پاکستان ٹی وی نے کارگل کے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جو پروگرام پیش کیا اُسے دیکھ کو بیشتر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ شہدا کے اہل و عیال ناظرین کے سامنے تھے اور ان کی ایمان افروز باتوں نے ہر ایک کو متاثر کیا، لیکن اس خاص موقع پر بھی ٹی وی ناچ گانے کے بے ہودہ کلچر سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکا اور شہیدوں کی بیوائوں کو اس طرح کے گیتوں پر تالی بجانے کے لیے مجبور کیا گیا جن میں چوری چوری آنکھیں ملانے کا تذکرہ تھا۔ مگر ٹی وی سے کیا شکایت ہو کہ اس بدنصیب قوم پر ناچ گانے کے کلچر کی نحوست پوری طرح حاوی ہوچکی ہے۔ کبھی مسلمانوں کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ان کے دن گھوڑوں پر اور راتیں عبادت میں گزرتی تھیں، اب دن غمِ روزگار کی نذر ہوچکے ہیں اور راتیں وی سی آر پر فلموں کے لیے وقف ہورہی ہیں۔ کبھی یہ تھا کہ ناچ گانا اس بازار میں طوائفوں کے کوٹھوں تک محدود تھا، اور ان کوٹھوں پر بھی وہ فحش گیت نہیں گائے جاتے تھے جو گلی، گلی عام ہوچکے ہیں۔ اور گلیوں پر منحصر نہیں، ہر گھر اس کی زد میں ہے۔ جنسی جذبے کو بھڑکانے والے پروگراموں کی فضا میں بچے پل بڑھ رہے ہیں، یہ جب بڑے ہوں گے تو موجودہ نسل سے ایک قدم آگے ہی جائیں گے۔
ہم کہتے تو یہ ہیں کہ اس جدید دور میں ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، لیکن جو کلچر ہم اپنارہے ہیں وہ موج میلے کا ہے، طائوس ورباب کا ہے، اسراف و تعیش کا ہے، زرپرستی کا ہے۔ اور ان سب پر مستزاد یہ کہ اب آرٹ اور کلچر کے نام پر لوگوں کو ’’جنس زدہ‘‘ کیا جارہا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہر دین کی ایک پہچان ہے، اور اسلام کی پہچان ’’حیا‘‘ ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یہ حیا دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ اب باپ بیٹی، بھائی بہن اکٹھے ہوکر حیا سوز فلمیں دیکھتے اور فحش گانے سنتے ہیں، ان حالات میں آنکھوں کی شرم کہاں باقی رہ سکتی ہے!
افسوس کی بات یہ ہے کہ مغرب کے سیاسی غلبے کے دور میں بھی ہم نے اپنے تہذیبی وجود اور تشخص کو برقرار رکھا، لیکن آج ہمارے ٹی وی پر ہی یہ منظر ہے کہ ہمارا مجاہد کارگل میں ہندو سپاہی کے مقابلے میں کھڑا ہے لیکن ہماری تہذیبی روایت ہندو تہذیب کے آگے سرنگوں ہورہی ہے اور ہندی فلموں کے ذریعے بے حیائی عام ہورہی ہے۔ ہمیں ہالی ووڈ نے متاثر نہیں کیا، لیکن ’’بالی ووڈ‘‘ مار گیا، اور ممبئی کی اس فلمی دنیا کا بھارت پر غلبہ خود ہندو تہذیب کی بھی شکست ہے۔ جب ہندوستان کی روح زندہ تھی تو فلموں میں پاکیزگی تھی، ’نیو تھیٹرز‘کی فلموں میں غلط روایات کے خلاف بغاوت کا درس تھا، ظالم جاگیرداروں کے ظلم کے خلاف جذبۂ نفرت کو ابھارا جاتا تھا، سماجی مسائل پر فلم بنتی تھی اور مقبول ہوتی تھی، مسلمان ڈائریکٹر مسلم دور کی، اور ہندو ڈائریکٹر ہندو دور کی تاریخی فلمیں بناتے تھے، جنہیں ہندو مسلمان دونوں ذوق و شوق سے دیکھتے تھے۔ لیکن اب وہ فلمی دنیا ختم ہوگئی، اس کی جگہ ہالی ووڈ کے زیر اثر ’’بالی ووڈ‘‘ آگیا ہے، اور ہم یہ بھی نہ کرسکے کہ براہِ راست فرنگی استادوں کے شاگرد بنتے، بلکہ اُن کے شاگردوں کے آگے اپنا دامنِ حیا تار تار کرا رہے ہیں۔ ہندوستانی فلموں کے چربوں نے پاکستانی فلم کی اپنی شناخت پیدا نہیں ہونے دی۔ اور کارگل کے ہیرو تو معلوم نہیں کتنے دن یاد رکھے جائیں گے، لیکن بھارتی اداکاروں اور اداکارائوں کے نام بچے بچے کی زبان پر ہیں بلکہ دل پر نقش ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پاکستانی ٹی وی نے اپنے ڈراموں کے ذریعے ہندوستان میں بھی نام کمایا ہے، لیکن جب پبلک میں مانگ بے ہودہ ناچ گانوں کی ہو تو ہمارے ادیب اور رائٹر اس مقابلے میں کہاں ٹک سکتے ہیں! ایک ایسے دور میں جو ڈش انٹینا کا ہے اور جہاں بازاروں میں ہر طرح کے کیسٹ عام فروخت ہورہے ہیں، لوگوں کو پاکستانی ریڈیو، ٹی وی کا پابند رکھنا ممکن نہیں۔ جس طرح کا ذہن بن گیا ہے اُس کے مطابق لوگ اپنی تسکین چاہیں گے۔ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ذہن بگڑ گئے ہیں اور ان کی اصلاح ہوتی نظر نہیں آتی۔
ہم نئی نسل کو الزام نہیں دیں گے کہ ان کے بزرگ جانتے بوجھتے غلط باتوں کو اپنے گھروں میں رواج دے رہے ہیں، وہ خود غلط باتوں سے لطف اٹھاتے ہیں یا ناپسندیدہ چیزوں کو چپ چاپ برداشت کرتے ہیں۔ ٹی وی پر ہی منحصر نہیں ہے، اور بھی بہت سی چیزیں بے حیائی پھیلانے والی ہیں، مثلاً شادی میں مہندی کی رسم کے نام پر ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا ہے، ملبوسات کے نئے فیشن میں جسم کے خدوخال کی نمائش کا خاص اہتمام ہوتا ہے، اور سہیلیوں کے بھائی، بلکہ اُن سے زیادہ اپنے کزن خطرناک ہوگئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ذہنوں میں پاکیزگی ہونی چاہیے، نگاہوں کو حیا آلود ہونا چاہیے، بات چیت کرنے اور ہنسنے مسکرانے کا انداز دعوتِ گناہ دینے والا نہیں ہونا چاہیے، رسمی پردہ نہیں ہے تو نہ سہی لیکن باقی حجابات قائم رہنے چاہئیں۔ اس طرح مردوں کو بھی وہ تہذیب اپنانی چاہیے جس میں نگاہ نیچی رکھنے کا حکم ہے۔
مغربی تہذیب میں یقیناً جنس کے شیطان کی تباہ کاری بہت بڑھ گئی ہے، اس پر صدر کلنٹن بھی اظہارِتشویش کرچکے ہیں۔ مغرب کے دانشور بھی اس صورتِ حال کو تہذیب کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ مگر مغرب کے پاس جنس کا شیطان نہیں علم و سائنس کی دنیا آباد ہے، روز نئی ایجادات و اختراعات ہورہی ہیں، خدمتِ خلق کے بے شمار ادارے ہیں۔ اور بھی بہت کچھ ہے۔ مگر ہمارے پاس سیاسی، معاشی سطح پر کرپشن ہے اور تہذیبی سطح پر اپنی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ۔ اس پر سب سے زیادہ تباہی شرم و حیا کی ہورہی ہے اور اس کی وجہ ناچ گانے کا کلچر ہے۔
(30جولائی تا5 اگست1999ء)