امریکہ،بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ

پاکستان کے اعلیٰ سطح کے حکومتی ذرائع نے میڈیا کے منتخب افراد کے ذریعے انکشاف کیا ہے کہ 27 فروری کو بھارت نے اسرائیل کی مدد سے پاکستان پر ایک خطرناک حملے کا منصوبہ بنایا تھا جس کی خفیہ معلومات بروقت مل گئیں، جس کے بعد پسِ پردہ پیغام رسانی کے ذریعے بھارت پر واضح کردیا گیا کہ اگر وہ حملہ کرے گا تو اسے کرارا جواب دیا جائے گا اور وہ جواب ایسا ہوگا جس سے دونوں ممالک کے پاس واپسی کا راستہ نہیں ہوگا۔ ذرائع کے مطابق بھارت نے اسرائیل کی مدد سے راجستھان کے ائربیس سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ایک تیسرا ملک بھی شامل تھا جس کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ حکومتی ذرائع نے پاک بھارت کشیدگی میں کمی اور حکومت کی جانب سے بھارت کو امن کا پیغام دینے کے بعد قوم کے سامنے غیر رسمی ذریعے سے یہ انکشاف کیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے اس انکشاف سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ پاکستان کے خلاف نریندر مودی کی تازہ جنگی مہم جوئی صرف اُس کی اپنی حماقت نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق بدلتی عالمی صف بندی سے ہے، جس میں بھارت کا خصوصی کردار ہے۔ یہ بات کھلا راز ہے کہ عالمی اور علاقائی سطح پر جو صف بندی موجود ہے اُس میں امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا تکون اہم کردار ادا کررہا ہے، لیکن 17 برسوں کی ناکام افغان جنگ نے امریکی منصوبوں کو ناکام بنادیا ہے۔ 1971ء کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلا فضائی معرکہ ہوا ہے جس میں بھارتی فضائیہ کی ناقص کارکردگی اور ایک پائلٹ کی گرفتاری نے امریکی فوجی حکام کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے کے بعد امریکی حکومت کی پالیسیوں کے ترجمان اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے امریکی تھنک ٹینک کے حوالوں سے جو رپورٹ شائع کی ہے اُس کے مطابق بھارت کی کمزوریوں کے باوجود امریکہ اُسے اپنا اتحادی رکھے گا۔ بھارت نے ایک ایسے وقت میں ’’ناکام‘‘ جنگی مہم جوئی کی ہے جب پاکستان کے تعاون سے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان براہِ راست مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ یہ امر واضح ہے کہ امریکہ ’’مذاکرات‘‘ سے بھی اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے جس کی وجہ سے اُس نے پاکستان پر الزام تراشی فی الحال روک دی ہے۔ اس لیے اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی پاکستان پر دبائو ڈالنے کی عالمی سازش ہو۔ اس وجہ سے امریکہ کی نظر میں بھارت کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ بھارت کے جنگی جنون میں اسرائیل کی شمولیت کی تصدیق پاکستان کے حکومتی ذرائع نے کردی ہے۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ کا تعلق دہشت گردی کے خاتمے سے نہیں، بلکہ عالم اسلام اور مشرق وسطیٰ کے وسائل پر قبضے سے ہے، جس کے لیے اسرائیل کو خطے کا پولیس مین بنایا جاچکا ہے اور وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں بھارت کو پولیس مین بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس تناظر میں بھارت کی جنگی مہم جوئی کی ناکامی پر امریکی تشویش قابلِ فہم ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز امریکی مبصرین کے حوالے سے لکھتا ہے کہ امریکہ کے وہ فوجی حکام جنہیں بھارت کے ساتھ فوجی تعاون کو مضبوط بنانے کا فرض سونپا گیا ہے، بھارتی فوج کی صورتِ حال پر سخت پریشانی کا اظہار کرچکے ہیں۔ ’’چونکہ عالمی سرمایہ داری کا مرکز یورپ اور امریکہ سے ایشیا منتقل ہوچکا ہے اور دنیا بھر کی حکومتوں اور فوجوں کا فرض ہے کہ وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کریں، لیکن بدلتی عالمی صورتِ حال نے امریکی یونی ورلڈ کو تبدیل کردیا ہے اور چین امریکہ تجارتی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اس لیے چین کی بالادستی روکنے کے لیے بھارت کو خصوصی کردار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے نیویارک ٹائمز مزید لکھتا ہے:
’’بھارت کی کمزوریوں کے باوجود اس کی اہمیت برقرار ہے۔بہت جلد بھارت دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا، ممکنہ طور پر اس کی آبادی 2024ء تک چین سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ چین کے مغربی اور جنوبی حصے میں بھارت، چین سرحد بہت طویل ہے، یہی نہیں بلکہ علاقے کے سمندری پانی کے بڑے حصے پر بھی بھارت کا کنٹرول ہے، یہ سمندر کے وہ علاقے ہیں جو بحری تجارت کے لیے چین کی ضرورت ہیں۔‘‘
’’بھارت کا محلِ وقوع، اس کی آبادی اور مستقبل میں بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت وہ عوامل ہیں جن کی بنا پر امریکہ مستقبل کے حوالے سے بھارت کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ وقت کے ساتھ چین ابھرتا جارہا ہے، چین کے اثر رسوخ کو محدود کرنے کے لیے امریکہ کو خطے میں ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے جس کی مدد سے علاقے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھا جاسکے، ایسا ملک بھارت کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ امریکہ اس بات کو پوری طرح سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض شواہد کے مطابق امریکہ بھارت کی فوج کی ناقابلِ اطمینان صورتِ حال کے باوجود یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ اس پر صبر و تحمل کا مظاہرہ جاری رکھا جائے، کیونکہ بھارتی فوج کی مالی ضروریات کو پورا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔‘‘
’’امریکہ کے وہ فوجی حکام جنہیں بھارت کے ساتھ فوجی تعاون کو مضبوط بنانے کا فرض سونپا گیا ہے، بھارتی فوج کی صورتِ حال پر سخت پریشانی کا اظہار کرچکے ہیں۔ ان تمام مسائل کے باوجود امریکہ یہ پختہ ارادہ کرچکا ہے کہ وہ آئندہ بھی اس خطے میں بھارت کو اپنا کلیدی اتحادی سمجھتا رہے گا، امریکہ اب بھی اپنے فیصلے پر قائم ہے کہ وہ خطے میں چین کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو روکنے اور بقول اُس کے چین کے ’’توسیع پسندانہ عزائم‘‘ کی روک تھام کے لیے آئندہ بھی بھارت پر انحصار کرتا رہے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اعلان کیا تھا کہ ان کا محکمہ دفاع اپنی پیسفک کمانڈ کا نام تبدیل کرکے اسے ’’انڈو پیسفک‘‘ کردے گا۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ تبدیل ہوتے ہوئے ورلڈ آرڈر میں بھارت بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں اس بات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ گزشتہ 20 سال کے دوران میں امریکہ کی جانب سے بار بار یہ بات کہی گئی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کارکردگی اس کی توقعات کے مطابق نہیں۔‘‘
اس رپورٹ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے لیے مستقبل میں کیسے کیسے خطرات ہیں۔ ان خطرات کا مقابلہ صرف نظریاتی قوت سے کیا جاسکتا ہے، لیکن ہماری ماضی کی تاریخ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کے آگے ہمیشہ گھٹنے ٹیکے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ، کارگل جنگ اور نائن الیون اس کی مثال ہیں۔