کسی زمانے میں امام ابوحنیفہ (767ء) کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انھوں نے اپنے خادم سے کہاکہ فلاں تھان میں ایک جگہ سوراخ ہے، خریدار کو بتادینا اور نصف قیمت پر بیچنا۔ خادم بھول گیا اور تھان پوری قیمت پر بیچ ڈالا۔ جب امام صاحب کو معلوم ہوا تو وہ بہت مضطرب ہوئے، خریدار کی تلاش میں نکلے۔ معلوم ہواکہ وہ فلاں قافلے کے ساتھ حجاز چلا گیا ہے۔ ایک تیز رفتار ناقہ لے کر بھاگے، اسے دوسری منزل پہ جالیا، آدھی قیمت واپس کی اور معافی مانگی۔
اس نے یہ دیکھ کر کہا: ’’تم جیسے لوگ اس امت کی آبرو، قوت اور زندگی ہیں‘‘۔
(ماہنامہ ’’چشم بیدار‘‘ لاہور۔ فروری 2019ء)
زبان اور بین الاقوامی رابطہ
یہ خیال کہ انگریزی ہی صرف سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان ہے اور اس کے بغیر ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے اور ہمارا بین الاقوامی رابطہ کٹ جائے گا، غلط فہمی پر مبنی ہے۔ روسی، جرمنی، فرانسیسی، جاپانی، چینی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے والے کیا دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں؟ یورپ کے ہر ملک نے تدریس اپنی زبان میں کی اور دیگر زبانوں سے اخذ و ترجمہ کے ذریعے فائدہ اٹھایا۔ اب تو خود انگریزی بولنے والے ترقی یافتہ ممالک بھی دوسرے ملکوں میں ہونے والے سائنسی انکشافات و ایجادات اور ٹیکنالوجی کی پیش رفت سے آگہی کے لیے ترجمے کا سہارا لے رہے ہیں۔ مختلف اداروں کی تحقیقات کے مطابق اس وقت دنیا میں ہونے والی 50 سے 60 فیصد سے زائد ایجادات و انکشافات کا تعلق ایسے ممالک سے ہے جہاں انگریزی نہیں بولی جاتی۔ امریکہ اور برطانیہ میں بڑے بڑے دارالتراجم اس حقیقت کا بیّن ثبوت ہیں کہ جدید ترقی اور علوم و فنون کا سارا انحصار انگریزی پر نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری بات یہ کہ انگریزی ذریعہ تعلیم کے بغیر بھی ہمارا بین الاقوامی رابطہ اسی طرح قائم رہے گا، جس طرح روس، چین، جاپان، جرمنی، فرانس، اسپین، یونان، اٹلی، ہالینڈ، بیلجیم، ہنگری، سوئیڈن وغیرہ کا قائم ہے۔ یورپ کے شمال میں آئس لینڈ سے لے کر ہالینڈ، ناروے، جرمنی، فرانس، آسٹریا تک، اور جنوب میں یوگوسلاویہ اور ترکی تک سارے ملک ایسے ہیں جن میں نرسری سے لے کر پی ایچ ڈی تک تمام تعلیم قومی زبان میں دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کی قومی زبانیں علوم کے خزانوں سے مالامال ہیں اور ان میں ہر سال متعدد شعبوں سے عالمی ایوارڈ حاصل کرنے والے ادیب اور سائنس دان سامنے آتے ہیں۔
(’’اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم‘‘۔ ڈاکٹر عبدالستار ملک)
حسرت موہانی
حسرت موہانی: اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ وہ 1875ء میں ضلع انائو کے قصبہ موہان میں پیدا ہوئے۔ 1903ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا اور جولائی 1903ء سے علی گڑھ ہی میں ’’اردوے معلی‘‘ نکالنے لگے۔ یہی دور علامہ اقبال کی شاعری کی ابتدا کا تھا۔ ان کی نظمیں شیخ سر عبدالقادر کے ماہنامہ ’’مخزن‘‘ میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کررہی تھیں۔ اسی دور میں ’’اردوے معلی‘‘ اور مولانا عبدالحلیم شرر کے رسالہ ’’دلگداز‘‘ میں اقبال کی شاعری میں زبان کی اغلاط پر گرفت کی گئی۔ حسرت آخری دور میں اقبال کی شاعری کے معترف اور معتقد بھی ہوئے۔ مولانا حسرت موہانی نے 13 مئی 1951ء کو 75 سال کی عمر میں لکھنؤ میں انتقال کیا۔ اقبال کی وفات (1938ء) پر ’’اشکِ خونیں‘‘ کے عنوان سے پانچ شعروں کا ایک مرثیہ کہا، جس کا پہلا شعر یہ ہے:
عاشقی کا حوصلہ بیکار ہے تیرے بغیر
آرزو کی زندگی دشوار ہے تیرے بغیر
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
مسلمان عورت اور اقبال
’’…کسی بھی معاشرے میں مذہب کا اصولی محافظ کون ہے؟ جواب ہے: عورت۔ مسلمان عورت کو صحیح مذہبی تعلیم حاصل ہونی چاہیے کیونکہ عملاً وہی معاشرے کی معمار ہے۔ میں ایک مطلق نظام ِتعلیم کا قائل نہیں۔ تعلیم، دوسری اشیا کی طرح، معاشرے کی ضروریات سے متعین ہوتی ہے۔ ہمارے مقصد کے پیشِ نظر مذہبی تعلیم مسلمان عورت کے لیے کافی ہے۔ ایسے تمام مضامین جن میں نسوانیت اور مسلمانیت سے محروم کردینے کا رجحان پایا جائے، احتیاطاً نظامِ تعلیم سے خارج کردینے چاہئیں، مگر ہمارے ماہرینِ تعلیم ابھی تک اندھیرے میں ٹٹول رہے ہیں۔ وہ ابھی تک اس قابل نہیں ہوئے کہ اپنی بچیوں کے لیے تعلیم کا نصاب مقرر کرسکیں۔ شاید وہ مغربی تصورات کی کشش سے اس قدر چندھیا چکے ہیں کہ ایک طرف اسلام جو خالصتاً ایک ذہنی تصور یعنی ’’مذہب‘‘ کی بنیاد پر قومیت کی تعمیر کرتا ہے اور دوسری طرف ’’مغربیت‘‘ جس میں قومیت کا تصور ایک مادی شے یعنی ’’ملک‘‘ سے عبارت ہے، میں فرق نہیں سمجھ سکے‘‘۔ (منتشر خیالاتِ اقبال، مترجم: میاں ساجد علی، ص53، 54)
برونوکو
اٹلی کے مشہور فلسفی برونوکو، جو کاپرنیکی (1543ء) کی موت کے سات سال بعد پیدا ہوا تھا اور فلسفہ میں ابن رشد (1198ء) اور اسپینوز (ڈچ فلسفی) کا پیرو تھا، مذہبی عدالت نے 1600ء میں زندہ جلادیا۔
(ماہنماہ ’’چشم بیدار‘‘۔ مئی2011ء)