اسپیکر قومی اسمبلی کا ہو یا کسی صوبائی اسمبلی کا۔ اس کا منصب بھی صدرِ مملکت، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، کسی صوبے کے گورنر اور وزیراعلیٰ کی طرح آئینی منصب ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو احتساب کے لیے گرفتار کرنے کی ضرورت پڑجائے تو مجاز اتھارٹی کو گرفتاری سے قبل قانون کی عدالت کو مطمئن کرنے کی شرط قانون میں ہونی چاہیے۔ فوجی آمر جنرل (ر) پرویزمشرف کے بنائے گئے ’نیب‘ کے قوانین میں سابقہ اور موجودہ حکومت نے کیوں کہ کوئی تبدیلی نہیں کی ہے اس لیے ’نیب‘ کے پاس کسی کو بھی محض الزامات کی بنیاد پر گرفتار کرنے کا اختیار ہے۔ اس لیے سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درّانی کی گرفتاری پر آزاد میڈیا اور غیر جانب دار حلقوں نے یہ سوال نہیں اُٹھایا ہے کہ ان کو گرفتار کیوں کیا ہے؟ بلکہ بنیادی سوال یہ اُٹھایا جارہا ہے کہ ان کو اسلام آباد سے گرفتار کرکے اس ’’تاثر‘‘ کو گہرا کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ سندھ کو ہمیشہ راولپنڈی، اسلام آباد سے عوام کے منتخب لیڈروں کی لاشیں ملتی ہیں یا گرفتاریاں۔ آغا سراج درّانی کی اسلام آباد سے گرفتاری کا فیصلہ کرنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک کیوں نہیں ہوا کہ ’’تاثر‘‘ نے ہمیشہ حقیقت پر فوقیت حاصل کی ہے۔ ان کی گرفتاری پر زیرِ بحث بات یہ نہیں ہے کہ ان کو گرفتار کیوں کیا ہے، بلکہ سوال اسلام آباد سے ان کی گرفتاری پر ہے، اور ان کے کراچی کے گھر پر خاندان کے کسی مرد کی غیر موجودگی میں چھاپہ مارنے کے انداز پر اُٹھا ہے جس سے گھر میں موجود خواتین کو ہراساں کرنے کے ’’تاثر‘‘ کو تقویت ملی ہے، جس کا فائدہ آغا سراج درّانی کو ہوگا، رُسوائی ’’نیب‘‘ کی ہوگی اور سیاسی نقصان وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو اُٹھانا پڑے گا۔ اس بات سے قطع نظر کہ آغا سراج درّانی کو آمدنی سے زائد اثاثہ جات بنانے کے جس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے وہ درست ہے یا نہیں ہے، یا اب ان کے گھر سے ملنے والی دستاویز کی بنیاد پر ’’نیب‘‘ حکام نے ان کے مبینہ طور پر فرنٹ مین یا کاروباری شراکت دار ہونے کے الزام میں معروف بزنس مین گلزار احمد کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔ ان الزامات میں کتنی صداقت ہے؟ اس کا فیصلہ تو قانون کی عدالتوں کو کرنا ہے۔ ’’نیب‘‘ آغا سراج درّانی کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس داخل کرے گا تو اندازہ ہوگا کہ ان پر بننے والے کیس قانون کی عدالت کا سامنا کرپائیں گے یا نہیں؟
البتہ جو لوگ آغا سراج درّانی یا آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی دشمنی میں یہ کہتے ہیں کہ آغا سراج درّانی کے پاس آج جو کچھ ہے وہ کرپشن سے کمایا ہوا ہے، ان کی یہ بات درست نہیں ہے۔آغا سراج درّانی پر عائد کیے جانے والے الزامات کی صداقت یا عدم صداقت پر بحث کرنے کے بجائے مناسب ہے اس خاندان کے پس منظر کے حوالے سے قارئین کی معلومات کے لیے سرسری تذکرہ کردیا جائے۔
آغا سراج درّانی کے جدِّامجد جمعہ خان بارک زئی (درّانی بارک زئی کی سب کاسٹ ہے) انگریز دَور سے پہلے تالپوروں کے دَورِ حکومت میں شکارپور میں افغانستان کے گورنر کے طور پر آئے تھے۔ یہاں یہ بتانا غیر ضروری نہیں ہوگا کہ سترہویں صدی میں شکارپور پر ’’کلہوڑہ‘‘ دَورِ حکومت میں افغانستان کا قبضہ ہوگیا تھا۔ شکارپور کو افغانستان کی ’’انیکسی‘‘ کہا جاتا تھا۔ شکارپور پر حکومت، افغان حکومت کا نامزد گورنر کرتا تھا جو افغانستان سے آتا تھا۔ افغانستان سے آکر پچاس گورنروں نے شکارپور پرحکومت کی ہے۔ جمعہ خان بارک زئی شکارپور میں افغانستان کے آخری گورنر تھے۔ شکارپور کا افغان گورنر سندھ میں افغانستان کا سفیر بھی ہوتا تھا۔ آخری افغان گورنر نے افغان بادشاہ کو تالپوروں سے مذاکرات پر آمادہ کیا، جس کے بعد باقاعدہ معاہدے کے تحت شکارپور دوبارہ سندھ کا حصہ بنا تھا۔ آخری افغان گورنر جمعہ خان بارک زئی نے مستقل طور پر شکارپور میں رہنے کا فیصلہ کیا تو تالپور حکومت نے اس کا خیرمقدم کیا اور ان کو 22 ہزار ایکڑ زمین اور دیگر بہت سی مراعات سے نوازا تھا۔ جمعہ خان بارک زئی نے شکارپور کو اپنا مستقل مسکن بنانے کے بعد بھی افغانستان آنے جانے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ تالپوروں سے کامیاب مذاکرات پر افغان حکومت نے بھی ان کی خدمات کو سراہا تھا۔ جمعہ خان کے پوتے آغا شمس الدین خان درّانی نے سندھ کی انتخابی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ وہ درّانی خاندان کے پہلے فرد تھے جو سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد ازاں ان کے دونوں بیٹے آغا بدرالدین خان درّانی اور آغا صدر الدین خان درّانی (آغا سراج درّانی کے تایا اور والد) سندھ اسمبلی کے رکن اور اسپیکر رہے۔ آغا سراج درّانی کے والد آغا صدر الدین خان درّانی اسپین میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں۔ آغا بدرالدین خان درّانی کا شمار حصولِ پاکستان کی تاریخ ساز جدوجہد میں شامل نمایاں رہنمائوں میں تھا۔ وہ اُن چار ارکانِ سندھ اسمبلی میں سے ایک تھے جنہوں نے مارچ 1943 میں سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں پاس کرائی جانے والی قرارداد پر اپنے خون سے دستخط کیے تھے۔ آغا بدرالدین 1949ء سے 1951ء تک سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہے۔ جب کہ آغا صدر الدین درانی 1972ء میں ڈپٹی اسپیکر اور 1977ء میں اسپیکر رہے۔ آغا بدرالدین ضلع کونسل سکھر کے بھی منتخب چیئرمین رہے (اُس زمانے میں شکارپور سکھر کی تحصیل تھی)۔ آغا سراج درّانی کے بزرگ جس میں ان کے دادا، تایا اور والد شامل ہیں، سندھ کے نیک نام، دیانت دار سیاست دان ہی نہیں تھے بلکہ علم کے فروغ کے حوالے سے بھی ان کی خدمات کا ریکارڈ تاریخ ساز ہے۔ شکارپور کو دوبارہ سندھ کا حصہ بنانے کا سہرا تو ان کے جدِّامجد جمعہ خان بارک زئی کے سر پر ہی ہے۔ سندھ کو ’’بمبئی‘‘ سے الگ کراکے 1936ء میں دوبارہ الگ صوبے کی حیثیت دلانے میں اس خاندان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ آغا بدرالدین خان درّانی نے گڑھی یاسین میں واقع اپنی حویلی میں جو شاندار لائبریری قائم کی تھی اُس سے استفادہ کے لیے یورپ تک سے اسکالرز آیا کرتے تھے۔ حویلی کے اندر لائبریری کے احاطے میں اسکالرز کی رہائش کے لیے شاندار اسکالر لاج تعمیر کرایا تھا جس میں پھل دار درختوں کے جھرمٹ میں سوئمنگ پول بھی بنایا گیا تھا جس کے چاروں طرف خوب صورت لان تھا جہاں ہر وقت موسم کے پھولوں سے فضا معطر رہتی تھی۔ آغا بدرالدین خان درّانی نے انجینئرنگ کی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور قانون کی بھی۔ ان کے زرخیز ذہن نے حویلی کے اندر باقاعدہ ریل گاڑی (ٹرین) چلانے کا نظام قائم کیا تھا جس کے ذریعے وہ اپنے مہمانوں کو اپنی حویلی کی سیر کرایا کرتے تھے۔ آغا بدرالدین درّانی (مرحوم) صاحبِ قلم سیاست دان تھے، جنہوں نے اپنے قلم سے اپنا طویل سفرنامہ ’’سفرِحجاز‘‘ کے نام سے لکھا اور طبع کرایا تھا، اور اس کے علاوہ اپنے خرچ سے سندھ کی تاریخی کہانیاں اُردو زبان میں شائع کرائی تھیں۔ اب انہیں دوبارہ نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ آغا بدرالدین کی لائبریری کو تاریخی کتب خانوں میں اس اعتبار سے منفرد حیثیت حاصل ہے کہ اس لائبریری میں برصغیر کی قلمی اور عکسی تصاویر کا سب سے بڑا کلیکشن موجود ہے۔ آغا بدرالدین نے اپنی حویلی میں سالانہ مشاعرہ کرانے کی روایت بھی قائم کی تھی جہاں مشاعرہ پڑھنے بڑے بڑے شاعر آیا کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی ان کی زندگی میں مشاعرے کی روایت برقرار رہی۔ فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، منیر نیازی، تابش دہلوی، ماہرالقادری تو ایک سے زائد بار یہاں مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ کاش! آغا سراج درّانی بھی اپنے بلند قامت بزرگوں کی ان روایات کے امین کے طور پر جانے پہچانے جاتے۔ آغا سراج درّانی نے تو لائبریری میں عام آدمی کا داخلہ ہی بند کردیا ہے۔ اب لائبریری کا دیدار وی آئی پیز کو ہی کرایا جاتا ہے۔ آغا سراج درّانی کے بزرگوں نے اپنی جیب سے تعلیمی ادارے قائم کیے تھے۔ آغا بدرالدین خان درّانی (مرحوم) نے ضلع کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے سکھر شہر میں پہلا گرلز کالج قائم کیا تھا جہاں آج ہزاروں طالبات تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ اس کالج میں ماسٹرز تک کی ڈگری کی کلاسیں ہوتی ہیں۔ آغا بدرالدین خان درّانی (مرحوم) نے اپنی بستی گڑھی یاسین میں تعلیمی ادارے بھی قائم کیے۔ غریب اور وسائل سے محروم طبقات کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں بھی بھرپور تعاون کیا، جس کی ایک نمایاں مثال ملک کے ممتاز دانشور اور قانون دان اے کے بروہی (مرحوم) اور ان کے چھوٹے بھائی علی احمد بروہی (مرحوم) کی ہے۔ شکارپور ہمیشہ سے قومی اور سندھ کی سیاست میں اہم رہا ہے۔ شکارپور تقسیم ہند سے قبل بھی قومی سیاست کا مرکز رہا ہے جہاں آل انڈیا مسلم لیگ اور نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم پر قومی سطح کے قدآور سیاست دان سرگرم عمل رہے ہیں۔ سومرو خاندان نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کی تھی۔ افغانستان حکومت کے دو افغان گورنروں کی اولادوں نے جن کے بزرگوں نے شکارپور کو اپنا مستقل مسکن بنایا تھا، آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کی تھی۔ حصولِ پاکستان کی تاریخ ساز جدوجہد میں جن کا کردار اہم رہا ہے اُن میں گڑھی یاسین کے آغا بدرالدین خان درّانی (مرحوم) اور سلطان کوٹ کے آغا غلام نبی پٹھان (مرحوم) شامل تھے، جن کا تعلق بابر قبیلے سے تھا۔ شکارپور کی سیاسی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ تقسیم ہند سے قبل کانگریس کے رہنما سابق بھارتی وزیراعظم آنجہانی جواہرلال نہرو بھی یہاں آئے تھے، اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر قائداعظمؒ اور سیکریٹری جنرل (شہید ملت) خان لیاقت علی خان بھی آئے تھے۔ قائداعظم کے حکم پر آغا غلام نبی پٹھان علی گڑھ سے جہاں وہ زیرِ تعلیم تھے، مسلم لیگ کی انتخابی مہم چلانے واپس آگئے تھے۔ قائداعظم آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے ساتھ آغا غلام نبی پٹھان کی شادی میں شرکت کے لیے شکارپور آئے تھے۔ آغا غلام نبی پٹھان (مرحوم) نے اپنی شادی پر تحفہ میں ملنے والی ساری رقم قائداعظم کو مسلم لیگ کی انتخابی مہم کے لیے پیش کردی تھی۔
تحریکِ پاکستان کے حوالے سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سلطان کوٹ کی آغا غلام نبی پٹھان کی فیملی اور گڑھی یاسین کی آغا بدرالدین درّانی کی فیملی نے اپنے قبائلی تنازعات اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر پاکستان کے حصول کی جدوجہد یک جان دو قالب کے مصداق چلائی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد کی مقامی سیاست میں دوبارہ ان دونوں خاندانوں کا اتحاد 1970ء کے عام انتخاب کے بعد اُس وقت عمل میں آیا جب آغا سراج درّانی کے والد آغا صدر الدین درّانی (مرحوم) آزاد حیثیت میں الیکشن جیتنے کے بعد سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کی دعوت پر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آغا بدرالدین درانی (مرحوم) کا مقامی سیاست میں اتحاد سومرو فیملی کے ساتھ رہا۔ آغا بدرالدین درّانی (مرحوم) نے حاجی مولا بخش سومرو (مرحوم) کو مسلم لیگ میں شامل کرایا تھا۔ 1970ء کے عام انتخابات سے ذرا قبل آغا غلام نبی پٹھان نے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو خیرباد کہہ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی، جب کہ آغا بدرالدین (مرحوم) کے بھائی آغا صدر الدین (مرحوم) نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے بجائے ’’درّانی سومرو اتحاد‘‘ کے پلیٹ فارم سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ 1970ء کے انتخابات میں شکارپور سے پیپلز پارٹی قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہیں کرپائی تھی۔ آغا غلام نبی پٹھان کے جدِّ امجد آغا سلطان خان بابر، احمد شاہ ابدالی کے دَور میں افغان حکومت کے گورنر کے طور پر شکارپور آئے تھے۔ سلطان خان بابر نے شکاپور، جیک آباد روڈ پر سلطان کوٹ کے نام سے بستی بسائی تھی، جب کہ درّانی فیملی کا گائوں گڑھی یاسین کی بستی سلطان خان بابر کے بھائی یاسین خان بابر نے بسائی تھی۔
شکارپور کے تینوں بڑے سیاسی گھرانوں کے تعاون کی وجہ سے شکارپور میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی، بلکہ انہوں نے تو کوشش کرکے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجارت سے وابستہ شخصیات کو شکارپور آکر آباد ہونے پر آمادہ کیا تھا۔ اگر آغا سراج درّانی پر لگنے والے الزامات فری اینڈ فیئر ٹرائل کے بعد قانون کی عدالتوں میں ’’نیب‘‘ ثابت کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو اس پر سب سے زیادہ دُکھ اور ندامت آغا سراج درّانی کو ہونی چاہیے کہ اُن کے بزرگ کن اعلیٰ روایات کے امین تھے اور ان پر کیا الزام ثابت ہوا ہے۔