قبائلی اضلاع میں عدالتوں کا قیام

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختون خوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں 28 جوڈیشل افسران کی تعیناتی کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ ان احکامات کے تحت ہر ضلع میں ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، دو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور ایک سینئر سول جج کو تعینات کیا گیا ہے۔ قبائلی اضلاع کے لیے عدالتیں عارضی طور پر قائم کی گئی ہیں، جن کے دفاتر ہر قبائلی ضلع سے متصل بندوبستی اضلاع میں قائم کیے جائیں گے۔ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی ہدایت پر رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ خواجہ وجیہ الدین کی جانب سے جاری شدہ اعلامیے کے مطابق شاہد خان ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خیبر، نصر اللہ خان گنڈاپور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج باجوڑ، صلاح الدین ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کرم، کلیم ارشد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی وزیرستان، اصغرشاہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اورکزئی، اسد حمید خان ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مہمند، اور ممریزخان خلیل کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شمالی وزیرستان تعینات کردیا گیا ہے۔ اسی طرح ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شوکت احمد خان کو جنوبی وزیرستان، احتشام الحق دانشمندکو کرم، رشیداللہ کنڈی کو شمالی وزیرستان، جمال شاہ محسود کو اورکزئی، شوکت علی کو اورکزئی، ولی محمد خان کو مہمند، میاں زاہد اللہ جان کو باجوڑ، سلطان حسین کو کرم، قاضی عطا اللہ کو باجوڑ، محب جان کو مہمند، آصف رشید کو خیبر، فدا محمد کو جنوبی وزیرستان، محمد جمیل کو شمالی وزیرستان اورجمال شاہ محسود کو اورکزئی میں ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرکٹ سیشن جج تعینات کردیا گیا ہے۔ جبکہ سینئر سول ججوں میں ظفر اللہ خان کو خیبر، اسد اللہ کو جنوبی وزیرستان، عبیداللہ کو مہمند، محمد ایاز کو ضلع اورکزئی، عبدالحسن مہمند کو شمالی وزیرستان، عیسیٰ خان کو سینئر سول جج کرم، اور افتخار احمد کو سینئر سول جج باجوڑ تعینات کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق یہ تعیناتیاں پانچ سے چھے ماہ کے لیے کی گئی ہیں۔ رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ کے مطابق یہ افسران متعلقہ اضلاع میں بیٹھنے کے بجائے اس کے ساتھ منسلک جوڈیشل کمپلیکس میں بیٹھیں گے۔ ضلع خیبر کی عدلیہ جوڈیشل کمپلیکس حیات آباد، باجوڑ کی تیمرگرہ، اور دیر لوئر،کرم کی ٹل اور ہنگو، جنوبی وزیرستان کی ٹانک، اورکزئی کی ہنگو، مہمند کی شبقدر، جبکہ شمالی وزیرستان کی عدالتی انتظامیہ بنوں میں اپنی خدمات سرانجام دیں گی، اور جیسے ہی ان علاقوں میں عدالتی دفاتر بحال ہوجائیں گے، عدلیہ کو وہاں منتقل کردیا جائے گا۔ اعلامیے کے مطابق خیبر پختون خوا جوڈیشل اکیڈمی اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر ٹریننگ اور دیگر انتظامات کررہی ہے تاکہ ان علاقوں میں تعینات افسران کو وہاں کے ماحول کے مطابق مسائل درپیش نہ ہوں اور وہاں پر بہترین طور پر اپنے خدمات سرانجام دے سکیں۔ عدلیہ کے دفاتر کے لیے مقامی لوگوں کو بطور اسٹاف بھرتی کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ قبائلی اضلاع تک عدالتی نظام کی توسیع کے بعد تعینات جوڈیشل افسران 11مارچ سے مقدمات کی سماعت شروع کردیں گے۔ جبکہ ہوم ڈپارٹمنٹ نے قبائلی اضلاع کے لیے 18کے قریب سرکاری وکلا کو بھی تعینات کردیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق سابقہ فاٹا تک عدالتی نظام کی توسیع سے نہ صرف وہاں کے عوام کو سستا انصاف ملے گا بلکہ اس سے ان کی محرومیوں کے ازالے میں بھی مدد مل سکے گی۔ قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے سینئر ایڈووکیٹ اعجاز مہمند کا کہنا ہے کہ عدالتی نظام کی قبائلی اضلاع تک توسیع کا اقدام تو خوش آئند ہے مگر اس ضمن میں بعض قانونی پیچیدگیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ دوسری جانب دیگر وکلا نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکڑوں کی تعداد میں قبائلی اضلاع کے بے گناہ نوجوان اور ضعیف العمر لوگ ایف سی آر قانون کے تحت اب بھی قیدی کی زندگی گزار رہے ہیں جن کو سزا سناتے ہوئے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، لہٰذا ان لوگوں کو اپنی صفائی کا پورا پورا موقع ملنا ضروری ہے۔ دوسری جانب بعض قانونی ماہرین کے مطابق ایف سی آر کے تحت بے گناہ قید کیے گئے لوگوں کو عدالتی نظام کی توسیع کی وجہ سے رہائی ملنے کی توقع ہے، لیکن اس ضمن میں چونکہ بطور عبوری انتظام کوئی میکنزم واضح نہیں کیا گیا ہے، اس لیے ایف سی آر کے تحت گرفتار لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے مقدمات اور مستقبل کے حوالے سے گومگو کا شکار ہے۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس محمد ایوب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے دہشت گردی کے الزام میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد 35 سال قید کی سزا پانے والے قبائلی باشندے کا مقدمہ واپس نئے ضم ہونے والے متعلقہ ضلع کی عدالت میں بھجوا دیا ہے۔ دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو دورانِ سماعت درخواست گزار عبدالرزاق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس کے موکل پر الزام ہے کہ اس نے کریکر مرکز میں دہشت گردی سے متعلق تربیت حاصل کی اور وہ بعد ازاں خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں دہشت گردوں کی معاونت کے لیے جارہا تھا کہ اسی دوران وہاں پر اپنے بم کا نشانہ بنا جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا اور سیکورٹی فورسز نے اس کو گرفتار کرلیا۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ وہ 2010ء سے حراست میں ہے اور اب اسے اسسٹنٹ کمشنر لوئر مہمند نے دہشت گردی اور ریاست کے خلاف سرگرمیوں پر 35 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس کے موکل پر یہ بھی الزام ہے کہ زخمی ہونے کے بعد کمانڈر عبدالولی نے ڈھائی لاکھ روپے اس کے علاج معالجے کے لیے فراہم کیے مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں، اور نہ ہی جے آئی ٹی میں اس حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ صرف مفروضوں پر سزا دینا غیر قانونی ہے۔ تاہم عدالت نے قرار دیا کہ چونکہ اب وہاں پر متعلقہ سیشن کورٹس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور ججوں کی تقرری بھی ہوگئی ہے، لہٰذا یہ کیس وہاں پر لڑا جائے۔ جس پر کیس نمٹا دیا گیا۔ اسی طرح قبائلی شہری سے متعلق ایک دوسرے مقدمے میں پشاور ہائی کورٹ کی جسٹس مسرت ہلالی نے پولیٹکل انتظامیہ کی جانب سے چار موبائل رکھنے پر شہری کو7سال قید کی سزا دینے پر مقدمے کا ریکارڈ مانگ کرکہا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چار موبائل رکھنے پر کسی کو قید کردیا جائے! قبائلی اضلاع کے عوام کے ساتھ پہلے ہی بہت زیادتیاں ہوچکی ہیں، اب مزید کسی کے ساتھ ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فاضل بینچ نے بنوں جیل میں قید قبائلی ضلع کرم کے رہائشی عبدالرحمان کی سزا کے خلاف دائر رٹ کی سماعت کی تو اس موقع پر اُس کے وکیل فاروق ملک نے عدالت کو بتایا کہ عبدالرحمان 2017ء میں لاپتا ہوگیا تھا، بعد میں اہلِ خانہ کو پتا چلا کہ وہ بنوں جیل میں ہے، عبدالرحمان کو اے پی اے نے صفائی کا موقع دیئے بغیر 7 سال قید کی سزا سنائی ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اے پی اے کس قانون کے تحت لوگوں کو سزا دے رہا تھا! اس کیس کا ریکارڈ منگوائیں کہ کس قانون کے تحت اے پی اے نے سزا دی۔ اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے ریکارڈ طلب کرنے کے لیے ایک ہفتہ کی مہلت طلب کی، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ دو روز کے اندر ریکارڈ موجود ہونا چاہیے۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ موبائل رکھنا کوئی گناہ نہیں، چار موبائل رکھنے پر کسی کو جیل بھیجنا کہاں کا انصاف ہے! متعلقہ اے پی اے کو اس سزا کی وضاحت کرنا ہوگی، یہ اندھا بہرا قانون اب مزید نہیں چلے گا۔
قبائل کے ساتھ ناانصافی اور انہیں ظلم وزیادتی کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کیے جانے کا اندازہ پشاور کے تھانہ گلبرگ میں ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی نوجوان ثمین جان کے اغوا کے مقدمے کا دس سال بعد درج کیا جانا ہے۔ تھانہ گلبرگ میں رپورٹ درج کرواتے ہوئے عارف ولد کابل خان سکنہ ضلع خیبر نے بتایا کہ میرا بھائی ثمین جان 24 فروری 2009ء کو کسی کام کی غرض سے پی اے خیبر کے دفتر آیا تھا، تاہم اس کے بعد وہ لاپتا ہوگیا جس کے بارے میں تاحال کوئی معلومات نہ مل سکیں۔ گلبرگ پولیس نے قبائلی نوجوان کے لاپتا ہونے کی دس سال بعد رپورٹ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔ اس بدقسمت خاندان نے اپنے پیارے کا کھوج لگانے کے لیے پچھلے دس برسوں کے دوران ہر دروازہ کھٹکٹھایا لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی، البتہ اب جب اعلیٰ عدالتوں کو قبائلی علاقوں تک توسیع مل چکی ہے تو نہ صرف اس طرح کے گمنام اور اندھے واقعات سامنے آرہے ہیں بلکہ عدلیہ کی قبائلی اضلاع تک توسیع سے قبائل کو کچھ نہ کچھ انصاف ملنے کی امید بھی پیدا ہوگئی ہے جس کا واضح ثبوت متذکرہ کیس ہے۔
ایف سی آر کے سیاہ قانون کے تحت قبائل کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظالمانہ سلوک کی ایک اور مثال باجوڑ کے چھٹی جماعت کے طالب علم نصیر اللہ کی پولیٹکل انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری اور اب اس معصوم کی پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس روح الامین اور جسٹس قلندر علی خان پر مشتمل دو رکنی بینچ کے احکامات پر اس طالب علم سمیت 14 افراد کی ضمانت پر رہائی ہے۔ یاد رہے کہ ان تمام افراد کو سیکورٹی فورسز نے مختلف مواقع پر حراست میں لیا تھا جنہیں کئی برسوں تک محبوس رکھنے کے بعد پولیٹکل انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا تھا۔ فاضل بینچ نے زاہد اللہ سمیت 14افراد کی جانب سے ولی خان آفریدی ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر رٹ کی سماعت کی۔ اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ درخواست گزاروں کا تعلق باجوڑ سے ہے جنہیں2010ء کے بعد مختلف موقعوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حراست میں لیا، ان میں نصیراللہ چھٹی جماعت کا طالب علم ہے جسے2015ء میں حراست میں لیا گیا تھا اور بعد ازاں ان افراد کو پولیٹکل انتظامیہ کے حوالے کیا گیا اور ان کے لیے مختلف سزائیں تجویزکی گئیں جن میں نصیراللہ کو تین سال کی سزا تجویز کی گئی، جبکہ رحیم اللہ کو 28 سال اور زاہد اللہ کو20سال سزا تجویزکی گئی ہے۔ تاہم قبائلی ایجنسی کے صوبے میں انضمام کے بعد اب اسسٹنٹ کمشنر انہیں سزا دینے سے بھی انکاری ہیں، جن کا مؤقف ہے کہ ان کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہیں۔ جسٹس قلندر علی خان نے اس موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ جو بھی ہو، قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ کسی کو غیر قانونی حراست میں رکھنے کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ سزائوں کے لیے سفارشات مرتب ہوئی ہیں تاہم انہیں اب تک سزا نہیں دی گئی۔ فاضل بینچ نے دلائل مکمل ہونے پر تمام افراد کوضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ ان چند واقعات سے یہ اندازہ لگانا یقیناً مشکل نہیں ہے کہ قبائل اب تک کس ظلم اور جبر کا شکار تھے اور ان کے ساتھ ایف سی آر کی آڑ میں کیا سلوک ہورہا تھا۔ قبائلی اضلاع کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے بعد قبائل میں کم از کم یہ امید تو پیدا ہوگئی ہے کہ کوئی بھی سرکاری اہلکار یا عہدیدار اب انہیں نہ تو کوئی وجہ بتائے بغیر غیر معینہ مدت تک پابندِ سلاسل رکھ سکتا ہے، اور نہ ہی اس اندھے اور بہرے قانون کے تحت ذہنی اور جسمانی ٹارچر دے کر انہیں بلیک میل کرسکتا ہے۔ شاید یہی وہ سامراجی سوچ ہے جس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک مخصوص ٹولہ جہاں قبائلی اضلاع کے انضمام کے خلاف پروپیگنڈا کررہا ہے، وہیں کچھ خفیہ ہاتھ عدلیہ اور پولیس کی قبائلی اضلاع تک توسیع کی راہ میں روڑے اٹکانے کی مذموم سازشیں اور کوششیں بھی کررہے ہیں، جن کا راستہ ہر سطح پر روکا جانا ازبس ضروری ہے۔