محمو د عزیز
کتاب : تبلیغی جماعت اور دنیا پر اس کے حیرت انگیز اثرات
مولف : مفتی معراج علی اشرف
رعایتی قیمت : 250 روپے
رابطہ : 0304-3383702
ای میل mairajali520@gmail.com
مؤلف کتاب جواں سال مفتی ابومعاذ معراج علی اشرف، جامعۃ الانور۔ مسجد قباء، گلشن اقبال بلاک نمبر7 ،کراچی میں مدرس درسِ نظامی ہیں جو فاضل و متخصص فی الدعوۃ الارشاد جامعہ دارالعلوم کراچی، متخصص فی الافتاء جامعۃ الرشید کراچی ہونے کے ساتھ جدید تعلیم سے بھی آراستہ ہیں۔ وہ نہ صرف ایم۔ فل (اسلامک اسٹڈیز) یونیورسٹی آف کراچی ہیں بلکہ اسی یونیورسٹی میں پی۔ ایچ۔ ڈی ریسرچ اسکالر بھی ہیں، جن کی جائے پیدائش شجاع آباد، ضلع ملتان ہے جو گرد و گر ماد گورستان کے لیے مشہور ہے۔ وہیں سے دعوت و تبلیغ کی سنت کو زندہ رکھنے کے لیے مؤلفِ کتاب اٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں دعوت و تبلیغ کی اہمیت اور اس کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
’’دعوت کا معنیٰ ہے ’’بلانا‘‘، اور تبلیغ کا معنیٰ ہے’’ پہچانا‘‘۔ گویا دعوت و تبلیغ کا مطلب ہے لوگوں کو اﷲ تعالیٰ کی طرف بُلانا اور احکاماتِ الٰہیہ ان تک پہنچانا۔ دنیا میں معروفات (نیکیوں) کو پھیلانا اور منکرات (برائیوں) کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ تمام نبیوں اور رسولوں کی تعلیمات اسی دعوت کی تبلیغ وتشریحات ہیں۔‘‘
اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے رسول جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ اور اگر ایسا نہیں کروگے تو (اس کا یہ مطلب ہوگا) تم نے اﷲ کا پیغام نہیں پہنچایا۔‘‘ (سورۃ المائدۃ:67)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
’’اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔‘‘(سورۃ آل عمران:104)
مؤلف تبلیغِ دین کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر عاقل اور بالغ مسلمان پر دین کی بنیادی اور ضروری معلومات سے آگہی حاصل کرنا فرض ہے، جس سے اس کے نفس کی اصلاح اور گناہوں سے بچنا ممکن ہوسکے۔ اور جس شخص کو اپنی اصلاح اور دین کی ضروری معلومات حاصل کرنے کا کوئی دوسرا راستہ یا طریقہ میسر نہ ہو تو اُس کے لیے لازم ہے کہ (تبلیغی) جماعت کے ساتھ نکلے اور دین کے بنیادی ضروری مسائل سے آگاہی حاصل کرے، اور جس شخص کے لیے دوسرے ذرائع موجود ہوں، مثلاً مساجد کے اماموں اور عالموں کی صحبت، مدارسِ دینیہ اور خانقاہی طرزِ حکومت کی تعلیم و تربیت وغیرہ، تو اس کے لیے بھی اشاعتِ دین کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے تبلیغی دوروں میں شامل ہونا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ امتِ محمدیہ کا معاملہ انفرادی نہیں ہے بلکہ یہ ایک اجتماعی امت ہے، اس لیے محض اپنی عبادات کامل نجات کے لیے کافی نہیں ہیں۔ بلکہ اس پر اوروں کی بھی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اب آپؐ کے بعد تاقیامت کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ اس لیے دعوت و تبلیغ کی یہ ذمہ داری مجموعی طور پر پوری امت پر عائد ہے۔ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک معتدبہ حصہ اس عظیم الشان کام کے لیے تیار کرے جو لوگوں کو دینِ حق کی طرف دعوت دے اور بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو صحیح عقائد و اعمال کی طرف بلائے، کیونکہ قرآن شریف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اورتمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے(ہیں)۔‘‘
لہٰذا معاشرے کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا ہر فرد و بشر کے لیے ضروری ہے۔ ’فضائل اعمال‘ جو تبلغی جماعت کی ایک اہم کتاب ہے، اس کے باب ’’مسلمانوں کی پستی کا واحد علاج‘‘ میں امام غزالیؒ کی تبلیغِ دین کے بارے میں رائے کو یوں نقل کیا گیا ہے:
’’اس میں کچھ شک نہیں کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر دین کا ایسا زبردست رکن ہے جس سے دین کی تمام چیزیں وابستہ ہیں۔ اس کو انجام دینے کے لیے حق تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا۔ اگر خدانخواستہ اس کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور اس کے علم و عمل کو ترک کردیا جائے تو العیاذباللہ‘ نبوت کا بیکار ہونا لازم آئے گا۔ دیانت جو شرافتِ انسانی کا خاصہ ہے، مضمحل اور افسردہ ہوجائے گی، کاہلی اور سُستی عام ہوجائے گی، گمراہی اور ضلالت کی شاہرایں کُھل جائیں گی، جہالت عالمگیر ہوجائے گی، تمام کاموں میں خرابی آجائے گی، آپس میں پھوٹ پڑ جائے گی، آبادیاں خراب ہوجائیں گی، مخلوق تباہ و برباد ہوجائے گی اور اس تباہی اور بربادی کی اُس وقت خبر ہوگی جب روزِ محشر خدائے بالا و برتر کے سامنے پیشی ہوگی۔‘‘ امام غزالی نے جن الفاظ میں اس کام کی اہمیت اور ضرورت کو بیان کیا ہے وہ ہماری تنبیہ اور بیداری کے لیے کافی ہیں۔
’’اُمت‘‘، ’’اُمت دعوت‘‘ اور’’ اُمت اجابت‘‘ کے بارے میں کتاب میں وضاحت کی گئی ہے کہ:
انبیائے کرام علیہ السلام جن انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے تشریف لائے تھے وہ اُن کی امت کہلاتی ہے، جس کی دو قسمیں ہیں: امتِ دعوت اور امتِ اجابت۔ اور امتِ دعوت وہ ہے جو کفر و گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے جن میں کافر، مشرک، بت پرست، دہریہ، سابق آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنے والے (یہودو نصاریٰ) اور منافق شامل ہیں، جن کو ان کے باطل اعتقادات سے ہٹا کر دینِ فطرت اسلام کی طرف بلانا ہے۔ امتِ اجابت سے مراد وہ مسلمان ہیں جو عقائد و اعمال کے اعتبار سے کمزور ہیں، ان کو دینی فرائض کی بجاآوری کی یاددہانی کراکر اُن کا دین سے رشتہ مضبوط کرنا مطلوب ہے، تاکہ امتِ مسلمہ کے ہر ہر فرد کو اس کی اصل ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔ آخرت کی فکر اور اﷲ تعالیٰ کے سامنے اپنے تمام اعمال کی فکر، اور اس مقصد کے لیے عملی طور پر ہجرت اور جدو جہد کے لیے تیار کیا جائے۔ تبلیغ کے ذریعے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو دین کی راہ پر ڈالا جاتا ہے تاکہ ایک ایسا بہترین اسلامی معاشرہ وجود میں آئے جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں پاکیزہ معاشرہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ مولانا قاری طیب (مرحوم) مہتمم دارالعلوم دیوبند نے تبلیغی جماعت کے بارے میں کہا ہے:
’’اصلاحِ نفس کے چار طریقے ہیں اور حسنِ اتفاق سے ’’تبلیغ‘‘ کے اندر یہ چاروں طریقے جمع ہیں:
صحبتِ صالح بھی ہے، ذکر و فکر بھی، مواخات فی اﷲ بھی (دشمن سے عبرت و موعظمت بھی ہے) اور محاسبہ نفس بھی ہے۔ اور انہی چاروں کے مجموعہ کا نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ ہے۔ عام لوگوں کے لیے اصلاحِ نفس کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے تبلیغی کام کا آغاز ہندوستان کی بستی نظام الدین سے فرمایا۔ کام بڑھتا گیا اور ہندوستان سے باہر دیگر ممالک تک پہنچ گیا۔ اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کو مرکزیت حاصل ہے، جہاں تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا اجتماع رائیونڈ میںہوتا ہے۔
تبلیغی کام دن بدن ترقی کررہا ہے۔ عوام و خواص، نیز ہر شعبۂ زندگی کے لوگوں میں اس کی مقبولیت اور احترام میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس کام نے ساتوں براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ملک و بیرون ملک تبلیغی قافلے دعوتِ دین کے مشن کے لیے رواں دواں ہیں۔ روئے زمین کا کون سا ٹکڑا ہے جسے انہوں نے اپنے قدموں سے نہ روندا ہو۔ تبلیغی جماعت کی اسلام کے لیے بڑی خدمات ہیں، انہوں نے لاکھوں لوگوں کو مسلمان کیا ہے، اور ان کی تبلیغی جماعت میں چلہ، چارماہ لگانے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو وضو، غسل، پنج گانہ نماز، نماز جنازہ کا طریقہ، اور زندگی گزارنے کے اصول و آداب آگئے ہیں۔ بے شمار لوگوں نے قرآن کریم سیکھا اور یاد کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے کئی کئی احادیث زبانی یاد کی ہیں۔ بڑی عمر کے لوگوں میں بھی دین سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ تبلیغی جماعت نے مستورات میں بھی نفوذ کیا ہے اور ان میں بھی مقبولیت حاصل کی ہے، اور اب مستورات کی جماعیتں بھی اندرون ملک اور بیرون ملک جاکر تبلیغِ دین میں منہمک ہیں، کیونکہ تبلیغی جماعت اﷲ کے دین کی نعمت کو ساری انسانیت میں پھیلانا چاہتی ہے۔
کتاب میں تبلیغی جماعت پر اعتراضات کا بھی شافی جواب دیا گیا ہے۔ کتاب خوبصورت اور دیدہ زیب ہے اور عمدگی سے چھاپی گئی ہے۔ کتاب میں علمائے کرام کی رائے بھی درج ہے جنہوں نے مفتی معراج علی اشرف کی اس کاوش کو بنظرِ تحسین دیکھا ہے۔ حضرت مولانا ڈاکٹر عبیدالرزاق اسکندر، صدر وفاق المدارس العر بیہ کی تقریظ اور مفتی محمد تقی عثمانی پاکستان کے دعائیہ کلمات بھی شاملِ کتاب ہیں۔ کتاب اپنے پڑھنے والے کو عمل پر اکساتی ہے۔ امید ہے مفتی معراج کی یہ کتاب علمی و دینی حلقوں، نیز عوام میں قبولیت و پذیرائی حاصل کرے گی کیونکہ وہ اقبال کے ہمنوا ہوکر کہتے ہیں: