۔14 فروری 2019ء بروز جمعرات مقبوضہ کشمیر کے سب سے شورش زدہ علاقے پلوامہ میں ایک مظلوم نوجوان نے فوجی گاڑی پر سوار افسران اور جوانوں سمیت 42 بارتی فوجیوں کو جہنم واصل کر دیا۔ اس واقعے کے فورا بعد نریندر مودی جو انتخاب کے بخار میںمبتلا تھا نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اب معاملہ فوج کے سپرد ہے جسے ہہم نے پورا اختیار دے رکھا ہے کہ جس طرح چاہے پاکستان سے بدلا لے۔ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں جیسے کو تیسے (Tit for Tat) کے طرز پر فیصلہ کیا کہ پاکستان کی مسلح افواج کو اختیار ہے کہ وہ جس طرح بھارت کے ساتھ رویہ اختیار کریں۔ (پی ٹی وی 19فروری 2019ء)۔ عمران خان کے اس بیان سے پہلے ہی بھارتی میڈیا میں پاکستانکے خلاف نفرت طاعون کی طرح پھیل گئی اور فرقہ پرست مودی حکومت نے پاکستان سے کیے گئے تجارتی مراعات کے معاہدے کو فوراً منسوخ کر دیا ساتھ ہی مظفرآباد اور سرینگر کے درمیان جاری بس سروس کو منقطع کر دیا گیا حتیٰ کہ پاکستان کو ٹماٹر کی برآمد بھی بند کر دی گئی جس سے پاکستان کے کسانوں کو بڑا فائدہ ہوا کیونکہ وہ برسوں سیشاکی تھے کہ بھارت سے گلے سڑے ٹماٹر یہاں سستے داموں بکتے ہیں جب کہ ہمارے اعلیٰ درجے کے ٹماٹر پڑے رہتے ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت نے غریب کرکٹر سدھو (جو انڈیا کی کرکٹ ٹیم کا شاندار کھلاڑی تھا) کو بھی نہ بخشا اور اس کا مقبول ترین ٹی وی پروگرام بند کروا دیا۔ مودی نے پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ وہ اسے اتنا رسوا کرے گا کہ پاکستان عالمی برادری میں یکا اور تنہا (Isolate) ہو جائے گا۔ یہ دھمکی کافی مضحکہ خیز تھی کیونکہ ایسے وقت میں دی گئی کہ جب وزیراعظم پاکستان سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا کا کامیاب دورہ کر چکے تھے اور ان تمام ممالک میں ان کی بڑی پذیرائی کی گئی تھی اور اس دھمکی کے دو دن بعد ہی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان میں مہمان کی حیثیت سے رونق افروز تھے اور انہوں نے خود کو اپنے وطن سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر گردانا اور اس حیثیت سے ایک شاہی فرمان کے ذریعے سعودی عرب میں قید 2017 پاکستانیوں کی فوری رہائی کا حکم دیا اور ساتھ ہی پاکستان کا حج کا کوٹہ بڑھا کر 2 لاکھ کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ اندرون پاکستان حاجیوں کی سہولت کے لیے امیگریشن آفس قائم کرنے کا بھی حکم دیا۔ سعودی عرب نے پاکستان میں اقتصادی ترقی کے منصوبوں کے لیے پہلے مرحلے پر 20 ارب ڈالر مختص کیے ہیں جن میں گوادر میں تیل صاف کرنے والے کارخانے، پیٹرولیم مصنوعات کی تیاری، روایتی اور قابل تجدید توانائی، معیاریت اور دوطرفہ تجارت وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ معزز مہمان نے یہ وعدہ بھی کیا کہ سعودی عرب پاکستان سے 50 کروڑ ڈالر سالانہ کا گوشت، پھل اور سبزیاں درآمد کرے گا ادھر امیر قطر سے یہ معاہدہ ہوا ہے کہ وہ ایک لاکھ پاکستانیوں کو روزگار دے گا۔ جب کہ متحدہ عرب امارت کے ولی عہد بھی پاکستان تشریف لائے اور 6.2 ارب ڈالر کی امداد دی جب کہ وزیراعظم عمران خان نے قطر اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کا کردار اداکیا اور یمن کی خانہ جنگی کے آبرومندانہ خاتمے کے لیے فریقین پر زور دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے تنازعہ کشمیر کو عالمی سطح پر اس طرح اجاگر کیا کہ یورپی یونین کی ذیلی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے مسئلہ کشمیر کو اپنا خاص موضوع بنایا اور کشمیریوں پر بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تاکید کی ہے کہ وہ بے گناہ اور نہتے کشمیریوں پر بی جے پی کے ظلم و ستم کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھیں۔ اسے مبصرین پاکستان کی موجودہ حکومت کی سفارتی کامیابی اور فتح سے تعبیر کرتے ہیں۔ (اسلام 21 فروری 2019ء) یہاں سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا واقعی پاکستان …… یکا اور تنہا ہو گیا ہے؟ اس کے برعکس ہمیں تو نریندر مودی تنہا معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب شہزادہ محمد بن سلمان بھارت پہنچے تو نریندر مودی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں پلوامہ واقعے کا سرے سے ذکر ہی نہیں جبکہ سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر سے جب ایک بھارتی نے پلوامہ کے واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے تو مں اس پر کیا تبصرہ کروں۔ (پی ٹی وی، پبلک نیوز 20 فروری 2019ء)
مندرجہ بالا سطور سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت بھارت کی حکومت خود یکا اور تنہا کھڑی ہے۔ بالخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف کچھ نہ کہا بلکہ دونوں ہمسایہ ملکوں (پاکستان اور بھارت) کو مل کر چلنے کی ہدایت کی۔ (پی ٹی وی پبلک نیوز، ڈان 20 فروری 2019ء)
دنیا جانتی ہیکہ بھارتی وزیراعظم نے صرف مسلمانوں کی نسل کشی کی ہے بلکہ دلتوں کی زندگی کو بھی اجیرن بنا رہا ہے۔ مسلمانوں کو تو آئے دن گائے کشی کے ’’جرم‘‘ میں مار ڈالا جاتا ہے جبکہ دلتوں کو بھی نہیں بخشا جاتا کیونکہ وہ مری ہوئی گائے کی کھال اتارتے ہیں اور شاید گوشت بھی کھا لیتے ہیں۔ دراصل ہندوستان میں غذائی بحران ہے اور جس کو جو ملتا ہے وہ کھا لیتا ہے۔
نریندر مودی اتنا کٹر ہندو ہے کہ پہلے وہ بابائے م مہاتما گاندھی کے قاتل نتھو رام وینایک گوڈسے (Nathuram venayed Godse) کو قومی ہیرو سمجھتا ہیاور آدم خور ہندو فرقہ پرست ساورکر کو دیوتا گردانتا ہے جو ہندوتوا کا پرچارک (مبلغ) ہے۔ مودی نے 2002ء میں گجرات میں صوبائی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بڑے خونی ہندو مسلم فسادات کرائے اور ایک کانگریسی لیڈر جعفری کے ہاتھ پائوں کٹوا دیے۔ انہی انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے نریندر مودی کو عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا تھا اور کوئی مہذب ملک بالخصوص یورپ اور امریکہ اس شخص کو ویزا دینے پر تیار نہیں تھا اور یہ کلی طور پر تنہا تھا لیکن ہندومسلم فسادات کرا کر انتخاب میں کامیاب ہو گیا اور اکثریت کی حمایت سے وزارت بنا لی۔ اس کے بعد بھی اکثر ممالک مودی کو ویزا دینے میں پس و پیش کر رہے تھے لیکن بین الاقوامی سیاست کی منافقت کے باعث بالآخر اسے یورپ اور امریکہ آنے کی اجازت مل گئی اور امریکہ کے کالے صدر باراک اوباما نے اسے گلے لگا لیا اور بھرت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر خصوصی مہمان کی حیثیت سے آخر براجمان ہوا۔ ادھر میزبان نریندر مودی کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنے سر پر ایسی پگڑی باندھ رکھی تھی جس کی کلغی شاید اس کے قد سے بھی اونچی تھی اور اسے دیکھ کر اوباما اور مشیل اوباما زیرلب مسکراتے رہے اور جب مودی روسی اسلحہ کی نمائش کر رہا تھا تو باراک اوباما بے زار ہو کر چیونگم چبا رہا تھا جسے ہندوستان کے غیور شہریوں نے اپنی ہتک سمجھا لیکن نریندر مودی کسی دیسی مرغ کی طرح اتراتا رہا گویا بڑا قابلِ فخر کارنامہ انجام دے رہا ہو۔
اب نریندر مودی نے احساسِ کمتری کے باعث مسلمانوں اور دلتوں کی نسل کشی کی منصوبے پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمارا نظریہ ہندو توا ہے یعنی برصغیر ہند میں جتنی قومیں آباد ہیں وہ ہندو ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ مذہباً اور عقیدتاً بھی ہندو ہوں بلکہ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ بھارت ورش میں پیدا ہوئے (جو کہ ان کے اختیار میں نہ تھا) اس لیے ہندو قرار پائے۔ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو بخوبی معلوم ہے کہ کس طرح ہندو فرقہ پرستوں نے بابری مسجد 1992ء میں مسمار کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گرجا گھروں پر بھی حملے کیے اور انہیں تاخت و تاراج کیا۔ پادریوں اور راہبوں کو بے دردی سے قتل اور راہبائوں کی عصمت دری کی گئی۔ اگر کسی کو یقین نہ ہو تو بھارتی اخبارات کے ماضی کے صفحات کو دیکھ لے یا انسانی حقوق کی تنظیموں کی تفصیلی روداد پڑھ لے۔ لیکن واہ ری مغرب کی منافقت کو ایسے پلید اور ننگِ انسانیت درندے کو سینے سے لگا ہوئے ہیں اور اسے ایشیائی بحرالکاہل میں اپنا چوکیدار بنا رکھا ہے۔ یہ اسی کالیا امریکی صدر اوباما کا منصوبہ تھا کہ بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کر کے اسے علاقے میں مداخلت کا جواز پید اکرے۔ جیسا میں اپنے کالموں میں لکھتا رہا ہوں کہ یہ اوباما کی پالیسی تھی جو ڈونلڈ ٹرمپ کو ورثہ میں ملی۔ دراصل امریکی استعمار ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا یعنی چین اور پاکستان اور اسی لیے امریکیوں نے بھارت کو مراعات دے کر جدید ترین لڑاکا طیارے F-16 کی ٹیکنالوجی منتقل کی تا کہ بھارت اس خطے میں چین اور پاکستان کے خلاف جارحیت کر سکے۔
قصہ مختصر یہ استعمار کی پرانی گھسی پٹی چال ہے کہ لڑائو اور حکومت کرو۔ امریکہ کی پشت پناہی سے نریندر مودی کے عزائم اتنے بڑھ گئے کہ وہ خطے میں کلی طور پر بھارت کی بالادستی چاہتا ہے لیکن اس کے توسیع پسندانہ عزائم میں پاکستان اور چین حائل ہیں جنہیں وہ تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بھارت کوئی دم بھی خطے میں جنگ شروع کر سکتا ہے جس کے لیے وہ طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ اس نے کشمیری عوام کی تحریک آزادی روکنے کے لیے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر جنگ کی دھمکی دی ہے جو کہ انتہائی مخدوش ہے۔ کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی اسلحہ سے لیس ہیں اور کوئی بھی علاقائی تصادم ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ یہ ہی بات اسے سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم تباہ کن ثابت ہو گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ فریقین جنگ کا خیال دل سے نکال کر تصفیہ طلب مسائل کا مذاکرات سے حل نکالیں۔ (پی ٹی وی 20 فروری 2019ء)
ایک طرف تو نریندر مودی کی فرقہ پرست حکومت نے پاکستان کے خلاف ہذیان برپا کر رکھا ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف کی آل انڈیا نیشنل کانگریس نے مودی پر الزام لگایاہے کہ وہ پلوامہ کے واقعے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ (ڈان 22 فروری) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے انصاف پسند عناصر میں نریندر مودی کی مریضانہ ذہنیت کے خلاف شدید ردعمل ہو رہا ہے۔ جیسا کہ کشمیری برہمن نژاد اور عدالت عظمیٰ کے سابق جج جناب مارکھنڈے کاٹجو نے بی جی پ ی کی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور پاسکتان سے جنگ کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ پاکستان ایک جوہری طاقت ہے اور اس پر حملہ کرنا کوئی مذاق نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مودی سرکار کی غیریقینی اور ظالمانہ پالیسیوں نے کشمیریوں کو ہمارے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ (نیو چینل 21 فروری 2019ء)
یہی نکتہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اجاگر کیا کہ جنگ کرنا یا نہ کرنا اختیار میں ہے لیکن جب جنگ چھڑ جاتی ہے تو کسی کے اختیار میں نہیں رہتی کاش کہ جنونی مودی اس بات کو سمجھ سکے۔