اوآئی سی اجلاس میں بھارت کی شرکت دفترخارجہ کی ناکامی

جنگ کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج ہر لمحے کشیدگی بڑھا رہی ہے۔ یہ طرزِعمل عالمی امن اور پاکستان کی تحمل کی پالیسی کا امتحان بھی ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں دفتر خارجہ، حکومت اور پارلیمنٹ کی اپنی زبان تھی۔ سفارتی آداب اور رکھ رکھائو پارلیمنٹ میں ہونے والی گفتگو میں حاوی دکھائی دیا۔ لیکن پارلیمنٹ سے باہر عوام کی اپنی مجلس شوریٰ تھی جہاں صرف ایک ہی سوچ تھی کہ بھارتی غلبہ کسی قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ او آئی سی کانفرنس میں بھارت کی بطور مہمان شرکت دفتر خارجہ نے تحفظات کے ساتھ قبول کی لیکن عوام نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ کیونکہ بھارت نے او آئی سی کی قرارداد کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے او آئی سی کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو مکمل طور پر اندرونی معاملہ قرار دیا اور کہا کہ ہم جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہونے کے اپنے مؤقف کی ہی تجدید کرتے ہیں۔ بھارت کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ کشمیر قطعی طور پر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے جس کے بارے میں او آئی سی کانفرنس میں منظور کی گئی قرارداد ہمیں منظور نہیں۔ حکومت دفتر خارجہ پر انحصار کیے بیٹھی رہی اور ابھی نندن کی رہائی کے لیے پارلیمنٹ سے کوئی رائے نہیں لی گئی۔ پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت ہر اپوزیشن جماعت ہاتھ میں سفید جھنڈی لیے ایوان میں داخل ہوئی۔ سب کا ایک ہی متفقہ جملہ تھا کہ ہم جنگ نہیں امن چاہتے ہیں، اقوام عالم بھارت کو جارحیت سے باز رکھیں۔ سوال یہ ہے کہ جو بھارت کے سرپرست ہیں وہ اُسے کیسے جارحیت سے باز رکھ سکتے ہیں؟ دفتر خارجہ کو اس بات کا بغورجائزہ لینا چاہیے کہ بھارت میں تو جرأت ہی نہیں، یہ سرپرست ہی ہیں جن کی وجہ سے بھارت اترا رہا ہے۔ اب تو امریکہ نے او آئی سی میں اسے نمائندگی دلانے کی کوشش بھی شروع کردی ہے۔ پاکستان او آئی سی کا تاسیسی رکن ملک ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ او آئی سی میں تاسیسی رکن کے تحفظات بھی خاطر میں نہیں لائے گئے اور بھارت کو مہمان کی حثیت سے مدعو کیا گیا، اُس کی وزیر خارجہ کا پُرتپاک استقبال بھی ہوا، کانفرنس سے خطاب کا موقع بھی دیا گیا۔ یوں اسلام آباد کو کند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش کی گئی، اور ہمارا دفتر خارجہ سفارتی رکھ رکھائو کی اکاس بیل میں جکڑا رہا، اور پاکستان کی شرکت کے بغیر او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا،جس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان کے خلاف اپنے خبثِ باطن کا اظہار بھی کیا۔ دفتر خارجہ نے اگرچہ تحفظات ظاہر کیے لیکن اپنا مقدمہ کامیابی کے ساتھ پیش کرنے میں ناکام رہا۔ بھارت کے ساتھ کشمیر اور پانی سمیت بہت سے ایشوز پر اختلافات ہیں، یہ معمولی تنازعات نہیں کہ جنہیں نظرانداز کردیا جائے۔ یہ نصف صدی میں پہلا موقع ہے کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ کے بغیر ایک وفد کی نمائندگی ہوئی، اور او آئی سی نے اپنے ایک تاسیسی رُکن کے وزیر خارجہ کی اجلاس میں کوئی کمی محسوس نہیں کی۔ کانفرنس میں نمائندگی کے لیے عین آخری وقت میں وزارتِ خارجہ کا وفد بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ او آئی سی نے پاکستان کے تعمیری کردار کا اعتراف کرتے ہوئے اسے آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن کا رکن منتخب کرلیا۔ اصولی طور پر جس ملک کی جارحیت کے خلاف اجلاس طلب کیا گیا ہو، اسی کو اجلاس میں مہمانِ خاص کے طور پر بلانا سفارتی آداب سے مناسبت نہیں رکھتا۔ پاکستان کی طرف سے بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود دوستوں کی طرف سے سشما سوراج کو اجلاس میں شرکت کی دعوت کو برقرار رکھا گیا، لیکن سشما سوراج کی اجلاس میں موجودگی کے باوجود قراردادوں اور مشترکہ اعلامیے میں جو کچھ کہا گیا اُس سے موصوفہ کی اجلاس میں موجودگی بے معنی ثابت ہوئی۔ اس حقیقت کے علی الرغم کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت مسلمان کشمیریوں پر جو ظلم ڈھا رہا ہے او آئی سی کے رکن ممالک اس سے بے خبر نہیں ہیں۔ اب بھارت کو او آئی سی کا باقاعدہ رکن بنا لیا جائے گا اور اِس سلسلے میں ہماری کوئی ڈپلومیسی کامیاب نہیں ہوگی۔ یہ خدشہ اِس لیے ہے کہ بھارت جس منطق کی بنا پر فی الحال بطور مہمان کانفرنس میں شریک ہوا ہے اسی منطق کو آگے بڑھاکر وہ آئندہ بھی اپنی کوششیں اُس وقت تک جاری رکھ سکتا ہے جب تک اسے رکن نہیں بنا لیا جاتا۔ اب اونٹ پوری طرح خیمے میں گھسنے کی کوشش کرے گا۔
یہاں دو آراء سامنے آئیں، پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ میں مؤقف اپنایا کہ پاکستان کو کانفرنس میں وزیر خارجہ کی قیادت میں شرکت کرنی چاہیے اور اپنا مؤقف پیش کرنا چاہیے، پارلیمنٹ میں کسی دوسری پارلیمانی جماعت نے اس کے مؤقف کی حمایت نہیں کی، بلکہ وزیر خارجہ کے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کی حمایت کی۔ او آئی سی کے قیام کے وقت بھی ایسی ہی صورت حال پیش آئی تھی، تاسیسی اجلاس میں پاکستان بھی شریک تھا، اُس وقت بھی بھارت نے اجلاس میں شرکت کی کوشش کی تھی اور یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ بھارت میں پاکستان سے زیادہ مسلمان بستے ہیں اِس لیے اسے بھی اس تنظیم کا رکن بنایا جائے، لیکن جنرل یحییٰ خان نے جو اُس وقت پاکستان کے صدر تھے، یہ دوٹوک مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر بھارتی مندوب کو اجلاس میں شرکت کا موقع دیا گیا تو وہ اس کا بائیکاٹ کردیں گے۔ جنرل یحییٰ خان کا یہ مؤقف تسلیم کیا گیا اور بھارت کی چال کامیاب نہ ہوسکی۔ لیکن پچاس برس کے عرصے میں اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ پاکستان کے احتجاج کی پروا نہ کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ کو اجلاس میں بطور مہمانِ اعزازی شرکت کی اجازت دی گئی، اور اس حیثیت میں بھارتی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالا۔ یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں تو اور کیاہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنا ہو گا۔