کتاب : اسلامی عقائد اور قانون کا تاریخی ارتقا
(کلام، فقہ، تصوف اور قدیم و جدید فرقوں کی تاریخ)
صفحات : 400 ، قیمت: 1200 روپے
مصنف : اگناز گولڈزیہر (Ignaz Goldziher)
ترجمہ و تحقیق : ریحان عمر
ناشر : عکس پبلی کیشنز۔ بک اسٹریٹ، داتا دربار مارکیٹ۔لاہور
فون : 042-37300584
موبائل : 0300-4827500
0348-4078844
ای میل : publications.aks@gmail.com
یہ کتاب یہودی مستشرق اگناز گولڈ زیہر کی تحقیق اور تحریر ہے، جس کا ترجمہ ریحان عمر صاحب نے بڑی محنت اور تحقیق سے کیا ہے اور بڑی عمدگی کا حامل ہے۔ جہاں تک گولڈ زیہر کا تعلق ہے تو ریحان عمر تحریر فرماتے ہیں:
’’گولڈ زیہر ہمارے یہاں یوں تو عام طور پر ایک سخت متعصب مستشرق کی شہرت رکھتا ہے، اور اس کی وجہ حدیث سے متعلق اس کے مخصوص نظریات ہیں۔ اس کے نزدیک ذخیرۂ حدیث سر تا سر بعد کے ادوار کی پیداوار ہے۔ ان کی اہمیت بس اسی قدر ہے کہ یہ عہدِ تدوین میں پائی جانے والی مسلم آرزوئوں کا اظہار کرتی ہیں اور اس لحاظ سے اس عہد کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ان کی اہمیت ہے۔ اب اس نظریے کو عام طور پر مغربی علمی دنیا میں وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ اسی طرح اسلام سے متعلق اُس کا اور دیگر مستشرقین کا یہ کہنا ہے کہ اسلام نے اپنے سے قبل پائے جانے والے مذاہب و ادیان سے مواد لے کر اپنی عمارت تعمیر کی ہے۔ جبکہ اسلام اس سلسلے میں بالکل واضح طور پر کہتا ہے کہ وہ کوئی نیا دین نہیں۔ وہ تورات و انجیل اور انبیائے سابقین کی تعلیمات کی تصدیق کرنے والا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی نازل کردہ وحی اور اس کی عطا کردہ بصیرت کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کو قائم فرمایا۔ مستشرقین کا یہ الزام درحقیقت ان کے مزعومہ تصور کے بطن سے پھوٹتا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ نبی نہ تھے، بلکہ عظیم لوگوں کی طرح بس اپنی قوم کے ایک مصلح تھے، لہٰذا آپؐ نے اپنی قوم کے لیے جس شئے کو مفید جانا، اسے اپنالیا۔ خود قرآن سے متعلق بھی ان لوگوں کا یہی تصور ہے کہ وہ آپؐ کی نفسی کیفیات و روحانی واردات کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا ہے، نہ کہ خدا کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اس لیے مکی، مدنی ادوار کی وحیوں میں فرق پایا جاتا ہے۔ قرآن کی مدنی تعلیمات میں آپ نے یہودی، عیسائی اور مجوسی تعلیمات کا انتخاب فرمایا۔ ایک آدمی جو وحی پر ایمان نہ رکھتا ہو، کتبِ آسمانی پر یقین کا حامل نہ ہو، وجودِ خدا اور نبوت و رسالت کا اثبات نہ کرتا ہو وہ اپنے نظریہ ارتقائے تصورات کو ثابت کرنے کے لیے اس قسم کے نظریات رکھے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ مگر ایک یہودی اور عیسائی جو خدا، انبیائے سابقین کی نبوت و رسالت، ان کی طرف نازل کردہ کتب اور دنیاوی نقطہ نظر سے انبیا و رسل کو جانتا اور مانتا ہو وہ اگر اس قسم کے ملحدانہ خیالات کا اظہار کرے، خاص کر اگر وہ انبیائے قدیم کو تو نبی کے درجے پر رکھے اور نبیِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اسے نبی تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ہو تو اسے سوائے تعصب کے کس چیز پر محمول کیا جاسکتا ہے؟
اس کے باوجود گولڈ زیہر اپنے ہم عصر تمام مستشرقین کے مقابلے پر تعلیماتِ انبیا سے نسبتاً زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔
گولڈ زیہر اسلام کو ایک زندہ و متحرک قوت مانتا ہے۔ اسی حیثیت سے وہ آخری باب میں مختلف خطوں میں پائی جانے والی اسلامی تحریکوں کا بغور جائزہ لیتا ہے اور اسلام کے مستقبل کے بارے میں پُرامید نظر آتا ہے۔
غرض یہ خطبات اسلامی علوم کے ارتقا پر تحقیق کرنے والے حضرات کے لیے ہر پہلو سے اہم ہیں۔ یہ ایک مغربی نقطہ نظر سے لکھے گئے ہیں، مگر ہم اسلامیوں کے لیے اس میں بہت سی نئی بحثوں کے لیے بکثرت مواد پایا جاتا ہے۔
گولڈ زیہر اور اس کے نظریات و افکار سے شدید اختلافات کے باوجود گزارش یہ ہے کہ اسے ایک علمی کتاب کے طور پہ پڑھا جائے، اور یہ دیکھا جائے کہ ایک صدی پہلے یورپ میں بیٹھا ایک شخص ہمارے اسلامی علوم پر کس قدر گہری نگاہ رکھتا تھا، اور کس محنت اور شوق سے اس نے ان اوراقِ پریشاں کو جمع و مرتب کیا ہوگا۔‘‘
مولاا سعید احمد اکبر آبادی کی رائے ہے:
’’گولڈ زیہر یہودی تھے، ان کے زمانے میں یہودی خود عیسائیوں کے ستم دیدہ تھے، اور یوں بھی یہودی مذہبی معاملات و مسائل میں اپنے آپ کو عیسائیوں کی بہ نسبت مسلمانوں سے زیادہ قریب سمجھتے تھے۔ ان وجوہ کے باعث گولڈ زیہر نے اسلامیات پر جو کچھ لکھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا لکھا کہ اس میں عبقریت کی شان نظر آتی ہے، ان کی غلطیاں دو قسم کی ہیں (1) مستشرقانہ غلطیاں، (2) علمی غطیاں۔ مستشرقانہ غلطیوں کے سلسلے میں ہم کو بنیادی طور پر یہ باور کرلینا چاہیے کہ کوئی مستشرق خواہ کیسا ہی انصاف پسند اور اسلام کی رفعت و عظمت کا دل و جان سے قائل ہو، وہ بہرحال غیر مسلم ہے۔ اس بنا پر وہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ جس نقطہ نظر سے کرتا ہے، وہ بے شبہ ایک مسلمان کا نقطہ نظر نہیں ہوسکتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک شخص کے مسلمان ہونے کے لیے بعض جو بنیادی عقائد ناگزیر ہیں، اگر مستشرق بھی ان عقائد کا حامل ہو تو وہ غیر مسلم ہی کہاں رہے گا… دوسری قسم کی غلطیاں جو گولڈ زیہر سے ہوئی ہیں وہ علمی غلطیاں یا تعبیر و بیان کی فروگزاشتیں ہیں، لیکن یہ چنداں تعجب انگیز نہیں اور نہ ان سے گولڈ زیہر کے بلند مرتبے و مقام پر حرف آتا ہے، جو انہیں علم و تحقیق کی بارگاہِ معلی میں بجاطور پر حاصل ہے‘‘۔
گولڈ زیہر 22 جون 1850ء کو ہنگری کے قصبہ زیکیس فیہرور (Szekesfeherver) میں پیدا ہوا۔ اس نے اپنے عالمانہ کیریئر کا آغاز انتہائی اوائلِ عمری میں ہی کردیا۔ پانچ برس کی عمر میں وہ عہدنامہ قدیم کا متن عبرانی میں پڑھنے لگا، آٹھ برس میں تلمود، بارہ برس میں اس نے اپنا پہلا رسالہ تحریر کیا اور پھر اسے شائع کیا، جو عبرانی دعائوں کے منابع و مصادر اور ان کی درجہ بندیوں پر مشتمل تھا۔ سولہ برس کی عمر میں جبکہ وہ ابھی محض ایک طفلِ مکتب ہی تھا بوداپسٹ کی جامعہ میں کلاسکس، فلسفہ اور السنہ مشرق پر مبنی درسیات میں حاضر ہونے لگا، جس میں فارسی اور ترکی زبانیں بھی شامل تھیں، جہاں اس نے مکتب چھوڑنے کے بعد بھی اپنی تعلیم جاری رکھی۔ اپنے اساتذہ کی مدد سے اس نے ہنگری کی وزارتِ تعلیم سے ایک وظیفہ حاصل کیا، جہاں وہ تعلیم اور تحقیق کے ایک وسیع پروگرام پر جت گیا، جو اسے جامعہ کی نامزدگی کے قابل بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کا پہلا دور جرمنی میں لپزگ اور برلن کی جامعات میں گزرا، جہاں اس نے اُنیس سال کی عمر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آئندہ برسوں میں بوداپسٹ یونیورسٹی میں وہ ’’پرائیویٹ ڈوزینٹ‘‘ (Privatedozent) یعنی ایک عارضی لیکچرار کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔ عرصہ بعد بوداپسٹ یونیورسٹی میں 1904ء میں پروفیسر شپ کے لیے مقرر ہوگیا، اولاً شعبہ سامیہ میں، اور بعدہٗ 1914ء میں شعبہ قانون میں مسلم ادارہ جات اور قانون کی کرسی میں۔ اس نے 13 نومبر 1921ء کو وفات پائی۔
زیرنظر کتاب ’’اسلامی عقائد اور قانون کا تاریخی ارتقا‘‘ گولڈ زیہر کی جرمن کتاب Vorlesumgen Uber Den Islam کے انگریزی ترجمے Introduction to Islamic Theology and Law کا اردو ترجمہ ہے۔
جس وقت یہ خطبات منظرعام پر آئے اسی وقت چوٹی کے دو مستشرقین نولدیکے اور اسنوک ہرگرونجے نے ان خطبات کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک مغربی علما اس کتاب کو سراہتے آئے ہیں۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ روسی، ہنگری، انگریزی اور فرانسیسی کے تراجم تو مصنف کی زندگی میں ہی ہوگئے تھے جبکہ عربی اور عبرانی میں اس کے ترجمے پچھلی صدی کے نصف اول میں ہوچکے تھے۔ پہلے انگریزی ترجمے کو بوجوہ پذیرائی نہ ملی، اسی وجہ سے اس کے ایک اور انگریزی ترجمے کی ضرورت محسوس ہوئی جو معروف معاصر مستشرق برنارڈ لیوس کی کوششوں اور تحقیقی حواشی کے ساتھ 1979ء میں شائع ہوا۔ برنارڈ لیوس جیسے مستشرق کا ان خطبات سے اعتنا ان کی اہمیت کو دوچند کردیتا ہے۔
یوں تو اگناز گولڈ زیہر نے متنوع اسلامی موضوعات پر بہت کچھ لکھا۔ مستقل مقالات کے علاوہ بہت سے عربی مخطوطات کی تصحیح و تحقیق کرکے انہیں طبع و شائع کروایا۔ اسلام پر مستقل تصنیفات اس کے علاوہ ہیں۔ ان میں الظاہریہ، مذاہب تفاسیر اسلامی، مطالعاتِ اسلامی اور خطباتِ اسلام خاص طور پر مشہور اور قابلِ ذکر ہیں۔ موجودہ ترجمہ اس کے خطباتِ اسلام کا ترجمہ ہے، جبکہ اول الذکر الظاہریہ کا ترجمہ بھی راقم السطور کرچکا ہے۔ خطباتِ اسلام کا عربی ترجمہ العقیدۃ والشریعۃ فی الاسلام (تاریخ التطور العقدی والتشریعی فی الدین الاسلامی) کے نام سے ڈاکٹر محمد یوسف موسیٰ، ڈاکٹر علی حسن عبدالقادر اور عبدالعزیز عبدالحق نے مشترکہ طور پر 1959ء میں کیا، جو مصر سے شائع ہوا۔ انگریزی ترجمے کے ساتھ ساتھ ہم نے اس عربی ترجمے سے اپنے اس اردو ترجمے میں پوری پوری مدد لی ہے۔ جہاں فرصت نے اجازت دی وہاں ہم نے حواشی میں مصنف پر استدراک و تعاقب کی کوشش بھی کی۔ غیر عربی یورپی مصادر کے اسماء کو ہم نے زیادہ سے زیادہ اردو میں منتقل کردیا، جو حوالہ جاتی طریقہ کار و معیار کے ہرچند خلاف ہے، مگر اس سے ہمارا مقصود یہ تھا کہ اسماء کتب و مقالات کے ذریعے ہمارے قارئین مغربی محققین کی علمی کوششوں کا قدرے اندازہ کرسکیں‘‘۔
ہماری ناقص رائے میں کتاب کے مباحث زیادہ گہرے نہیں ہیں، ان پر بہت گفتگو ہوسکتی ہے۔ اسلام کے اصول و ضوابط کو مسلمانوں کے اختیار کردہ افکار سے ملانا نہیں چاہیے، بہت سے حصے قابلِ رد ہیں۔ کثرتِ حوالہ جات پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔
کتاب نیوز پرنٹ پر طبع کی گئی ہے۔
مجلہ : الماس 19تحقیقی مجلہ
مدیر : پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف خشک
صفحات : 256، قیمت: 500روپے
ناشر : شعبہ اردو شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور، سندھ، پاکستان
فون : 0092-243-9280291-552835
موبائل : 0092-300-3130972
ای میل : yousuf.khushk@gmail.com
”الماس“ تحقیقی مجلہ ہے جو شعبہ اردو سے شائع ہوتا ہے۔ یہ اس کا انیسواں شمارہ ہے۔ حسب سابق یہ شمارہ بھی بذریعہ انٹرنیٹ آن لائن جاری کردیا گیا ہے جسے قارئین ویب سائٹ
http://almas.salu.edu.pk.
white.mysitehosted.com پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اس شمارے میں شامل کیے گئے مقالات درج ذیل ہیں:
”قدیم ہندوستانی فلسفہ اور کالی داس کی تخلیقات میں ماحولیاتی اشارے“ شیخ عقیل احمد، ”اردو میں بھگودگیتا کے اردو تراجم کی روایت“ ڈاکٹر قاضی عابد/ چاند لعل، ”صنفِ ریختی کا تہذیبی مطالعہ“ ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری/ ولی محمد، ”مرثیے کے تیسرے دبستان کا سب سے بڑا شاعر۔ میر تعشق“ ڈاکٹر منور ہاشمی، ”اختر الایمان کی شاعری۔ شکستِ اقدار کا نوحہ“ ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی، ”علامہ اقبال کا اردو کلام اور تصورِ حیات“ ڈاکٹر وسیم اسحاق/ صہیب اکرام، ”کیا ’’ایک قطرۂ خون‘‘ تاریخی ناول ہے؟“ ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی، ”حجاب کا ناول پاگل خانہ اور ماحولیاتی تنقید“ ڈاکٹر صوفیہ یوسف، ”خاتون اکرم کی افسانہ نگاری…تجزیاتی مطالعہ“ ڈاکٹر ریحانہ کوثر، ”ناول ’’مصحف‘‘ ایک تجزیاتی مطالعہ“ طارق بن عمر، ”قیام پاکستان سے قبل منٹو شناسی کی روایت“ طاہر عباس/ ڈاکٹر لیاقت علی، ”طاہرہ اقبال کی افسانوی جہات“ ڈاکٹر صدف نقوی/ شازیہ عندلیب، ”ہندوستان میں اردو صحافت: تاریخ و صورتِ حال“ ڈاکٹر شیویہ ترپاٹھی، ”مولانا ظفر علی خان کی سیاسی، ادبی اور صحافتی خدمات“ ڈاکٹر ثاقب ریاض، ”پی ٹی وی کے پرانے ڈراموں اور پرائیویٹ ٹیلی ویژن پر پیش ہونے والے ڈراموں کا تقابلی جائزہ“ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ/ شفق صدیقی، ”بلوچستان میں اردو اسٹیج ڈراما: تحقیقی جائزہ(2000۔1967)“ محمد اکرم خاور، ”مشائخ سندھ کے ملفوظات۔ تجزیہ اور افادی پہلو“ ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش، ”وادیٔ سندھ کے ادب کا پیغام“ ڈاکٹر عبدالغفور میمن، ”ہندکو اردو ماہیے کا ثقافتی اور فکری اشتراک“ ڈاکٹر عبدالواجد تبسم۔
English Section
Construction of Gendered Identities through Matrimonial Advertisments in Pakistan English: and Urdu Newspapers:A Critical Descourse Analysis Lubna Akhlaq Khan/Aneesa Ateeq
مجلد سفید کاغذ پر طبع کیا گیا ہے۔