آج اسکول کے زمانے کی کچھ یادیں قلم بند کرنا چاہتا ہوں۔ یہ دور بھی ایک خوبصورت خواب کی مانند ہے۔ اب تو گزرے ہوئے لمحات خواب ہی لگتے ہیں اور خواب لوٹ کے کبھی نہیں آتے، اور نہ گزرا ہوا زمانہ لوٹتا ہے۔ بس اس کی یادیں رہ جاتی ہیں۔ اب فروری کا مہینہ گزر رہا ہے، خوب بارشیں ہوئی ہیں اور پہاڑوں نے سفید چادر اوڑھ لی ہے۔ یہ ایک دلکش منظر ہے، اور میں ان لمحات کو انگیز کرتے ہوئے کوئٹہ کی اس برف باری کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جب موسم سرما کے آغاز میں کوئٹہ اور پورا بلوچستان اس کی لپیٹ میں آجاتا تھا۔ 25 دسمبر سے کوئٹہ میں برف باری کا آغاز ہوتا اور یہ سلسلہ فروری تک جاری رہتا۔ تمام کوئٹہ شہر ٹین کی چادروں کا بنا ہوا تھا۔ 1935ء کے زلزلے کے بعد انگریزوں نے زلزلے سے بچائو کے لیے اس طرزِ تعمیر کی بنیاد رکھی تھی تاکہ زلزلے میں پوری آبادی لپیٹ میں نہ آجائے جس طرح 1935ء میں آگئی تھی۔ ماضی کا کوئٹہ محبتوں اور دوستی کا ایک دلکش نظارہ پیش کرتا تھا۔ نفرتوں سے ناآشنا تھا، قومیتوں کے منفی پہلوئوں سے کوسوں دور تھا، زبان، رنگ اور نسل اس کے لیے اجنبی تھے، یہ محبتوں کا گہرا سمندر تھا اور قدرت بھی مہربان تھی۔ پہاڑوں پر برف پڑتی تو وہ مئی تک نظر آتی، اور بعض دفعہ جون میں روزے آتے تو کچھ لوگ پہاڑوں سے برف بوری میں بھر کر لاتے اور فروخت کرتے۔ شہر کے مختلف حصوں میں پانی کے چشمے بہہ رہے ہوتے، اور بروری کے علاقے کی ندی میں25 فٹ گہرا پانی ہوتا جس میں نوجوان تیراکی کرتے اور مچھلی کا شکار کھیلتے۔ محبت اور خلوص سے بھرپور جذبات کی عکاسی کوئٹہ کرتا۔ اب نفرتوں کے الائو میں کوئٹہ کا خوبصورت سحر انگیز دور یاد آتا ہے۔
نہ جانے ان محبتوں اور خلوص کو کس کی نظر لگ گئی کہ کوئٹہ اپنے باسیوں سے روٹھ گیا ہے۔ کیا وہ دور لوٹ کر آسکتا ہے؟
اُس دور میں اگر کبھی کسی کا قتل ہوتا تو پورا شہر سوگوار ہوجاتا اور ایسا لگتا کہ کوئی دوست اور عزیز قتل ہوگیا ہے۔ پورا شہر غم میںڈوبا نظر آتا اور لوگ سوگوار ہوجاتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک گھڑی ساز کی دکان لیاقت روڈ کے شمالی کونے میں تھی، وہ قتل ہوگیا تو اس کی لاش قاتل نے خداداد روڈ کے کھلے میدان میں پھینک دی۔ مقتول کا سر جسم پر موجود نہ تھا اور وہ بے لباس تھا۔ اُس رات شدید برف باری ہوئی تھی جس کی وجہ سے لاش اکڑگئی تھی۔ پورا شہر اس کو دیکھنے اُمڈ آیا تھا اور ہر شخص سوگوار تھا۔ پولیس نے قاتل کو دو دن میں ڈھونڈ نکالا۔ یہ قاتل اس گھڑی ساز کا ملازم تھا۔ قاتل گرفتار ہوا تو پورا شہر پُرسکون نظر آیا۔ اب لاش پڑی ہو تو لوگ بڑے اطمینان سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ نہ جانے اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ اس میں ہر طرف بے گناہ انسانوں کا خون بکھرا نظر آتا ہے۔ کب رُکے گا بے گناہ انسانوں کے خون کا دریا؟
اپنے کالم کے موضوع کی طرف آتا ہوں۔ جو جملہ لکھا ہے اس کا پس منظر بڑا خوبصورت، دل موہ لینے والا بلکہ سحر انگیز ہے۔ میکانگی روڈ پر ہمارے مکان کے مغربی جانب ایک داشت تھی۔ اُس دور میں پورے کوئٹہ میں تندور نہ تھے بلکہ داشت ہر حصے میں ہوتی تھیں، اور داشت اکثر افغانستان سے آنے والوں کے لیے روٹی پکانے والوں کی تھیں اور ان کا تعلق خراسان سے تھا۔ ہم ان کو خراسانی ہی کہتے تھے۔ جو لوگ اُس دور میں نہ تھے ان کو اندازہ نہ ہوگا کہ داشت کس طرح بنی ہوتی تھی۔ اس کی ساخت بیکری کی بھٹی کی طرح تھی۔ یہ سردیوں میں غریبوں کے لیے نعمتِ عظیم سے کم نہ تھی۔ شدید برف باری میں اس بھٹی کے اوپر بستر لگا کر غریب مزدور سوتے تھے۔ یہ خوب گرم ہوتی اور سردی کا احساس تک نہ ہوتا۔ کسی ایسی ہی سرد رات کو ایک درویش کا شاہ کے محل کے قریب سے گزر ہوا تو اس نے کہا
شب سمدر گزشت
و شب تنورگشت
یعنی شیش محل میں سمدر میں سونے والوں کی رات بھی گزر جائے گی اور درویش کی رات بھی گزر جائے گی ۔ ہمارے روڈ پر دوست محمد کی داشت تھی اور جب کوئی اس سے روٹی لینے آتا تو وہ اکثر کہتا ’’دی تا جارسم‘‘ یعنی میں آپ پر قربان جائوں۔ وہ بہت بااخلاق شخص تھا۔ اس کا تعلق غزنی سے تھا۔ جون کی گرمی میں وہ اپنے گدھے کو ساتھ والے کمرے میں باندھتا اور ہم اپنے دوستوں کے ہمراہ اس کے گدھے کو پکڑ کر نکال لیتے اور گھر کے قریب ایک میدان میں باری باری اس گدھے پر سواری کرتے ۔ گرمی میں دوست محمد تھکا ہوتا اور گہری نیند میں ڈوبا ہوتا، اور ہم اس کی نیند سے فائدہ اٹھاتے اور گدھے کی سواری سے لطف اندوز ہونے کے بعد چپکے سے دوبارہ گودام میں لے جاکر باندھ دیتے تھے۔ بعض دفعہ اسے اس کا علم ہوتا تو وہ ہنستے ہوئے خاموش ہوجاتا اور کچھ نہ کہتا۔
آج نفرتوں کے اس الائو میں غزنی کا دوست محمد یاد آتا ہے، اور اس کا محبت سے لبریز جملہ ’’دی تا جارسم‘‘ یاد آتا ہے۔ وہ آج اس دنیا میں نہیں ہوگا، اس کے لیے دست بدعا ہوں کہ اس محبت کرنے والے خاک نشین کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ (آمین)
اور دعا ہے کہ اس کے محبت سے لبریز دل کا سایہ ہم پر دوبارہ پڑ جائے اور ہم محبتوں اور دوستانہ ماحول میں دوبارہ لوٹ جائیں۔ آج کا کالم اس خاک نشین غزنی کے دوست محمد کے نام۔ دوست محمد ’’دی تاجارسم‘‘