فرائیڈے اسپیشل: یہ فرمائیے کہ نیشنل لیبر فیڈریشن کی تنظیم کیا ہے، اس کے مقاصد کیا ہیں اور یہ مزدوروں کے لیے کن اہداف کے ساتھ کام کرتی ہے؟
شمس الرحمن سواتی: بہت شکریہ، نیشنل لیبر فیڈریشن ملک بھر کے صنعتی اداروں، زرعی اداروں اور جہاں جہاں بھی مزدور کام کرتے ہیں، وہاں کام کرتی ہے، اور ان کی سماجی فلاح وبہبود کے لیے منظم ہوکر کوشش اور جدوجہد کرتی ہے، انہیں اسلام کے دیے ہوئے حقوق دلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ملک بھر میں کام کررہی ہے۔ اور ہمارے اہداف تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال ذرائع سے کسبِ معاش کرنے والے کے لیے طے کر رکھے ہیں۔ ہم مزدور کے بنیادی انسانی حقوق کے لیے کام کرتے ہیں اور اسے معاشرے کے لیے ایک مفید اور وطن کا درد رکھنے والا شہری بنانے کی جانب بھی توجہ دیتے ہیں۔ منظم جدوجہد ہماری تنظیم کا بنیادی کام اور پہچان ہے، اور ملک بھر کے مزدوروں کے لیے فلاح کی کوشش کرنا ہمارا منشور ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ رزقِ حلال کمانے والا مزدور، جسے اللہ نے اپنا دوست قرار دیا ہے، وہ اس دوستی کا حق بھی ادا کرے، ایمان داری سے کام کرے اور اسے بروقت معاوضہ بھی ملے، اس کے بچوں کی تعلیم، صحت اور دیگر سماجی ضروریات بھی پوری کی جائیں جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے۔ آئین میں زندگی جینے کا حق تسلیم کیا گیا ہے، لیکن باوقار انداز میں زندگی گزارنے کے لیے ہم آجر اور اجیر کے مابین رابطوں کے پُل تعمیر کرتے ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ آجر کیا چاہتا ہے اور مزدور کے حقوق کیا ہیں۔ نیشنل لیبر فیڈریشن ملک بھر میں کام کرنے والی مزدور تنظیموں کی ایک نمائندہ فیڈریشن ہے جس کے ساتھ بہت سی مزدور یونینیں مل کر ایک یونٹ بن کر کام کررہی ہیں۔ بنیادی مقصد عوام کو نظریۂ پاکستان پر جمع کرنا ہے۔ قوم نے ستّر سال میں ہر نظام اور قیادت کو آزمایا ہے مگر مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہوا، ترقی کے بجائے تنزلی ہوئی اور قوم قرضوں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ ملک کو اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان بنانے میں مزدور اپنا کردارادا کریں۔ معاشرے میں پاکستانیت کی سوچ کوفروغ دینا چاہیے تاکہ قومی یک جہتی اور اتحادکے ذریعے پاکستان کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈا جاسکے۔ ملک میں اسلامی انقلاب کی منزل کو حاصل کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ پاکستان کو اسلامی و خوشحال بنایا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے دفاع کو بھی بہت مضبوط اور مستحکم بنایا جاسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ملک میں بہت سے ادارے ہیں، جیسا کہ ریلوے، پی آئی اے اور دیگر۔۔۔ سب کے بارے میں ایک رائے ہے کہ یہاں یونینوں نے تباہی مچائی ہے۔ آپ کی رائے کیا ہے؟
شمس الرحمن سواتی: یہ ایک رائے ہے، اس کے برعکس بھی ایک رائے ہے۔ یونینیں اگر اپنے بنیادی اہداف سے ہٹ کر کام کریں تو وہی ہوتا ہے جس کی آپ نے نشان دہی کی ہے۔ اگر کسی ادارے میں ایسا کام ہوا ہے تو ضرور اس کا حساب کتاب بھی ہونا چاہیے۔ ملک میں آج سے نہیں کئی برسوں سے نیب جیسے ادارے کام کررہے ہیں، جو ملک میں ہونے والی کرپشن کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، گرفتاریاں بھی کی جاتی ہیں، آپ بتائیے کہ جن اداروں کا نام آپ نے لیا اُن میں کتنے مزدور ہیں جنہیں کرپشن کے نام پر گرفتار کیا گیا ہو؟ ان اداروں میں گرفتاریاں ہوئی ہیں، مگر ان لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں جو پالیسی ساز ہیں، جن کے ہاتھوں اور جن کے قلم کے ذریعے طاقت کے ساتھ فیصلے ہوئے۔ مزدور اور مزدور یونین نے کہاں کرپشن کی ہے کہ ادارے تباہ ہوئے! یہ مینجمنٹ کے دھوکے ہوتے ہیں کہ وہ یونین جیسے اداروں کے خلاف بات کرتی رہتی ہے۔ پریم نے ریلوے، پیاسی نے پی آئی اے، پاسلو نے اسٹیل ملز کی ترقی کے لیے بہت کام کیا، مگر ان مزدوروں کو صلہ نہیں ملا جس سے مایوسی بڑھی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ابھی آپ نے پاسلو کا نام لیا، پاکستان اسٹیل ملز کی اس وقت کیا صورتِ حال ہے؟
شمس الرحمن سواتی: بہت ہی بری صورت حال ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا وجہ ہے، تفصیل بتائیں گے؟
شمس الرحمن سواتی: اسے با اثر لوگوں نے لوٹا۔ اس کی بہت بڑی زمین ہے جس پر لوگوں کی نظر لگی ہوئی ہے۔ مل کے بارے آپ کو بتاؤں کہ اس کا
کُل رقبہ: 18600 ایکڑ (29 اسکوائر میل)
مین پلانٹ: 10390 ایکڑ
ٹائم شپ: 8070 ایکڑ
واٹر ریسروائز 200 ایکڑ
کُل پلانٹ: 20 بشمول بجلی گھر
کنور بیلٹ تقریباً 4.5 کلومیٹر طویل جیٹی سے اسٹاک یارڈ
ریلوے پلانٹ، 20 کے قریب بوگیاں۔
21 کے قریب اسکول اور کالج، مارکیٹیں، کھیل کے میدان۔
100 بیڈ کا اسپتال
10000 ملازمین
ان ملازمین کے لیے ہاؤسنگ کالونی بھی ہے، یہ سارے کام یونین نے کرائے ہیں۔ گلشن حدید کا قیام، 7000 کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کروانا، اوورٹائم اسکیل پروموشن کا اجراء۔۔۔ یہ مزدور یونین پاسلو ہی کی مرہونِ منت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان اسٹیل ملز جیسا کہ علم ہے کہ اس کی مصنوعات پورے پاکستان میں استعمال ہوتی ہیں، لیکن اس نے مزدور کو کیا دیا ہے؟ حکومتوں سے بیل آؤٹ پیکیج لیے جارہا ہے!
شمس الرحمن سواتی: یہی تو ہمارا بھی سوال ہے۔ اس کی مختصر سی تاریخ آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ اندازہ ہوجائے کہ حقائق کیا ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز جو اپنے قیام سے لے کر اب تک قومی خزانے میں 150 ارب تک ٹیکس کی مد میں جمع کروا چکا ہے، اربوں ڈالرکے قیمتی زرمبادلہ کی بچت کرچکا ہے۔ یہ ادارہ 2008ء تک منافع بخش تھا۔ 08۔2007ء میں اس کا منافع 3.159 ملین روپے تھا، مگر 2009ء میں ملک اور ادارے میں تبدیلی کے بعد اس ادارے کی بدقسمتی کا آغاز ہوا اور اسٹیل مل کو 2009ء میں نقصان اور خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ (09۔2008ء میں 26.526 روپے کا نقصان) اور PSM نے 2009ء میں گورنمنٹ سے پہلا بیل آؤٹ پیکیج لیا۔ یہی وہ دور تھا جب ادارے کے ملازمین کی جمع پونجی، پراویڈنٹ فنڈ اور گریجویٹی کی رقم کو لوٹا گیا اور آج ہزاروں ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد واجبات سے محروم ہیں۔ پچھلی دو حکومتوں کے ادوار میں مختلف بیل آؤٹ پیکیجز کے باوجود اسٹیل مل بحال نہ ہوسکا، اس کی وجہ حکومتی بدنیتی، کرپشن اور انتظامی نااہلی ہے۔ پاکستان اسٹیل اس وقت تقریباً 500 ارب کے خسارے کا شکار ہے۔ صرف موجودہ حکومت کے ابتدائی 7 ماہ میں ادارے کو 4 سے 5 ارب کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2015ء میں جب اسٹیل مل بحالی کی جانب بڑھ رہا تھا، اچانک واجبات کا بہانہ بناکر اس کی گیس منقطع کردی گئی، حالانکہ SSGS بھی گورنمنٹ ہی کا ادارہ ہے جس نے ایک نجی ادارے KEکو سپلائی جاری رکھی ہوئی ہے جس پر اس کے اربوں روپے واجب الادا ہیں۔ اسٹیل مل جو قومی ادارہ ہے اس کی گیس بند کردی گئی جو آج تک منقطع ہے، اس کے نتیجے میں بہتری اور بحالی کی طرف بڑھتا ہوا ادارہ آج عملاً بند ہے۔ لگتا ہے کہ اسٹیل مل کی گیس ایک سازش کے تحت بند کی گئی تاکہ اس ادارے کو بند کرکے اس کی نجکاری کی راہ ہموار کی جائے اور اس کی قیمتی زمینوں کی بندر بانٹ کی جاسکے۔
فرائیڈے اسپیشل: کبھی یہ نہیں سوچا کہ جو کچھ ہورہا ہے اس کی تلافی عدالت کے ذریعے کرائی جائے؟
شمس الرحمن سواتی: کئی بار سوچا، اسٹیل مل جو کہ کرپٹ لوگوں کی کرپشن کی وجہ سے تباہ و برباد ہوا، اس کرپشن کا سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ازخود نوٹس لیا اور FIA کو تحقیقات کا حکم دیا۔ FIA کے اُس وقت کے ڈائریکٹر طارق کھوسہ اور میر زبیر نے تحقیقات کی اور رپورٹ تیار کی، جس میں ذمہ داروں کا تعین اور اُن کے نام دیے، جس کی بنا پر ان افسران کو ہٹایا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک کو توہینِ عدالت کا نوٹس بھی دیا تھا۔ اس کے بعد انکوائری ایف آئی اے سے لے کر نیب کو دی گئی، لیکن نیب آج تک انکوائری مکمل نہیں کرسکا۔ موجودہ حکمران جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک و قوم کی لوٹی گئی دولت واپس لائیں گے اور کرپٹ عناصر کو سزا دلوائیں گے، وہ بھی اسٹیل ملز میں ہونے والی لوٹ مار اور کرپشن پر خاموش ہیں۔ حکومتی وزراء جب اپوزیشن میں تھے، خاص طور پر وزیر خزانہ اسد عمر۔۔۔ تو اسٹیل ملز کرپشن پر روزانہ بیانات دیتے اور ادارے کی بحالی کا وعدہ کرتے رہتے تھے۔ وہ آج تک صرف بیانات ہی دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت اسٹیل ملز کی بحالی میں فی الحال سنجیدہ نہیں ہے۔ کہنے کو تو اسٹیل ملز کو نجکاری کی فہرست سے نکالا جاچکا ہے اور اس کی بحالی کا اعلان بھی کیا گیا ہے، لیکن یہ سب اعلانات کی حد تک ہی ہے۔ حکومتی سنجیدگی کا تو یہ عالم ہے کہ آج تک اسٹیل ملز کے کُل وقتی سربراہ کا تقرر نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم کے مشیرِ صنعت رزاق داؤد جنرل پرویزمشرف کے دورِ حکومت میں اسٹیل ملز کی نجکاری کی سازش میں شریک رہے ہیں، اور ان کے موجودہ اقدامات سے بھی یہی لگتا ہے کہ وہ کسی خاص گروپ کو نوازنا چاہتے ہیں اور کچھ بااثر لوگ اسٹیل ملز کی قیمتی زمینوں کی بندر بانٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ماضی قریب میں بھی اسٹیل ملز کی زمینوں کی بندر بانٹ کی جاتی رہی ہے۔ ماضی میں NIP کو 930 ایکڑ زمین جس کی قیمت اربوں روپے تھی، سستے داموں الاٹ کی گئی، جس کی پوری قیمت آج تک ادارے کو نہیں مل سکی۔ سابقہ حکومت نے مل کی 175 ایکڑ زمین پنجاب گورنمنٹ کو الاٹ کی، وہ بھی انتہائی سستے داموں۔ جبکہ اب اسٹیل ملز کی 1500 ایکڑ انتہائی قیمتی زمین سستے داموں سی پیک کے لیے دی جارہی ہے جس کی منظوری پچھلی حکومت دے چکی ہے۔ اس زمین کی مارکیٹ ویلیو اس وقت تقریباً 60 سے 70ارب بنتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس زمین کو مارکیٹ ویلیو پر الاٹ کیا جائے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے ادارے کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کرنے کے بعد باقی رقم سے اسٹیل ملز کی بحالی کا آغاز کیا جائے تاکہ ملازمین کی مشکلات میں کمی آسکے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ ادارہ بند ہوجائے تو مزدور کے لیے عملی طور پر کیا مشکلات ہوں گی؟
شمس الرحمن سواتی: اس وقت ادارے کی بندش کی وجہ سے ملازمین ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی نہ ہونے اور ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات نہ ملنے کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں۔ اسٹیل ملز میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ اسٹیل ملز کی بحالی کا آغاز فوری کیا جائے اور این ایل ایف اس سلسلے میں کردار ادا کرے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ادارہ تباہ ہونے کے باوجود اپنے اندر اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ پھر سے بحال ہوسکے اور ملکی ترقی میں کردار ادا کرے۔ جیسے جیسے سی پیک پر کام کی رفتار تیز ہوگی، ملک کی اسٹیل مصنوعات کی ضروریات بھی بڑھ جائیں گی۔ اس ملک میں اسٹیل مصنوعات کی سالانہ ضرورت 8 سے 9 ملین میٹرک ٹن سالانہ ہے، اور ملکی پیداوار 5 سے 6 ملین میٹرک ٹن سالانہ ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی پیداواری صلاحیت 1.5 ملین میٹرک ٹن سالانہ ہے جبکہ اس کی پیداواری صلاحیت کو 3 ملین میٹرک ٹن سالانہ تک توسیع دی جاسکتی ہے۔