پنجاب کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کیس

سابق چیف جسٹس کے احکامات کالعدم

دو سال تک اخبارات کی شہ سرخیوں اور ٹی وی چینلز کی اہم ابتدائی خبروں میں رہنے والے، اور ہر دوسرے تیسرے دن چینلز کے ٹاک شوز میں زیر بحث آنے والے پاکستان کے 25 ویں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ریٹائر ہونے کے بعد پہلی بار جمعہ کے روز ٹی وی اور اخبارات کی خبروں میں نظر آئے۔ ورنہ 17 جنوری 2019ء کو ریٹائر ہونے پر اُس روز کے ٹی وی چینلز اور اگلے روز کے اخبارات میں اُن کی ریٹائرمنٹ اور ریفرنس کی آخری خبریں نشر اور شائع ہوئی تھیں۔ اُس کے بعد سے وہ مسلسل میڈیا میں ’’مسنگ‘‘ تھے۔ اُن کے مخالفین بہت پہلے سے یہ پیش گوئی کررہے تھے، خود چیف جسٹس ثاقب نثار بھی یہ کہہ چکے تھے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد خاموشی سے گھر بیٹھ جائیں گے۔ لیکن حیرت ہے کہ ہر وقت خبر کا موضوع رہنے والے چیف جسٹس ریٹائر ہوئے تو کسی نے یہ بھی خبر نہ لی کہ اُن کی آج کل کیا مصروفیات ہیں، وہ کس طرح اپنا وقت گزار رہے ہیں، اور مستقبل کی کیا منصوبہ بندی ہے۔ شاید اقتدار و اختیار اتنے ہی ناپائیدار ہیں۔
جمعہ کے اخبارات میں اُن سے متعلق جو خبر شائع ہوئی وہ خود اُن کے لیے بھی شاکنگ ہوگی۔ اُن کے مخالفین نے اس پر بغلیں بجائی ہوں گی، حامی مایوس ہوئے ہوں گے اور اختیار اور شہرت کی ناپائیداری پر ایمان رکھنے والوں نے اسے زندگی کا معمول سمجھا ہوگا۔ خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کیس میں سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ کے تمام عبوری احکامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔ سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے پی کے ایل آئی کیس کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ محکمہ اینٹی کرپشن کس قانون کے تحت اس کیس کی انکوائری کررہا ہے؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے حکم دیا تھا۔ جس پر جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیے کہ کسی انکوائری کی ضرورت نہں۔ کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کی انکوائری کا حکم واپس لے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے پاکستان کڈنی انسٹی ٹیوٹ ایکٹ میں ترمیم، مبینہ کرپشن کی انکوائریوں اور کے پی ایل آئی کی ایڈہاک کمیٹی کو ختم کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ کو ایکٹ کے مطابق ہونے کی ہدایت کی۔ کے پی ایل آئی کے سابق سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے کے پی ایل آئی سے متعلق سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ازخود نوٹس کو نمٹادیا۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک اہم فیصلہ ہے۔ شاید ملک کی عدالتی تاریخ میں کسی سابق چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کیس کو صرف 6 ہفتے بعد نمٹائے جانے کی نظیر کم کم ہی ملے گی۔ نیز سابقہ احکامات کو کالعدم قرار دیے جانے کی بھی مثالیں کم ہی ملیں گی۔ لیکن انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اگر عدالت محسوس کرے کہ سابقہ فیصلے میں کسی ریلیف کی ضرورت ہے تو وہ یہ ریلیف فراہم کرے، اور الحمدللہ ہماری عدالتیں اس معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار دو سال سے کچھ زائد عرصے تک ملک کی سب سے بڑی عدالت کی سربراہی کرکے اِس سال 17 جنوری کو ریٹائر ہوگئے تھے۔ تب سے اُن کے بارے میں کوئی خبر نہیں آرہی تھی۔ اگرچہ اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی کہ چیف جسٹس کوئی سیاسی شخصیت نہیں، اور نہ ہی محض میڈیا کی ضرورت کے تحت انہیں خبروں میں رکھنا ضروری ہے۔ اُن کے فیصلے اور ازخود نوٹس میرٹ پر میڈیا میں اپنی جگہ بناتے رہے۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں تین چیف جسٹس ایسے رہے ہیں جن کے بارے میں میڈیا اور سیاسی حلقوں میں عدالتی فعالیت کی بات ہوتی رہی۔ چیف جسٹس سیّد سجاد علی شاہ اس کی پہلی مثال تھے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری اس کی دوسری مثال بنے۔ چونکہ وہ ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں اپنے عہدے پر بحال ہوئے تھے اس لیے اُن کے کیریئر میں میرٹ کے علاوہ عوامی پذیرائی کا عنصر بھی شامل تھا۔ جبکہ تیسرے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار اس دائرے میں آئے تھے۔ یہ تینوں چیف جسٹس صاحبان کئی حلقوں کی مخالفت کے باوجود عوامی پذیرائی کے حوالے سے تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ کیونکہ تینوں معزز جج صاحبان معاشرے کے ایسے طاقتور طبقات کو عدالتی کٹہرے میں لائے تھے جو خود بھی اپنے آپ کو قانون سے بالا سمجھتے تھے اور عوام میں بھی یہ تاثر تھا کہ اُن کی بازپرس اور اُن سے سوال جواب کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں یہ تاثر پیدا ہوگیا تھا کہ وہ براہِ راست بے نظیر اور پھر نوازشریف کے ساتھ تنائو میں ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے بعض اقدامات پر بھی آبزرویشن دیں۔ چنانچہ اُس دور میں سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوئی کہ پارلیمنٹ سپر ہے یا سپریم کورٹ؟ چنانچہ پارلیمنٹ اپنے اقدامات کرتی رہی جن کے ساتھ حکومتی اقدامات بھی شامل تھے۔ اور سپریم کورٹ اپنے فیصلے اور ریمارکس دیتی رہی۔ اُس دور میں عام تاثر یہ تھا کہ سپریم کورٹ یا کم از کم شاہ صاحب کو فوج کی آشیرباد حاصل ہے۔ اس رسّاکشی کے دوران پارلیمنٹ پر حملے کا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا، لیکن آخرکار سیاسی قیادت کو نقصان پہنچنے کے بعد چیف جسٹس کو بھی جانا پڑا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری چونکہ ایک فوجی آمر کے سامنے ڈٹ جانے کے بعد سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور عوام کے دبائو اور تحریک کے نتیجے میں بحال ہوئے تھے اس لیے انہوں نے بحالی کے فوری بعد طاقتور حلقوں کے بارے میں سخت ریمارکس دیے، انہیں عدالتوں میں طلب کیا اور اُن سے بازپرس کی۔ چنانچہ انہیں عوام میں تو بڑی پذیرائی ملی لیکن حکومتی اور مقتدر حلقوں میں وہ متنازع ہوتے گئے۔ خاص طور پر سوئز اکائونٹس کے مسئلے پر وہ وزیراعظم کو خط لکھنے کا حکم دیتے رہے، اور خط نہ لکھنے پر انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت میں نااہل کردیا۔ سندھ میں شرجیل میمن اور دیگر نے چیف جسٹس کے رویّے پر تنقید کی تو انہوں نے اِن وزراء اور ارکانِ اسمبلی کو طلب کرلیا، لیکن سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے تمام ارکان جہاز بھر کر سپریم کورٹ پہنچ گئے جس پر چیف جسٹس نے معاملہ نمٹادیا۔ بعد میں اُن پر عمران خان اور تحریک انصاف نے انتخابات کے حوالے سے سنگین الزامات لگائے اور 2013ء کے انتخابات کو آر اوز کا انتخاب قرار دیا۔ اس صورتِ حال میں کچھ وقفے کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا حلف لیا تو ابتدا میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ صرف اہم نوعیت کے معاملات میں ازخود نوٹس لیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار چونکہ لاہور ہائی کورٹ بار کے سیکریٹری جنرل رہ چکے تھے اور نوازشریف کے دور میں تو سیکریٹری بھی رہ چکے تھے، اس لیے مسلم لیگ (ن) کو اُن سے بہت سی اُمیدیں وابستہ تھیں اور اپوزیشن نے اُن کے حلف اُٹھانے سے قبل ہی کہنا شروع کردیا تھا کہ اب مسلم لیگ (ن) اور نوازشریف کے اپنے لوگ آرہے ہیں۔ لیکن جسٹس ثاقب نثار نے انتہائی محتاط انداز میں کام شروع کیا۔ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بینچ سے وہ ازخود الگ رہے، لیکن آہستہ آہستہ اُن کے ریمارکس بھی شدید ہوتے گئے اور انہوں نے ازخود نوٹس لے کر درجنوں بلکہ سیکڑوں معاملات کی تیز ترین سماعت کی۔ انہوں نے عوامی نوعیت کے مسائل کا نوٹس لیا اور طاقتوروں کو عدالت میں طلب کرکے سخت ترین ریمارکس اور فیصلے دیے، جس سے عوام میں اُن کی مقبولیت بڑھی، لیکن حکومتی، سیاسی اور بااختیار حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑی، جس سے عوام کو پھر اطمینان حاصل ہوا۔ صاف پانی کی بوتلوں اور موبائل لوڈ کے بارے میں ان کے ریمارکس اور فیصلے لوگوں میں مقبول ہوئے۔ میڈیکل کالجوں، اسپتالوں اور صحت کے شعبے میں انہوں نے مختلف نوعیت کے درجنوں اور بار بار نوٹس لیے۔ اسپتالوں کی حالتِ زار، میڈیکل کالجوں کی بھاری فیسوں اور پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں قائم مقام وائس چانسلرز کی تقرری پر انہوں نے سخت ترین ریمارکس دیے۔ پنجاب ہیلتھ کیئر بورڈ کی نامزدگی پر انہوں نے سینئر صحافی حسین نقی کو انتہائی تند جملوں کے ساتھ مخاطب کیا۔ اُن کے الفاظ تھے کہ یہ نقی کون ہے اور کہاں ہے، جس نے جسٹس عامر رضا خان کو پنجاب ہیلتھ کیئر بورڈ سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ جس پر حسین نقی پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اُن کے کہنے کے باوجود جسٹس عامر رضا نے استعفیٰ دیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمہیں جرأت کس طرح ہوئی! جواب میں حسین نقی نے کہا کہ وہ اُن (چیف جسٹس) سے عمر میں بیس سال بڑے ہیں۔ تاہم چیف جسٹس کے حکم پر انہوں نے عدالت سے معذرت کی۔ اس واقعے کو تمام چینلز اور اخبارات نے نمایاں انداز میں شائع کیا، جس پر ملک بھر کے صحافیوں نے حسین نقی کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا اور اگلے روز سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں صحافیوں کا ایک وفد جناب چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوا اور کہا کہ حسین نقی ہمارے لیے استاد کا درجہ رکھتے ہیں، گزشتہ روز کے واقعے سے صحافیوں کو شدید صدمہ پہنچا ہے جس کی داد رسی کی جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وہ آپ کے استاد ہیں تو میرے بھی استاد ہیں، اور دادرسی کے لیے پنجاب ہیلتھ کیئر بورڈ میں اُن کی نامزدگی بحال کردیتے ہیں۔ تاہم صحافیوں نے کہا کہ حسین نقی عہدوں سے بالا صحافی ہیں۔ جس پر یہ کیس نمٹادیا گیا۔ تاہم اس دوران ملک بھر کی صحافتی تنظیمیں اور پریس کلب 84 سالہ حسین نقی کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرتے رہے۔ چیف جسٹس نے سانحہ پاکپتن کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی طلب کیا، جنہوں نے عدالت سے معافی مانگی۔ تحریک انصاف کے لاہور سے ایم این اے افضل کھوکھر کی پلاٹوں پر قبضہ کیس میں طلبی پر چیف جسٹس نے افضل کھوکھر کی سخت سرزنش کی اور خود تحریک انصاف کے بارے میں بھی سخت ریمارکس دیے۔ اس کیس میں تحریک انصاف کے ایم پی اے ندیم کامران بارا عدالت میں رو ہی پڑے۔ وفاقی وزیر، اعظم سواتی کے کیس میں بھی عدالت نے سخت ریمارکس دیے جس کے باعث انہیں وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اس دوران چیف جسٹس نے ڈیموں کی تعمیر کے لیے فنڈ قائم کردیا اور کئی مقدمات میں ملوث افراد کو فنڈ میں عطیہ دینے پر ریلیف بھی دیا، جس پر خاصی تنقید ہوئی۔ چیف جسٹس فنڈ ریزنگ کے لیے لندن بھی گئے اور وہاں تقریب سے بھی خطاب کیا، جس کا انتظام مبینہ طور پر وہاں تحریک انصاف نے کیا تھا۔ اس پر سوشل میڈیا میں خاصے سوالات اٹھائے گئے۔ کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کے کیس میں اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کو جب طلب کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اُن کا مالی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات ڈاکٹر سعید اختر راقم کو ایک انٹرویو میں پہلے بھی بتاچکے تھے کہ جب وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے انہیں یہ ادارہ قائم کرنے کے لیے بلایا تو انہوں نے دو شرائط رکھی تھیں، ایک یہ کہ اُن کے کام میں کوئی سیاسی مداخلت نہ ہو، دوسرے یہ کہ اسپتال کے تمام مالی امور سے وہ خود الگ تھلگ رہیں گے۔ ڈاکٹر سعید اختر ایک نیک نام ڈاکٹر ہیں، امریکہ کے کامیاب ترین ڈاکٹروں میں شمار ہوتے ہیں، وہاں بطور ڈاکٹر اُن کی اتنی بڑی حیثیت تھی کہ دو جہاز اُن کی ملکیت میں تھے۔ اب سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈاکٹر سعید اختر کو باعزت ریلیف دیا ہے اور انکوائری کا حکم واپس لے کر پی کے ایل آئی کی ایڈہاک کمیٹی کو ختم کردیا ہے۔ اس فیصلے کو عوامی سطح پر سراہا گیا ہے، خصوصاً اس بے مثال ادارے سے مستفید ہونے والے مریضوں اور اُن کے لواحقین نے سکون کا سانس لیا ہے، اور اُمید ہے کہ ڈاکٹر سعید اختر اور اُن کے ساتھی ایک بار پھر مریضوں کی خدمت میں جُت جائیں گے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر اس فیصلے کو بے حد سراہا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ دیگر ازخود نوٹسز کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔