جمہوریت کو خطرہ یا کمپنی سرکار کے لیے محصور ہوتا ہوا راستہ

تحریر: نثار کھوکھر

بروز جمعۃ المبارک 22 فروری 2019ء کو معروف کالم نگار نثار کھوکھر نے صوبہ سندھ کے سیاسی حالات اور اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے حوالے سے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے اپنے کالم میں جو اظہارِ خیال کیا ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے ذیل میں پیشِ خدمت ہے۔

’’جس روز پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو نے سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کے سربراہ جلال محمود شاہ سمیت سندھ کے قوم پرستوں کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی، اتفاق سے میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس دوران میں نے موصوف سے استفسار کیا تھا کہ ’’کیا پیپلز پارٹی اپوزیشن میں آنے والی ہے؟‘‘ جس پر انہوں نے جواباً کہا کہ ’’نہیں، لیکن کیوں…؟‘‘ میں نے انہیں تاریخی حقیقت یاد دلاتے ہوئے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی جب بھی حزبِ مخالف میں ہوتی ہے تو وہ قوم پرست بن جایا کرتی ہے اور پھر حزبِ اختلاف کا کردار حد درجہ بہترین انداز میں نبھاتی ہے۔ حزبِ مخالف کی سیاست کرنا پس کوئی پیپلزپارٹی سے سیکھے۔ اس بات کو شاید ابھی ہفتہ بھی نہیں ہوا ہے کہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد اس طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی کس قدر بے بسی اور لاچاری کی سی کیفیت میں مبتلا ہے۔ سچ پوچھیے تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس کو سنتے ہوئے میری آنکھیں نم ہوگئیں کہ وہ ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہوتے ہوئے بھی کس طرح سے اداروں کو بار بار پلیز پلیز کہہ کر اپیل کررہے تھے۔ ان کی اس پریس کانفرنس کا یہ حصہ تو میں سن نہیں پایا جس میں وہ رقت آمیز انداز میں بتا رہے تھے کہ اسپیکر کے گھر چھاپے کے دوران نیب افسران سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے صوفے پر بیٹھے رہے، اور ایک افسر نے تو سگریٹ کا دھواں تک آغا سراج درانی کی صاحب زادی کے منہ پر پھینک مارا۔ سید مراد علی شاہ نے واقعتاً تاریخ کا وہ دور یاد کروا دیا جب بچوں کو پانی بھی نہیں ملا کرتا تھا۔ اب جب کہ خود ان کے اپنے اوپر افتاد آن پڑی ہے تو وہ کس طرح سے آہ و فغاں کرنے میں لگ گئے ہیں۔ لیکن میں نے ایک لحظہ کے لیے سوچا کہ ہمارے تھر کے معصوم بچوں نے بھلا ان کے ساتھ ایسا کون سا گناہ یا زیادتی کی تھی (کہ ان کی حالتِ زار پر انہوں نے کبھی کوئی توجہ نہیں دی۔ مترجم) کیا اسپیکر کے بچوں اور تھر کے بچوں میں کوئی فرق ہے؟
سندھ کے وزیراعلیٰ سے پیشتر لندن سے بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کرکے قرآن پاک پر قسم کھائی تھی کہ وہ کسی بھی قسم کی کرپشن میں ہرگز ملوث نہیں ہیں۔ ان سے بھی قبل اسلام آباد سے پیپلزپارٹی کے بگ باس رئیس آصف علی زرداری نے پریس کانفرنس کی تھی کہ یہ دراصل جمہوریت پر ایک وار ہے، حکومتِ سندھ کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ اس کے بعد ایم پی اے اَدی فریال تالپور نے بھی رتوڈیرو لاڑکانہ میں کسی سے دورانِ تعزیت کہا تھا کہ ’’سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری جمہوریت پر حملہ ہے‘‘۔ سندھ کے لوگ اس مشکل گھڑی میں پیپلزپارٹی کے اس دکھ میں اُس کے ساتھ برابر کے شریک ہیں، کیوں کہ وہ جمہوریت دشمنوں کے کبھی بھی ساتھی نہیں رہے ہیں، اور سندھ کے عوام کو یہ بھی خبر ہے کہ یہ ’’نیب‘‘ نامی ادارہ کتنی دیانت داری کے ساتھ احتساب کیا کرتا ہے اور کس کے اشاروں پر چلتا ہے؟ لیکن کیا پیپلزپارٹی کی قیادت نے ازخود بھی کبھی یہ سوچا ہے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑی ہے؟ سید مراد علی شاہ کو شاید ہماری زبان سمجھ میں نہ آئے، لیکن ان سے گزارش کے طور پر عرض ہے کہ اہلِ سندھ ان کے دورِ اقتدار میں اس طرح سے لٹ کر تباہ و برباد ہوچکے ہیں جس طرح سے منچھر جھیل کے ماہی گیر بے حال اور تباہ ہوئے ہیں۔
سندھ کے لوگوں نے آغا سراج درانی کی نیب کے ہاتھوں اس گرفتاری پر جس انداز سے سوشل میڈیا پر جشن منایا ہے، اس کا اندازہ شاید وزیراعلیٰ سندھ کو نہیں ہے۔ اگر انہیں کبھی فرصت ملے تو وہ اس امر کا تجزیہ ضرور کریں کہ آخر اہلِ سندھ کرپشن کے کنگ/بھوتاروں/ وزراء وغیرہ کی گرفتاریوں پر اس قدر زیادہ کیوں خوش ہورہے ہیں؟ وہ شاید اس لیے خوش ہیں کہ انہوں نے تو جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ووٹ دیے تھے، لیکن بھوتاروں نے اپنی کیٹیاں اور کچے پکے کے علاقے مضبوط کیے۔ یعنی جن افراد کے ہاں پیپلزپارٹی کے اقتدار سے پہلے گھومنے پھرنے کے لیے کوئی انڈس کرولا جیسی گاڑی بھی بہ مشکل ہوا کرتی تھی، وہ نہ صرف خود اب بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومتے اور سفر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان کے ملازمین بھی دودھ لینے کے لیے ڈبل کیبن گاڑیوں میں نکلتے ہیں۔ جن افراد کے ہاں مہمانوں کو بٹھانے کے لیے کوئی مناسب اوطاق تک نہیں ہوا کرتی تھی، وہی اب بگ باس رئیس وڈے (سابق صدر زرداری) کی اتنی بڑی بڑی دعوتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ خود رئیس موصوف بھی اس امر پر حیران رہ جاتے ہیں کہ ان لوگوں نے لوٹ مار کی اتنی انتہا کردی ہے! ماضی کے ان بدحال افراد کے پاس اب ایکڑوں پر محیط بنگلوں میں ہیلی پیڈ تک بن چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بیسمنٹ کے ڈانس کلب بھی تیار ہیں اور انہوں نے رانی باغ حیدرآباد کے چڑیا گھر میں موجود جانوروں کی طرح اپنے ہاں بھی جانور پال رکھے ہیں۔
یہ تو ایک حقیقت ہے کہ سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ بھٹو کے نام پر دیتے ہیں، اور کسی بھوتار یا وڈیرے کے نام پر وہ ووٹ نہیں دیتے۔ اور آپ (پی پی کی قیادت) ان معصوموں کو لوٹتے بھی اسی بھٹو کے نام پر ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زرداری، فریال راج میں جمہوریت مضبوط ہوئی ہے تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جمہوریت نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ کمپنی سرکار مضبوط ہوئی ہے، جس کی شوگر ملیں بڑھیں، جس کے پاور پلانٹس تعمیر ہوئے۔ وہ کمپنی سرکار مضبوط ہوئی جس نے گنے کے آبادگاروں کو مناسب نرخ دینے کے بجائے انہیں رُلا رُلا کر تباہ و برباد کرڈالا، اور گندم کے کاشت کاروں کو باردانہ کے پیچھے اس طرح سے دوڑایا جس طرح سے ریچھ کی دوڑ کا مقابلہ ہوتا ہے۔ باردانہ بھی بوریوں کے بجائے اسی کمپنی کے پلاسٹک کٹوں (بڑی تھیلیوں) میں آنے لگا۔ تو کیا ان سب کارناموں سے جمہوریت مضبوط ہوئی، یا کمپنی سرکار کی طاقت اور مضبوطی میں بڑھوتری آئی…؟ اور اس میں مزید اضافہ ہوا…؟
سندھ کے لوگوں کا پیپلزپارٹی کے ساتھ تعلق اب پرانے عشق کی طرح پیار اور نفرت کی بنیاد پر استوار ہوچکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بھوتاروں کے یہ کارنامے سندھی عوام بہ چشم خود ملاحظہ کرتے ہیں کہ وہ کس طرح سے کبھی تانیہ خاصخیلی (دادومیں ایک ظالم وڈیرے کے ہاتھوں بے گناہ قتل ہوجانے والی لڑکی۔ مترجم) کے قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اور کبھی رمشاوسان کے قاتلوں کے ساتھ شانے سے شانہ ملائے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کبھی سندھ کے اقتدار کی خاطر دہرے مکانی (بلدیاتی) نظام کی بات کرتے ہیں، تو کبھی کوئلے کے کاروبار میں اپنے ہاتھ کالے کرنے لگتے ہیں۔ وہ سندھ سے لُوٹا جانے والا سرمایہ لانچوں میں لاد کر کبھی دبئی فرار ہوتے ہیں تو کبھی گڑھی یاسین کے بنگلوں کے تہ خانوں میں کروڑوں روپے جلاکر خاکستر کردیتے ہیں (تاکہ قانون کی گرف میں آنے سے بچ جائیں۔ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی طرف اشارہ ہے۔ مترجم)
ان سب زیادتیوں کے باوصف اہلِ سندھ پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، اور اسی نقطہ پر جب ہم دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں تو وہاں کے لوگ حیران ہوکر ہم سے پوچھتے ہیں کہ ’’یار آپ لوگوں کو تو آپ کے حکمرانوں نے پتھر کے دور میں داخل کردیا ہے، مگر آپ پھر بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں؟‘‘ تو ہمارا جواب برس ہا برس سے ایک ہی ہوتا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا کوئی بہتر متبادل میدان میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ جو خود کو پیپلزپارٹی کا متبادل کہلواتے ہیں وہ تو خود پیپلزپارٹی کے جمہوری بھوتاروں سے بھی کہیں دوہاتھ آگے خراب اور تلخ رویوں کے حامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اب اپنے مستقبل کے سیاسی راستے کا انتخاب کرنا پڑے گا کہ انہیں اپنے قائد (بھٹو) کے فلسفے کی جانب واپس ہونا ہے، یا پھر نواب شاہی فلسفے کے ساتھ چلنا ہے؟ کیوں کہ نواب شاہی رئیس کے فلسفے نے انہیں مال اور دولت کے مزے تو بے حد و حساب مہیا کیے ہیں لیکن اس کی بنا پر ان کی ساکھ بہت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے، کہ اب انہیں سیاسی مقدمات کے بجائے کبھی سیٹھ انور مجید کی، اور کبھی سیٹھ ڈاکٹر عاصم کی عوامی سطح پروکالت کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کو اب سندھ کے موڈ کو ازسرنو جانچنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ آخر انہیں سندھ کی نسلِ نو سندھ دشمن جماعت کیوں گردانتی ہے؟
اسلام آباد میں دورانِ پریس کانفرنس رئیس وڈے نے اپنی یہ خواہش دکھائی ہے کہ انہیں کسی بکری کی چوری یا کمپنی کے کیس میں گرفتار کرنے کے بجائے غداری کے کیس میں گرفتار کیا جائے۔ ان کے یہ الفاظ سن کر مجھے پیپلزپارٹی کا وہ دوست یاد آیا جو ہمیشہ رئیس وڈے کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھتا ہے۔ میں نے اسے بہ طور مثال کہا کہ ’’میریٹ ہوٹل کے مالک صدر الدین ہاشوانی کی کتاب کے مطابق وہ ایسے لڑاکا ہیں (یعنی زرداری) کہ اُس وقت کے کورکمانڈر کراچی جنرل آصف نواز نے رئیس کے خوف سے اپنے دوست ہاشوانی کو دبئی فرار کروا دیا تھا‘‘۔ یہ بات پوری کرنے کے بعد میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ ’’رئیس کی ساری اینٹی اسٹیبلشمنٹ چالیں اپنے کاروبار، اپنی کمپنی اور اپنی دولت جمع کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ سندھ کے لوگوں یا سندھ کے مالی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ہوتیں تو وہ (زرداری) سندھ میں اتنے زیادہ خراب تاثر کے حامل ہرگز نہ ہوتے کہ انہیں عوام سے دور رہ کر اور ہیلی کاپٹر میں سفر کرکے دعوتوں میں شرکت کے لیے جانا پڑتا۔‘‘ انہوں نے ایک بھرپور عوامی سیاست کرنے والی جماعت کو ہائی جیک کرکے اسے ڈرائنگ روم کی سیاسی پارٹی بنا ڈالا ہے۔ اس لیے غداری کا لقب شاید ان کے نصیب میں نہ ہو، کیوں کہ یہ القاب کمپنیاں چلا کر اور ہیلی کاپٹرز میں گھومنے والے امراء کے نصیب میں کم، پہاڑوں کی طرف اونٹوں پر قافلے روانہ کرنے والوں کے نصیب میں کہیں زیادہ آتے ہیں۔ تاہم اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟ کسی کے نصیب سے کیسی ریس…! اور اس پر کیا رشک کرنا…!‘‘