سارک کو فعال کرنے کی ضرورت

پاک بھارت تعلقات کیسے بہتر ہوںگے؟۔

کیاپاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات پیدا کرسکیں گے؟ کیونکہ معاملات اس حد تک پیچیدہ ہوگئے ہیں کہ لگتا ہے اعتماد کے اس بحران میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوسکے گا۔ خاص طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت بہتر تعلقات میں خود بڑی رکاوٹ ہے، اور تعلقات کی بہتری کا جو بھی موقع پیدا ہوتا ہے بھارت اسے ناکام بنانا ہی اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ حالانکہ جنوبی ایشیا اور اس خطے کی سیاست، معیشت اور سماج کی مجموعی ترقی دو طرفہ بہتر تعلقات، سازگار ماحول اور تعاون کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں طرف کی ریاستیں، حکومتیں، سیاسی جماعتیں، اہلِ دانش، رائے عامہ تشکیل دینے والے ادارے اور عوام باہمی اختلافات، تعصبات، نفرتوں اور تلخیوں سمیت ماضی کو بھلا کر مستقبل کی طرف کھلے دل کے ساتھ پیش قدمی کریں۔ کیونکہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں، اور باہمی اختلافات کا بنیادی حل مکالمہ یا بات چیت میں مضمر ہے۔
حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان جو تلخی بڑھی ہے اس نے ایک بار پھر خطے سمیت دونوں ملکوں میں پہلے سے موجود بداعتمادی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
نریندر مودی کی حکومت میں بھارت نے دیکھ لیا کہ مسلم دشمنی یا پاکستان دشمنی کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست یا طرزِعمل سے صرف پاکستان کا ہی نقصان نہیں ہوگا بلکہ خود بھارت کا داخلی بحران بھی بڑھ جائے گا۔
یہ بات دونوں ملکوں کو سمجھنی ہوگی کہ اختلافات کی حیثیت وزنی ہے یا غیر وزنی، دونوں صورتوں میں ان اختلافات کو کم کرنے کی بڑی کنجی مذاکرات کی میز ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت بھارت کا داخلی نظام انتخابی سیاست کے بہت قریب ہے۔ بھارت کی انتخابی تاریخ میں پاکستان دشمنی کا ایجنڈا ہمیشہ سے بالادست رہا ہے۔ ایسی صورت میں فوری طور پر بھارت کی قیادت کی جانب سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا مشکل لگتا ہے۔ دونوں ملکوں میں وہ لوگ جو ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے، ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دے کر عملاً مذاکرات کے دروازے بند کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی روش سے باہر نکلیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان مکمل درست ہے اور بھارت غلط… یا بھارت درست اور پاکستان غلط ہے۔ دونوں طرف سے ماضی میں بھی غلطیاں ہوئی ہیں اور اب بھی بہت سے مسائل ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ ہم ماضی میں رہنے کے بجائے مستقبل کا نقشہ کھینچیں۔ وزیراعظم عمران خان نے درست کہا ہے کہ دونوں ممالک کا مفاد خطے میں امن کی سیاست سے جڑا ہے، اور یہ کام دونوں ممالک میں بہتر تعلقات پیدا کیے بغیر ممکن نہیں، اور اس میں بھار ت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
بھارت اور پاکستان کو ختم کرنے، تعلیم، صحت، پانی، روزگار، پس ماندگی جیسے سنگین مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ جنگوں پر بھاری سرمایہ کاری کرنے کے بجائے انسانوں پر بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم دو طرفہ تنازعات کا حل تلاش کریں۔ ریاستی سطح پر جو بداعتمادی ہے اُس کا ایک حل سیاسی، سماجی اور دیگر باہمی فورمز کی تشکیل، ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کے لیے باہمی رابطوں کو بڑھانا اور اس میں آسانیاں پیدا کرنے سے جڑا ہوا ہے، اور یہ کام ریاستی و حکومتی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ بھارت کو پاکستان کی جانب سے تواتر کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ اگر بھارت نے یہ موقع کھودیا تو اس سے خود پاکستان میں بھی یہ نکتہ مضبوط ہوگا کہ بھارت کسی بھی سطح پر بہتر تعلقات کا حامی نہیں اور اس کا ایجنڈا پاکستان دشمنی ہے، جو بھارت کے مفاد میں نہیں ہوگا۔اس لیے اگر بھارت بہتر تعلقات پیدا کرنے کی کوشش میں آگے بڑھتا ہے تو اس سے خطے کی سیاست میں بڑی تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ بالخصوص بھارت سارک کو فعال کرنے میں کلیدی کردار ادا کرکے ایک بہتر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرے۔ کیونکہ جنوبی ایشیا اور سارک ممالک کا تواتر کے ساتھ اکٹھے بیٹھنے اور باہمی تنازعات، اختلافات اور مسائل کے حل کی تلاش ہی بنیادی ایجنڈا ہونا چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے بھارت نے ایسے تمام موقعوں کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے جو اعتماد سازی کو ممکن بناسکتے ہیں۔ انتہا پسندی، دہشت گردی، کشمیر اور پانی جیسے مسائل پر اگر ہم مل کر آگے بڑھیں تو یہ مسائل بھی حل ہوں گے اور تعلقات میں بہتری کا عمل بھی دیکھا جاسکے گا۔ لیکن اس کے لیے بھارت جو ایک بڑا ملک بھی ہے، کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے کہ وہ اور پاکستان روایتی انداز میں مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے غیر معمولی سطح پر غیر معمولی اقدامات کی مدد سے آگے بڑھ کرترقی وخوشحالی کی جنگ جیتیں۔یہ جنگ کسی تعصب، دشمنی اورنفرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل سے جڑی ہونی چاہیے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت بھارت کا داخلی ماحول ایسے امکانات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم جنگی جنون سے باہر نکل کر امن کا راستہ اختیار کریں؟ اس کا جواب نفی میںہے۔ خود مودی کی جماعت کے بہت سے لوگوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی مودی حکومت کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھی۔ کیونکہ انتخابات کے تناظر میں پاکستان سے کشیدگی مودی حکومت کے مفاد میں ہے۔ اسی طرح بھارت کے میڈیا کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ اس نے جو جنگی ماحول بنایا ہوا ہے وہ مودی حکومت کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ اچھا نہیں ہے لیکن اس کے باوجود امن پسندوں کوکسی بھی قسم کی مایوسی کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ جیسے ہی بھارت کے انتخابات کا مرحلہ ختم ہوگا، اس کے بعد تعلقات کی بہتری کا نیا ماحول بن سکتا ہے۔ اس لحاظ سے بھارت کے انتخابات کے نتائج اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آنے والے دنوں میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری پیدا ہوگی یا حالات مزید کشیدہ ہوں گے۔