’’آج بھی ہم میں یہ جاننے کی جستجو ہے کہ ہم یہاں کیوں ہیں؟ اور ہم کہاں سے آئے ہیں؟ حصولِ علم کی شدید آرزو اس بات کے لیے بھرپور جواز ہے کہ انسان حقیقت کی تلاش جاری رکھے۔ اور ہمارا مقصد اُس کائنات کی ایک مکمل تشریح و توضیح ہو، جس میں ہم رہتے ہیں۔‘‘ (A brief History of time by Stephen Hawking, pg 15-16)
’’ہماری کائنات کے آغاز کا کوئی ماضی نہیں، سو یہ عدم سے وجود میں آئی۔ بس اک اندھی ضرب تھی، اک لمحۂ جمال تھا، انتہائی تیزرفتار اور وسعت پذیر کہ جسے الفاظ میں لانا ممکن نہ ہو، وہ یکتائی جو آسمانوں کی تمام انتہاؤں، اور تصور سے ماوراء خلاؤں کو وجود میں لے آئی تھی۔ تخلیق کا وہ پہلا زندہ لمحہ، جسے جاننے کے لیے ماہرینِ سماویات عمریں تک کھپانے کے لیے تیار ہیں۔ (اس ایک ضرب تخلیق نے) وہ کشش ثقل اور قوتیں پیدا کیں، جو عالمِ طبیعات پر حکمران ہیں۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں کائنات کروڑوں اربوں میل تک وسعت اختیار کرگئی، اور انتہائی تیزی سے پھیلتی چلی جارہی ہے… یہ لمحہ کب پیش آیا؟ اس پر بحث جاری ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دس ارب سال پہلے ہوا، یا شاید اس دس بیس ارب سال کے درمیان کسی وقت ہوا۔ کچھ اس پر اتفاقِ رائے بنتا نظر آیا کہ تقریباً 13 ارب سال پہلے یہ لمحہ آیا ہوگا۔ مگر یہ سب وہ باتیں ہیں جن کی پیمائش ہماری اہلیت سے ماوراء ہے… یقیناً اس معاملے میں علم کا عظیم حصہ وہ ہے جسے ہم نہیں جانتے، اور بہت کچھ جسے ہم طویل عرصے سے سمجھتے ہیں کہ جانتے ہیں ، وہ ہم نہیں جان سکے ہیں۔ یہاں تک کہ بگ بینگ تھیوری بھی بالکل حال ہی کی دریافت ہے۔‘‘
(Short History of Nearly Everything, pg 28-29, by Bill Bryson)
’’کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، یہ دریافت بیسویں صدی کے عظیم علمی انقلابات میں نمایاں تھی، یہ ایک انتہائی حیران کن تھی، اس دریافت نے کائنات کی اصل پر ساری بحث کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ اگر کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہورہی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کبھی بہت قریب رہی ہوں گی۔ کائناتی پھیلاؤ کی موجودہ شرح سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دس سے پندرہ ارب سال پہلے یہ بہت ہی قریب رہی ہوں گی، سو ایسا لگتا ہے کہ اجسامِ سماوی کبھی بالکل یکجا رہے ہوں گے، اور یہیں سے کائنات کا نکتہ آغاز ہوا ہوگا۔ مگر بہت سارے سائنس دان کائنات کے آغاز کی خبر سے خوش نہیں، کیونکہ اس سے ایسا لگا کہ جدید طبیعات کی ساری عمارت ڈھے گئی۔کیونکہ اب کسی کو یہ کہنے کا موقع میسر آگیا کہ خدا موجودہے، جس نے کائنات کی ابتدا کی‘‘۔
(Brief Answers to The Big Questions, pg 46-47, by Stephen Hawking)
’’یہ 1916ء کی بات ہے، البرٹ آئن اسٹائن ان نتائج سے پریشان تھا جو اعداد وشمار سامنے لارہے تھے۔اگر اس کی تھیوری جنرل ریلیٹوٹی صحیح تھی تو اس کا مطلب تھا کہ کائنات ہمیشہ سے نہیں تھی بلکہ کہیں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی۔ آئن اسٹائن کے اعداد وشمار انکشاف کررہے تھے کہ زمان ومکاں اور تمام مادے کی کہیں کوئی ابتدا لازماً تھی۔ یہ سچائی آئن اسٹائن کے لیے بڑا جھٹکا تھا، اب تک وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ کائنات ساکت وجامد اور ابدی تھی۔ آئن اسٹائن نے بعد میں اپنی تھیوری کوirritating یعنی ناراض کردینے والی قرار دیا۔ وہ کائنات کو خودساختہ دیکھنا چاہتا تھا، کسی بھی خارجی سبب سے آزاد۔ مگرکائنات ایک بہت بڑے سبب کا بہت بڑا نتیجہ ثابت ہوئی تھی۔ اگر کائنات کا کوئی آغاز تھا، تب اس کا کوئی سبب بھی ہے۔ اس منطقی دلیل کی شکل کچھ یوں بنے گی کہ ہروہ شے جس کا کوئی آغاز ہے وہ بے سبب نہیں، کائنات اپنا آغاز رکھتی ہے، لہٰذا کائنات بے سبب نہیں۔ اسباب کا قانون سائنس کا بنیادی اصول ہے۔ اس قانون کے بغیر سائنس ناممکن ہے۔ درحقیقت، جدید سائنس کے بانی فرانسس بیکن نے کہا تھا کہ ’’سچا علم وہ ہے جو اسباب کا علم ہو‘‘۔ دوسرے الفاظ میں سائنس نام ہے اسباب کی تلاش کا۔ یہی کام سائنس دان کرتے ہیں، وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس شے کا کیا سبب ہے؟‘‘
(I Dont Have Enough Faith to Be An Atheist, by Norman Geisler and Frank Turek, Pg 73, 75)
یہ ہے اب تک کی سائنس کا تصورِ کائنات، مغرب کا ایک مکمل فکری وتحقیقی سانچہ، جس میں تقریباً ساری بحث آچکی ہے۔ یہاں ماہر فلکیات، ماہر تاریخ اور ماہر مذہبِ عیسائیت تینوں کا تصورِکائنات آگیا ہے۔ مگر یہ نامکمل ہے۔ یہ تینوں زاویے مل کر بھی تاریخِ کائنات کی تکمیل سے عاجز ہیں۔ سوال ہی سوال ہیں۔ بے یقینی سی بے یقینی ہے۔ ماہر فلکیات تخلیقِ کائنات کی مادی توضیح کرتے ہیں۔ ماہرِ تاریخ لاعلمی کا اعتراف کرتے ہیں۔ مذہبی ماہر اسباب کی سائنسی تشریح کرتے ہیں۔ یہ سب سائنس کو حجت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر بنیادی سوال نہ صرف اپنی جگہ قائم رہتے ہیں بلکہ کچھ اور زور آور ہوجاتے ہیں۔ جیسے اسٹیفن ہاکنگ کے یہ سوال کہ ’’آج بھی ہم میں یہ جاننے کی جستجو ہے کہ ہم یہاں کیوں ہیں؟ اور ہم کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ تکمیلِ تاریخ کے لیے یہ سوال کلیدی ہے۔ جواب جانے بغیر زندگی کا کوئی مفہوم پیدا نہیں ہوسکتا۔ مگر جدید سائنس، تاریخ نویسی، اور سائنسی عیسائیت جواب نہیں دے سکتے، کیونکہ یہ علوم کے انسانی دائروں میں چکر کاٹ رہے ہیں، جبکہ تاریخ کائنات کا دائرہ انسانی عقل و فہم سے ماورا ہے۔ سادہ سی منطق ہے کہ اگر انسان کائنات کی توضیح کا اہل ہوتا تو خالق اور مخلوق کا فرق باقی ہی کہاں رہتا؟ انسان عقلِ کُل نہیں ہوسکتا۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے آئن اسٹائن اور دیگر سائنس دان قبول کرنے سے چڑتے ہیں۔ کسی موقع پر آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ ’’سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے، اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے‘‘۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ’انسانی علم وحی کے بغیر اپاہج ہے، اور انسانی عقل وحی کے بغیر اندھی ہے‘۔ البتہ تاریخِ کائنات کی اطمینان بخش توضیح ضرور ہونی چاہیے۔ اس کے لیے مسبب الاسباب، خالقِ کائنات، ربِ ذوالجلال، الحی القیوم، الحکیم الودود، مالک الملک، اول وآخر، اللہ رب العزت جو لطیف و خبیر بھی ہے، اور ظاہر و باطن بھی ہے، اُس نے نہ صرف علم وحی کا انتظام کیا ہے بلکہ اس کی تفہیم اور حفاظت کا بھرپور اہتمام بھی کیا ہے۔ کائنات کے باب میں اطمینان بخش جواب کیا ہے؟ علمِ وحی سے رجوع کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ صحیح اور مستند علمِ وحی کی حیثیت اب صرف قرآن حکیم کی ہے۔
’’اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے: ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہوجاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے)‘‘۔ (سورہ یٰسین، 82)
’’کیا ان کافروں نے یہ نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کردیا اور ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت کی طرح بنایا ہے اور یہ لوگ اس کی نشانیوں سے برابر اعراض کررہے ہیں۔ وہ وہی خدا ہے جس نے رات دن اور آفتاب و ماہتاب سب کو پیدا کیا ہے، اور سب اپنے اپنے فلک میں تیر رہے ہیں۔‘‘
(سورہ انبیا۔ 30، 32، 33)
’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا، اس نے آسمان اور زمین سے کہا: وجود میں آجائو، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو۔ دونوں نے کہا: ہم آگئے فرماں برداروں کی طرح۔‘‘(سورہ حٰم السجدہ، 41)
’’اور ہم نے ہی آسمان کو اپنی دستِ قدرت سے پیدا کیا، اور ہم ہی اسے پھیلا رہے ہیں۔‘‘(سورہ الذاریات 47)
’’اُس نے آسمانوں اور زمین کو صحیح تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے، اور اسی نے سورج اور چاند کو (ایک نظام میں) مسخّر کررکھا ہے، ہر ایک (ستارہ اور سیّارہ) مقرّر وقت کی حد تک (اپنے مدار میں) چلتا ہے۔ خبردار! وہی (پورے نظام پر) غالب، بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘(سورہ الزمر 5)
’’بڑا متبرک ہے وہ، جس نے آسمان میں برج (constellation) بنائے اور اس میں ایک چراغ (یعنی سور ج) اور روشنی منعکس کرنے والا چاند بنایا۔‘‘(سورہ فرقان61)
’’اور بے شک ہم نے آسمان میں (کہکشاؤں کی صورت میں ستاروں کی حفاظت کے لیے) قلعے بنائے، اور ہم نے اس (خلائی کائنات) کو دیکھنے والوں کے لیے آراستہ کردیا، اور ہم نے اس (آسمانی کائنات کے نظام) کو ہر مردود شیطان (یعنی ہر سرکش قوت کے شرانگیز عمل) سے محفوظ کردیا، مگر جو کوئی بھی چوری چھپے سننے کے لیے آگھسا تو اس کے پیچھے ایک (جلتا) چمکتا شہاب ہوجاتا ہے۔‘‘(سورہ الحجر 16، 17، 18)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا، یہ سب (فلکی اجسام) اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔‘‘ (انبیاء33)
’’سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے، یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے۔‘‘ (سورہ یٰسیں38)
’’وہ جس نے آسمانی کرّوں اور زمین کو اور اس (کائنات) کو جو ان دونوں کے درمیان ہے، چھے اَدوار میں پیدا فرمایا، پھر وہ (حسبِِ شان) عرش پر جلوہ افروز ہوا۔ (وہ) رحمان ہے، (اے معرفتِ حق کے طالب!) تُو اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھ (بے خبر اس کا حال نہیں جانتے)۔‘‘ (سورہ فرقان 59)۔‘‘
پہلے اسٹیفن ہاکنگ کی آرزو اور بل برائسن کا اعتراف یکجا کردیتے ہیں تاکہ علمِ وحی پر حجت تمام ہوجائے۔ اسٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں: ’’حصول علم کی شدید آرزو اس بات کے لیے بھرپور جواز ہے کہ انسان حقیقت کی تلاش جاری رکھے۔ اور ہمارا مقصد اُس کائنات کی ایک مکمل تشریح وتوضیح ہو، جس میں ہم رہتے ہیں‘‘۔ اور بل برائسن کا کہنا ہے کہ ’’یہ سب وہ باتیں ہیں جن کی پیمائش ہماری اہلیت سے ماورا ہے… یقیناً اس معاملے میں علم کا عظیم حصہ وہ ہے، جسے ہم نہیں جانتے، اور بہت کچھ جسے ہم طویل عرصے سے سمجھتے ہیں کہ جانتے ہیں ، وہ ہم نہیں جان سکے ہیں‘‘۔ آرزو بھی معقول ہے، اظہارِ بے بسی بھی معقول ہے۔ یہ زندگی کا عام تجربہ ہے کہ انسان کی اکثر خواہشات اُس کے بس سے باہر ہوتی ہیں۔ ان خواہشات کی تکمیل کے لیے وہ اُن ذرائع سے رجوع کرتا ہے، جو انہیں پورا کرسکیں۔ مثلاً ایک آدمی مکان بنانا چاہتا ہے مگر وہ خود ایسا نہیں کرسکتا، اس لیے انجینئر سے رجوع کرتا ہے۔ یہ معاملہ موچی سے ڈاکٹر تک اسی طرح قائم ہے۔ یہ منطقی ہے۔ اس پر موچی سے سائنس دان تک کسی کو کوئی اعتراض یا اچنبھا محسوس بھی نہیں ہوتا، ہونا بھی نہیں چاہیے۔ بالکل اسی طرح سچائی کا معاملہ ہے۔ سچ جاننے کے لیے ایک سچے امانت دار شخص سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک معروف سچا امانت دار شخص اگر تاریخ کے ہر مرحلے پر ہر خطۂ زمین پر ظاہر ہوتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے کہ خالقِ کائنات نے اسے سچائی سے آگاہ کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس سچائی سے سب کو آگاہ کردیا جائے کیونکہ اس میں سب کی فلاح ہے، اور یہ سچ جاننا سب کا فطری اور بنیادی حق بھی ہے، تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟ جب معمولی کاریگر پر اُس کی صفت (ہنر) کے سبب بھروسا کیا جاسکتا ہے تو سچے آدمی کی صفت (سچائی) پرکیوں بھروسہ نہ کیا جائے؟ مزید یہ کہ وہ سچا پیغامبر اس سچائی کے لیے جان تک کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہوجائے، اور تاریخ کے ہر دور میں بغیر کسی براہِ راست ربط کے وہ ویسی ہی صورت حال سے گزرے کہ جس سے دوسرا، تیسرا اور دسواں پیغامبر کسی اور ہی خطے میں گزرا ہو۔ یقیناً ایسے سچ میں کسی اچنبھے کی گنجائش نہیں جو انتہائی مختلف مقامات پر ایک ہی کیفیت میں ظاہر ہو، اور ایک ہی پیغام دے رہا ہو۔ جب کہ باہمی ربط و ابلاغ کا امکان محال ہو، اور جب کہ ایک ہی طرح کے ردعمل کا سامنا بھی ہو، اور جب کہ یہ سب ذاتی مفادات بھی حاصل نہ کرنا چاہتے ہوں۔ ایسی صورت میں سوائے تصدیق کے کچھ نہیں رہ جاتا۔ لہٰذا، جب صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نبی الخاتم صلی اللہ علیہ وسلم کا حال بیان کیا گیا تو بلا تردد تصدیق کردی کہ یہ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ یہ ہے خالص عقل مندی۔ یہ ہے معقولیت کا جوہر، جس میں ابوبکر صدیقؓ سب پر بازی لے گئے۔ بات صرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود نہیں۔ سارے ہی معلوم پیغمبران باکردار اور راست باز معروف ہیں اور آج کی دنیا میں بھی ان کی مقبولیت اور سچائی پر سوال اٹھانا ممکن نہیں۔ یہ ہے علمِ وحی، جس کے بغیر کسی معاملے کی مکمل سچائی تک رسائی ممکن نہیں۔
یہ کائنات اس قادرِ مطلق کی تخلیق ہے، جو اوّل بھی ہے اور آخر بھی ہے۔ وہ ہر شے پر محیط ہے۔ وہ اس کائنات کا واحد سبب ہے۔ یہ ہرگز ’اندھی ضرب‘ یا اندھے قوانین کا شاہکار نہیں بلکہ ’کُن فیکون‘ کا ارادۂ الٰہی ہے۔ یہ اس المتکبر الخالق کا امر تخلیق ہے کہ جملہ کائنات کے اجسام کی اکائی اَن گنت ٹکڑوں میں وسعت اختیار کرتی چلی گئی، اور آج بھی کررہی ہے۔ کائنات کا تخلیقی عمل وسعت اختیار کرتا چلا گیا، اور کررہا ہے۔ یہ لمحۂ ’کن فیکون‘ کب پیش آیا؟ یہ جاننے کی انسان کو قطعی ضرورت نہیں۔ کائنات کی ابتدا اور توسیع کی ضروری توضیح خالق نے خود بذریعہ وحی کردی ۔ کائنات کی وسعت پذیری میں جتنے قوانین کام کررہے ہیں، وہ ہرگز اندھے نہیں بلکہ انہیں اندھا سمجھنے والے عقل کے اندھے ہیں، کیونکہ طبیعات اور ریاضی کے اس کائناتی شاہکار کو حادثاتی اور اندھا سمجھنا انتہائی غیر منطقی رویہ ہے۔ اس سارے تخلیقی عمل پر رب ذوالجلال کی قدرت چھائی ہوئی ہے۔ اُس رب نے یہ سب کیسے کیا؟ وہ یہ سب آسان الفاظ اور صفاتِ عالیہ میں واضح کررہا ہے، جنہیں انسانی عقل پہچانتی ہے۔ تخلیق کے وہ درجے جنہیں انسانی عقل نہیں سمجھ سکتی، اُنہیں انسان کے لیے غیر ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ پہلی جماعت کے بچے پی ایچ ڈی تحقیقی مقالہ نہیں سمجھ سکتے۔ اُن سے ایسی توقع رکھنا بھی حماقت ہوگا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلی جماعت میںکامیابی کے لیے اس کی ضرورت بھی نہیں۔ غرض، کوئی مثال اس ضمن میں دینا ممکن ہی نہیں۔ اس لیے ضروری باتیں کہ جن سے ضروری سوال حل ہوجائیں، واضح کردی گئی ہیں۔ رب نے کائنات پیدا کی۔ اسے مسلسل وسعت عطا کی۔ متوازن قوانین کا نظام قائم کیا۔ اب آئن اسٹائن کو خواہ کتنا ہی ناگوار گزرا ہو، یا اسٹیفن ہاکنگ اور اُن کے احباب کوکائنات کے آغاز کی خبر سے کتنی ہی ناخوشی ہوئی ہو… حقیقت یہی ہے کہ کائنات تخلیق کی گئی اور اس کا سبب بھی ہے۔ ظاہر ہے جب ابتدا ہوئی ہے توانجام بھی ہوگا۔
انسان کی تخلیق کا مقصد خالق کے مقرر قوانین کے مطابق زندگی گزارنا ہے، جیسا کہ دیگر ہرمخلوق کررہی ہے۔ یہ ہیں اسٹیفن ہاکنگ کے سوالوں کے جوابات (اسٹیفن ہاکنگ کا اپنا وجود بھی ایک معجزہ تھا۔ ڈاکٹروں نے بہت مختصر زندگی کی خبر دی تھی۔ مگر اللہ رب العزت نے طویل زندگی عطا کی)۔ صرف انسانوں اور جنوں کو ہی پوری کائنات میں اختیار دیا گیا ہے کہ ربانی قوانین کی نافرمانی کرسکتے ہیں۔ اس لیے دیکھا جاسکتا ہے کہ پوری کائنات میں اگر کہیں فساد اور بگاڑ ہے تو وہ انسانوں کے خطۂ زمین پرہے۔
لہٰذا، یہ ہے ’علمِ عظیم‘ کا وہ حصہ جسے ’علمِ وحی‘ کہتے ہیں۔ وہ ضروری تاریخ جو دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ علمِ وحی نے کائنات کے باب میں جتنی آگاہی عنایت کردی ہے، وہی تکمیلِ تاریخِ کائنات ہے۔