اسکواڈرن لیڈر حسن علی صدیقی ایم ایم عالم (مرحوم) کے بعد پاک فضائیہ کا دوسرا قومی ہیرو ہے
وزیراعظم جناب عمران خان کی چھے منٹ کی نپی تلی تقریر نے دُنیا کے سامنے مؤثر انداز میں پاکستان کا قومی مؤقف بھی پیش کردیا ہے اور یہ ’’تاثر‘‘ بھی قائم کردیا ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو مودی سرکار نے کمزوری سمجھنے کی غلط فہمی دُور نہ کی تو اسے پاکستان کی طرف سے ویسا ہی جواب ملے گا جیسا جواب بالاکوٹ میں دراندازی کا پاک فضائیہ کے بہادر سپوت اسکواڈرن لیڈر حسن علی صدیقی نے بھارت کے 2 مگ طیارے مارگراکر دیا ہے۔ اسکواڈرن لیڈر حسن علی صدیقی آج پوری قوم کا ہیرو ہے۔ ایم ایم عالم (مرحوم) کے بعد پاک فضائیہ کا دوسرا قومی ہیرو ہے جسے بھارتی سورما زندگی بھر یاد رکھیں گے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قائدِ ایوان جناب عمران خان اور قائدِ حزبِ اختلاف جناب شہبازشریف نے اپنے سیاسی اور ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر جس قومی مؤقف پر اتفاقِ رائے کیا ہے جس کی توثیق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے اپنی متفقہ قرارداد کے ذریعے کی ہے، اس سے ہمیں ایک بار پھر ’پہچان کا لمحہ‘ میسر آیا ہے۔ اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس کا ادراک حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کو پوری طرح ہونا چاہیے۔ بلاشبہ ہم بھارت کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ بھی ہماری مسلح افواج نے کردکھایا ہے، مگر ہمیں ان عوامل پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ بھارت کی مودی سرکارمذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینے کے بجائے بھارتی قوم کو ’’جنگی جنون‘‘ میں مبتلا رکھنے پر تلی ہوتی ہے، اور بدقسمتی سے بھارت میں اُن دانشوروں کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے جو اپنی قوم کو انتہا پسندی اور جنگی جنون کے عذاب سے نجات دلانے کی بات کرتے ہیں۔
وزیراعظم جناب عمران خان اور قائد حزب اختلاف جناب شہبازشریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے خطاب میں جو کچھ کہا وہ پوری قوم کے اجتماعی ضمیر کی آواز بھی ہے، اور اس قومی مؤقف کا اعادہ بھی جس کا اظہار بانیِ پاکستان قائداعظم نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کیا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ امریکہ اور کینیڈا کی طرح کے تعلقات رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اور اسی عزم کا اعادہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم (شہیدِ ملّت) خان لیاقت علی خان نے بھارت کے پہلے وزیراعظم آنجہانی جواہر لال نہرو سے معاہدے میں کیا، جسے دنیا ’’لیاقت نہرو پیکٹ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ پاکستان اور بھارت نے اس معاہدے کے ذریعے اپنے اپنے ملکوں میں آباد اقلیتوں کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ بانیِ پاکستان قائداعظمؒ نے تو اپنی 11 اگست کی تقریر میں پاکستان میں آباد تمام غیر مسلم شہریوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جاکر عبادت کرنے کی آزادی کی ضمانت بھی فراہم کی تھی اور ان کے جان و مال کی بھی۔ پروفیسر شریف المجاہد سمیت پاکستان کے تمام سنجیدہ فکر اہلِ علم اور دانشوروں نے قائداعظمؒ کی اس تقریر کو ’’میثاقِ مدینہ‘‘ سے ماخوذ تقریر قرار دیا ہے۔ یہاں اس کا ذکر غیر مناسب نہیں ہوگا کہ پاکستان نے ریاستی سطح پر اپنے ملک میں آباد غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی ہمیشہ حفاظت کی، اور ان شرپسندوں کی گرفت بھی کی ہے جنہوں نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی خون ریزی کے ردعمل میں احتجاج کرتے وقت قانون کے دائرے سے باہر نکل کر ان کی کسی عبادت گاہ یا جائداد پر حملہ کرنے کی کوشش کی، اور جہاں کہیں کسی نے اس کا ارتکاب کیا ہے، پاکستان کی عدالتوں نے انہیں سزا بھی دی اور حکومت نے ان کے نقصان کا ازالہ بھی کیا۔ جب کہ بھارت کا ریکارڈ اس کے برعکس ہے۔ وہاں تو مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے والا سفاک قاتل، جنونی انتہا پسند لیڈر انتخاب کے ذریعے بھارت کا وزیراعظم بن گیا ہے اور اَب مودی اسی جنونیت کی آگ بھڑکا کر دوبارہ انتخاب جیتنے کے لیے سرحدوں پر کشیدگی بڑھا رہا ہے۔ اب وزیراعظم عمران خان کو بار بار مذاکرات کی دعوت کی تکرار کرنے کے بجائے سفارتی محاذ پر دُنیا میں اس تاثر کو دُور کرنے کی طرف توجہ مرکوز کردینی چاہیے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے روایتی دوستوں کی طرف سے بھی بھارتی دراندازی کے خلاف مؤثر احتجاج نظرنہیں آرہا ہے۔ اس کے لیے قوم کی اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر قابلِ عمل مؤثر حکمتِ عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔
1965ء میں سیّد ضمیر جعفری (مرحوم) وردی میں ملبوس حاضر سروس فوجی تھے۔ انہوں نے ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کو ’’پہچان کا لمحہ‘‘ قرار دیا تھا، جبکہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کو ’’جدائی کا موسم‘‘۔ آج کی نوجوان نسل کو شاید یاد نہ ہو کہ یکم جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب کو… جس میں جنرل ایوب خان اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے زبردست دھاندلی کرکے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح (مرحومہ) کی فتح کو شکست میں تبدیل کرکے منصب ِصدارت پر فائز ہوگئے تھے… اُس وقت کی پوری سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے دھاندلی شدہ انتخاب کہہ کر تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرکے جنرل ایوب کو سلیکٹڈ صدر قرار دے کر اس کی حکومت کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ جیسے ہی بھارت نے 6 ستمبر کی صبح بین الاقوامی سرحد عبور کی، اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کا بائیکاٹ ختم کردیا کہ ہم نے اپنے تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارتی جارحیت سے نمٹنے کا فیصلہ اقتدار پر متمکن صدر جنرل ایوب کی قیادت میں کیا ہے۔ جنرل ایوب خان نے بھی اس کا مثبت جواب دیا اور پوری حزبِ اختلاف کو اسی شام ایوانِ صدر میں ملاقات کے لیے مدعو کرکے ان کے تعاون کا شکریہ ادا کیا، اور اُن قائدین کو سرکاری میڈیا پر مدعو کرنے کی ہدایات جاری کیں جن پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ جنرل ایوب خان نے اپنے اُن فوجی دوستوں کا تعاون بھی حاصل کیا جو 1958ء کا پہلا مارشل لا لگانے میں اُن کے دست و بازو تھے مگر دورانِ اقتدار اختلافات پیدا ہونے کے باعث مخالف صف میں چلے گئے تھے۔
بیرونی جارحیت سے نمٹنے کا یہی واحد طریقہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم جناب عمران خان نے بھارتی جارحیت کا خطرہ سامنے آتے ہی حزبِ اختلاف کی طرف تعاون کے لیے جو ہاتھ بڑھایا ہے اور جس کا حزبِ اختلاف نے بھی مثبت جواب دیا، اسے برقرار رکھنے کی ازحد ضرورت ہے۔ دونوں طرف کے میڈیا منیجرز کو ٹاک شوز میں بھی منہ کھولتے وقت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی زبان و بیان کو اسی طرح قانون و اخلاق کے دائرے میں رکھنا لازم ہوگا جیسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف نے رکھا، اور دونوں طرف کے ارکانِ پارلیمنٹ نے اپنی تقریروں میں الفاظ کے چنائو میں احتیاط برتی۔ اسی انداز کو جاری رکھ پائے تو ہم 1965ء کی طرح قوم کے اندر اعتماد اور اعتبار پیدا کرنے میں کامیاب ہوں گے اور برقرار رکھنے میں بھی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آج قومی استحکام اور قومی یک جہتی کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ آج ہمارے ساتھ وہ صورت نہیں ہے جو 1965ء کی جنگ کے وقت تھی۔ آج ہماری حمایت میں اُس طرح کھڑا ہونے والا کوئی شاہ فیصل شہید ہے اور نہ ہی انڈونیشیا کا کوئی سوئیکارنو ہے، اور نہ ہی الجزائر کا کوئی بن بیلہ ہے۔ آج تو ہمارے برادر اسلامی ملک ایران کے ساتھ بھی تعلقات کی وہ نہج نہیں ہے۔
بھارتی حکومت بھارتی الیکشن تک جنگی جنون کی فضا برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھے گی۔ اس لیے ہمیں داخلی استحکام کو برقرار رکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے اور سفارتی محاذ کو بھی مضبوط کرنے کے لیے اجتماعی دانش کو بروئے کار لانے کے لیے سفارت کاری میں مہارت رکھنے والے سابق سفارت کاروں، سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اُن اہلِ علم کو بھی متحرک اور فعال کرنے کی ضرورت ہے جو بھارت اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ بلاشبہ جناب وزیراعظم عمران خان نے مؤثر انداز میں قوم کا حق و صداقت پر مبنی مؤقف دنیا کے سامنے پیش کرکے اپنا سیاسی قد اُونچا کیا ہے۔ مگر یہ قد تادیر بلند اسی صورت میں رہ پائے گا جب وہ دنیا کو اپنے مؤقف کے حق میں قائل کرنے میں اس حد تک کامیاب ہوجائیں کہ وہ بھارت پر اپنا اتنا دبائو ڈالے کہ وہ مذاکرات کی پیشکش اور ثالثی قبول کرنے کی تجاویز کا مثبت جواب دینے پر مجبور ہوجائے۔ وزیراعظم کے لیے نوبیل انعام کے مطالبے پر دنیا اسی وقت کان دھرے گی جب بھارت مذاکرات اور ثالثی کی پیشکش قبول کرنے پر آمادہ ہوگا۔