نیند کی کمی سے دماغ خود کو کھانا شروع کردیتا ہے

ابوسعدی
ماہرین نے کہا ہے کہ نیند کی مستقل کمی سے عصبی خلیات کی بڑی مقدار ختم ہوجاتی ہے اور ان کے درمیان روابط کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ اٹلی کی مارش پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے پروفیسر مشیل بیلسی اور ان کے ساتھیوں نے کیا۔ انہوں نے چوہوں پر کیے گئے تجربات سے ثابت کیا کہ بسا اوقات نیند کی کمی سے ہونے والے دماغی نقصان کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔
ہمارے دماغ کے خلیات (سیلز) عصبیے (نیورون) کہلاتے ہیں۔ نیورون دو اقسام کے خلیات (گلائیل سیل) سے تازہ دم ہوتے رہتے ہیں اوران دو اقسام کو ماہرین دماغ کی گوند بھی کہتے ہیں۔ ایک طرف یہ دماغ سے خلیات کا ٹوٹا پھوٹا سامان باہر پھینکتے رہتے ہیں، تو دوسری جانب یہ دماغی سرکٹ یا وائرنگ کو بھی درست رکھتے ہیں۔ دن بھر کی تھکاوٹ اور دوڑ دھوپ کے بعد نیند سے اعصابی ٹوٹ پھوٹ بھی دور ہوتی ہے اور دماغ سے مضرکیمیائی اجزا بھی باہر نکلتے رہتے ہیں، لیکن اگر مناسب نیند نہ لی جائے تو ایک انتہائی خطرناک عمل شروع ہوجاتا ہے جس میں دماغ خود سے خلیاتی کاٹھ کباڑ نہیں نکال پاتا بلکہ وہ خود کو نقصان پہنچانا شروع ہوجاتا ہے۔

زیادہ ٹی وی دیکھنا یادداشت سے محرومی کا خطرہ بڑھاتا ہے

لندن کالج یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ درمیانی عمر میں روزانہ ساڑھے 3 گھنٹے سے زیادہ ٹی وی دیکھنے سے یادداشت سے محرومی کا خطرہ بڑھتا ہے۔ ساڑھے 3 ہزار سے زائد افراد پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بہت زیادہ ڈرامے یا رئیلٹی شوز دیکھنے سے الفاظ کو ذہن میں دوبارہ اجاگر کرنے کی صلاحیت 10 فیصد تک کم ہوجاتی ہے۔ محققین نے دریافت کیا کہ اپنے پسندیدہ ٹی وی پروگرامز کو دیکھنا ’ذہنی تنائو‘ کا باعث بنتا ہے جو کہ یادداشت سے محرومی کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ یہ عادت درمیانی عمر میں ذہن کو تیز رکھنے میں مدد دینے والے مشاغل جیسے مطالعہ یا دیگر سے دور کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹی وی دیکھنے کی عادت کے حوالے سے بچوں اور نوجوانوں پر خاصی توجہ دی گئی ہے مگر درمیانی عمر میں اس کے اثرات پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی گئی، حالانکہ چند دہائیوں کے دوران اکثرافراد ٹی وی کے سامنے زیادہ وقت گزارنے لگے ہیں اور یہ ممکنہ طور ڈیمینشیا کا باعث بن سکتا ہے۔

پاکستان میں فالج کے 22 فیصد مریض ہلاک یا معذور ہوجاتے ہیں

پاکستان میں فالج کے حملے کا شکار ہونے والے کم ازکم 22 فیصد افراد یا تو موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا پھر معذور ہوجاتے ہیں۔جامعہ کراچی میں منعقدہ دماغی امراض کی انتہائی نگہداشت کے دوروزہ کورس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دماغی حادثات بالخصوص فالج کے شکار مریضوں کے علاج کی نامناسب سہولیات ہیں۔ ماہرین نے زور دیا ہے ملک بھر میں فالج، حرام مغز کے امراض، دماغی رسولیوں اور دماغی چوٹ کے آئی سی یو اور مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں اِن جان لیوا دماغی کیفیات کا علاج اور مریضوں کی نگہداشت کی جاسکے۔جامعہ کراچی میں واقع ڈاکٹر پنجوانی مرکز برائے سالماتی ادویہ اور تحقیق (پی سی ایم ڈی) کے زیرِ اہتمام دو روزہ ’نیورو کریٹکل کیئر ٹیچنگ کورس 2019‘ منعقد ہوا۔ اس کا افتتاح آئی سی سی بی ایس کے سربراہ ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے کیا۔ڈاکٹر پنجوانی سینٹر کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے ٹیچنگ کورس کا افتتاح کیا، کورس کا اختتام جمعہ کی شام اختتامی تقریب سے ہوا۔ کورس میں آسٹریا کے معروف ماہرین سمیت یونیورسٹی انسبرک کے پروفیسر ڈاکٹر ایرک شمیز ہارڈ اور ڈاکٹر ریمنڈ ہیلبک نے خصوصی خطاب کیا جبکہ ڈاکٹر پنجوانی سینٹر کے ڈاکٹر سید طارق معین نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ڈاکٹر اقبال چوہدری نے کہا کہ ڈاکٹروں اور دماغی ماہرین کی تربیت کی اشد ضرورت ہے تاکہ اسپتالوں میں مریضوں کی جان بچائی جاسکے اور ان کا علاج کیا جاسکے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ایرک شمیز ہارڈ نے کہا کہ فالج، برین ہیمریج، دماغی صدمات اور چوٹ، دماغ میں آکسیجن کی کمی بیشی، کھوپڑی کے اندر دباؤ یا پریشر اور دیگر امراض ایسے ہیں جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔اس کورس میں پورے ملک سے 40 کے قریب ماہرین نے شرکت کی جن میں نیورو لوجسٹ، دماغی سرجن اور دیگر شعبوں کے ماہرین شامل تھے جبکہ طب کے طلبا و طالبات کی بڑی تعداد بھی اس کورس میں موجود تھی۔ تمام شرکا نے اس اہم کورس کو انتہائی پیشہ ورانہ اور مفید قرار دیا۔

بچوں کو ذہنی طور پر صحت مند رکھنا بہت آسان

اپنے بچوں کو جوانی میں ذہنی طور پر صحت مند رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں سرسبز مقامات پر گھمانا عادت بنالیں۔ یہ بات ڈنمارک میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ آراہوس یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سرسبز مقامات مثلاً باغات اور میدان وغیرہ کے قریب پرورش پانا درمیانی عمر میں ذہنی صحت کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم کرتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ بچپن میں اکثر باغات میں جانے کی عادت مستقبل میں ذہنی امراض کا خطرہ 15 سے55 فیصد تک کم کردیتی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ذہنی امراض کے شکار افراد کی تعداد 45 کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے، اور ان میں سے اکثر ڈپریشن کا شکار ہیں۔ محققین نے دریافت کیا کہ جن بچوں کا زیادہ وقت سرسبز مقامات میں گزرتا ہے اُن میں ذہنی امراض کا خطرہ 55 فیصد تک کم ہوجاتا ہے چاہے ان کی مالی حیثیت جیسی بھی ہو۔ محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ محض کچھ وقت نکال کر باغات میں گھومنا ذہنی صحت کے لیے کس حد تک فائدہ مند ہے، خصوصاً بچوں کو یہ سیر کرانا بلوغت میں اُن کے کام آتی ہے۔ تحقیق کے مطابق ہوائی آلودگی، شور، انفیکشن اور نچلے طبقے سے تعلق ہونا ذہنی عوارض کا خطرہ بڑھانے والے عناصر ہیں، مگر بچوں کو باغات میں زیادہ وقت گزارنے دینا اس سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔