹ اتر گئیں، اور باقی بچ جانے والی چند انواع نے گرم میدانی علاقوں میں پناہ لی۔ جہاں نسلوں تک وہ زمین سے چمٹی رہیں، شمال کی اُس برفانی قیامت کے پگھلنے کا انتظار کرتی رہیں۔ غالباً یہی وہ سخت ایام تھے جب زندگی کی قدیم روش ترک کردی گئی تھی۔ عمومی طور پر جاندار خود کو خارجی تبدیلیوں سے ہم آہنگ نہیں کر پارہے تھے۔ جبکہ وہ جانور جسے انسان پکارا جاتا ہے، انتہائی نامساعد حالات میں بڑی دانائی سے جنگلوں اور میدانوں کی تمام انواع پر برتری حاصل کرتا چلا گیا۔ یہ موت اور حیات کی وہ ہنگامی صورتِ حال تھی جس میں انسانی دانش کی ابتدا ہوئی۔‘‘
(The Greatest Minds of All Times, Will Durant, pg 8)
’’انسان تاریخ سے بہت پرانے ہیں۔ یہ تقریباً پچیس لاکھ سال پہلے بالکل جانوروں کی صورت میں ظاہر ہوئے، مگر بے شمار نسلوں تک کوئی امتیاز حاصل نہ کرسکے… اس دور کے انسانوں کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہ اردگرد بسنے والے جانوروں کی طرح غیر اہم تھے، ان کا اپنے ماحول پرکوئی غیر معمولی اثر نہیں تھا… آج لفظ ’انسان‘ کا اصل مفہوم ایک ایسا جانور ہے جو ’ہوموجینس‘ (homo genus) سے تعلق رکھتا ہے (یعنی کئی انواع کے اشتراک سے وجود میں آنے والی نوع ہے)۔ اسی genus سے تعلق رکھنے والی کئی انواع ہواکرتی تھیں… ہم قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ یہ جانور جسے ہم آج کا انسان کہتے ہیں کب اور کہاں موجودہ شکل میں ظاہر ہوا۔ تاہم اکثر سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سال قبل ایسا ہوا ہوگا… انسانی فکر کی نئی راہیں اورگفتگو کی صلاحیت ستّر سے تیس ہزار سال قبل کسی وقت عمل میں آئی، اسے فکری یا سوچ کا انقلاب کہتے ہیں۔ اس کا کیا سبب ہوا؟ ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ عام طور پر اس کلیہ پر یقین کیا جاتا ہے کہ دماغ کی وائرنگ میں کوئی حادثاتی جینیاتی ٹوٹ پھوٹ ہوئی جس نے انسان کو سوچنے اور بولنے کے قابل بنادیا۔‘‘
(Sapiens, An Animal of No Significance by Noah Harari)
’’اُس علامتی تصویر (جس میں بندر سے انسان تک کا سلسلہ دکھایا گیا ہے) میں جوکچھ ہے، آج ہم جانتے ہیں کہ وہ سچ نہیں ہے۔ ہم اُس سلسلے سے واقف نہیں جو بندروں سے ہم تک پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا بہت سی مخلوقات سے سامنا ہوتا ہے مگر اس نقشے میں بڑے بڑے نامعلوم ادوار حائل ہیں… افسوس! ہم کسی بھی دوسری نوع کی نسبت کم یا زیادہ نشوونما نہیں پاسکے ہیں۔ ہمارا اس حوالے سے بے مثل ہونا انتہائی مبالغہ آرائی ہے۔ ہم اپنے ارتقاء میں کسی بھی دوسری مخلوق کی طرح ہیں… ہمارے پاس ارتقاء کی ترقی کا کوئی پیمانہ نہیں ہے، جیسا کہ ہم زبان کے باب میں پڑھتے رہے ہیں۔ اب سائنس میں انواع کا کم تر یا بالاتر ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا… نیئنڈرتھل انسان سے ملنے والا ڈی این اے تمام جدید انسانوں کے ڈی این اے سے مختلف ہے۔ اُس کے ڈی این اے کا تجزیہ واضح کرتا ہے کہ یہ جدید انسانوں کے سلسلے سے نہیں ہے، بلکہ جدید انسانوں کے جدِّ امجد اس کے بعد ظاہر ہوئے تھے۔‘‘
(A brief history of everyone who ever lived, How we came to be, by Adam Rutherford)
’’ماہرینِ حیاتیات دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی گرم تالاب کے اندر زندگی ایک خلیے والے امیبا میں اچانک نمودار ہوئی۔ ساری حیات اس ایک امیبا سے ہوتی ہوئی ان گنت انواع میں سرایت کرگئی۔ یہ سب کسی خدائی ارادے یا تخلیق کے بغیر ہوا… چلیے بھول جائیے کہ ڈارونسٹ بندروں اور پرندوں سے انسانوں تک کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں۔ اُن کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ زندہ اجسام کی صورتیں کہاں کہاں ملتی ہیں اور کہاں کہاں طویل وقفے ہیں۔ اُن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ حیاتِ اوّل کی بنیاد کیا ہے؟ اگر ارتقاء کا نظریہ سچ سمجھا جائے تو حیاتِ اوّل کی بنیاد بے جان کیمیا نے ڈالی۔ 1953ء میں جب جیمس واٹسن اور فرانسس کرک نے ڈی این اے دریافت کیا، تو یہ اکتشاف ہوا کہ اس کی کیمیائی ساخت ایک ایسی سیڑھی کی طرح ہے، جس کے کنارے ڈئیوکزی رائیبوس اور فاسفیٹ مالیکیولز سے بنے ہیں۔ درمیان کے ڈنڈے چار نائٹروجن کی واضح ترتیب پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ ایڈینائن، تھائی مائن، سائی ٹو سائن، اور گوانائن کہلاتے ہیں۔ یہ چاروں جینیاتی کوڈ حروف ہیں۔ یہ جینیاتی کوڈ خاص پیغام کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ پیغام یا تقدیر ہی متعلقہ جاندار کی زندگی کا نقشہ ہے۔ ڈی این اے کا یہ پیچیدہ مگر واضح پیغام الل ٹپ نہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں حیوانیات کے پروفیسر اور نظریۂ ارتقاء کے پُرجوش وکیل پروفیسر رچرڈ ڈاکنز تسلیم کرتے ہیں کہ صرف امیبا کے یک خلیہ کا پیغام انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا کے تیس والیوم کی تفصیل سے زیادہ ہے۔ یہ کوڈ صرف حجم ہی میں نہیں بلکہ حروف کی ترتیب اور پیغام کی تفصیل میں بھی انسائیکلوپیڈیا سے بہت آگے ہے۔ سو ڈارونسٹ سے سادہ سا سوال ہے کہ جب زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے ذہانت درکار ہوتی ہے تو وہ پیغام جو انسائیکلوپیڈیا والیومز پر بھاری ہو، وہ کس طرح بے ربط وضبط اور خلقی شعور سے عاری ہوسکتا ہے؟‘‘
(I Don’t Have Enough Faith to Be an Atheist by Norman Geisler and Frank Turek, pg 116-117)
انسان کی اصل کیا ہے؟ وہ کہاں سے آیا ہے؟ اس کائنات میں اس کا کیا مقام ہے؟ اس دنیا میں اُس کا کیا کام ہے؟ کوئی انسانی ذریعۂ علم ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکا ہے، اور نہ ہی کبھی دے سکے گا۔ اس کی سادہ سی منطقی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تاریخی، علمی اور عقلی استعداد انتہائی محدود ہے۔ انسان ماقبل تاریخ ہستی ہے۔ لہٰذا، نہ تاریخ اُس کی گرفت میں آسکتی ہے اور نہ ہی وہ تاریخ کی رسائی میں ہے۔ سب کچھ ’شاید‘ اور ’غالباً‘ کے درمیان ہی چکر کھارہا ہے۔ انسان کی تخلیق اور صورت گری، اُس کی تکمیل اور ہدایت کی ضروری تفصیل صرف علم وحی سے ممکن ہے۔ اس کے لیے خالق سے ہی ہمیشہ رجوع کیا گیا، اور ہمیشہ رجوع کیا جائے گا۔ مگر اس سے پہلے مذکورہ اقتباسات کی علمی حیثیت اور نوعیت کا تجزیہ ضروری ہوگا۔ ول ڈیورانٹ مؤرخ ہیں۔ یہ انسانی دانش کو ارتقاء کا نتیجہ قیاس کرتے ہیں۔ اس قیاس کی ایسی افسانوی خیال آرائی کرتے ہیں کہ ادبی کشش سی محسوس ہوتی ہے۔ مگر انسان کی تشکیل افسانوی نہیں بلکہ کائناتی حقیقت ہے۔ ایک ایسی کائناتی حقیقت، جس کا ادراک ہی رازِ حیات ہے۔ پروفیسرنوح ہراری بھی پُرجوش ڈارونسٹ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسانی دانش کسی دماغی وائرنگ میں ٹوٹ پھوٹ سے وجود میں آئی۔ یہ پچیس لاکھ برسوں کے درمیان لمبی لمبی چھلانگیں مارکر اس طرح جدید انسان تک پہنچتے ہیں کہ گویا حقیقت پاگئے ہوں۔ حالانکہ یہ بھی سوائے اعدادوشمار میں فرق کے، کچھ ایسا نیا سامنے نہیں لارہے جو اس تخلیقی شاہکار کی وضاحت میں کوئی اضافہ قرار دیا جاسکے۔ ان دونوں کی نسبت برطانوی ماہر جینیات ایڈم ڈیوڈ رتھرفورڈ کا رویہ قدرے معقول ہے۔ گوکہ یہ بھی ڈارونسٹ ہیں، مگرغلط بیانی اور مبالغہ آرائی سے گریز کرتے ہیں۔ یہ واضح کرتے ہیں کہ انسانی نشوونما میں کوئی انقلابی یا معجزاتی کیفیت نہیں پائی جاتی۔ انسانی ارتقاء دیگر مخلوقات کی طرح ہی ہے۔ اب انواع کا کم تر یا بالاتر ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جہاں تک انسان کی جسمانی جبلتوں اور ضرورتوں کا تعلق ہے، ایڈم رتھرفورڈ کی یہ دونوں باتیں جیسے نظریۂ ارتقاء کی جڑوں پر حملہ ہے۔ نیئنڈرتھل سے جینیاتی تعلق کی قلعی بھی انہوں نے دو جملوں میں کھول کر رکھ دی ہے۔ نارمن گیسلر اور فرینک ٹوریک نے بطور عیسائی عالم مقدمہ پیش کیا ہے۔ یہ فکر وتحقیق انسان کا مکمل احاطہ نہیں کرتی۔ یہ سب مادی وتاریخی توضیحات اور توجیحات پیش کرتے ہیں۔ عیسائیت کے حق میں سائنسی منہاج سے دلیل لاتے ہیں۔ یہ بدترین گمراہی ہے۔ یہ گمراہی مغرب زدہ مسلمانوں میں بھی عام ہے۔ یہ سمجھنا لازم ہے کہ وحی کے بغیر علم کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ رب تک رسائی رب کے بغیر ممکن نہیں۔ حیات کے ہر باب میں علمِ وحی کی رہنمائی ناگزیر ہے۔ علمِ وحی کے باب میں سوائے قرآن حکیم، کوئی دوسرا ذریعہ مددگار نہیں۔ گزشتہ الہامی کتابیں تحریفات سے آلودہ ہیں۔ انسان کے باب میں قرآن حکیم کیا کہتا ہے؟
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر کھنکھناتی مٹی سے جو بُسے ہوئے گارے کی ہوگی، پیدا کرنے والا ہوں۔ پس جب میں اس کو پورے طور پر بنالوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرپڑنا۔‘‘ (سورۃ حجر19۔20)
’’اے لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔ اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلادیے۔‘‘(سورۃ نساء 1)
’’پڑھو (اے نبیؐ) اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا ربّ بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘‘(سورۃ العلق 1۔5)
’’پھر ذرا اُس وقت کا تصور کرو جب تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھاکہ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں‘‘ فرمایا ’’میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘ اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ’’اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے ا نتظام بگڑ جائے گا)تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ۔‘‘انہوں نے عرض کیا ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے،ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔‘‘ پھر اللہ نے آدم سے کہا ’’تم اِنہیں اِن چیزوں کے نام بتاؤ۔‘‘ جب اُس نے ان کو اُن سب کے نام بتادیے ،تو اللہ نے فرمایا ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں،جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھُپاتے ہو، اُسے بھی میں جانتا ہوں۔‘‘ (بقرۃ 37۔ 45)
’’اور جب تمھارے پروردگار نے فرزندانِ آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لے کر انھیں خود ان کے اوپر گواہ بناکر سوال کیا کہ کیا میں تمھارا خدا نہیں ہوں، تو سب نے کہا بیشک ہم اس کے گواہ ہیں۔ یہ عہد اس لیے لیا کہ روزِ قیامت یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس عہد سے غافل تھے۔‘‘(سورۃ اعراف 172)
’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔‘‘(بنی اسرائیل 70)
ایک جانب وہ جانور جسے انسان پکارا جاتا ہے۔ جو زمانے کے حوادث کا نتیجہ ہے۔ جو جنگلی تھا مگر میدانوں میں نکل آیا تھا۔ جو بے شمار نسلوں تک ناقابلِ ذکر شے تھے۔ جو آج بھی ہوموجینس کہلاتا ہے، یعنی کئی انواع کی مشترکہ کاوش ہے۔ جو دماغ کی وائرنگ میں ٹوٹ پھوٹ سے غور و فکر کے قابل ہوسکا تھا۔ جو آج بھی حیوانی جبلتوں میں جکڑا ہے۔ جو کسی طور بے مثل نہیں۔ جو کسی امتیاز کا حامل نہیں۔ جو ہردوسری مخلوق کی طرح ہے، نہ کسی سے بالاتر ہے نہ کم تر۔ جو نیئنڈرتھل سے بھی نہیں ملتا۔ جو تاریخ میں بے نام و نشان پایا جاتا ہے۔ جو نہ آغاز رکھتا ہے نہ انجام رکھتا ہے۔ ایسا حیاتیاتی وجود، جو مٹی میں مل کر پھرکیمیائی خاک ہوجائے گا۔ دوسری جانب وہ انسان ہے جو خالقِ کائنات کا نائب ہے۔ جو تمام مخلوقات سے اشرف ہے۔ جو بے مثل ہے۔ جو آغاز بھی رکھتا ہے اور ہدایت یافتہ بھی ہے۔ جوانجام سے خبردار بھی کردیا گیا ہے۔ جو انسان خواہشاتِ نفس کا پیرو نہ ہو، جو عزوشرف کا واضح احساس محسوس کرتا ہو، وہ کس طرح اپنی معنویت کا منکر ہوسکتا ہے؟
لہٰذا علم وحی ایمان اور اطمینان کا وہ درجہ قرار پاتا ہے جہاں ہر نفس کوقرار ہے۔ یہاں کسی ’شاید‘ اور ’غالباً‘ کی گنجائش نہیں۔ یہ ادوار کے علمی مدارج سے ماوراء ہے۔ یہ ہر انسان کے لیے آسان فہم ہے خواہ اس کا تعلق ما قبل جدیدیت سے ہو یا مابعد جدیدیت سے، خواہ اُس کا تعلق کسانوں کی بستی سے ہو یا سلیکون ویلی کی کمیونٹی سے۔ علمِ وحی کا اعجاز ہے کہ ہر انسان سے ہر زمانے میں ہر مقام پر مخاطب ہے، ہرضروری اور بنیادی معاملے میں رہنمائی کرتا ہے۔ انسان کی تخلیق ہدایت کے ساتھ ہے۔ یہ جانوروں کی مانند جبلتوں کے جبر میں جکڑا ہوا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو انکارِ حق یا اظہارِ حق کا اہل بھی نہ ہوتا۔ پھر نہ کہیں سوال ہوتا نہ جستجو پائی جاتی۔ یہ انسان کا دیگر تمام مخلوقات سے امتیاز ہی ہے جو اُسے سائل بناتا ہے۔ ہر انسانی علم اپنی تشکیل و تکمیل میں علمِ وحی کا محتاج اور پابند ہے، اس کے سوا ہر صورت گمراہی ہے۔ یہ علمِ وحی انتہائی کم استعداد کے حامل فرد کے لیے بھی ہدایت ہے۔ یہ انتہائی ذہین شخص کے لیے بھی غوروفکر کا بحرِ بیکراں ہے۔ یہ انسان شناسی کا سرچشمہ ہے۔ تکمیلِ تاریخ کے باب میں انسان کی پیدائش سے موت تک یہی رہنما ہے۔ کوئی انسانی علم راہِ عمل متعین نہیں کرسکتا، محض معاون ومددگار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ بھی عطائے الٰہی ہے۔ 