اسلام اور پاکستان دشمنی کی آگ اور بھارتی سیاسی شطرنج کی بساط

ہندوستانی وزیراعظم اور اُن کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت کی آگ کو اپنے حامیوں میں گرمجوشی کے لیے استعمال کررہی ہے۔ اب اس بات میں کسی کو کوئی شبہ نہیں کہ اسی مقصد کے لیے پلوامہ حملے کا ڈراما رچایا گیا، جسں میں چالیس سے زیادہ بھارتی فوجی مارے گئے۔ شاہ کو شہہ سے بچانے کے لیے قلعہ بندی اور پیادوں کی قربانی شطرنجِ سیاست کا بڑا آزمودہ دائو ہے۔ مودی جی کو مئی میں انتخابات کا سامنا ہے اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اُن کے قومی جمہوری اتحاد (NDA)کو کانگریس کے ترقی پسند اتحاد (UPA) پر برتری تو حاصل ہے لیکن گزشتہ 12 ماہ سے ان کی مقبولیت مسلسل کم ہوتی نظر آرہی ہے۔ پلوامہ واقعے سے ایک ہفتہ پہلے جاری ہونے والے جائزے میں 242 نشستوں پر حکمراں اتحاد کی کامیابی کا امکان ظاہر کیا گیا تھا، جبکہ 543 رکنی لوک سبھا (قومی اسمبلی) میں حکومت سازی کے لیے کم از کم 272 نشستیں درکار ہیں۔
پاکستان کے خلاف فضائی حملہ اُن کی انتخابی مہم کا حصہ تھا، اور ابتدا میں نریندر مودی نے اس سے خوب سیاسی فائدہ سمیٹا، بلکہ ایک مرحلے پر تو ساری حزب اختلاف ترپ کے اس پتّے پر ڈھیر ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ حتیٰ کہ راہول گاندھی بھی پاکستان کو کچل دو کا نعرہ لگانے لگے۔ بالاکوٹ حملے کے بعد کانگریس نے سارے ملک میں جلوس نکالے اور شیطان پاکستان کے نعرے لگائے۔ لیکن اس کے دوسرے ہی دن پاکستان کی کامیاب جوابی کارروائی نے ہندوستانیوں کو ششدر کردیا، اور کچھ طبقوں کی طرف سے خوداحتسابی کی تحریک شروع ہوئی۔ ہندوستانی میڈیا کی لن ترانی اُس وقت دم توڑ گئی جب زیرِ حراست ہندوستانی پائلٹ ابھی نندن کی تصویریں نشر و اشاعت کے عالمی اداروں میں شایع ہوئیں۔ جس کے بعد مودی سرکار کے لیے اپنے طیارے کی تباہی کے اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اسی کے ساتھ رائٹرز، بی بی سی اور الجزیرہ کے نمائندے بالاکوٹ پہنچ گئے۔
بی بی سی نے تو روایتی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گول مول سی رپورٹ دی، لیکن الجزیرہ اور رائٹرز نے بتایا کہ ہندوستانی فضائیہ کے حملے میں جابہ کا غیر آباد جنگل اور کچھ کھیت تباہ ہوئے۔ سڑک پر مولانا مسعود اظہر اور مولانا یوسف اظہر کی زیرنگرانی تحفیظ قرآن کے مدرسہ تعلیم القرآن کا بورڈ بھی صحیح سلامت ہے۔ عینی شاہدین نے الجزیرہ کے نمائندے کو بتایا کہ یہاں 4 بم گرائے گئے لیکن چند زمین بوس صنوبر (Pine)کے درختوں، ادھڑی چٹانوں اوردھماکے سے پڑجانے والے گڑھوں کے سوا کسی عمارت یا کیمپ کا ملبہ، لہو کانشان یا کوئی ایسے آثار نہیں ملے جن سے کسی مالی اورجانی نقصان کا پتا چلتا ہو۔ دھماکے سے پڑجانے والے گڑھوں میں چار جگہ بم کے نوکیلے ٹکڑے (Shrapnel) زمین میں گھپے نظر آئے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حملے میں چار بم استعمال کیے گئے تھے۔ الجزیرہ کے نمائندے نے بتایا کہ بمباری کی اطلاع ملتے ہی قریب واقع اسپتالوں کا عملہ ایمبولینسوں کے ساتھ فوری طور پر یہاں آیا لیکن انھیں لاش تو درکنارکوئی زخمی بھی نہیں ملا۔ ان واضح اطلاعات کے بعد بھارتی حکومت نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ بالاکوٹ حملے سے دشمن کے پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ فی الحال ممکن نہیں، تاہم دِلّی اس بات پر اب بھی مُصر یا اَڑا ہوا ہے کہ بڑی تعداد میں دہشت گرد ہلاک کیے گئے اور جیش محمد کے کمانڈ وکنٹرول مرکزکی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔
فضائی جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد دِلّی سرکار نے اپنے گرفتار پائلٹ کی واپسی کے لیے دبنگ رویہ اختیار کیا اور دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ اگر ونگ کمانڈر ابھی نندن فوری طور پر واپس نہ ہوا تو اسلام آباد کو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ واشنگٹن کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے جو اُس وقت امریکی صدر کے ساتھ ویت نام کے دارالحکومت ہنوئے میں تھے، اپنے پاکستانی ہم منصب سے فون پر بات کی اور بتایا کہ صدر ٹرمپ پاک بھارت کشیدگی پر سخت اضطراب میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ بھارتی پائلٹ کو غیر مشروط طور پر واپس کرکے پاکستان کشیدگی کم کرنے کا آغاز کرے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی پیغام امریکی فوج کی مرکزی کمان (CENTCOM)کے سربراہ جنرل ووٹل نے پاکستان کے سپہ سالار جنرل باجوہ کو بھی پہنچایا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ابھی نندن کی واپسی صدر ٹرمپ کے دبائو کا نتیجہ تھی یا عمران خان خود یہ سمجھتے تھے کہ خیرسگالی کے اظہار سے نہ صرف کشیدگی میں کمی ہوگی بلکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کا تاثر ایک ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے ابھرے گا۔ ابھی نندن کی رہائی سے تنائو میں کسی حد تک کمی محسوس ہوئی اور ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ ہندوستان کشیدگی کو بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
بالاکوٹ حملے میں ناکامی، طیاروں کی تباہی اور پائلٹ کی گرفتاری کی بنا پر مودی سرکار دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اس موقع پر بھارت کو سفارتی محاذ پر دو واضح کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ یعنی ایک طرف او آئی سی (OIC)کے ابوظہبی اجلاس میں پاکستان کے احتجاج کے باوجود ہندوستان کی بطور خصوصی مبصر شرکت، تو دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کے لیے ایک نئی قرارداد پیش کردی گئی۔ ہندوستان کے اصرار پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حمایت سے یہ قرارداد 2009ء، 2016ء اور 2017ء میں بھی پیش ہوچکی ہے، لیکن چین کی عدم حمایت کی وجہ سے تحریک منظور نہیں ہوسکی۔ فرانس پُرامید ہے کہ چین اِس بار قرارداد کو ویٹو نہیں کرے گا۔ تاہم اب تک روس اور چین نے اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
او آئی سی میں شرکت کو مودی سرکار نے زبردست سفارتی کامیابی قرار دیا۔ سشما سوراج کے ابوظہبی میں والہانہ استقبال پر بھی بی جے پی نے خوب شادیانے بجائے، لیکن کانفرنس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اُس میں او آئی سی نے نہ صرف کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے مؤقف کی بھرپور حمایت کی، بلکہ کشمیری عوام کے خلاف بھارتی فوج کے مظالم کو ریاستی دہشت گردی سے تعبیر کیا۔
او آئی سی کی جانب سے ہندوستان کی کھلی مذمت پر کانگریس نے مودی سرکار کو نشانے پر رکھ لیا اور سابق وزیر خزانہ شری چدم برم نے کہا کہ حکومت حزبِ اختلاف کو فوج و دیش دشمن قرار دینے پر جتنا زور دے رہی ہے اُس سے آدھی توانائی بھی غیر ملکی دہشت گردی کے شواہد اور بالاکوٹ حملے کی تفصیلات جمع کرکے دنیا کے سامنے لانے پر خرچ کرتی تو نہ صرف قوموں کی برادری میں ہم سربلند ہوتے بلکہ قوم کا حوصلہ بھی بلند ہوجاتا۔ حملے کی ناکامی پر ہندوستان کا میڈیا سب سے زیادہ متاثر ہوا جس نے حکومت کے ابتدائی دعوے پر آسمان سر پر اٹھالیا تھا، اور رائے عامہ کے سامنے ایسی تصویرکشی کی گئی کہ گویا سارا بالاکوٹ جل کر خاک ہوگیا ہے، گلیوں میں لاشیں بکھری ہوئی ہیں، بارود کے ذخائر سے شعلے بھڑک رہے ہیں اور سارے پاکستان میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد بھارتی صحافیوں نے فضائیہ کے ترجمان کی جان مشکل میں ڈال دی تھی، جن سے بار بار یہی سوال ہورہا تھا کہ بالاکوٹ میں کتنے آتنک وادی (دہشت گرد) مارے گئے، لیکن بیچارے کے پاس اس کا کوئی تشفی بخش جواب نہ تھا۔ تنگ آکر بھارتی فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل بی ایس دھنوا(B.S. Dhanoa) خود سامنے آئے اور بہت ہی درشت لہجے میں کہا کہ دشمن ملک کے اندر گھس کر ہدف کو نشانہ بنانے والے پائلٹوں کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ لاشوں کو گنیں۔ فوج حکومت کے ماتحت ہے اور ہمارے لیے اہداف کا تعین بھی سرکار نے کیا تھا۔ بھارتی فضائیہ کی کارروائی سے دشمن کو کتنا نقصان پہنچا ہے یہ آپ جاکر سرکار سے پوچھیں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔
دوسری طرف جھلّائے ہوئے نریندر مودی کہہ بیٹھے کہ اگر بھارت کے پاس رافیل (RAFALE) طیارے ہوتے تو صورتِ حال مختلف ہوتی۔ یہ کہہ کر بھارتی وزیراعظم نے بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا، بلکہ اُن کے ایک قریبی مشیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ انتخابی مہم کے دنوں میں رافیل کا ذکر کرکے مودی جی نے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑا مار لیا ہے۔ اس موقع پر رافیل اسکینڈل کے پس منظر پر چند سطور قارئین کی دلچسپی کے لیے:
2012ء میں ہندوستان نے فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن (Dassault Aviation) سے رافیل جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔ اُس وقت ہندوستان پر کانگریس کے متحدہ ترقی پسند اتحاد یا UPAکی حکومت تھی اور ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیراعظم تھے۔ 126طیاروں کے اس معاہدے کے تحت 18 کی تعمیر فرانس میں، جبکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور لائسنس کے اجرا کے بعد باقی 108 طیارے بنگلور (ہندوستان) میں بننے تھے۔ ہندوستان میں طیارے کی تیاری کا کام سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (HAL) کو سونپا گیا اور ایک طیارے کی قیمت 52 ارب 26 کروڑ روپیہ طے پائی۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے اس معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سودا ہندوستان کے مفاد میں نہیں۔ موجودہ وزیردفاع شریمتی نرملاسیتا رامن اور ممتاز صنعت کار انیل امبانی تیراندازی میں نریندر مودی کے شانہ بشانہ تھے۔ 2014ء میں برسراقتدار آتے ہی نریندر مودی نے اپنی وزارتِ خزانہ کو یہ معاہدہ ختم کردینے کا حکم دیا، اور جب مارچ 2015ء میں مودی جی سرکاری دورے پر فرانس گئے تو انھوں نے اس معاہدے کی منسوخی کا اعلان کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ڈسالٹ ایوی ایشن سے ایک نئے معاہدے کے لیے مذاکرات کا آغاز ہوا۔
نئے معاہدے کے تحت 36 طیاروں کی تعمیر فرانس میں، جبکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور لائسنس کے اجرا کے بعد باقی 90 طیارے ہندوستان میں بننے ہیں۔ مزے کی بات کہ نئے معاہدے میں قیمت 52 ارب 26 کروڑ سے بڑھا کر 166 ارب 60 کروڑ روپے فی طیارہ طے کردی گئی، اور ساتھ ہی ملک میں طیارے کی تیاری کا کام ہندوستان ایوی ایشن کے بجائے انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ (Reliance Defense Ltd) (RDL)کو بخش دیا گیا۔ نریندر مودی کے قریبی دوست انیل امبانی اربوں کے نادہندہ ہیں اور چند ماہ پہلے انھوں نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ دلچسپ بات کہRDL اس معاہدے سے محض پندرہ روز قبل قائم ہوئی تھی اور اسے اسلحہ سازی کا کوئی تجربہ نہیں ہے، جبکہ ایچ اے ایل کو پچاس برسوں کا تجربہ حاصل ہے۔ نئے معاہدے کے تحت ہندوستان کو رافیل طیاروں کی پہلی کھیپ اِس سال ستمبر میں ملے گی۔
حسبِ توقع نئے معاہدے کے خلاف حزبِ اختلاف نے آسمان سر پر اٹھالیا اور نریندر مودی پر رشوت خوری کا الزام لگا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ نئے معاہدے کے تحت ان طیاروں پر فضا سے فضا میں اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کا نظام بھی نصب ہوگا جو اسرائیل سے حاصل کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ فرانسیسی کمپنی نے سودے سے حاصل ہونے والے منافع کے 50 فیصد حصے کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرنے کا وعدہ کیا ہے، اسی بنا پر قیمت ’’کچھ زیادہ‘‘ ہے۔ مودی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نے ہندوستان میں طیارہ سازی کے لیے HAL اور RDLکا نام ڈسالٹ ایوی ایشن کو پیش کیا تھا جس نے چھان بین کے بعد انیل امبانی کی RDL کا انتخاب کیا۔ وزیردفاع شریمتی نرملا سیتا رامن نے اس معاہدے پر ’’غیر ضروری‘‘ بحث کو ملکی سلامتی کے لیے خطرناک قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر کھلے عام بحث سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ راہول گاندھی کی ناتجربہ کاری پر طنز کرتے ہوئے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا کہ راہول جی کو چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کے رہنما اور سابق وزیرخزانہ پرناب مکھرجی سے ملکی دفاع سے متعلق مالی معاملات پر گفتگو کے آداب سیکھیں۔
بی جے پی کے جارحانہ انداز نے مخالفین کے منہ بند کردیے، لیکن گزشتہ سال فرانس کے سابق صدر اولاندے نے ایک فرانسیسی صحافی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ سودے کے وقت انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کا نام بھارتی حکومت نے پیش کیا تھا اور فرانسیسی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس انکشاف پر کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے اس سودے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پارلیمان میں مودی چور کے نعرے لگے۔ لوک سبھا میں ہنگامے کے دوران وزیرخزانہ ارون جیٹلی غصے میں کہہ اٹھے کہ چائے کی پیالی کا یہ طوفان راہول گاندھی اور صدر اولاندے کی ملی بھگت ہے، جس پر فرانس کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا اور ان کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ان غیر ذمہ دارانہ بیانات سے فرانس اور بھارت کے باہمی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔
وزیراعظم مودی نے ایک بار پھر ملکی دفاع کا کارڈ بہت خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں نے فضائیہ کی ضرورتوں کا ادراک نہیں کیا، اور بھارتی فضائیہ کے زیراستعمال طیاروں کا بیڑا ناقابلِ استعمال حد تک پرانا ہوچکا ہے۔ ایک طرف ہمارا دشمن F-16کے بعد جدید ترین J-17 تھنڈر طیارے اپنے بیڑے میں شامل کرچکا ہے، جبکہ یہاں شفافیت کے نام نہاد ٹھیکیدار ہماری فضائیہ کے لیے نئے طیاروں کی خریداری میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ حب الوطنی کے اس طوفان میں راہول گاندھی کے لیے خاموش رہنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔
اب وزیراعظم نے خود ہی یہ معاملہ اس موقع پر اٹھایا ہے جب بالاکوٹ حملے کے بارے میں کامیابی کے بلند و بانگ دعوے کو الجزیرہ اور رائٹرز کی رپورٹ نے ہوا میں اڑا دیا ہے، اور او آئی سی میں سفارتی ہزیمت کی بنا پر مودی جی دبائو میں ہیں۔ وزیراعظم کے بیان پر اپنے ایک انتہائی تیکھے ٹویٹر پیغام میں راہول گاندھی نے کہا:
’’پیارے وزیراعظم! آپ نے ملک کے تیس ہزار کروڑ روپے چوری کیے اور اپنے دوست انیل کو دے دیے۔ وزیراعظم مودی! آپ ہی کی وجہ سے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی طرح بھارتی فضائیہ کے بہادر پائلٹ پرانے جیٹ طیارے چلا کر اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ مودی جی! رافیل طیاروں کی آمد میں تاخیرکے ذمے دارآپ ہیں۔ اب آپ کو یہ کہتے ہوئے شرم تک نہیں آئی۔‘‘
4 مارچ کو احمد آباد میں بہت بڑے انتخابی جلسے میں جب بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے اپنی کامرانیوں کا ذکر کرتے ہوئے بالاکوٹ میں 250 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تو مجمع نے ثبوت لائو، ثبوت لائو کے نعرے لگائے۔ اسی کے ساتھ ہندوستانی میڈیا نے اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار شروع کردیا ہے۔آج نوجوت سنگھ سدھو کے بیان کو ہندوستانی اخبار نے شہہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا جس میں انھوں نے سوال کیا ہے کہ قوم بالاکوٹ حملے کی تفصیل جاننے کا حق رکھتی ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ اس حملے کا مقصد کیا تھا۔ کیا ہمارے بہادر پائلٹ اپنی جانوں پرکھیل کر چند درخت اکھاڑنے گئے تھے؟ کیا یہ انتخابی ڈراما تھا؟ کیا (انتخابات میں کامیابی کے لیے) غیر ملکی دشمن سے لڑنے کا ڈراما کیا گیا؟ براہ کرم فوج کو سیاست میں الجھانا بند کریں۔
کانگریس کے سینئر رہنما چدم برم نے اپنے بیان میں کہا کہ ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے مجھے بالاکوٹ حملے کے بارے میں اپنی حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی معلومات کی صداقت کا پورا یقین تھا اور اسی بنا پر میں غیر ملکی میڈیا کے سامنے سرکاری اعداد و شمار کا اعتماد سے دفاع کرتا رہا۔ تاہم محض زبانی لن ترانی سے دنیا ہماری بات پر یقین نہیں کرے گی، دنیا کو ثبوت چاہیے، لیکن حکومت حقائق بتانے کے بجائے حزبِ اختلاف کی مذمت اور فوج کی قربانیوں کو گھٹیا سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہے۔
پلوامہ حملے کے بعد حکومت اور نریندر مودی پر اشاروں کنایوں میں تنقید بھی غداری سمجھی جارہی تھی، لیکن اب انتخابی جلسوں میں اب کھل کر بالاکوٹ حملے پر تنقید ہورہی ہے۔ کانگریس یہ تاثر دینے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ بالاکوٹ اور پلوامہ دونوں مودی کا انتخابی ڈراما تھا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حزبِ اختلاف کے اس نئے سیاسی بیانیے کو عوام میں پذیرائی نصیب ہورہی ہے۔ ڈر یہ ہے کہ کہیں نریندر مودی زچ ہوکر کوئی نئی مہم جوئی نہ کربیٹھیں۔ حضرت علیؓ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’کم ظرف سے ڈرو جب وہ صاحبِ اختیارہو۔‘‘

…………………

اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔