بیس افراد کی اموات، متعدد زخمی، دس ہزار گھروں کا نقصان
بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور شدید برف باری نے تباہی مچادی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق بیس کے قریب افراد کی اموات اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ بقول سرکار، مجموعی طور پر تقریباً دس ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ مال مویشیوں کا بھی نقصان ہوا ہے۔ بلوچستان کے اندر جمعرات یکم مارچ کو ہمسایہ ممالک سے بادلوں کے مضبوط سسٹم داخل ہوئے جس کے سبب بارش اور برف باری کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جمعہ اور ہفتہ کو پوری شب صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت قلات، ہرنائی، زیارت، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ اور دوسرے ملحقہ علاقوں میں بارش اور برف باری ہوتی رہی۔ یہ سلسلہ شدید تھا جس کی وجہ سے صوبے کا شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جو متاثر نہ ہوا ہو۔ مختلف علاقوں میں شدید قسم کا سیلاب آیا اور رہائشی علاقوں، سرکاری عمارتوں، زرعی زمینوں، شاہراہوں، پلوں، ریلوے پٹریوں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچا۔ سب سے زیادہ نقصانات تربت، لسبیلہ اور قلعہ عبداللہ میں ہوئے۔ اسی طرح زیارت، زرغون غر، کان مہترزئی، مسلم باغ، کنچوغی، توبہ کاکڑی، توبہ اچکزئی اور دوسرے علاقے برف باری سے متاثر ہیں۔ سڑکوں پر کئی فٹ تک برف جمنے کی وجہ سے ان علاقوں کا پانچ دنوں سے رابطہ منقطع ہے۔ دیہات میں ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔کان مہترزئی کے مقام پر پنجاب سے آنے اور جانے والی ڈیڑھ سو سے زائد مسافر بسیں پندرہ گھنٹے تک پھنسی رہیں۔ مستونگ، پشین، دکی، بولان، خضدار، چاغی اور نوشکی کے علاقوں میں سیلابی ریلے کی شدت زیادہ تھی۔ کوئٹہ کراچی شاہراہ، کوئٹہ پنجاب شاہراہ براستہ قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ ہرنائی پنجاب شاہراہ، کوئٹہ سبی سندھ شاہراہ، کوئٹہ زیارت شاہراہوں پر آمدورفت رک گئی، گویا شدید برف باری کے باعث یہ شاہراہیں بند ہوگئیں۔ اس دوران بجلی کی ترسیل بھی بند ہوگئی۔ کوئٹہ کے اندر مختلف علاقوں میں تقریباً چالیس گھنٹوں تک بجلی غائب رہی۔ کیسکو ترجمان کے مطابق بارش اور برف باری کے باعث 369 کھمبے گر گئے ہیں۔ کوئٹہ میں موسلادھار بارش اور برف باری کے بعد شاہراہیں ندی نالوں کا منظر پیش کررہی تھیں۔ بہرکیف وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور ان کی ٹیم اس دوران چوکنا رہی۔ وزیرداخلہ ضیاء لانگو تمام اضلاع سے رابطے میں تھے۔ ہنگامی صورت حال سے آگاہی و نمٹنے کے لیے ہنگامی کنٹرول روم قائم کیے گئے۔ پی ڈی ایم اے کا محکمہ الرٹ تھا جس نے اپنی استطاعت اور دستیاب وسائل کے تحت ریسکیو کا آغاز کردیا تھا۔ فوج، ایف سی اور لیویزکے جوان ہمہ تن امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے جو سول انتظامیہ کے ساتھ شاہراہوں کی بحالی، شدید سردی میں سیلاب اور برف باری میں پھنسے عوام کو محفوظ مقامات اور اسپتالوں تک پہنچانے میں لگے ہوئے تھے۔ انہیں فوری طبی امداد دینے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ سیلابی ریلوں کی وجہ سے قلعہ عبداللہ اور کیچ میں پل بہہ گئے۔ پنجگور میں این 85 سی پیک شاہراہ کا ایک حصہ بہہ گیا۔ پاک ایران ریلوے سیکشن لائن کو بھی نوشکی اور چاغی کے قریب نقصان پہنچا اور کئی سو فٹ حصے کا نچلا حصہ پانی میں بہہ گیا۔ ایران اور پاکستان کے درمیان کارگو ٹرین سروس معطل ہوگئی۔ گلستان کے قریب بھی ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچا۔ متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ ضروری ہے کہ متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام تندہی اور شفافیت کے ساتھ جاری رکھا جائے۔
بارشوں نے افغانستان کے اندر بھی کئی علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، لوگ مرے ہیں، زخمی ہوئے ہیں۔ یہاں بلوچستان میں ضروری ہے کہ پروانشل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو ہر ضلع تک پورے وسائل و اسباب سمیت وسعت دی جائے۔ ان کی خامیوں کو دور کیا جائے، اور پھر ہر علاقہ و مقام کے موسمی حالات کے مطابق وسائل و اوزار فراہم کیے جائیں۔ برف باری جن علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے وہاں کے لیے ہنگامی حالات میں شاہراہوں پر سے برف ہٹانے والی مشینری ہونی چاہیے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ جب برف باری کے باعث شاہراہیں بند ہوتی ہیں تو گھنٹوں ان کی بحالی ممکن نہیں ہوتی۔ اگر مطلوبہ سہولت موجود ہو تو ایسی کسی مشکل صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ خود وزیراعلیٰ جام کمال نے کہا کہ زیارت اور دوسرے علاقوں کو شاہراہوں سے برف ہٹانے والی مشینری مہیا کی جائے گی۔
بہرحال ان بارشوں اور برف باری سے صوبے کے اندر خشک سالی کا سایہ ہٹ گیا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس بڑے پیمانے پر ہونے والی بارشوں سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکے، وہ اس لیے کہ ہر بار کی طرح اِس بار بھی یہ پانی ضائع ہوگیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بلوچستان میں برسنے والا پانی اس مقدار میں بہہ کر ضائع ہوچکا ہے کہ جو منگلا اور تربیلا ڈیم کے ذخیرے کی گنجائش سے زیادہ تھا۔ یاد رہے کہ صوبے میں دس ملین ایکڑ فٹ پانی بارشوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ بارشوں کا سالانہ75فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ وفاقی حکومت کو 2008ء سے صوبے کے اندر 100 ڈیم تعمیر کرنے تھے، جس کے تحت اب تک 60ڈیم تعمیر ہوسکے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر ڈیم تعمیر ہوتے اور پہاڑوں پر جگہ جگہ بند بندھے ہوتے تو یقیناً پانی ضائع ہونے کے بجائے زراعت کو فائدہ پہنچتا اور زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوتی۔ کوئٹہ میں صرف چوبیس گھنٹوں کے دوران ڈیڑھ سو ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی۔ مجموعی طور پر جنوری کے آخری ہفتے سے لے کر مارچ کے ابتدائی ہفتے تک کوئٹہ میں تقریباً ڈھائی سو ملی میٹر بارش ہوئی ہے۔ اتنی بارش کوئٹہ میں سالانہ ہوتی ہے۔ کوئٹہ کے اندر ایسے کئی علاقے ہیں جہاں پہاڑی درّے قبضہ ہوکر رہائشی علاقوں میں تبدیل ہوگئے، حالانکہ ان درّوں اور آبی راستوں پر پہلے چھوٹے ڈیم بنے ہوئے تھے۔ مختلف مقامات پر بند باندھے گئے تھے۔ گویا اب یہ سارا پانی پکی نالیوں اور شاہراہوں سے گزر کر ضائع ہوجاتا ہے، اس جانب توجہ کی ضرورت ہے۔ سیلاب اور بارشوں کا پانی ذخیرہ کرنے کی خاطر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اور اُن تمام مقامات سے… جہاں پہاڑوں سے آنے والا پانی یا سیلاب کے لیے پہلے سے بند باندھے گئے… آبادیوں کو بے دخل کیا جائے، یعنی قبضہ چھڑایا جائے۔ بارشوں کے بعد گوادر کے تقریباً تمام بڑے ڈیم بھر گئے ہیں اور وہاں پانی کی قلت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔کیچ، خضدار، نوشکی، لسبیلہ، قلعہ عبداللہ، قلات اور پشین کے ڈیموں میں پانی کی بڑی مقدار جمع ہوچکی ہے۔