لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان
نام کتاب: جے ایف کینیڈی کا ایک بھولا ہوا بحران
نام مصنف: بروس ریڈل (Bruce Riedel)
زبان: انگریزی
انگریزی عنوان: JFK`s Forgotten Crisis
صفحات: 231
قیمت: 29(امریکی ڈالر)
پبلشرز: ہارپر اینڈ کولنز، لندن/نیویارک
پرنٹرز: بروکنگز انسٹی ٹیوشن پریس
سال اشاعت:2015ء
یہ کتاب افواجِ پاکستان کی سروسز بک کلب کے لیے بغرض مطالعہ منتخب کی گئی ہے۔ سفید کاغذ اور دیدہ زیب طباعت سے مزین ہے اور پیپر بیک ہے۔
پیش لفظ کے علاوہ اس کے پانچ باب ہیں جن کے عنوانات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔آئیک اور انڈیا1950- 60)ء)
2۔گال برائتھ اور انڈیا (1961ء )
3۔جیکی اور انڈیا (1962ء)
4۔جیکی، انڈیا اور وار
5۔کینیڈی سے لے کر آج تک
پہلا باب 36صفحات، دوسرا 34صفحات، تیسرا 32صفحات، چوتھا 38صفحات اور آخری باب 36صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ 6صفحات پر مشتمل پیش لفظ بھی دیا گیا ہے، اور آخر میں حواشی اور کتابیات وغیرہ کی تفصیل بھی درج ہے۔
اکتوبر 1962ء میں CIA کو جب معلوم ہوا کہ سوویت یونین کیوبا کو میزائل بھیج رہا ہے تو امریکی حکومت کے کان کھڑے ہوئے اور جوہری جنگ کے خطرات پیدا ہوگئے۔ اُس وقت جان ایف کینیڈی امریکہ کے صدر تھے۔
امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان اکتوبر 1962ء میں کئی دنوں پر پھیلی کشمکش کے دوران یہ معلوم ہونے لگا کہ دنیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر آپہنچی ہے اور کسی بھی وقت یہ جنگ چھڑ سکتی ہے۔ نکیتا خروشیف اُس دور میں سوویت یونین کے صدر تھے۔ کشیدگی کے عروج کے بعد دونوں صدور کے درمیان مذاکرات کا مشکل دور شروع ہوا، اور آخرکار فیصلہ ہوا کہ امریکہ، ترکی سے اپنے میزائل واپس لے آئے گا اور سوویت یونین، کیوبا سے اپنے میزائل روس لے جائے گا۔ دنیا نے سُکھ کا سانس لیا۔
انہی ایام میں ایک اور عالمی بحران بھی دنیا کو درپیش ہوا۔ گرچہ اس کی شدت، کیوبن میزائلوں کی جنگ کی شدت سے کم تھی لیکن خطرہ موجود تھا کہ یہ جنگ بھی کہیں روایتی جنگ سے باہر نکل کر جوہری جنگ میں تبدیل نہ ہوجائے۔ یہ جنگ انڈیا اور چین کے درمیان برپا ہونے والی تھی اور اس میں انڈیا نے جارحیت میں پہل کی تھی۔ اس کی وجہ وہ سرحدی جھگڑا تھا جو دونوں ملکوں کے درمیان شمالی سرحد کے تعین پر تھا۔
اکتوبر 1962ء میں جنگ شروع ہوئی تو انڈیا کو شکست کا سامنا ہوا اور اُس نے بوکھلا کر امریکہ سے مدد کی درخواست کردی۔
چین کے چیئرمین اُس وقت ماؤزے تنگ تھے اور وزیراعظم چو این لائی تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو انڈیا کے وزیراعظم تھے۔ پاکستان جو انڈیا اور چین دونوں کا ہمسایہ تھا، اس پر فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکمرانی تھی۔ جب انڈیا کو زیادہ خطرات لاحق ہوئے تو اس نے گھبرا کر امریکہ کے دَر پر جاکر دستک دی۔ نہرو نے کینیڈی کو ایک ٹاپ سیکرٹ خط لکھا جسے واشنگٹن میں انڈیا کے سفیر نے خود جاکر صدرِ امریکہ کے حوالے کیا۔ اس خط میں صدر امریکہ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے سپرسانک لڑاکا طیاروں کے 12اسکواڈرن فی الفور انڈیا روانہ کریں۔
پنڈت نہرو، غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کے ایک سرکردہ لیڈر بھی تھے۔ جو چیز صدر کینیڈی کو نہرو کے خط میں زیادہ حیران کن لگی وہ یہ تھی کہ نہرو نے نہ صرف طیارے اور راڈار مانگے تھے بلکہ امریکی پائلٹ بھی مانگے تھے، اور کہا تھا کہ چینی فضائیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈین ائرفورس کے پاس ایسے تربیت یافتہ پائلٹ اور دوسرا گراؤنڈ کریو(عملہ)نہیں جو چینی فضائیہ کا مقابلہ کرسکے۔
اس خط کے چند دن بعد نہرو نے ایک اور خط بھی کینیڈی کو لکھا جس میں مزید ساز و سامانِ جنگ اور امریکی پرسانل بھجوانے کی درخواست کی گئی تھی۔ ایک امریکی لڑاکا اسکواڈرن میں کئی جیٹ طیارے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈیا، امریکہ سے 10ہزار آفیسرز اور اہلکار مانگ رہا تھا جو اس فضائی امداد کی آپریشنل اور لاجسٹک سپورٹ کے لیے درکار تھے۔
امریکہ میں انڈین سفیر کا نام بی کے نہرو تھا جو پنڈت جواہر لال نہرو کا عم زاد تھا۔ اس نے جب نہرو کا خط (بنام کینیڈی) دیکھا تو حیران و پریشان ہوگیا۔ خط کے مندرجات اتنے حساس نوعیت کے تھے کہ سفیر نے اپنے کسی اور رفیقِ کار کو وہ خط نہ دکھایا اور اس کی کاپیاں اپنے دفتر کی الماری میں مقفل کردیں۔ انڈو چائنا وار کے کئی برس بعد بی کے نہرو نے ایک امریکی مصنف کو وہ خط دکھایا اور کہا: ’’پنڈت جی نے جب یہ خط بھیجا تھا تو شکست کا خوف اُن کے اعصاب پر بری طرح سوار تھا‘‘۔
جیسا کہ اوپر لکھا گیا یہ جنگ اکتوبر 1962ء میں شروع ہوئی تھی اور یہ ہندوستان کی خوش قسمتی تھی کہ چین نے نومبر 1962ء میں یک طرفہ طور پر جنگ بند کردی۔ تاہم بعض سرحدی معاملات پھر بھی بھارت اور چین کے درمیان لاینحل رہے اور آج تک لاینحل چلے آرہے ہیں۔
صدرِ امریکہ کینیڈی کی تمام تر توجہ ان ایام میں کیوباکے بحران پر مرکوز رہی، لیکن یہ انڈیا کا بحران بھی ایسا تھا کہ بعد میں صدرِ امریکہ نے اپنے ایک اہلکار کو کہا: ’’ایشیا کے ان دونوں ممالک کی آبادیاں کروڑوں میں تھیں اور ایک ہمہ گیر (All out) جنگ کا خطرہ موجود تھا جو اپنی سنگینی اور حساسیت کے اعتبار سے کیوبا کی جنگ کے خطرے سے کم نہ تھا۔‘‘
اسی دوران دنیا کو ایک اور بڑے بحران کی بھی خبر نہ تھی۔ امریکہ، تبت میں چین کے خلاف ایک انتہائی خفیہ آپریشن میں مصروف تھا۔ یہ آپریشن صدر کینیڈی کے پیشرو، صدر آئزن ہاور کے دور میں شروع ہوا تھا۔ 1949ء میں جب چین آزاد ہوا تھا تو تبت کی ساورنٹی کا مسئلہ بھی سامنے آیا تھا۔ تبت صدیوں سے چین کا حصہ چلا آرہا تھا۔ اس کا رقبہ 5لاکھ مربع میل ہے، یعنی مغربی یورپ کے رقبے کے برابر۔ یہ علاقہ خشک، سرد اور ہموار ہے۔ اس کے جنوب میں کوہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم واقع ہیں۔
آبادیاں آج بھی خال خال ہیں اور 1950ء میں تو اور بھی کم تھیں۔ برطانوی دور میں اگرچہ انگریزوں نے تبت میں دو جنگیں لڑی تھیں جن کو افیون وارز(Opium Wars) کہا جاتا ہے، پھر بھی یہ تسلیم کر رکھا تھا کہ تبت، چین کا حصہ ہے اور کوئی الگ ملک نہیں۔ 1720ء میں دنیا کا جو نقشہ بنایا گیا تھا اس میں بھی تبت کو چین کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ لہٰذا جب 1949ء میں چین کو رسمی طور پر آزادی ملی تو اس نے تبت کو چین میں ضم کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔
19ویں اور 20ویں صدی میں دو برطانوی سفارت کاروں نے چین اور برطانوی ہند کے درمیان جو سرحدی لائنیں نقشوں پر کھینچیں ان میں سے ایک کا نام میک موہن لائن تھا اور دوسری کا جانسن لائن۔ یہ دونوں لائنیں تبت اور انڈیا کے مابین سرحد کا کام دیتی تھیں۔ میک موہن لائن انڈیا اور نیفا (NEFA) کے درمیان تھی اور جانسن لائن اقصائے چین اور چین کے درمیان تھی۔
اقصائے چین کا علاقہ انڈیا اور چین کے درمیان متنازع تصور ہوتا تھا۔ انڈیا اسے لداخ (کشمیر) کا حصہ سمجھتا تھا اور چین اسے اپنے تبت کا… اور یہ تنازع ابھی تک جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔
صدر آئزن ہاور (جن کو آئیک بھی کہا جاتا ہے) کو جب کوریا کی جنگ (1950-53ء) میں چین کے ہاتھوں پسپائی کا سامنا ہوا تو آئیک نے CIA کو حکم دیا کہ وہ تبت میں چین کے خلاف مزاحمتی تحریک کی حمایت کا بندوبست کرے۔ چنانچہ بہت سے تبتی باشندوں کو کولوریڈو (امریکہ) میں لے جا کر مسلح مزاحمتی کارروائیوں کی ٹریننگ دی گئی اور ان کو پیراشوٹ کے ذریعے تبت میں ڈراپ کیا گیا۔ پیراشوٹ ہی کے ذریعے ان کو اسلحہ، بارود اور راشن پانی بھی پہنچایا جاتا رہا۔
یہ کتاب، بروس ریڈل کی واحد تصنیف نہیں۔ اس نے چند اور کتابیں بھی لکھی ہیں، اور اس کی تحریروں میں بلا کی بے ساختگی اور پروفیشنل مہارت پائی جاتی ہے۔ وہ 30برس تک CIA میں کئی ذمہ دار مناصب پر کام کرتا رہا اور یکے بعد دیگرے چار امریکی صدور نے اس کو انٹیلی جنس امور میں اپنا مشیر بنائے رکھا۔ وہ جنوبی ایشیا (پاکستان اور انڈیا) اور مشرق وسطیٰ کے حالات و واقعات کا بالخصوص ماہر ہے۔
وہ آج بھی بروکنگر انسٹی ٹیوشن میں اپنا تشکیل کردہ ایک انٹیلی جنس ادارہ چلا رہا ہے۔ اس کو CIA کے خفیہ آپریشنوں کی دستاویزات تک رسائی حاصل رہی، اور اسی وجہ سے وہ امریکی صدور کے اُن مشیروں میں شامل رہا جو کسی بھی صاحبِ اقتدار حکمران کی آنکھیں اور کان کہلاتے ہیں۔ جب 1962ء میں انڈو چائنا جنگ ہوئی تو گال برائتھ (Galbraith) نئی دہلی میں امریکی سفیر تھا۔ کینیڈی کے ساتھ اس کی دوستی مشہور تھی، اور صدرِ امریکہ اس کے مشوروں کو نہ صرف پسند کیا کرتا تھا بلکہ ان پر عمل پیرا بھی رہتا تھا۔
پاکستان اور بھارت 1947ء میں اپنی آزادی کے بعد ہی سے ایک دوسرے کے حریف چلے آرہے ہیں۔ امریکہ نے ماضیِ قریب کے سوا ہمیشہ دونوں ملکوں کے ساتھ بنائے رکھنے کی روایت اپنائے رکھی۔
پاکستان کے ساتھ بہتر دوستی کی وجوہات میں پاکستان کا امریکہ کے لیے وہ دستِ تعاون تھا جو ہم نے اس کی طرف بڑھایا۔ یہ تعاون خاص طور پر سوویت یونین اور چین کی جاسوسی کے ضمن میں جاری رہا۔ پشاور کے نزدیک بڈبیر اور ڈھاکہ کے نزدیک کرمی ٹولا کے فضائی مستقر ہم نے یو۔2 طیاروں کی پروازوں کے لیے امریکہ کو دیئے رکھے۔
بروس ریڈل کی اس کتاب میں نہ صرف یہ کہ امریکہ، پاکستان، انڈیا کی مثلث کے اس دور کے واقعات پر ایک بے لاگ تبصرہ کیا گیا ہے بلکہ انڈوچائنا وار کے بعد سے لے کر عصرحاضر تک کے پاک امریکہ تعلقات کا ایک مختصر سا جائزہ کتاب کے آخری حصے میں دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں کئی مقامات پر آپ بروس ریڈل کے تجزیے سے اتفاق نہیں کریں گے۔ لیکن ریڈل نے جو کچھ لکھا ہے وہ ایک امریکی مصنف کے طور پر لکھا ہے۔ اس کو اپنے وطن کی طرف داری عزیز ہے، نہ کہ پاکستان کی۔ نہرو کی غیر جانب داری کا تذکرہ کرتے ہوئے ریڈل نے بالکل ٹھیک لکھا ہے: چونکہ برطانوی دور میں نہرو کو 13برس تک انڈیا کی برطانوی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی تھیں اس لیے نہرو استعماریت کے خلاف تھے، اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے دو قطبی (Bi- poler) دنیا میں امریکہ اور سوویت یونین کے علاوہ ایک تیسرے پاور بلاک کی بنیاد رکھی جس کو نام (NAM) یعنی ’’نان الائنڈ موومنٹ‘‘ (غیر جانب دار تحریک) کا نام دیا۔
جب 1962ء میں کیوبا میں میزائلوں کے سوال میں کینیڈی اور خروشیف کے درمیان ٹھن گئی تو کینیڈی نے اپنے دوست گال برائتھ کو انڈیا میں اپنا سفیر مقرر کرکے اس کو فری ہینڈ دیا اور کہا کہ انڈین حکومت کو وہ جو مشورہ بھی دے گا، صدر امریکہ اس کو سپورٹ کرے گا(اور پھر انڈو چائنا وار میں یہی کچھ دیکھا گیا)۔
سفیر گال برائتھ نے اپنی ڈائری میں ایک جملہ یہ بھی لکھا ہے: ’’ایک ہفتے کی اس شدید جنگ (چین بھارت جنگ) کے دوران نہ تو واشنگٹن سے مجھے کوئی ٹیلی فون کال موصول ہوئی ، نہ ٹیلی گرام، نہ خط اور نہ کسی اور قسم کی رہنمائی۔‘‘
مصنف کا طرزِ تحریر نہ صرف ایک منجھے ہوئے سفارت کار کے فنِ سفارت کاری سے لگاؤ کا آئینہ دار ہے بلکہ فنِ جاسوسی میں بھی وہ جگہ جگہ ایسے واقعات کا تذکرہ کرتا چلا جاتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود ان واقعات کا ایک کردار رہا ہو۔ بہت سے حیران کن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن ہر واقعہ کے لیے اس کا سورس بھی کوٹ (Quote) کیا گیا ہے جس سے بروس ریڈل کی کثرتِ مطالعہ کا پتا چلتا ہے۔ اس نے کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معلومات اپنے قارئین تک پہنچانے کا جو اہتمام اس کتاب میں کیا ہے، وہ پڑھنے کے لائق ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ پاکستان۔ 6مارچ 2019ء)