حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
اے عائشہ! اگر میں چاہوں سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلیں۔ ایک فرشتہ میرے پاس آیا، اس کی کمر کعبہ کے برابر تھی۔ اس نے کہا: تیرا رب تجھے سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو بندہ پیغمبر ہونا پسند کرلیں یا بادشاہ پیغمبر۔ میں نے جبریل کی طرف دیکھا تو انہوں نے اشارہ کیا کہ تواضع اختیار کرو۔ میں نے کہا میں بندہ نبی ہونا پسند کرتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اس کے بعد نبیؐ نے کبھی تکیہ لگا کر کھانا نہیں کھایا۔ آپﷺ فرمایا کرتے تھے: میں اس طرح کھاتا ہوں جیسے
غلام کھاتا ہے اور اس طرح بیٹھتا ہوں جیسے غلام بیٹھتا ہے۔ (شرح السنہ)
حکایت
ایک کسان کے لڑکے کو سانپ نے کاٹا، لڑکا مرگیا۔ کسان نے سانپ کو مارا لیکن چوٹ کاری نہ لگی، سانپ کی دُم البتہ کٹ گئی اور لنڈورا رہ گیا۔ ایک مدت کے بعد کسان نے اسی سانپ کو پھر دیکھا۔ سانپ لگا بھاگنے۔
کسان نے کہا:’’اب کیوں بھاگتا ہے، جو ہونا تھا سو ہوچکا۔ آئو اب ہم تم مل جائیں۔ ایک گھر کا رہنا اور ایک دوسرے سے بیر مناسب نہیں‘‘۔
سانپ نے کہا: ’’جب تک تم کو لڑکے کا اور مجھ کو دُم کا غم ہے ہم دونوں میں دوستی نہیں ہوسکتی‘‘۔
حاصل: جب تک دو دشمنوں کو ایک دوسرے کی زیادتی یاد رہے گی صفائی ہونی مشکل ہے۔
(’’منتخب الحکایات‘‘۔ نذیر احمد دہلوی)
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی آخری تقریر
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہیں معلوم نہیں کہ تمہیں ایک دن مرنا ہے اور تمہاری اولاد کو تمہاری جگہ لینی ہے، اور پھر ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہونا ہے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی آدمی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتا ہے، تو تم اُسے زمین میں دفن کردیتے ہو اور بغیر بسترے اور تکیے کے لِٹا آتے ہو، اور وہ تمام اسباب اور احباب کو چھوڑ کر زمین کے نیچے سکونت اختیار کرلیتا ہے۔ اور وہ اس حال میں حساب دے گا کہ اس کے عمل رہن رکھے ہوئے ہوں گے، جو کچھ آگے بھیج چکا اس لحاظ سے فقیر، اور جو پیچھے چھوڑ آیا ہے اس لحاظ سے وہ غنی ہوگا۔ لہٰذا موت کے آنے سے پہلے اللہ سے ڈرو‘‘۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
نامہربان مہربانی
ایک صاحب بتاتے ہیںکہ مجھے مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ کسی نے میرا اس طرح ساتھ دیا کہ میرا اعتماد بھی مجروح نہ ہونے دیا اور احترام بھی ملحوظِ خاطر رکھا۔ اس کے مقابلے میں ایک بھائی نے اوٹ پٹانگ سوالات کے ذریعے میری دیانت داری کو مشکوک قرار دیا۔ اس سے مجھے جو تکلیف ہوئی، اسے میں بیان نہیں کرسکتا۔ اس شخص نے میری مدد تو کی، لیکن اس انداز میں کہ میں اپنی نظروں میں خود کو گھٹیا محسوس کرنے لگا۔ اس کی زبان اور رویّے سے یہ پیغام ملتا تھا کہ وہ مجھے حقیر سمجھ رہا ہے۔ اگر مجھے رقم کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو میں اس سے کبھی نہ کہتا۔ جب میں کسی سے کوئی بات پوچھتا ہوں تو کسی کے جواب کا انداز اور لب و لہجہ صاف صاف یہ کہہ رہا ہوتا ہے: ’’میں تمہیں غبی اور بے وقوف سمجھتا ہوں‘‘۔
اسے غالباً اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ میرا کس قدر دل دُکھا رہا ہے۔ اس کے برعکس مجھے ایسے پائے کے اسکالر ملتے ہیں، جو میرے سادہ سے سوال کے باوجود اتنی توجہ سے جواب دیتے ہیں کہ میں اپنی نظروں میں خود کو بہت اہم اور قیمتی انسان سمجھنے لگتا ہوں۔ مجھے حال ہی میں ایک پرانے مہربان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے فرمایا: ’’مجھے یاد ہے کہ تم کس قدر احساسِ کمتری میں مبتلا تھے۔ یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ تمہاری مجھ سے ملاقات ہوگئی۔ تم آج جو ہو، وہ میں نے تمہیں بنایا ہے‘‘۔ انہیں اس بات سے دلچسپی لگتی تھی کہ وہ مجھے ذلیل کرکے خود کو اپنی نظروں میں برتر محسوس کریں۔
آپ جس کی مدد کریں، اُس کے لیے دل میں احترام کے گہرے جذبات رکھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو آپ کی اپنی زندگی کے مشن کی تکمیل میں مدد دیتے ہیں۔ اس لیے آپ کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ منہ سے کوئی ایسا لفظ نہ نکالیں، نہ اس طرح کا رویہ اختیار کریں جس سے ان کی انا مجروح ہو یا اس میں آپ کی برتری یا بالاتری جھلکتی ہو، نہ دوسروں کو یہ احساس ہونے دیں کہ آپ ان پر احسان چڑھا رہے ہیں۔ یہ اپنی نیکی پر پانی پھیرنے والا طرزِعمل ہے، اور اللہ اور اس کے رسول ؐ کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
(ماہنامہ ’’چشم بیدار‘‘۔ جنوری2019ء)
متاعِ عقل
ایران کے اہل خانی بادشاہ غازان محمود (1295۔ 1305ء) کے دربار میں بڑے بڑے علماء علمی مسائل پر گفتگو کررہے تھے۔ ایک اجنبی پھٹے پرانے کپڑوں میں آیا اور پچھلی صف میں بیٹھ گیا۔ کسی موضوع پر اس کی رائے بھی دریافت کرلی گئی۔ اس نے ایسا عالمانہ جواب دیا کہ غازان نے اسے دوسری صف میں بٹھا دیا۔ جب اس نے کسی اور مسئلہ پر تقریر کی تو اسے اگلی صف میں بلالیا، اور تیسری تقریر پر اپنے پہلو میں جگہ دی۔
جب مجلس برخاست ہوئی اور علماء رخصت ہونے لگے تو غازان نے اسے روک لیا۔ اس کے فضل و دانش کی تعریف کی۔ اسے نئے کپڑے پہنائے اور پھر شراب منگوائی۔ جب جام اس کی طرف بڑھایا تو کہنے لگا: ’’اے غازان! میں آج پچھلی صف سے تمہاری مسند تک صرف عقل کی بدولت پہنچا تھا، کیا تم شراب پلا کر مجھے اس متاع سے محروم کرنا چاہتے ہو؟‘‘
(ماہنامہ ’’چشم بیدار‘‘ لاہور۔ فروری 2019ء)