مضافاتی بستی کے ایک کلرک گلزار احمد میمن کی سوانح حیات’’جہد ِقلندری‘‘

’’جُہدِ قلندری‘‘حکومتِ سندھ کے ایوانوں میں بحیثیت کلرک بھرتی ہونے والے کورنگی کی گلیوں میں پلے بڑھے ایک غریب خاندان کے فرد گلزار احمد میمن کی سوانح حیات ہے، جو نامساعد حالات میں سچے عزم وہمت کے ساتھ جدوجہد کی کہانی ہے۔ گلزار احمد میمن کو حق گوئی اور خدمتِ خلق کرنے کا یہ جذبہ اپنے والدِ محترم عبدالرحمن مرحوم سے ملا۔ بقول مصنف ’’میرے والد قیام پاکستان سے قبل ہی جماعت اسلامی ہند کے سرگرم رکن تھے اور مرتے دم تک جماعت سے وابستہ رہے، مجھ میں اور میرے بھائی محمد رمضان میں سیاسی اور سماجی بہبود کا جذبہ والد صاحب کی طرف سے ملا۔ لوگ بتاتے ہیں کہ میرے والد ایک اچھے مقرر بھی تھے۔‘‘سادہ اور عوامی زبان میں تحریر اپنی سوانح حیات میں مصنف نے اپنے تلخ و شیریں حالات نہایت سچائی سے بیان کیے ہیں، جو بڑی بات ہے۔ یہ ہمیں اپنے عہد کی سچی تصویر دکھاتی ہے۔ آرٹس کونسل کراچی میں تقریبِ پذیرائی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے طاہر سلطانی نے کہا کہ یہ مردِ مجاہد ہیں، ان کی سچی سوانح حیات میں ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور اس سے مستقبل سنوارا جاسکتا ہے۔ رکن سندھ اسمبلی شازیہ صاحبہ نے کہا کہ کراچی کے اسکولوں میں اجرک اسکارف اور اجرک کو بطور دوپٹہ یونیفارم کا حصہ بنانے میں وہ ان کی آواز اسمبلی تک پہنچائیں گی۔ پروفیسر علی نواز شر نے کہا کہ ان کی سوانح حیات اپنے عہد کی سچی کہانی ہے، انہوں نے بڑی سچائی کے ساتھ اپنے بارے میں سب کچھ کھل کر بیان کیا ہے جو بڑی بات ہے۔ عابد حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان کی سوانح حیات کا نام بڑا منفرد ہے اور اس کے پہلے چار باب بہت اہم ہیں۔یہ فقیر منش آدمی ہیں، انہوں نے سندھ کی بیوروکریسی سے ٹکر لی اور نامساعد حالات میں جدوجہد کی، اور اس کامیاب جدوجہد کو انہوں نے ’’جُہدِ قلندری‘‘ میں بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر ہما میر نے کہا کہ اپنی سوانح لکھنا بڑا مشکل کام ہے جو انہوں نے خدا کے بھروسے اور ہمت سے شروع کیا اور بڑی سادگی کے ساتھ بیان کیا۔ جاوید سالک نے کہا کہ انہوں نے سندھ کے لوگوں کو جوڑنے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ ادیب، دانشور ہی دلوں کو جوڑ سکتے ہیں۔ گلزار میمن نے کہا کہ میری ماں کی دعائیں آج بھی میرے ساتھ ہیں۔ میں سندھ کے دیہی اور شہری باشندوں کو جوڑنے کے مشن پر نکلا ہوں اور آخری سانس تک یہ کام کرتا رہوں گا۔ کتاب کا نام مہران پبلشر کے نور محمد میمن نے تجویز کیا۔ میری بنائی ہوئی تنظیم سہنوا سندھ سیکریٹریٹ کے ملازمین کی اہم تنظیم بن چکی ہے۔ میری جدوجہد ہے کہ سندھ کے اسکولوں میں طالبات کے لیے اجرک کو بطور دوپٹہ یونیفارم کا حصہ بنایا جائے۔ انہوں نے اپنی شریکِ حیات محترمہ زیب النساء کا بھی بہت شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے اس جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ تقریب میں سندھ سیکریٹریٹ کے اعلیٰ افسران سمیت بڑی تعداد میں اربابِ دانش نے شرکت کی۔ اس موقع پر تمام مہمانوں کو کتاب کے ساتھ اجرک کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔ تقریب کی نظامت معروف شاعرہ رومانہ رومی نے خوبصورت انداز میں کی اور اپنی ایک غزل کے چند اشعار بھی مصنف کی نذر کیے۔