بھارت کا ہدف کیا ہے؟ اقوام متحدہ کا امتحان

بھارت نے پاکستان پر باقاعدہ حملہ کیا ہے، اُس کے جہاز ہماری سرحد کے اندر گھس آئے اور چالیس کلومیٹر کے علاقے میں رہے۔ اس واقعہ کو سرحدی خلاف ورزی قرار دینا بھارت کو رعایت دینے کے مترادف ہوگا۔ یہ باقاعدہ اعلانِ جنگ ہے اور اس خطے کی دو ارب آبادی کو ایٹمی جنگ کا ایندھن بنانے کی منصوبہ بندی ہے۔
بھارتی فضائی حملے کی ٹائمنگ بہت اہمیت کی حامل ہے، یہ حملہ عین اُس وقت کیا گیا جب امریکی محکمہ خارجہ نے پلوامہ کے واقعے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا، اور تین روز بعد او آئی سی کی کانفرنس تھی جس میں بھارت بھی مدعو تھا۔ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن جماعتیں بھارتی دراندازی کے واقعے پر پوری طرح یکسو تھیں۔ سینیٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کی شرکت کو کسی بھی قیمت پر تسلیم نہ کیا جائے۔ سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف راجا ظفرالحق، سینیٹر میاں رضا ربانی، عبدالغفور حیدری، سراج الحق، فیصل جاوید، میاں عتیق شیخ، مشتاق احمد اور اشوک کمار نے اظہارِ خیال کیا اور مطالبہ کیا کہ اگر او آئی سی بھارت کا دعوت نامہ منسوخ نہ کرے تو پاکستان اجلاس کا بائیکاٹ کرے۔
فضائی حملے کے بعد بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا ، پاکستان نے بھارت کو احتجاجی مراسلہ دیا ہے اور جواب مانگا ہے کہ بھارت کے جہاز 40کلومیٹر اندر کیوں آئے تھے؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین، سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کو بھارتی طیاروں کی سرحدی خلاف ورزی پر صورت حال سے آگاہ کیا۔ بھارت کے سرپرست ملک امریکہ کے وزیر خارجہ کو بھی صورتِ حال سے آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے امارات اور سعودی عرب کے ولی عہد کو ٹیلی فون کرکے تشویش سے آگاہ کیا کہ بھارت او آئی سی کا رکن نہیں ہے، او آئی سی میں اسے کیوں بلایا گیا؟ سفارت کاری کے اس محاذ کے ذریعے اقوام عالم کو یہ بات باور کرا دینی چاہیے کہ ہندو ذہنیت کا اب وتیرہ بن چکا ہے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہو تو پاکستان کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا جائے۔ لائن آف کنٹرول کی حالیہ خلاف ورزی بھی یہی ہدف سامنے رکھ کر کی گئی، جس میں بھارتی جنگی طیارے آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہوئے اور گھیرے میں آجانے پر واپس بھاگ گئے، جاتے جاتے اضافی لوڈ بالاکوٹ کے علاقے میں پھینک گئے۔ حکومت نے اس واقعے کا جواب دینے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پوری اپوزیشن متحد دکھائی دی۔ وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں واقعے کی لمحے لمحے کی مکمل بریفنگ دی گئی کہ زمینی اور فضائی سرحدی نگرانی کا مضبوط میکنزم موجود ہے۔ تمام تر مشاورت کے بعد پاکستان نے خاموش رہنے کے بجائے جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اس واقعے کی تفصیلات میڈیا کو بتائی ہیں کہ بھارتی ایئرفورس کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی گئی ہے، پاک فضائیہ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنے جیٹ طیاروں کی فوری اور بروقت پروازیں کیں جس کے بعد بھارتی طیارے واپس بھاگ گئے۔
بھارتی طیاروں کی سرحدی خلاف ورزی اس بات کا کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ بھارت کے عزائم ٹھیک نہیں لگ رہے۔ پاکستان اچھی طرح سمجھتا ہے کہ یہ حرکت صرف بھارتی عوام کے سامنے چھاتی چوڑی کرنے کے لیے تھی۔ بھارت جنگی جنون کو انتخابی مہم کے طور پر استعمال کررہا ہے اور پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے اختیار کیے گئے حربوں میں ایک حربہ یہ بھی ہے۔ اس واقعہ کا پس منظر اور ٹائمنگ بہت اہم ہے کہ بھارت میں انتخابی ماحول ہے اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلسل ہزیمت اٹھا رہا ہے، طالبان امریکہ مذاکرات ہورہے ہیں، سعودی ولی عہد پاکستان کا تازہ تازہ دورہ کرکے واپس گئے ہیں، او آئی سی اجلاس جمعہ کو ہورہا ہے، وہاں بھارتی وزیر خارجہ کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا ہے۔ بھارت کو مسلم دنیا میں پاکستان کے اثر رسوخ اور مسلم دنیا کے ردعمل کو جاننا مقصود ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ پاکستان سمجھتا ہے کہ بھارتی جارحیت صرف پاکستان ہی نہیں او آئی سی کا بھی امتحان ہے۔ یہ جارحیت اور دبائو بلاسبب نہیں، بھارت اپنے سرپرست کے ساتھ مل کرکوئی بڑا امتحان لے رہا ہے۔ امریکہ اور بھارت دونوں چاہتے ہیں کہ پاکستان پر دبائو بڑھایا جائے۔ پلوامہ کے بعد اب بھارتی طیاروں کا لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے کا واقعہ پلانB ہے جس کا مقصد پاکستان کو دبائو میں لانا ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد امریکہ نے ادائیگی کا وعدہ کرنے کے باوجود پاکستان کے لیے ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی جنگی اخراجات کی ادائیگی روک دی ہے، یہ وہ رقم ہے جو نائن الیون کے بعد کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر پاکستان کو دی جارہی تھی، جس کی قسطیں ایک عرصہ ہوا امریکہ نے روک رکھی ہیں، یہ فیصلہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے بھارت کو یقین دلایا کہ امریکہ ان کے احساسات کو سمجھتا ہے۔ امریکہ سے دوستی اور سفارتی تعلقات کی اصل حقیقت کی اگر کسی کو سمجھ ہے تو وہ ملک کے عوام ہیں، اور ان کی اکثریت امریکہ سے تعلقات کی کبھی حامی نہیں رہی۔ حکمران اور اسٹیبلشمنٹ ہر بار ڈنک کھانے کے بعد عطار کے اسی لونڈے سے دوا لینے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ پلوامہ حملہ عیاری کے ساتھ کی گئی منصوبہ بندی ہے جسے گرے لسٹ کے ساتھ جوڑ کر امریکہ، بھارت مکروہ اتحاد اس خطے میں پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، اسی لیے امریکہ نے ابھی تک اس واقعے پر ردعمل نہیں دیا، لیکن اس کی بنیاد پر وہ پاکستان کی کولیشن سپورٹ فنڈز کی رقم روک چکا ہے۔ گرے لسٹ پر کام کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے جاری بیان بہت اہم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان نے دہشت گردی کی فنڈنگ روکنے میں کچھ بہتری دکھائی ہے لیکن گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے پاکستان کے پاس مئی 2019ء تک کا وقت ہے۔‘‘ ایف اے ٹی ایف نے گزشتہ برس پاکستان کو منی لانڈرنگ، دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کی مالی وسائل تک رسائی روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔ تاہم رواں سال مئی میں یہ گروپ اہم فیصلے کرنے جارہا ہے۔ بھارت پلوامہ کا واقعہ اسی پس منظر میں اپنے مفاد کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔
اس کا درست ادراک کرنے کے لیے ان بھارتی دانشوروں کے بیانات پر بھی غور کرلینا چاہیے جو کھل کر کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی الیکشن جیتنے کے لیے یہ ڈراما کررہے ہیں کیونکہ انہوں نے محسوس کرلیا تھا کہ ان کی انتخابی مہم نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہی، بلکہ حالیہ ریاستی انتخابات کا نتیجہ بھی ان کے سامنے ہے، اس لیے انہوں نے الیکشن جیتنے کے لیے ڈراما کیا۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی اس تجزیے سے اتفاق کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ مودی کی جماعت بی جے پی انتخابات جیتنے کے لیے کشمیر کارڈ استعمال کررہی ہے تاکہ واشنگٹن اور دہلی اسلام آباد پر اپنے احکامات منوانے کے لیے دبائو بڑھا سکے جبکہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت امن چاہتی ہے۔
لیکن بھارتی انتہا پسند ہوش کے ناخن لینے پر آمادہ نہیں، وزیراعظم عمران خان کی پلوامہ حملے کی تحقیقات کی پیشکش کی ہے لیکن اسے مسترد کردیا گیا۔ بھارت کی جانب سے اسی طرح کے ردعمل کی توقع تھی۔ اُسے ہر واقعے میں دہشت گرد نظر آتا ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی سفاکی اور مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندوں کے بلووں سے چشم پوشی کیے ہوئے ہے۔ راجستھان کے شہر بیکانیر میں مقیم پاکستانیوں کی بھی کم بختی آگئی جہاں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے انہیں 48 گھنٹے کے اندر اندر بھارت چھوڑنے کا حکم دیا اور مقامی انتظامیہ کو یہ ہدایت کی گئی کہ کسی ہوٹل اور لاجز میں پاکستانی شہریوں کو نہ ٹھیرایا جائے اور بیکانیر کے شہری کسی پاکستانی کو ملازم نہ رکھیں۔ اٹل حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا، سبق سکھانے کی دھمکیاں دینا اس کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے، آبی دہشت گردی کی منصوبہ بندی بھی اسی کا حصہ ہے، اور اسی لیے وہ جنگی ماحول بھی بنا رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ عالمی قیادتوں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کے جنگی جنونی ہاتھ روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ تاہم متعصب عالمی قیادتیں اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال کر اُس کے جنگی جنون کو ہلہ شیری دیتی نظر آتی ہیں۔
اقوام متحدہ کو خود آگے بڑھ کر پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے میں کردار ادا کرنا چاہیے، مگر یواین سیکریٹری جنرل اس کے لیے محض اپنی معصوم خواہش کا اظہار کرتے ہی نظر آتے ہیں، جبکہ امریکہ دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھانے پر تلا بیٹھا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان سے ہی تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ پلوامہ واقعے کے ذمہ داروں کو سزا دے۔ اس صورت حال میں پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے کے سوا اور کیا آپشن رہ جاتا ہے! بھارتی جنونیت کے باوجود پاکستان بہرصورت امن کی خاطر بھارت سے کسی بھی سطح کے مذاکرات کے لیے تیار ہے، مگر تالی ایک ہاتھ سے تو نہیں بجا کرتی۔

’’پے لوڈ‘‘ کیا ہوتا ہے؟

پے لوڈ طیارے کے پروں کے عین نیچے ہوتا ہے جس میں حملہ کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھیار ہوتے ہیں، جنہیں ہوائی حملے کے ٹارگٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاز کے نچلے حصے میں نصب کیا جاتا ہے۔ عام طور پے لوڈ میں جو ہتھیار لگائے جاتے ہیں اُن میں مختلف اقسام کے بم اور میزائل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جہاز کے نیچے اضافی ایندھن کی ٹنکیاں ہوتی ہیں جنہیں فیول ٹینک اور ڈراپ ٹینک کہا جاتا ہے۔ پے لوڈ کا وزن جہاز کی ساخت کے اعتبار سے مختلف ہوسکتا ہے، لیکن اوسطاً ایک جنگی طیارہ 8 سے 15 ٹن تک پے لوڈ لے جا سکتا ہے۔ پے لوڈ میں جو میزائل نصب کیے جاتے ہیں اُن میں روایتی میزائلوں کے علاوہ جوہری میزائل بھی ہوسکتے ہیں۔

پے لوڈ کو کیوں پھینک دیا جاتا ہے؟

کسی فضائی کارروائی کے دوران پے لوڈ میں شامل جو اضافی ہتھیار ہوتے ہیں، ان کو پھینک دیا جاتا ہے تاکہ طیارے کا وزن کم ہوسکے اور وہ کارروائی کے بعد تیزی سے واپس جا سکے۔

ضلع مانسہرہ، جابہ

خیبرپختون خوا کے ضلع مانسہرہ کے علاقے جابہ میں بھارتی طیاروں نے پے لوڈ گرایا۔ مانسہرہ سے شنکیاری، بٹ گرام اور داسو کی جانب یہ علاقہ ہے۔ بالاکوٹ اور پھر آگے ناران، کاغان تک بھی راستہ نکلتا ہے۔ اسی سڑک پر بالاکوٹ سے 20 کلومیٹر پہلے جابہ نام کا قصبہ آتا ہے۔ یہ قصبہ نیا بالاکوٹ کے قریب واقع ہے۔ جابہ سے اوپر ایک پہاڑی چوٹی جابہ ہل ٹاپ کہلاتی ہے۔ اس چوٹی کے قریب جابہ سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر آخری گائوں کنگڑ ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں دو ڈھائی عشرے قبل سربیا کے ہاتھوں قتل و غارت کا نشانہ بننے والے بوسینیا کے مہاجرین خاندانوں کے لیے کیمپ بنایا گیا تھا۔ منگل کو فجر کی نماز سے قبل دو بج کر پچپن منٹ پر بھارتی طیارے آئے اور دو بج کر اٹھاون منٹ پر واپس نکل گئے۔ ایف سولہ طیارے اُڑے اور جوابی کارروائی کرکے بھگا دیا۔ جاتے جاتے بھارتی طیاروں نے جابہ ہل ٹاپ پر پے لوڈ گرایا جس سے جنگل میں چیڑ کے درخت ٹوٹ گئے۔ گزشتہ ہفتے سرحد کے نزدیک ایئرفورس ایئر پیٹرولنگ میں رہی، سیالکوٹ اور لاہور کے علاقے میں بھارت کی نقل و حرکت نظر آئی۔ پاک فضائیہ کی ایئرکیپ ٹیم نے موقع پر ان کو چیلنج کیا لیکن بھارتی طیاروں نے سرحد پار نہیں کی، وہ اپنی سرحد کے اندر رہے۔ دوسری کیپ ٹیم بھی فضا میں تھی۔ اوکاڑہ، بہاولپور سیکٹر پر بھی بھارتی فارمیشن کو ریڈار پر دیکھا گیا۔ پاک فضائیہ کی دوسری کیپ ٹیم نے اسے روکا۔ ریڈار پر مظفرآباد سے اوپر وادی نیلم میںکیرن سیکٹر کی طرف سے حرکت نظر آئی۔ پاک فضائیہ کی تیسری کیپ ٹیم نے اسے روکا تو انہوں نے لائن آف کنٹرول کو کراس کیا اور 4 منٹ لائن آف کنٹرول کی طرف آتے ہوئے جان بچاکر واپس چلے گئے۔ بھارتی زیادہ تر لائن آف کنٹرول کی سول آبادی کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس کی فارمیشن 4 سے 5 ناٹیکل میل اندر آئی، لیکن بھرپور جواب سے واپس بھاگنے پر مجبور کردیا گیا۔